منشیات کے نشے سے دولت کے خمار تک

کاروبار جاری ہے، لاکھوں افراد اس کا شکار ہیں جن میں نوجوان بوڑھے سبھی عمرکے افراد ہیں۔

لاہور:
دھوئیں سے بھرا ماحول ، آرکسٹرا پر بجتی تیز دھن اپنی ذات میں مدہوش اور دنیا و مافیہا سے بیگانے ڈائس پر تھرکتے جسم نشہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے یہ سین ہم اکثر ڈراموں اور فلموں میں دیکھتے آئے ہیں۔ بے فکرے اس لیے کہ یہ بے چارے خود اپنی پروا سے عاری ہوتے ہیں۔

بقول فیودردوستوفسکی کہ سب سے زیادہ خوش وہی ہے جو سب سے زیادہ خود کو فریب دیتا ہے۔ ان بے فکرے نوجوانوں کو دولت کی فراوانی اسے خرچ کرنے کے طریقہ کار ڈرگز سے بڑھ کر نظر نہیں آتا۔ والدین کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں جو سر اٹھانے کی فرصت نہیں دیتی ایک طرف سماج کا یہ چہرہ ہے تو دوسری جانب کا منظرنامہ یہ ہے کہ جہاں غربت پر پھیلائے بیٹھی ہے۔ بیروزگاری، بیماری اور بھوک و افلاس جیسے عفریت سے بچنے کا اس سے بہتر بھلا اورکیا راستہ ہو سکتا ہے۔ مدہوشی ہر غم سے آزادی دلا دیتی ہے ، ستا ہی سہی جان لیوا ہی سہی بقول شاعر کہ:

میں بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

کوئی پچھتاوا کوئی افسوس نہیں ایک آسودگی کی کیفیت دنیا و مافیہا سے آزاد موت کی جانب بڑھتے قدم! کیا کوئی روک سکتا ہے؟ انھیں کب تک پہرے میں بٹھایا جا سکتا ہے کہ نشہ بیچنے والوں کے ہاتھ لمبے بھی ہیں اور طاقتور بھی ان کی رسائی اوپر سے لے کر نیچے تک ہر سسٹم میں موجود ہے کہیں بڑے پرائیویٹ ادارے تو کسی پل کے نیچے، کسی نالے کے قریب یا کسی بستی کی تنگ و تاریک گلیوں میں سب ہی ان کی نظروں میں ہیں۔ چھوٹے گاہکوں سے بڑے کسٹمر تک پر نظر کرم رکھتے ہیں جب ڈوبنے والے کو اپنی تباہی کا ملال نہیں تو کوئی کہاں تک انھیں بچا سکتا ہے چھپا سکتا ہے۔

کہتے ہیں برصغیر میں ڈرگز کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا جب انگریز آئے تو اتر پردیش کے علاقے غازی پور میں افیم کی کاشت کی جانے لگی اور اسے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا جس سے حکومت برطانیہ کو بہت آمدنی ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ مقامی لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کیا اور اس کے عادی افراد اس نشے میں مبتلا ہو گئے۔ افسوس کہ افغانستان کی جنگ کے بعد پاکستان میں کلاشنکوف کے ساتھ منشیات کے کاروبار نے اپنے پنجے یہاں بھی جما لیے۔ مفاد پرستوں کو راتوں رات امیر بننے کا اس سے اچھا ذریعہ نظر نہیں آیا نت نئے کیمیکل تجربات کے ساتھ منشیات کی فروخت سے تجوریوں کے منہ بھرنے لگے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کسی کی پوری زندگی اس کا خاندان کن بحرانوں کا شکار ہو گا۔


کاروبار جاری ہے، لاکھوں افراد اس کا شکار ہیں جن میں نوجوان بوڑھے سبھی عمرکے افراد ہیں۔ موت سے بدتر حالت تک پہنچانے والے ان منشیات میں آئس کا نشہ ایک خطرناک نشہ ہے، جس میں مبتلا ہو کر انسان چار سے پانچ سال میں ذہنی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔ ہیروئن کو سب سے زیادہ خطرناک ڈرگ سمجھا جاتا ہے جو عارضی طور پر دماغ کی صلاحیتوں کو دو سو فیصد تک بڑھا کر دماغ کے قدرتی سسٹم میں مداخلت کر کے نقصان پہنچاتی ہے کوکین یہ دماغ میں موجود پیغام پہنچانے والے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔

اسی طرح حال ہی میں ہم نے ایفیڈرین کا نام خبروں میں بہت سنا جس کی زیادہ مقدار کے کوٹے کے حوالے سے خبریں گرم رہیں۔ ایفیڈرین کہنے کو ایک نشہ آور کیمیکل ہے جسے کھانسی کے شربت میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر اسے ہیروئن کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کے اثرات میں دس گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایفیڈرین سے ایسی ٹیبلٹ بنائی جاتی ہیں جنھیں نوجوان لڑکے لڑکیاں پارٹیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ گولیاں موڈ خوشگوار بناتی ہیں جس طرح دیگر نشے میں انسان ایک خوشی و سرمستی کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے اسی طرح ایفیڈرین استعمال کرنے والے بھی ایک سرمستی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ یہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر گھنٹوں پارٹی کی رونق بنے رہتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کا انسان عادی ہو جائے تو انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے پھر یہ پیچھا نہیں چھوڑتا اسی لیے اس کے استعمال اور فروخت پر پوری دنیا میں پابندی عائد ہے اور فارما سوٹیکل کمپنیوں کو بھی پانچ سو گرام سے زیادہ کا کوٹہ نہیں دیا جاتا جس کے لیے وزارت صحت سے اجازت درکار ہوتی ہے۔

دنیا میں سب سے بڑی منڈی منشیات کے حوالے سے مغربی ممالک ہیں جہاں پر نوجوان مستحکم خاندانی نظام نہ ہونے کی وجہ سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ نشے کا سہارا لے کر اپنی زندگی تباہ کر لیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بحیثیت مسلمان ایک اسلامی مضبوط خاندانی و سماجی نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود نشہ کا رجحان بڑھ رہا ہے کہیں اسکولوں کالجوں میں اس کی فروخت کی اطلاعات آتی ہیں تو کہیں دوستوں کی سنگت میں از راہے شوق لیا جاتا ہے۔

فروخت کرنے والے شروع میں مفت دیتے ہیں اور بعد میں حاصل کرنے کے لیے متاثرہ فرد ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتا ہے حتیٰ کہ اپنی جان تک گنوانی پڑ جاتی ہے۔ کچھ خوش قسمت بچ بھی جاتے ہیں تو یہ ان کی وِل پاور کا امتحان ہوتا ہے انھیں اچھے سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج بہت مہنگا ہے ، گورنمنٹ اداروں میں علاج کے ساتھ گھر والوں کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان سے نرمی و محبت کا برتاؤ رکھیں نشہ لگنا آسان ہے مگر بعد میں یہ ناسور بن جاتا ہے جس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ مریض دوبارہ شکار بن سکتا ہے لہٰذا اسے کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوست و احباب کے ایک امتحان کی گھڑی ہے میں نے آٹھ سال کی عمر میں نشہ سے متاثر کسی انسان کو دیکھا جو ہمارے اسکول میں کام کرنے والی ماسی کا اکلوتا بیٹا تھا وہ پہلے اسکول سے باہر چیزیں اور پینسل کاپی وغیرہ فروخت کرنے کا ٹھیلا لگاتا تھا پھر کچھ عرصے بعد وہ ٹھیلے کے ساتھ خود بھی غائب رہا اور ایک دن میں نے اسے ہوش و ہواس سے بے گانہ میلے کچیلے مفلوک الحال حلیے میں ماسی سے چپل کھاتے دیکھا جو روڈ پر ہجوم کے درمیان اسے مارتے ہوئے رو رہی تھی۔ اکلوتی جوان اولاد کو پیٹتے کوستے ہوئے اس کے لرزتے ہاتھ اور وہ بے بسی کبھی بھلائی نہیں جا سکتی، محض دنیاوی فائدے کی خاطر کسی کی زندگی کو تباہ کرنے والے کیسے سکون سے رہتے ہوں گے یہ سمجھ سے بالاتر ہے شاید دولت کا خمار تمام نشوں سے بالاتر ہے۔
Load Next Story