بحرانوں سے نکلنے کے لیے حکومت کی کوششیں

مسلم لیگ ن کی حکومت تاثر دے رہی ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتی ہے

ایک سردار جی کسی ریستوران کے ایک ٹیبل پر بیٹھے چائے میں چمچ ہلا رہے تھے، سوچوں میں گم سردار جی کچھ دیر چمچ ہلاتے، چکھتے اور پھر چائے میں چمچ گھمانے لگتے، قریب دوسری ٹیبل پر بیٹھا ایک شخص بغور جائزہ لے رہا تھا، وہ جب ہوٹل میں آیا تو سردار جی کو یہی حرکت کرتے دیکھا، دوست کا کچھ دیر انتظار کیا، دوست آیا، گپ شپ کی، بسکٹ کھائے، چائے پی اور دوست کو رخصت کیا مگر سردارجی اپنی حرکت دہرائے چلے جارہے تھے، رہا نہ گیا تووہ شخص قریب آیا، اجازت طلب کی اور سامنے بیٹھ گیا، پوچھنے لگا سردار جی! بہت دیر ہوئی، چائے بھی ٹھنڈی ہوگئی، مگر آپ ہیں کہ چائے میں چمچ ہلائے جارہے ہیں اور چکھے جارہے ہیں،آخر ماجرا کیا ہے؟ کس سوچ میں گم ہیں؟ کیا چینی حل نہیں ہورہی؟ سردارجی قدرے آسودہ ہوئے اور بولے، ہاں میں سوچ رہا تھا مگر ابھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ ہم چائے میں لاکھ چمچ ہلائیں، ہزار بار چکھیں، چائے ٹھنڈی ضرور ہوجاتی ہے مگر جب تک چینی نہ ڈالیں چائے میٹھی نہیں ہوتی۔

یہ قصہ ایک مشہورصحافی نے پندرہ برس قبل اپنے ایک کالم میں رقم کیاتھا، ان کا اشارہ اس وقت کے حکمرانوں کی جانب تھا۔ میاں صاحب کی حکومت چھن گئی، پابند سلاسل ہوئے اور انھیں ملک بدر کردیا گیا۔ ملک بدری جیسی سزا کی تکلیف وہی جان سکتا ہے جس نے جھیلی ہو، زندگی کی اہمیت کا اندازہ بھی وہی کرسکتا ہے جس نے موت کو قریب سے دیکھا ہو، اقتدار سے قید کا سفر چند لمحوں میں طے کرنے والا ہی وقت کی سبک رفتاری کو حقیقی معنوں میں جان سکتا ہے، وہی بہتر تشریح کرسکتا ہے کہ اقتداراعلیٰ کا اصل منبع اور مالک کون ہے۔

جلاوطنی کاٹنے کے بعد جب میاں صاحب وطن واپس آئے تو عدلیہ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر فوجی آمرپرویز مشرف کی حکومت کے تحت اعلان کردہ عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا، اس وقت پاکستان میں تعینات امریکا کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے میاں نوازشریف سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ ''آپ کی جان کو خطرہ ہے'' آپ عام انتخابات میں ضرور حصہ لیں۔ میاں صاحب مان گئے اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا، عمران خان اور دیگر چلاتے ہی رہ گئے اور میاں صاحب گاڑی میں سوار ہوکر اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے۔ اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی جانب سے اعلان کردہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا جو8 جنوری 2008کو منعقد ہونا تھے، کے لیے انتخابی مہم شروع کی۔ محترمہ کے قتل کے بعد ان کی پارٹی کے وارثوں نے منافقت، مفاہمت اور سودے بازی کی سیاست کو پروان چڑھا کر دونوں ہاتھوں سے دن رات ملک کو لوٹا اور محترمہ کے قتل کا بدلہ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے کر پاکستانی عوام سے لے لیا۔


