صدی کی ڈیل یا صدی کا تھپڑ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین مسئلہ کے حل کےلیے ایک منصوبہ پیش کرکے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے

فلسطینیوں کو اس ڈیل میں کچھ نہیں دیا گیا بلکہ ان سے فقط چھینا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

القدس جزیرۂ عرب میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے جسے دنیا کے تمام بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار مقدس مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں اقوام کے درمیان اس مقدس سرزمین کو حاصل کرنے کےلیے کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں. یہ شہر کئی بار تاراج ہوا اور کئی بار مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے زیر تسلط رہا۔

اسلام کی آمد کے وقت یہ شہر رومی عیسائیوں کے زیر نگین تھا۔ 636 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا۔ چھٹی صدی ہجری میں یہ شہر ایک بار پھر عیسائیوں کے تسلط میں چلا گیا لیکن یہ قبضہ زیادہ دیر تک نہ رہ سکا اور 80 سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑا لیا۔ تب سے یہ ارض مقدس مسلمانوں کے ہی زیر اثر رہی، یہاں تک کہ 1967 میں یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ارض مقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا۔ تب سے فلسطینی مسلمان یہودیوں کے قبضہ سے بیت المقدس کو آزاد کرانے کےلیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس عظیم مقصد کےلیے وہ لاکھوں کی تعداد میں جانوں کی قربانیاں بھی دے چکے ہیں۔ یہودیوں نے امریکا و برطانیہ کی شہ پر معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر بہت زیادہ ستم ڈھائے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا، خواہ وہ فتح فاروقی دور کی ہو یا ایوبی دور کی، مسلمانوں نے نہایت پرامن طریقے سے اس شہر پر قبضہ کیا اور وہاں حتی الامکان خون ریزی سے اجتناب کیا، مقدس شہر کی حرمت کا لحاظ رکھا اور وہاں کے باشندوں کو امان دی۔ اس کے مقابلے میں جب بھی عیسائیوں یا یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہاں خون کی ندیاں بہادیں۔ اس مقدس شہر کے تقدس کو بری طرح پامال کیا۔ اسلام کی یہی وہ پاکیزہ تعلیمات ہیں جن کا مظاہرہ مسلمان فاتحین نے کیا اور یہی وہ اسلامی احکامات ہیں جو اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔

ہفتہ بھر قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین مسئلہ کے حل کےلیے ایک منصوبہ پیش کرکے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ انہوں نے اس منصوبے کو ڈیل آف دی سینچری کا نام دیا ہے۔ یہ منصوبہ کیا ہے؟ اس سے اسرائیل کو کیا ملے گا؟ فلسطین کو کیا ملے گا اور خود منصوبہ پیش کرنے والے دنیا کے ٹھیکیداروں کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔

اس منصوبے سے اسرائیل کے توسیع پسند عزائم میں تو کچھ زیادہ شامل نہیں ہے بس اسے اتنا ہی ملے گا جنتا علاقہ اس وقت اس کے قبضے میں ہے، وہ اس پر بلاشرکت غیرے حقدار ٹھہرے گا۔ اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنے توسیع پسند نظریے کے خلاف اس منصوبے کو کیوں قبول کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کےلیے توسیع اس وقت اس کے اپنے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر اس نے مزید علاقوں پر قبضہ کیا تو خود یہودی اقلیت میں بدل جائیں گے، کیونکہ اس وقت اسرائیل میں صرف 60 لاکھ یہودی ہیں، جبکہ اردگرد کے تمام علاقے مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ اس لیے وہ فی الوقت توسیع پسندی نہیں چاہتے۔ صرف فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ چاہتے ہیں۔ جو اس نام نہاد ڈیل میں انہیں دے دیا گیا ہے۔


فلسطینیوں کو اس ڈیل میں کچھ نہیں دیا گیا بلکہ ان سے فقط چھینا گیا ہے۔ انہیں اس ڈیل کے نتیجے میں بیت المقدس سے دستبردار ہونے پڑے گا۔ اس کے ساتھ انہیں فوج اور اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ چھوٹی سی ریاست مکمل طور پر اسرائیل کے رحم و کرم پر ہوگی۔ انہیں اپنے پیاروں کے قاتل اور سب سے بڑے درندہ صفت دشمن اسرائیل کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ فلسطین کا کوئی وجود نہیں رہے گا بلکہ یہ ریاست اسرائیل میں ہی ضم ہوجائے گی۔ جس کی سرحدوں کی نگرانی بھی اسرائیلی افواج ہی کریں گی، جہاں کی محافظ مسلح تنظیمیں ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائیں گی، اسے ریاست نہیں کہا جاسکتا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جن کے یہودی داماد نے بڑی محنت سے یہ منصوبہ تیار کیا ہے، انہیں کیا ملے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی جاری ہے۔ اس کے علاوہ رواں برس امریکا میں صدارتی انتخابات بھی ہونے جارہے ہیں۔ جن میں کامیابی کےلیے ٹرمپ یہودی لابی کو خوش کرکے یہودیوں کے ووٹ حاصل کرنے اور ان کے اثر ورسوخ سے رائے عامہ اپنے لیے ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کےلیے انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اتنا گھناؤنا مذاق کیا ہے۔

اس سے قبل بھی امریکی صدر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں، بلکہ انہوں نے امریکی سفارتخانہ بھی تل ابیب سے القدس (یروشلم) منتقل کردیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل سے زیادہ امریکا کو فلسطین پر قبضہ کرنے کی جلدی ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی دوستی کی کھلی مثالیں ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائی اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اس ڈیل کو چند عرب ممالک کی بھی حمایت حاصل ہے، جن کے سفیر اس اعلان کے موقع پر وہاں موجود تھے لیکن منہ سے ایک لفظ نہ بولے اور نہ ہی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیا۔ اس ڈیل کے بعد بھی کسی عرب ملک کی طرف سے کوئی خاص رد عمل نہیں آیا، نہ ہی او آئی سی نے کوئی ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ او آئی سی تک اس کی خبر ہی نہیں پہنچی، ورنہ کوئی ایک آدھ روایتی بیان تو جاری کر ہی دیتی۔ فلسطینی صدر نے اسے ''صدی کی ڈیل'' کے بجائے ''صدی کا تھپڑ'' قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

عرب ممالک رفتہ رفتہ بیت المقدس سے دستبردار، بلکہ یوں کہا جائے کہ بیزار ہورہے ہیں، تو بے جا نہ ہوگا۔ چند عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کیے، حالانکہ وہ نہ صرف مسلمان بلکہ عرب بھی ہیں۔ لیکن پاکستان نے اس ناجائز ریاست کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق رکھا ہے۔ یہ پاکستانی عوام کی غیرت ایمانی ہے کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کیے رکھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہ کریں۔ پاکستانی عوام پوری امت مسلمہ کےلیے درد رکھتے ہیں اور ہمیشہ امت مسلمہ کی مشکلات میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی حکومت کو بھی عوام کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے امریکا کی اس نام نہاد ڈیل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور فلسطینی مسلمانوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اصولوں کے مطابق ان کا حق دلانے کےلیے دنیا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے اور اسے فلسطینیوں کو مکمل آزادی اور خودمختاری دیتے ہوئے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story