مودی کی حکومت‘جمہوریت کے منہ پر طمانچہ
بھارت میں سیکولر آئین کے باوجود ماضی میں کئی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو سیکولر بھارت کی نفی کرتا تھا۔
نریندر مودی کی حکومت بھارت کی جمہوریت اور ریاست دونوں کے لیے ایک سیاسی بوجھ بن گئی ہے ۔ یہ بات عالمی میڈیا سمیت خود داخلی سطح پر بھارت کے اندر سے ان آوازوں میں شدت کے طور پر ابھر رہی ہے ۔
بھارت کے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر رائے عامہ قائم کرنیوالے افراد اور ادارے دونوں ہی بھارتی جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اور تحفظات پیش کر رہے ہیں ۔اس وقت بھارت میں مجموعی طور پر مودی حکومت کی ہندواتہ پر مبنی سیاست اور فکر کے خلاف مزاحمت کے پہلو نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں ۔یہ مزاحمت کسی ایک فریق تک محدود نہیں بلکہ وہاں رہنے والے تمام مذاہب سے جڑے فریقین نہ صرف مزاحمت کررہے ہیں بلکہ بھارت میں موجود مودی یا آر ایس ایس کی فکر کو بھارت کی داخلی خود مختاری اور سلامتی کے لیے بھی بڑا خطرہ قراردیتے ہیں ۔
معروف برطانوی جریدے '' دی اکانومسٹ'' نے بھارت کے تناظر میں اپنی ٹائٹل اسٹوری میں '' Intolerant India "کے نام سے بھارت کی داخلی سیاست پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں ۔ اول نریندر مودی کی پالیسیاں امتیازی اور متعصب یا تعصب پر مبنی ہیں اور اس سے داخلی سطح پر ایک بڑے خون خرابے کا خطرہ ہے ۔دوئم مودی بھارت کی سب سے بڑی جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔
سوئم نریندر مودی کے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے بھارت میں سیاسی ، مذہبی تقسیم گہری ہورہی ہے اور بی جے پی کے لیے انتخابی امرت بھارت کے لیے سیاسی زہر بن چکا ہے ۔ چہارم بھارت کے آئین کے سیکولر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی کے حالیہ اقدامات سے وہاں پر جمہوریت کو اتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے اثرات اگلے کئی عشروں تک جاری رہیں گے۔
پنجم مودی اور بی جے پی نے مذہبی اور قومی شناخت پر تقسیم پیدا کرکے اور مسلمانوں کو وطن دشمن قرار دے کر اپنی حمایت کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ششم مودی واضح طور پر بھار ت کو کثیر المذاہب اور برداشت رکھنے والے ملک سے بدل کر ایک متعصب ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ہفتم مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اجتماعی سزا دے رکھی ہے اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی کا کھیل وہاں جاری ہے اور متعصب یا انتہا پسند ہندوؤں کی ریاستی اور حکومتی سطح پر سرپرستی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
حالیہ ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والی تقریروں یا کارنر میٹنگزکی روداد کا جائزہ لیں تو اس میں بھی ہر مقرر نے کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی داخلی سیاست بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور شہریت بل کے تناظر میں سخت تنقید کی گئی ہے ۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق سے جڑے ادارے بھی بھارت کو اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک قرار دے چکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلزنے بھی مقبوضہ کشمیر میں موجود کشمیری قیادت کی رہائی سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کا بھارت سے مطالبہ کیا ہے ۔پچھلے چند ماہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور خاص طور پر وہاں آئین کی شق 370اور 35-Aکے خاتمہ اور شہریت بل لانے سے جو مودی مخالف لہر پیدا ہوئی ہے وہ یقینا مودی حکومت کے لیے کسی بڑے خطرہ سے کم نہیں ہے اور اس عمل نے جہاں انتہا پسند ہندوؤں کومضبوط کیا ہے وہیں ایک بڑا طبقہ جو تمام مذاہب سے تعلق رکھتا ہے خود کو مودی حکومت میں سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔
بھارت کی حالیہ صورتحال ظاہر کرتی ہے دنیا کی سیاسی اشرافیہ یا رائے عامہ سے جڑے افراد یا اداروںمیں عالمی دنیا تسلیم کررہی ہے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں طاقت ،جبر اور تشدد کی بنیاد پر فسطائی نظریہ مسلط کیا جارہا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کو بھی داد دینی ہوگی کہ انھوں نے بھی عالمی دنیا میں مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر جس طرح سے مودی اور آر ایس ایس گٹھ جوڑ کو اجاگر کیا ہے اس نے بھی بھارت کو داخلی و خارجی سطح پر سیاسی تنہائی دی ہے ۔
خود بھارت میں موجود اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ برملا یہ اعتراف کررہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے باہمی اعتماد سے بھارت کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے ۔ان کے بقول غیر جمہوری نظریہ بھارت سمیت خطہ کی سلامتی اور امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔بھارت جو عالمی سطح پر اپنی جمہوریت اور ایک سیکولر آئین کی بنیاد پر ایک بڑی شہرت رکھتا تھا اور اس بیانیہ کو وہ عالمی دنیا میں اجاگر کرتا تھا کہ بھارت جمہوری اور سیکولر ملک ہے ۔
اگرچہ بھارت میں سیکولر آئین کے باوجود ماضی میں کئی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو سیکولر بھارت کی نفی کرتا تھا۔ لیکن مودی اور آر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ اور کھلم کھلا '' ہندواتہ پر مبنی ریاست '' کے قیام کے سیاسی نعروں اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات اور ریاست کے بے دریغ استعمال نے آج بھارت کی جمہوریت کو ایک بڑے سوالیہ نشان پر کھڑا کردیا ہے ۔
