لا یعنی بحث

جمہوری حکومت اور ہمارے دیگر قائدین جب تک اس مسئلے پر متفق نہیں ہوجاتے ، یہ قوم اسی طرح تقسیم رہے گی

s_nayyar55@yahoo.com

ہلاکو خان جس وقت بغداد پر قہر بن کرٹوٹا،اس وقت بغداد کے کوچہ وبازارمیں عوام اور خواص اس بحث میں مصروف تھے کہ ایک سوئی کی نوک پر بیک وقت کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں ؟ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بحث بھی کی جارہی تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام ؟ ان موضوعات پر جگہ جگہ مناظرے برپا تھے اور عوام بڑے جوش و خروش کے ساتھ ان مناظروں میں شرکت کر کے اہل علم کی پر مغز اور مد لل تقریروں پر بے تحاشا تالیاں پیٹنے میں مگن تھے کہ اچانک تا تاریوں کا سیل رواں بغداد میں داخل ہوا اور تاریخ کا بہیمانہ ترین قتل عام شروع ہوگیا ۔ اور سپاہ تاتار انسانی کھوپڑیوں کے بلند ترین مینار بنانے کے دلچسپ کھیل میں مشغول ہوگئی ۔ بغداد کے عظیم الشان کتب خانے جلادیے گئے اور ان کی راکھ سے دجلہ وفرات کے پانی کا رنگ سیاہ ہوگیا ۔ اس سنگدلانہ قتل عام کی تاب نہ لاکر جب ایک ضعیف خاتون نے چنگیز کے پوتے ہلاکو کو خدا کے قہر وغضب سے ڈرایا تو ہلاکو نے اس ضعیف خاتون سے پوچھا '' کس خدا کی بات کرتی ہے تو ؟'' خاتون نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا '' وہ جو اوپر آسمانوں پر بیٹھا ہے اور سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے ۔'' ہلاکو نے مسکرا کر جواب دیا '' ۔ اسی خدا کا نازل کردہ قہر ہوں میں،جو بغداد والوں پر میری شکل میں تمہارے خدا نے نازل کیا ہے ۔'' بغداد کی اس تباہی و بربادی کے بعد ، امت مسلمہ پر جو زوال آیا ، وہ آج تک جاری ہے اوراسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب آج بھی خواب ہی ہے ۔

دانشور کہتے ہیں کہ اسلام کی اصل طاقت و عظمت ان کھوپڑیوں کے مینار میں نہیں بلکہ ان کتب خانوں میں پوشیدہ تھی جو تاتاریوں کے ہاتھوں جل کر دریا برد ہوگئے ان کتابوں اور علم سے نہ تو خود تاتاری قوم کوئی فیض حاصل کرسکی اور نہ ہی امت مسلمہ اپنی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کرسکی ۔ تاتاری قوم دنیا پر خوف و دہشت کی علامت بن کر تو ٹوٹی ، لیکن پھر رفتہ رفتہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی ۔ لیکن امت مسلمہ کو وہ ناقابل تلافی نقصان ضرور پہنچا گئی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ ، اس متوقع خطرے سے آگاہ تھی یا نہیں ؟ کیا اہل بغداد اور خلیفہ وقت بالکل نہیں جانتے تھے کہ تاتاریوں کا سیل رواں ان کی طرف طوفانی رفتار سے بڑھے چلا آرہا ہے ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے کہ اہل بغداد اچھی طرح سے واقف تھے کہ تاتاریوں کی شکل میں کس قسم کا خطرہ ان کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے ؟ لیکن وہ ذہنی و جسمانی طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تویکسو تھے اور نہ ہی تیار تھے ۔ یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے والی بات تھی ۔ دراصل اہل بغداد کنفیوزڈ تھے ۔

خلافت بھی کنفیوزڈ تھی ۔ اسے عوام کی حمایت حاصل نہ رہی تھی ۔ وہ خلافت تھی ہی کب ؟ وہ تو عرصہ ہوا ملوکیت میں تبدیل ہوچکی تھی ، حکومت اور عوام کے بیچ میلوں کا فاصلہ حائل ہوچکا تھا ۔ اسی لیے بغداد کی گلیوں اور شاہراؤں پر عجیب و غریب موضوعات پر لایعنی بحث و مباحثے شروع ہوگئے تھے ۔ ان کے موضوعات کا کوئی تعلق اس خطرے سے نہیں تھا ، جو انھیں متوقع طور پر درپیش تھا ۔ یہ تاتاری آسمان سے نہیں ٹپکے تھے ان کی وحشت و بربریت کے ساتھ ساتھ ان کی فتوحات کے قصے بھی اہل بغداد کے کانوں تک پہنچ رہے تھے ، بس اہل بغداد انھیں سننا نہیں چاہتے تھے ۔ اور ایک منقسم قوم کی طرح آپس میں اس معاملے پر بحث میں مصروف کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں ؟ یا پھر کوا حلال ہے یا حرام ؟ فرض کر لیں یہ معلوم ہو بھی جاتا کہ ، ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بٹھائے جا سکتے ہیں ؟ تو کیا یہ معلوم ہوجانے کے بعد ہلاکو خان کی شکل میں جو طوفان بغداد کی جانب بڑھ رہا تھا، وہ ٹل جاتا ؟ ہرگز نہیں۔ ہلاکو خان اس وقت کی ایک تلخ لیکن زندہ حقیقت تھا اور اہل بغداد جس موضوع پر آپس میں زبانی طور پر ، برسرپیکار تھے ۔