میاں صاحب کی حکومت جب آنے کو تھی تو عام خیال یہی تھا کہ وہ ماضی کی صعوبتوں سے بہت کچھ سیکھ چکے ہوں گے۔ ہٹلر کا کہنا تھا کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، وہ ہربات کو بھلا دیتے ہیں، یہ بات درست ہے مگر حافظہ تو حکمرانوں کا بھی زیادہ اچھا نہیں ہوتا ورنہ وہ اپنا گزرا ہوا وقت ضرور یاد رکھتے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت تاثر دے رہی ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتی ہے، وہ ملک اور خصوصا کراچی میں امن قائم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں کراچی میں پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائیاں بھی جاری ہیں، دوسری جانب محکمہ پولیس کو کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کا عمل بھی شروع ہو کر تیزی سے اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے، کالی بھیڑوں میں صرف اور صرف گریڈ سولہ تک کے ملازمین شامل تھے، جنھیں وقتی طور پر معطلی کا غسل دیا گیا ہے، کچھ دن بعد بحال ہوکر یہی سیاہ بھیڑیں دوبارہ سفید ہوجائیں گی، البتہ اس جدید طریقہ کار کے تحت محکمہ پولیس کے بڑے افسران کالک کے مضر اثرات سے یکسر بچ گئے ہیں۔ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن میں روزانہ اوسطا ایک سے ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے، اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو پکڑا جاچکا ہے، ان تمام گرفتار شدگان کی نوے فیصد تعداد تو رشوت کے عوض تھانوں سے ہی بری ہوگئی۔ اوائل میں سیکڑوں غیر ملکی بھی گرفتار کیے گئے مگر عدالت میں ثابت ہوا کہ پولیس کے پاس غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار ہی نہیں ہے، عدالت نے غیر ملکیوں کو پکڑنے پر پولیس کی سرزنش بھی کی، پولیس ڈر گئی اور کراچی میں موجود غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔

خیر! بات شروع ہوئی تھی سردارجی سے، انھیں تو حقیقت کا ادراک ہوگیا تھا مگر مسلم لیگ ن کی حکومت ابھی تک ڈنڈا گھما رہی ہے، وہ سمجھ ہی نہیں پارہی کہ ملک کے حالات سدھارنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے، اگر حکومت واقعی حالات کو درست سمت لے جانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اپنی نیت کو ٹھیک کرنا ہوگا، مفاد پرستی کی جنگ سے باہر آکر قانون سازی کرنا ہوگی، جرائم پیشہ لوگوں کی سرکوبی صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہے جب ان کی پشت پناہی کرنے والوں اور ان کے لیے آسانیاں کرنے والوں کا سختی سے محاسبہ کیا جائے، معمولی قسم کی سزائوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، معطل ہوگئے اور پھر بحال، زیادہ سے زیادہ نوکری چلی گئی یا دو تین سال قید کی سزا، چند ہزار روپے کا جرمانہ، کروڑوں روپے کمالینے والے کے لیے یہ سزائیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، اتنی بڑی رقوم کے عوض یہ سزائیں بھگتنے کو تو کون تیار نہیں ہوگا، سات کروڑ روپے لوٹنے والے کو اگر دوسال جیل بھی کاٹنا پڑے تو کیا نقصان ہے۔ قانون سازی ایسی ہونا چاہیے کہ جرائم کو تقویت دینے والی بنیادی انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں چلا اٹھیں کہ اب ان کی دال روٹی کیسے چلے گی۔

کراچی شہر خصوصا یہاں کے تجارتی علاقوں میں ایک دوسال مسلسل ڈیوٹی انجام دینے والے دس بیس پولیس افسران اور اتنے ہی اہلکاروںکو خواہ ایماندار ہوں یا بدعنوان کو گرفتار کرکے کسی دوسرے صوبے میں ایماندار اور تجربہ کار پولیس افسر کے حوالے کرکے (عام غریب ملزم والی) تفتیش کرالی جائے تو صرف ایک ہفتے کے اندر اندر تمام چوروں، ڈکیتوں اور اجرتی قاتلوں کا سراغ لگا کر نہ صرف ان کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ایسی خواہش رکھنے والوں کو بھی عبرت دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دیگر سرکاری اداروں میں موجود افسران و اہلکاروں کے علاوہ جعل سازی کے ذریعے اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بنانے یا بنوانے کا کاروبار کرنے والے نیٹ ورک، ان کی پشت پناہی کرنے والے گروہوں یا سیاسی، مذہبی و لسانی جماعتوں کے سربراہان کے خلاف غداری کے تحت مقدمات چلا کر تمام جائیداد کی ضبطگی کے ساتھ موت یا کم از کم عمر قید کی سزا دینے کے لیے قانون بناکر صرف دو چار کو نشان عبرت بنادیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ طویل عرصے کے لیے ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
Load Next Story