بھارت کے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر رائے عامہ قائم کرنیوالے افراد اور ادارے دونوں ہی بھارتی جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اور تحفظات پیش کر رہے ہیں ۔اس وقت بھارت میں مجموعی طور پر مودی حکومت کی ہندواتہ پر مبنی سیاست اور فکر کے خلاف مزاحمت کے پہلو نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں ۔یہ مزاحمت کسی ایک فریق تک محدود نہیں بلکہ وہاں رہنے والے تمام مذاہب سے جڑے فریقین نہ صرف مزاحمت کررہے ہیں بلکہ بھارت میں موجود مودی یا آر ایس ایس کی فکر کو بھارت کی داخلی خود مختاری اور سلامتی کے لیے بھی بڑا خطرہ قراردیتے ہیں ۔
معروف برطانوی جریدے '' دی اکانومسٹ'' نے بھارت کے تناظر میں اپنی ٹائٹل اسٹوری میں '' Intolerant India "کے نام سے بھارت کی داخلی سیاست پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں ۔ اول نریندر مودی کی پالیسیاں امتیازی اور متعصب یا تعصب پر مبنی ہیں اور اس سے داخلی سطح پر ایک بڑے خون خرابے کا خطرہ ہے ۔دوئم مودی بھارت کی سب سے بڑی جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔
سوئم نریندر مودی کے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے بھارت میں سیاسی ، مذہبی تقسیم گہری ہورہی ہے اور بی جے پی کے لیے انتخابی امرت بھارت کے لیے سیاسی زہر بن چکا ہے ۔ چہارم بھارت کے آئین کے سیکولر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی کے حالیہ اقدامات سے وہاں پر جمہوریت کو اتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے اثرات اگلے کئی عشروں تک جاری رہیں گے۔
پنجم مودی اور بی جے پی نے مذہبی اور قومی شناخت پر تقسیم پیدا کرکے اور مسلمانوں کو وطن دشمن قرار دے کر اپنی حمایت کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ششم مودی واضح طور پر بھار ت کو کثیر المذاہب اور برداشت رکھنے والے ملک سے بدل کر ایک متعصب ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ہفتم مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اجتماعی سزا دے رکھی ہے اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی کا کھیل وہاں جاری ہے اور متعصب یا انتہا پسند ہندوؤں کی ریاستی اور حکومتی سطح پر سرپرستی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
حالیہ ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والی تقریروں یا کارنر میٹنگزکی روداد کا جائزہ لیں تو اس میں بھی ہر مقرر نے کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی داخلی سیاست بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور شہریت بل کے تناظر میں سخت تنقید کی گئی ہے ۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق سے جڑے ادارے بھی بھارت کو اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک قرار دے چکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلزنے بھی مقبوضہ کشمیر میں موجود کشمیری قیادت کی رہائی سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کا بھارت سے مطالبہ کیا ہے ۔پچھلے چند ماہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور خاص طور پر وہاں آئین کی شق 370اور 35-Aکے خاتمہ اور شہریت بل لانے سے جو مودی مخالف لہر پیدا ہوئی ہے وہ یقینا مودی حکومت کے لیے کسی بڑے خطرہ سے کم نہیں ہے اور اس عمل نے جہاں انتہا پسند ہندوؤں کومضبوط کیا ہے وہیں ایک بڑا طبقہ جو تمام مذاہب سے تعلق رکھتا ہے خود کو مودی حکومت میں سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔
بھارت کی حالیہ صورتحال ظاہر کرتی ہے دنیا کی سیاسی اشرافیہ یا رائے عامہ سے جڑے افراد یا اداروںمیں عالمی دنیا تسلیم کررہی ہے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں طاقت ،جبر اور تشدد کی بنیاد پر فسطائی نظریہ مسلط کیا جارہا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کو بھی داد دینی ہوگی کہ انھوں نے بھی عالمی دنیا میں مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر جس طرح سے مودی اور آر ایس ایس گٹھ جوڑ کو اجاگر کیا ہے اس نے بھی بھارت کو داخلی و خارجی سطح پر سیاسی تنہائی دی ہے ۔
خود بھارت میں موجود اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ برملا یہ اعتراف کررہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے باہمی اعتماد سے بھارت کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے ۔ان کے بقول غیر جمہوری نظریہ بھارت سمیت خطہ کی سلامتی اور امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔بھارت جو عالمی سطح پر اپنی جمہوریت اور ایک سیکولر آئین کی بنیاد پر ایک بڑی شہرت رکھتا تھا اور اس بیانیہ کو وہ عالمی دنیا میں اجاگر کرتا تھا کہ بھارت جمہوری اور سیکولر ملک ہے ۔
اگرچہ بھارت میں سیکولر آئین کے باوجود ماضی میں کئی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو سیکولر بھارت کی نفی کرتا تھا۔ لیکن مودی اور آر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ اور کھلم کھلا '' ہندواتہ پر مبنی ریاست '' کے قیام کے سیاسی نعروں اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات اور ریاست کے بے دریغ استعمال نے آج بھارت کی جمہوریت کو ایک بڑے سوالیہ نشان پر کھڑا کردیا ہے ۔