وہ فقط ایک تصوراتی مسئلہ تھا ، جس کا کوئی بھی حل نہ تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم آج اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کون شہید ہے اور کون نہیں ؟جس کا دل چاہ رہا ہے وہ شہادت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کر نے پر تلا بیٹھا ہے ۔ آدھی قوم ایک فریق سے یہ سرٹیفکیٹ لینا چاہتی ہے اور باقی آدھی قوم دوسرے فریق سے یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہم نے حل کر بھی لیا کہ کون شہید ہے اور کون نہیں ہے تو کیا اس سے صورتحال پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں ؟ ہماری سالمیت کو جو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں کیا وہ دور ہوجائیں گے ؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یہ معلوم کرنے کا حتمی فارمولا کیا ہوگا کہ کون اس جنگ میں شہید ہوا اور کون ہلاک ؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کون شہید ہوا ہے اور کون نہیں ، جیسے خدا اس وقت بھی جانتا تھا کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے براجمان ہوسکتے ہیں ؟ میری قائدین سے گزارش ہے کہ خدا کے لیے اس منقسم قوم کو اپنے '' افکار '' سے مزید تقسیم ہونے سے بچائیں اور یکسو ہو کر عسکریت پسندوں کے اس سیلاب سے بچاؤ کی کوئی فکر کریں ۔ یہ جمہوری حکومت اور ہمارے دیگر قائدین جب تک اس مسئلے پر متفق نہیں ہوجاتے ، یہ قوم اسی طرح تقسیم رہے گی اور لایعنی قسم کے مناظروں میں الجھی رہے گی ۔

سب سے زیادہ ذمے داری موجودہ جمہوری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نازک مسئلے کو حل کرنے کے مذاکرات کرے یا پھر جنگ کرے ، لیکن جو راستہ بھی اختیار کرنا ہے یکسو ہو کر اختیار کرے اور پھر اپنے فیصلے پر ڈٹ کر کھڑی ہوجائے ۔ عوام خود بخود اس کی پشت پر کھڑے ہوجائیں گے ۔ جمہوریت کی طاقت کا اگر نظارہ کرنا ہو تو یہ منظر ملاخطہ فرمائیے کہ نو اور دس محرم الحرام کو ہماری حکومت کی ساری توانیاں محض اس ایک نقطے پر مرکوز تھیں کہ عاشورہ محرم کو بغیر کسی بدامنی کے ، پر امن طور پر کیسے رخصت کیا جائے ؟ اس کے لیے موبائل فونز سروس بند کی گئی ۔ ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگائیں گئیں اور بیس ہزار فوج کو اسٹینڈ بائی رہنے کے لیے احکامات بھی جاری کیے گئے ۔ فضائی نگرانی اور کیمروں کی مدد سے جلوس کی مانیٹرنگ کا بندوبست علیحدہ سے کیا گیا تھا ۔ قوم کے ہر فرد کی جان سولی پر لٹکتی رہی ، جب تک اس کے شہر کا جلوس عاشورہ اپنی منزل پر پہنچ کر اختتام پذیر نہ ہوگیا ۔

اس کے برعکس ہمارے پڑوس میں انھی دو دنوں کے دوران کرکٹ کے میدان سے اپنے قومی ہیرو سچن ٹنڈولکر کی رخصتی کا بندوبست کیا گیا ۔ وانکھڈے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی مگر کہیں پر بھی فوج نظر نہ آئی ۔ ٹی وی چینلز نے سیکیورٹی کے انتظامات اور نفری کی تعداد کا ذکر تک نہ کیا ، جب کہ ہمارے چینلز کا موضوع ہی یہی تھا کہ سیکیورٹی کے انتظامات کیسے اور کتنے کیے گئے ہیں ؟ ممبئی کے اسٹیڈیم میں ہر مذہب اور ہر فرقے کا آدمی موجود تھا ، لیکن وہ سب اس پر متفق تھے کہ ٹنڈولکر اس کا بھی ہیرو ہے اور اس کے وطن بھارت کا فخر بھی ہے اور غرور بھی ہے ۔ یہ سب معجزہ دراصل جمہوری نظام کے تسلسل کا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ لہذا موجودہ جمہوری حکومت آگے بڑھے اور سامنے سے آنے والے اس خطرناک باونسر کو فرنٹ فٹ پر جاکر کھیلے ۔
Load Next Story