سراج الحق میمن ناول نگار مترجم اور صحافی
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شاعری میں دیے گئے پیغامات کو بہت پسند کرتے تھے۔
سماجی گھٹن دورکرنے کے لیے اہل علم وادب کی تحریریں ہمیں مسائل سے نبرد آزما ہونے کا قرینہ سکھاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک علمی وادبی شخصیت سراج الحق میمن کی بھی ہے۔ انھوں نے علم کی روشنی پھیلانے کے لیے 25 لاکھ روپے کی ذاتی رقم سے ایک ایجوکیشن ٹرسٹ قائم کرکے طلباء کے لیے اسکالرشپ دینے کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔
ان کی خواہش تھی کہ اس ٹرسٹ کو یونیورسٹی کی سطح تک لے جائیں اور یہ تعلیمی نیٹ ورک سندھ کے دور دارزگوٹھوں تک پھیلا ہوا ہو، تاکہ تعلیم کو فروغ حاصل ہو۔ انھیں مسلسل کام کرتے دیکھ کر لوگوں کو ان پر رشک آتا تھا، وہ جو علمی اور ادبی کام اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں وہ ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
سراج نے سندھی ادب وثقافت کو انگریزی زبان میں ڈھالا ہے، ان کی تحریروں میں سندھ کا کلچر نظر آتا ہے۔ ان کے قلم نے اپنی زبان، لوگوں اور لوک ادب کو بڑی اہمیت دی ہے۔ وہ ہمیشہ والدین کو پیغام دیتے تھے کہ اپنے بچوں کوکتابیں پڑھنے پر آمادہ کریں اور کتابوں کا تحفہ ان کی خوشیوں کے موقع پر دیں جو ان کے لیے زندگی کا اہم تحفہ ثابت ہوگا۔ سراج ماہر تعلیم اور شاعر بھی تھے، ان کی ہر تحریر میں تعلیم کے فروغ اور اس کے معیارکا پیغام جھلکتا تھا۔
سراج الحق میمن 24 اکتوبر 1933 کو ٹنڈوجام میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق علمی وادبی گھرانے سے تھا۔ ملازمت کی ابتدا 1953 میں سندھی ادبی بورڈ سے کی، جہاں پر وہ 1955 میں اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1957 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو انھیں انکم ٹیکس کا گروپ ملا جہاں پر بطور افسر کام کرتے رہے لیکن 1969 میں انھیں جبری طور پر ریٹائر کردیا کیا گیا۔
ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے قوم پرست اور ترقی پسند ادبی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور قوم پرستی پر بھی تقریریں کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ وہ ماضی میں نامور وکیل رہ چکے تھے،لہذا دوبارہ انھوں نے انکم ٹیکس کیسز اور اس سے منسلک معاملات میں وکالت کا کام شروع کر دیا۔ نوکری سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اپنا زیادہ وقت ادبی کاموں پر صرف کرنا شروع کردیا ،کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ کہانیوں کا پہلا مجموعہ '' اے درد ہلی آ '' 1961 میں،جب کہ دوسرا مجموعہ ''اٹھوں ماٹھو'' 1986 میں شایع ہوا۔
مرزا قلیچ بیگ کے بعد پہلے ادیب تھے، جنھوں نے تخلیقی ناول لکھے ، ان کے Trilogy Basis پر تین ناول چھپ گئے جس میں ''پیاسی دھرتی رمندا بادل'' تھا جو ان کا پہلا تجربہ تھا اور سندھی ادب کا بھی پہلا تجربہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا ناول ''پڑاؤ سوئی سودہ'' 1970 میں سامنے آیا، پھر ''مرن موں سی آ'' جو 1988 میں شایع ہوا جب کہ پھر بعد میں ''منجھر دنیا مرگ ترشنا'' چھپ کر مارکیٹ میں آگیا۔ باقی دوسرے ناولوں میں ''منھجی دنیا ہیکل ویاکل'' اور تھنجی دنیا سبھ رنگ سانوں'' بھی شامل ہیں۔
میمن صاحب بڑے اچھے مترجم بھی تھے انھوں نے انگریزی ادب کی کتابوں کے سندھی زبان میں تراجم کیے، جن میں امریکن فکشن، کرشن چندرکی کتاب '' دکھن ماں سج ابھرے تھو، چین کھے ہارین جی زمین کیئں ملی'' وغیرہ شامل ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سندھی لوگ اقتصادیات اور معاشرتی نظام کو سمجھیں اور اس میں حصہ لیں جس کے لیے اس اقتصادی تاریخ پر بھی کتابیں ترجمہ کرکے شایع کروائیں۔
ایک کتاب 2009 میں سندھی لینگویج اتھارٹی نے بھی شایع کی تھی۔ سراج نے سندھی زبان سے کچھ اہم کتابیں انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے چھپوائیں جس میں سندھی زبان کی تاریخ اور سندھ کی بائیوگرافی بھی شامل ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ سندھ کے لوگ سندھی ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب بھی پڑھیں جس میں خاص طور پر اپنی سندھی زبان، سندھ کا کلچر، رسم و رواج، رہن سہن، فوک ادب، جیوگرافی، تاریخ وغیرہ شامل ہیں اور جسے انھوں نے فکشن کے اسٹائل میں لکھا ہے تاکہ پڑھنے والے اس میں دلچسپی لیں جس سے ان میں کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بڑھے گا اور پڑھنے والوں کو اپنی شناخت میں آسانی ہوگی اور وہ دنیا والوں کو بھی اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ بتا سکیں گے۔
