میرا کالم کیوں نہیں پڑھا
اب جو بات آپ کسی کو آمنے سامنے نہیں کہہ سکتے، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی صورت میں لگا دیتے ہیں
''ارے بھئی آپ تو بہت بڑے آدمی بن گئے جو آپ نے آنکھیں ہی ماتھے پر رکھ لیں۔ آپ کو وہ دن بھول گئے جب اس فیلڈ میں آپ کو ہم نے ہی متعارف کروایا تھا۔ اب آپ سے اتنا نہ ہوسکا کہ ہمارا کالم پڑھنے کےلیے بھی آپ کے پاس وقت ہو۔''
ایسی اور اس طرح کی بہت سی باتیں آپ کو اس سوشل میڈیائی دور میں سننے کو ملیں گی۔ یہ باتیں آپ کو اس لیے بھی سننے کو ملیں گی کہ ہم ایک دوسرے سے آمنے سامنے نہیں ملتے، ہاں البتہ اپنی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑنے لگے ہیں۔
ایسے بہت سے جملوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔
دراصل یہ سب صورتحال اس لیے ہے کہ ہم پہلے صرف حسد اور سازشیں کرتے تھے اور کبھی اس کو سامنے لانے اور اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم سوشل میڈیا کی صورت میں میسر آچکا ہے کہ ہم کسی بے کار سے آدمی کو ساتویں آسمان پر بھی پہنچا سکتے ہیں، تو دوسری طرف ہمیں کسی عزت دار کی عزت سرعام نیلام کرنے کا ٹھیکا بھی مل گیا ہے۔
اب جو بات آپ کسی کو آمنے سامنے نہیں بتاسکتے، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی صورت میں لگا دیتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کسی کی بھی تصویر یا پوسٹ یا کوئی بھی چیز آپ کسی دوسرے کو باآسانی فارورڈ کردیتے ہیں اور جس شخص کو یہ تمام چیزیں مل رہی ہوتی ہیں، وہ بھی اندھادھند ان پر یقین کررہا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم ان افراد کے بارے میں جاننے کےلیے بھی بیتاب ہوجاتے ہیں جن کا ہم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب شخصیات کا طلسم ٹوٹنے لگتا ہے تو ہمارے خودساختہ محل زمین بوس ہوجاتے ہیں اور چوٹ ہمیں خود ہی لگتی ہے۔
اسی طرح ہم دوسروں کی شہرت، کامیابیوں اور محنت کے پیچھے خود کو چھپانا چاہتے ہیں۔ چاہے اب یہ سیلفی بنوانا ہو یا کسی اور طرح سے پروموشنل پروگرام کا حصہ بننا۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی ان معرکہ آرائیوں سے نہ صرف آپ کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس کی شدید صورت میں کئی لوگ آپ سے بالکل ہی قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ یعنی آپ نے کالم نہ پڑھا، تصویر پر کمنٹ نہ کیا، لنک کو شیئر نہ کیا، ان کے کاروبار کی پروموشن سے متعلق ویڈیو نہ بنا کر دی تو بس سمجھیں کہ آپ کی آفت آگئی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اگر آپ نے کسی دوسرے شخص کی کوئی تحریر پڑھ لی یا اس پر تبصرہ کرلیا تو سیدھا سیدھا تیر کھانے کےلیے تیار ہوجائیں۔
ایسی صورتحال کا سامنا ہمیں زیادہ تر پروفیشن میں اپنے سینئر حضرات کی جانب سے ہوتا ہے۔ اب آپ ان کو برملا کچھ کہہ نہیں سکتے اور دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر بھی نہیں رکھ سکتے۔
اب ہے تو منافقت بری چیز، لیکن آج کل کے اس دور میں صاف گوئی کی بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کسی حد تک لگی لپٹی رکھ کر بھی بات کی جائے۔ تاہم اس طرزعمل کو آپ منافقت نہیں بلکہ ''احتیاط'' کے لفظ سے تعبیر کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ سچی بات ضرور کریں، تاہم اس میں احتیاط کی آمیزش شامل ہونی چاہیے۔
کامیاب افراد سوشل میڈیا کا بہت کم استعمال کرتے ہیں، ایک تو مصروفیت کی بنا پر اور دوسرا وہ اس سوشل میڈیا وار کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت بہت حد تک بڑھ چکی ہے لیکن ہماری ذاتی زندگی اب ذاتی نہیں رہی۔
سوشل میڈیا کے بے جا استعمال اور اس کی جھوٹی خبروں پر اندھادھند یقین نے ہمیں ہمارے اصلی رشتوں سے دور کردیا ہے۔ اب ہم میلوں دور بیٹھے افراد سے عہد و پیمان نبھا رہے ہوتے ہیں اور ایک ہی گھر میں رہتے افراد سے دست و گریباں ہوتے ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ ہماری سوچ اب محدود ہوچکی ہے، جو چند انچ کے موبائل اور کمپیوٹرز سے آگے نکل ہی نہیں سکتی۔ لیکن یہ امید اب بھی باقی ہے کہ زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اب بھی ہم اس غلطی کو سدھار کر دلوں سے نفرتیں نکال سکتے ہیں، لیکن اس کےلیے صرف اس مصنوعی دنیا کی حدود سے باہر آنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایسی اور اس طرح کی بہت سی باتیں آپ کو اس سوشل میڈیائی دور میں سننے کو ملیں گی۔ یہ باتیں آپ کو اس لیے بھی سننے کو ملیں گی کہ ہم ایک دوسرے سے آمنے سامنے نہیں ملتے، ہاں البتہ اپنی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑنے لگے ہیں۔
