ترقی کے لیے اردو کو تعلیمی زبان بنانا ہوگا ڈاکٹر پیر زادہ

غالب عرفان کو کسی تحسین کی ضرورت نہیں،شعری مجموعے’’ روشنی اور پرچھائیاں‘‘ کی تقریب

غالب عرفان کو کسی تحسین کی ضرورت نہیں،شعری مجموعے’’ روشنی اور پرچھائیاں‘‘ کی تقریب۔فوٹو:فائل

غالب عرفان کو کسی تحسین و ستائش کی ضرورت نہیں، یہ ضرورت تو ہماری ہے کہ ہم اپنے عہد کے بڑے شاعر اور روشن تخلیق کار کی پذیرائی کرکے اپنی زندہ تہذیب ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔

غالب عرفان کو تو شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر وزیر آغا انور سدید اور ڈاکٹر منظور احمد جیسے صاحبان علم و فن پہلے ہی حروف تحسین و کمال عطا فرماچکے ہیں، آج کی یہ شام اردو تو فقط اس کی توثیق ہے ان گراں قدر خیالات کا اظہار تحریک نفاذاردو کی 105 ویں شام اردو میں صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی نے کہا کہ جب تک سرکاری زبان اردو نہیں ہوگی اور لازمی تعلیمی نظام اردو نہیں ہوگا تو اس وقت تک ملک حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔




غالب عرفان کے چوتھے شعری مجموعے''روشنی اور پرچھائیاں'' کی پذیرائی کے اس موقع پر ممتاز و معروف ارباب علم و دانش ڈاکٹر جمال نقوی، احمد صغیر صدیقی اور محترمہ نسیم انجم نے غالب عرفان کے فن و شخصیت پر مقالات پیش کیے، میر واصف علی، سعید الحسن اور نجیب عمر نے مختصر اظہار خیال کیا، جبکہ تشنہ بریلوی اور شمس تسلیم نے غالب عرفان کے لیے منظوم لہجہ اختیار کیا،ڈاکٹر سید مبین اختر نے کہا کہ 1973ء کے آئین کے مطابق اردو تاحال اپنے سرکاری اعزازاور استحقاق سے محروم ہے، مہمان اعزازی غالب عرفان نے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے فکر و فن پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا دیگر مقررین اور تحریک نفاذ اردو کا شکریہ ادا کیا اور تادیر اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
Load Next Story