ان کی ایک کتاب جو اقتصادیات پر ہے وہ قابل تعریف اور پڑھنے کے لائق ہے ۔ وہ بڑے دلیر صحافی بھی تھے اور انھوں نے کئی اہم اور دلیرانہ ایڈیٹوریل اور مضامین لکھے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں وہ سندھی اخبار ''ہلال پاکستان '' کے ایڈیٹر بنے اور انھوں نے سندھی اخبارات میں جرنلزم میں ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا۔ایک کالم ''رتی جو رھان'' لکھتے تھے، اپنے کالم میں وہ کرنٹ افیئرز پر لکھتے، کالم میں اپنا قلمی نام لاہوتی استعمال کرتے تھے۔ جب 1977 میں ضیا الحق نے بھٹوکی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور وہ ہلال پاکستان بھی مارشل لا کے تحت چلانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے سراج نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ ڈکٹیشن نہیں لینا چاہتے تھے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شاعری میں دیے گئے پیغامات کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان کی ایک ریسرچ پر مبنی سندھی زبان پر لکھی ہوئی کتاب 1964 میں چھپی تھی جسے انھوں نے بڑی محنت، بین الاقوامی رائٹرز کی زبانوں پر لکھی گئی کتابیں پڑھ کر، اسکالرز کے بحث و مباحثے سن کر، اس کے اسباب دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ سندھی زبان ہی سندھ کی اصلی زبان ہے جس کے وارث سندھی ہی ہیں۔
انھوں نے ہر مرتبہ نوجوانوں اور سندھ میں رہنے والوں کوآپس میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے پیغام دیا اورکہا کہ وہ اپنے گرتے ہوئے ساتھی کا ہاتھ پکڑکر اسے بچائیں اور اس کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بھوکوں کی مدد کریں۔ ان کی تحریریں تاریخی اور اہم ہیں جن سے پڑھنے والے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سندھ کے اکثر ادیب وقتاً فوقتاً سراج کے بارے میں لکھتے رہے ہیں جن کو سلیم میمن نے کتابی صورت دے کر اس کا نام ''ھوندا سی حیات'' کا نام دے کر چھپوایا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔سراج الحق میمن 2فروری 2013 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
ان کی خواہش تھی کہ اس ٹرسٹ کو یونیورسٹی کی سطح تک لے جائیں اور یہ تعلیمی نیٹ ورک سندھ کے دور دارزگوٹھوں تک پھیلا ہوا ہو، تاکہ تعلیم کو فروغ حاصل ہو۔ انھیں مسلسل کام کرتے دیکھ کر لوگوں کو ان پر رشک آتا تھا، وہ جو علمی اور ادبی کام اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں وہ ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
سراج نے سندھی ادب وثقافت کو انگریزی زبان میں ڈھالا ہے، ان کی تحریروں میں سندھ کا کلچر نظر آتا ہے۔ ان کے قلم نے اپنی زبان، لوگوں اور لوک ادب کو بڑی اہمیت دی ہے۔ وہ ہمیشہ والدین کو پیغام دیتے تھے کہ اپنے بچوں کوکتابیں پڑھنے پر آمادہ کریں اور کتابوں کا تحفہ ان کی خوشیوں کے موقع پر دیں جو ان کے لیے زندگی کا اہم تحفہ ثابت ہوگا۔ سراج ماہر تعلیم اور شاعر بھی تھے، ان کی ہر تحریر میں تعلیم کے فروغ اور اس کے معیارکا پیغام جھلکتا تھا۔
سراج الحق میمن 24 اکتوبر 1933 کو ٹنڈوجام میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق علمی وادبی گھرانے سے تھا۔ ملازمت کی ابتدا 1953 میں سندھی ادبی بورڈ سے کی، جہاں پر وہ 1955 میں اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1957 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو انھیں انکم ٹیکس کا گروپ ملا جہاں پر بطور افسر کام کرتے رہے لیکن 1969 میں انھیں جبری طور پر ریٹائر کردیا کیا گیا۔
ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے قوم پرست اور ترقی پسند ادبی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور قوم پرستی پر بھی تقریریں کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ وہ ماضی میں نامور وکیل رہ چکے تھے،لہذا دوبارہ انھوں نے انکم ٹیکس کیسز اور اس سے منسلک معاملات میں وکالت کا کام شروع کر دیا۔ نوکری سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اپنا زیادہ وقت ادبی کاموں پر صرف کرنا شروع کردیا ،کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ کہانیوں کا پہلا مجموعہ '' اے درد ہلی آ '' 1961 میں،جب کہ دوسرا مجموعہ ''اٹھوں ماٹھو'' 1986 میں شایع ہوا۔