ایسے بہت سے جملوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔
- ''میری تصویر لائیک کیوں نہیں کی؟''
- ''میری فرینڈ ریکویسٹ کیوں قبول نہ کی؟''
- ''میرے یوٹیوب چینل کو لائیک اور سبسکرائب کریں۔''
- ''ویڈیوز شیئر کرنا تو دور کی بات، آپ نے تو ویڈیو دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی ہوگی۔''
- ''آپ نے میری کتاب پر تبصرہ نہیں بھجوایا۔''
- ''آپ آن لائن تھے لیکن میری پروموشنل ویڈیو شیئر نہیں ہوئی۔''
- ''آپ بہت مصروف ہیں جو میری تصویر پر کوئی کمنٹ نہیں کیا، یا میری کامیابیاں دشمنوں سے ہضم نہیں ہورہیں؟''
دراصل یہ سب صورتحال اس لیے ہے کہ ہم پہلے صرف حسد اور سازشیں کرتے تھے اور کبھی اس کو سامنے لانے اور اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم سوشل میڈیا کی صورت میں میسر آچکا ہے کہ ہم کسی بے کار سے آدمی کو ساتویں آسمان پر بھی پہنچا سکتے ہیں، تو دوسری طرف ہمیں کسی عزت دار کی عزت سرعام نیلام کرنے کا ٹھیکا بھی مل گیا ہے۔
اب جو بات آپ کسی کو آمنے سامنے نہیں بتاسکتے، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی صورت میں لگا دیتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کسی کی بھی تصویر یا پوسٹ یا کوئی بھی چیز آپ کسی دوسرے کو باآسانی فارورڈ کردیتے ہیں اور جس شخص کو یہ تمام چیزیں مل رہی ہوتی ہیں، وہ بھی اندھادھند ان پر یقین کررہا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم ان افراد کے بارے میں جاننے کےلیے بھی بیتاب ہوجاتے ہیں جن کا ہم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب شخصیات کا طلسم ٹوٹنے لگتا ہے تو ہمارے خودساختہ محل زمین بوس ہوجاتے ہیں اور چوٹ ہمیں خود ہی لگتی ہے۔
اسی طرح ہم دوسروں کی شہرت، کامیابیوں اور محنت کے پیچھے خود کو چھپانا چاہتے ہیں۔ چاہے اب یہ سیلفی بنوانا ہو یا کسی اور طرح سے پروموشنل پروگرام کا حصہ بننا۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی ان معرکہ آرائیوں سے نہ صرف آپ کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس کی شدید صورت میں کئی لوگ آپ سے بالکل ہی قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ یعنی آپ نے کالم نہ پڑھا، تصویر پر کمنٹ نہ کیا، لنک کو شیئر نہ کیا، ان کے کاروبار کی پروموشن سے متعلق ویڈیو نہ بنا کر دی تو بس سمجھیں کہ آپ کی آفت آگئی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اگر آپ نے کسی دوسرے شخص کی کوئی تحریر پڑھ لی یا اس پر تبصرہ کرلیا تو سیدھا سیدھا تیر کھانے کےلیے تیار ہوجائیں۔
ایسی صورتحال کا سامنا ہمیں زیادہ تر پروفیشن میں اپنے سینئر حضرات کی جانب سے ہوتا ہے۔ اب آپ ان کو برملا کچھ کہہ نہیں سکتے اور دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر بھی نہیں رکھ سکتے۔
اب ہے تو منافقت بری چیز، لیکن آج کل کے اس دور میں صاف گوئی کی بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کسی حد تک لگی لپٹی رکھ کر بھی بات کی جائے۔ تاہم اس طرزعمل کو آپ منافقت نہیں بلکہ ''احتیاط'' کے لفظ سے تعبیر کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ سچی بات ضرور کریں، تاہم اس میں احتیاط کی آمیزش شامل ہونی چاہیے۔
کامیاب افراد سوشل میڈیا کا بہت کم استعمال کرتے ہیں، ایک تو مصروفیت کی بنا پر اور دوسرا وہ اس سوشل میڈیا وار کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت بہت حد تک بڑھ چکی ہے لیکن ہماری ذاتی زندگی اب ذاتی نہیں رہی۔
سوشل میڈیا کے بے جا استعمال اور اس کی جھوٹی خبروں پر اندھادھند یقین نے ہمیں ہمارے اصلی رشتوں سے دور کردیا ہے۔ اب ہم میلوں دور بیٹھے افراد سے عہد و پیمان نبھا رہے ہوتے ہیں اور ایک ہی گھر میں رہتے افراد سے دست و گریباں ہوتے ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ ہماری سوچ اب محدود ہوچکی ہے، جو چند انچ کے موبائل اور کمپیوٹرز سے آگے نکل ہی نہیں سکتی۔ لیکن یہ امید اب بھی باقی ہے کہ زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اب بھی ہم اس غلطی کو سدھار کر دلوں سے نفرتیں نکال سکتے ہیں، لیکن اس کےلیے صرف اس مصنوعی دنیا کی حدود سے باہر آنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