مرزا قلیچ بیگ کے بعد پہلے ادیب تھے، جنھوں نے تخلیقی ناول لکھے ، ان کے Trilogy Basis پر تین ناول چھپ گئے جس میں ''پیاسی دھرتی رمندا بادل'' تھا جو ان کا پہلا تجربہ تھا اور سندھی ادب کا بھی پہلا تجربہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا ناول ''پڑاؤ سوئی سودہ'' 1970 میں سامنے آیا، پھر ''مرن موں سی آ'' جو 1988 میں شایع ہوا جب کہ پھر بعد میں ''منجھر دنیا مرگ ترشنا'' چھپ کر مارکیٹ میں آگیا۔ باقی دوسرے ناولوں میں ''منھجی دنیا ہیکل ویاکل'' اور تھنجی دنیا سبھ رنگ سانوں'' بھی شامل ہیں۔
میمن صاحب بڑے اچھے مترجم بھی تھے انھوں نے انگریزی ادب کی کتابوں کے سندھی زبان میں تراجم کیے، جن میں امریکن فکشن، کرشن چندرکی کتاب '' دکھن ماں سج ابھرے تھو، چین کھے ہارین جی زمین کیئں ملی'' وغیرہ شامل ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سندھی لوگ اقتصادیات اور معاشرتی نظام کو سمجھیں اور اس میں حصہ لیں جس کے لیے اس اقتصادی تاریخ پر بھی کتابیں ترجمہ کرکے شایع کروائیں۔
ایک کتاب 2009 میں سندھی لینگویج اتھارٹی نے بھی شایع کی تھی۔ سراج نے سندھی زبان سے کچھ اہم کتابیں انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے چھپوائیں جس میں سندھی زبان کی تاریخ اور سندھ کی بائیوگرافی بھی شامل ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ سندھ کے لوگ سندھی ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب بھی پڑھیں جس میں خاص طور پر اپنی سندھی زبان، سندھ کا کلچر، رسم و رواج، رہن سہن، فوک ادب، جیوگرافی، تاریخ وغیرہ شامل ہیں اور جسے انھوں نے فکشن کے اسٹائل میں لکھا ہے تاکہ پڑھنے والے اس میں دلچسپی لیں جس سے ان میں کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بڑھے گا اور پڑھنے والوں کو اپنی شناخت میں آسانی ہوگی اور وہ دنیا والوں کو بھی اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ بتا سکیں گے۔
ان کی ایک کتاب جو اقتصادیات پر ہے وہ قابل تعریف اور پڑھنے کے لائق ہے ۔ وہ بڑے دلیر صحافی بھی تھے اور انھوں نے کئی اہم اور دلیرانہ ایڈیٹوریل اور مضامین لکھے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں وہ سندھی اخبار ''ہلال پاکستان '' کے ایڈیٹر بنے اور انھوں نے سندھی اخبارات میں جرنلزم میں ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا۔ایک کالم ''رتی جو رھان'' لکھتے تھے، اپنے کالم میں وہ کرنٹ افیئرز پر لکھتے، کالم میں اپنا قلمی نام لاہوتی استعمال کرتے تھے۔ جب 1977 میں ضیا الحق نے بھٹوکی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور وہ ہلال پاکستان بھی مارشل لا کے تحت چلانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے سراج نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ ڈکٹیشن نہیں لینا چاہتے تھے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شاعری میں دیے گئے پیغامات کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان کی ایک ریسرچ پر مبنی سندھی زبان پر لکھی ہوئی کتاب 1964 میں چھپی تھی جسے انھوں نے بڑی محنت، بین الاقوامی رائٹرز کی زبانوں پر لکھی گئی کتابیں پڑھ کر، اسکالرز کے بحث و مباحثے سن کر، اس کے اسباب دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ سندھی زبان ہی سندھ کی اصلی زبان ہے جس کے وارث سندھی ہی ہیں۔
انھوں نے ہر مرتبہ نوجوانوں اور سندھ میں رہنے والوں کوآپس میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے پیغام دیا اورکہا کہ وہ اپنے گرتے ہوئے ساتھی کا ہاتھ پکڑکر اسے بچائیں اور اس کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بھوکوں کی مدد کریں۔ ان کی تحریریں تاریخی اور اہم ہیں جن سے پڑھنے والے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سندھ کے اکثر ادیب وقتاً فوقتاً سراج کے بارے میں لکھتے رہے ہیں جن کو سلیم میمن نے کتابی صورت دے کر اس کا نام ''ھوندا سی حیات'' کا نام دے کر چھپوایا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔سراج الحق میمن 2فروری 2013 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