کینسر بڑا عالمی چیلنج احتیاط سے شرح اموات میں کمی ممکن ہے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے زیر اہتمام ’’ورلڈ کینسر ڈے‘‘ سیمینار کی رپورٹ
ایکسپریس میڈیا گروپ اور جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے اشتراک سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ''ورلڈ کینسر ڈے'' کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیاگیا جس کی مہمان خصوصی صوبائی وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں جبکہ مہمانان گرامی میں صدر سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان پروفیسرڈاکٹر زیبا عزیز،ہیڈ آف میڈیکل انکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور ڈاکٹرمحمد عباس کھوکھر،سیکرٹری پنجاب کینسر رجسٹری ڈاکٹر فرحانہ بدر، جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آف بینک اشورنس سید رضوان عزیز اور ایگز یکٹو ڈائریکٹر مارکیٹنگ ایکسپریس پبلی کیشنز اظفر نظامی شامل تھے۔
سیمینار میں میڈیکل کے اساتذہ، طلبہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے خصوصی شرکت کی ۔ سیمینار کے انعقاد میں سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان نے خصوصی تعاون کیا۔ سمینارکی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد
(صوبائی وزیر صحت پنجاب)
کینسر کی بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویشناک ہے۔ اس میں ہمارا طرز زندگی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا اگر اپنا لائف سٹائل تبدیل کر لیا جائے تو کینسر کی بیشتر اقسام کا خاتمہ ممکن ہے۔ منہ کا کینسر باعث تشویش ہے اور مردوں میں اس کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ تمباکو نوشی، گٹکے وغیرہ کا استعمال ہے، یہ عادت ترک کر دی جائے تو منہ کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے جس کی باعث مریض کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے لہٰذا اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں70 فیصد مریض اپنے علاج معالجے کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔
حکومت صرف 30 فیصد مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات دیتی ہے۔ کینسر کی بات کی جائے تو اس حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے۔ کینسر کی ادویات و علاج مہنگا ہے لہٰذا ایک خاص حد تک ہی مریض کو ہسپتال میں سہولیات دی جاسکتی ہیں تاہم ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ صحت کے حوالے سے لوگوں کو بہترین سہولیات دیں گے۔تحریک انصاف کی حکومت نے سب سے پہلا کام غرباء کی صحت کو تحفظ دینے کے لیے کیا۔ اس حوالے سے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراع کیا گیا اور اب تک پنجاب میں 62لاکھ خاندانوں کو یہ کارڈ دیئے جا چکے ہیں۔ اس کارڈ کی حد 7لاکھ 20 ہزار روپے ہے تاہم اگر مرض سنگین نوعیت کا ہو اور مزید علاج کی ضرورت ہو تو اس کارڈ کے ذریعے مزید 7 لاکھ روپے تک کا علاج کروایا جاسکتا ہے۔
حکومت مریضوں پر خرچ کرتی رہے گی مگر یہ حل نہیں ہے۔ ہمیں علاج سے پہلے احتیاط کی جانب بڑھنا ہوگا اور اس پر توانائی و وسائل خرچ کرنا ہوں گے۔ لوگوں کو کینسر سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور انہیں تمباکو نوشی، گٹکا و دیگر نشہ آور اشیاء کے نقصان کے بارے میں بھی بتایا جائے تاکہ منہ کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔ یہ درست کہا گیا کہ ہمارا طرز زندگی صحتمندنہیں ہے۔ ہم صحت مند خوراک کے بجائے فاسٹ فوڈ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بچے سبزی کھانے کو تیار نہیں حالانکہ یہ ان کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہمارے بچپن میں نہ لیپ ٹاپ تھے نہ ہی موبائل، ہم کھیل کود زیادہ کرتے تھے اور چست رہتے تھے۔ آج سب اس کے الٹ ہے۔ ہم اپنی ہی غلط عادات کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ماں بچے کو چپ کروانے کیلئے موبائل پکڑا دیتی ہے، ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ اس فون سے نکلنے والی شعاعیں دماغ اور جسم کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ کینسر تکلیف دہ بیماری ہے مگر اس سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر شروع میں ہی اس بیماری کو پکڑ لیا جائے تو اس کا مکمل علاج کیا جاسکتا ہے۔ بریسٹ کینسر کو ابتداء میں آپریشن سے حل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کولون کینسر ہے، اگر اسے بھی وقت پر پکڑ لیا جائے تو مکمل علاج ممکن ہے۔ کینسر کی علامات کا لوگوں کو علم ہونا چاہیے اور اگر جسم میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ جسم اللہ کی امانت ہے لہٰذا ہمیںا س نعمت کا خیال رکھنا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بیماری سے صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔
کینسر کے علاج کے حوالے سے حکومت انکالوجی کے نئے سینٹرز قائم کر رہی ہے، یہ صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔اس حوالے سے ڈی جی خان میں انکالوجی سینٹر کا آغاز کرنے جارہے ہیں جبکہ ملتان کے سینٹر کو وسیع بھی کیا جائے گا۔ حکومت لوگوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات دینے کیلئے کوشاں ہے مگر اس میں وقت لگے گا تاہم پرہیز فوری ممکن ہے۔ اگر ہم وسائل اور توانائی اس پر زیادہ خرچ کریں تو فوری فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس حوالے سے تربیت دینے جارہے ہیں کہ وہ خواتین کو بریسٹ کینسر کے بارے میںآگاہی دیں تاکہ اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح کو کم کیا جاسکے۔پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر پر حکومت کی توجہ ہے اور ہم اس حوالے سے سخت محنت بھی کر رہے ہیں مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی، ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پروفیسرڈاکٹر زیبا عزیز
( صدر سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان)
کینسر ہمارے ملک میں بہت زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، یہ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آفت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2040ء تک ترقی پذیر ممالک میں کینسر موت کی سب سے بڑی وجہ ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں 20 سے 30 فیصد مریض کینسر کی اگلی سٹیج پر مرتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں 70 فیصد مریض کینسر کی تشخیص کے بعد بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ غربت، ناخواندگی ، مرض کی علامات کو نظر انداز کرنا اور کینسر سینٹرز تک رسائی نہ ہونا کینسر کے بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے بڑے شہروں کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میںکینسر سینٹرز موجود ہیں مگر دور دراز علاقوں میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے دیگر علاقوں کے مریضوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر علاج کیلئے شہر جانا پڑتا ہے اور بیشتر لوگ مشکلات کے نہیں آتے اور اگر ایک بار آتے بھی ہیں تو دوبارہ نہیں آتے۔ ہمارے ہاں کینسر کی بنیادی ادویات کی دستیابی کا بھی مسئلہ ہے۔
ادویات زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لہٰذا سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کی ادویات دستیاب ہونی چاہئیں تاکہ مریض کا صحیح علاج ممکن ہوسکے۔ جب صحیح علاج نہیں ہوتا توقبل از وقت موت ، خصوصاََ 65برس سے کم عمر افراد کی شرح اموات بڑھ جاتی ہیں۔ علاج کا مریض پر معاشی و سماجی اثر ہوتا ہے۔ علاج کے کیلئے لوگ اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں اور پورے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس بھی وسائل محدود ہوتے ہیں اور اسے تمام معاملات دیکھنا ہوتے ہیں۔ کینسر ، ہارٹ اٹیک، ذیابطیس و دیگربیماریاں حکومت کیلئے چیلنج ہیں اور اسے تمام امراض کے حوالے سے عوام کو سہولیات دینی ہیں لہٰذا صرف حکومت کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا، ہمیں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔
ایسے انفیکشن جن سے بچ کر کینسر سے بچا جاسکتا ہے ان کی شرح ترقی پذیر ممالک میں 26فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 8 فیصد ہے لہٰذا ہمیں احتیاط کی طرف جانا چاہیے۔ کینسر کی بعض اقسام کا تعلق غربت سے ہے جن میں سرویکل، اسوفیگس اور جگر کا کینسر شامل ہیں۔ مغربی طرز زندگی کے حساب سے دیکھیں تو بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر اور کولوریکٹل کینسر شامل ہیں۔ پاکستان میں پرائمری اور سیکنڈری پری وینشن نہیں ہے۔ لوگوں کو علاج سے پہلے احتیاط اور کینسر کی علامات کے حوالے سے بتایا جائے تو نہ صرف وہ اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اس کی ابتدائی مراحل میں تشخیص بھی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح مریض کی زندگی کے ساتھ ساتھ وسائل کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
دنیا کے مقابلے میں ہم اپنے علاج کیلئے 80 فیصد تک اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ پاکستان کا سالانہ جی ڈی پی2 لاکھ 10 ہزار روپے ہے جبکہ ماہانہ جی ڈی پی 17 ہزار 515 روپے ہے۔ ہمارے ہاں پانچ افراد والے گھر کی ماہانہ اوسط آمدن 87 ہزار575 روپے ہے۔ ہماری 40 فیصد آبادی مختلف اقسام کی غربت کا شکار ہے۔ کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ غریب اپنی صحت پر 5 ہزار روپے خرچ کرسکے گا؟ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی آمدن کا صرف 10 فیصد ان کی صحت پر خرچ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں 71 فیصد اخراجات مریض خود کرتا ہے کیونکہ یہاں ہیلتھ انشورنس نہیں ہے۔ بیماریوں پر اخراجات کی وجہ سے خاندانوں کے غریب ہونے کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
70فیصد سے زائد کینسر کے مریض اپنی 50 سے 100 فیصد بچت یا اثاثہ جات علاج کے اخراجات پورے کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ اگر مرض سنگین ہو تو مریض دنیا سے چلا جاتا ہے اور اس کے خاندان کیلئے زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔انہی وجوہات کی وجہ سے کینسر جیسے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں کینسر کے 6 ہزار 800 نئے کیس سامنے آئے اور اسی سال 6 ہزار 13 کی موت ہوگئی۔ پاکستان میں روزانہ 177 ملین سگریٹ پیئے جاتے ہیں۔ 46 فیصد مرد جبکہ 5.7 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ سال 2014ء میں 64 بلین سگریٹ پر 250بلین روپے خرچ کیے گئے۔
ملک میں 23.9 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ 1 لاکھ 25 ہزار افراد کی موت تمباکو سے لاحق ہونے والے امراض سے ہوتی ہے۔ جب لوگ سگریٹ پیتے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کس طرح ان کے پھیپھڑوں کو متاثر کر رہا ہے۔ امریکا میں ایک سٹڈی کے مطابق جو نوجوان سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ان کے اردگرد موجو د دیگر نوجوان بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں سموگ پر کافی شور مچایا گیا لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ فصلوں کی باقیات کو جلایا جارہا ہے اور ہماری گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑ رہی ہیں۔
لاہور کی آبادی صحت مند نہیں ہے۔ 22 فیصد سالانہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس آلودگی کی وجہ سے کینسر، ہارٹ اٹیک و دیگر بیماریوں میںاضافہ ہوتا ہے ۔ غریب عوام اور مزدور اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحت کی سہولیات تک رسائی بھی نہیں ہے۔ ہر 20میں سے 1 پاکستانی ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہے۔ ہائی رسک آبادی میں ہر 6 میں سے 1 شخص ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔ہم بچیوں کے کان چھدواتے وقت یہ تسلی نہیں کرتے کے آلات سٹریلائزڈ ہیں یا نہیں،یہی عالم ٹیٹو بنواتے وقت بھی ہوتا ہے۔اسی طرح لوگ فٹ پاتھ پر بیٹھے دندان ساز سے دانت نکلواتے ہیں جس کے آلات صاف نہیں ہوتے۔ اس طرح ہیپاٹائٹس پھیلتا ہے۔
اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم بیماری سے پہلے احتیاط کیوں نہیں کرتے؟ہیپاٹائٹس 'سی' سے صرف کینسر ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ H. Pylori معدے کا انفیکشن ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں 90 فیصد افراد کو یہ انفیکشن ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 50 فیصد آبادی اس کا شکار ہے۔ معدے کا کینسر مضر صحت کھانا کھانے سے ہوتا ہے۔ HPV انفیکشن، سرویکل کینسر ہے۔ مردوں میں کینسر کی بہت ساری اقسام آرہی ہیں جن میں دماغ اور گردن کا کینسر، ہونٹ کا کینسر و دیگر اقسام شامل ہیں۔ یہ کینسر انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ویکسینیشن یقینی بنائی جائے تو مرض سے بچا جاسکتا ہے۔
یورپ میں سٹڈی کے مطابق HPV انفیکشن سے ہونے والے سرویکل کینسر، دماغ اور گردن کے کینسر وغیرہ میں ویکسینیشن کی وجہ سے 75 فیصد کمی آئی ہے۔ ایفلوٹوکسن پاکستان میں بہت عام ہے۔ گندم، مرچ، مصالحے و دیگر کھانے کی اشیاء کی سٹوریج محفوظ نہیں ہوتی بلکہ گندی جگہ پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے فنگس بن جاتی ہے جو کھانے کو متاثر کرتی ہے۔ جب یہ کھانا چھوٹے بچے کھاتے ہیں تو یہ فنگس ان کے جسم میں زہریلا مادہ اور کینسر بناتی ہے، اس سے خاص طور پر لیور کینسر ہوتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔20 فیصد سے زائد پاکستانی الکوحل پیتے ہیں۔
ہارڈ لیکر اور دیسی شراب کا کوالٹی کنٹرول نہیں ہے لہٰذا جب یہ معیاری نہیں ہوگی تو پینے والے کا نقصان کرے گی۔ایک عادی شراب نوش جس کی خوراک اچھی نہ ہو وہ کولن کینسر، لیرکس، اسوفیگس، منہ و دیگر اقسام کے کینسر کا شکار ہوسکتا ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنا طرز زندگی تبدیل کرلیں تو 30 فیصدکینسر کے کیس ختم کیے جاسکتے ہیں۔ ہم بچپن سے ہی ورزش نہیں کرتے، فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں۔ اچھی زندگی کیلئے ہمیں اپنے نفس کو مارنا ہوگا۔ پیدل چلنے کو ترجیح دیں، گاڑی دور کسی پارکنگ میں کھڑی کریں۔ اچھا اور معیاری کھانا کھائیں اور اپنے وزن کا خیال کرکھیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہم محفوظ ہوں گے بلکہ ہمارا خاندان بھی خوشحال رہے گا۔
ڈاکٹرمحمد عباس کھوکھر
( ہیڈ آف میڈیکل انکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور)
کینسر کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کینسر سے کیسے بچ سکتے ہیں اور دوسری یہ کہ کینسر کی علامات سے جلد تشخیص کیسے ممکن ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کینسر کی وجہ سے اموات میں کمی آئی ہے، وہاں انہوں نے جلد تشخیص کو بہتر بنایا۔ اگر ہم کینسر کو جلد نہیں پکڑتے اور وہ پھیل جائے تو اس میں ادویات تو بہت ساری استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن اس کو مکمل ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کینسر کی علامات کیا ہیں۔ اس کی بہت ساری علامات ا یسی بھی ہیں جو دیگر بیماریوں میں مشترک ہیں۔ کینسر کی سب سے عام علامت کسی جگہ گلٹی کا نمودار ہونا ہے مگر ہر گلٹی کینسر کی نہیں ہوتی۔ بریسٹ کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام ہے۔
دنیا میں تقریباََ ہر سال 2 ملین سے زائد کینسر کے کیس سامنے آتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ سے زائد کی موت ہوجاتی ہے۔ کینسر اتنا عام ہے لہٰذا سب کو خصوصاََ خواتین کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، کہیں کوئی ایسی تبدیلی تو نہیں جو کینسر کا سبب ہو۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے دیکھا جائے تو بریسٹ میں گلٹی کا نمودار ہونا، گڑھا پڑ جانا، جلد کا رنگ بدلنا ، بلیڈنگ یا ڈسچارج ہونا یا کوئی غیر معمولی عمل کا ہونا کینسر کی علامات ہوسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے۔ جسم میں کسی اور جگہ بھی گلٹی پیدا ہوسکتی ہے۔
اگر یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کر کے مکمل تشخیص کروانا ضروری ہے۔ اس کی تحقیق کے لیے بائیوپسی ہوتی ہے، جس کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہوتی ہے لہٰذا جلد تشخیص کے بعد مکمل علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ کینسر کی علامات میں بلاوجہ یا غیر معمولی طور پر خون کا آناشامل ہے۔ ماہواری کے دوران غیر معمولی خون آرہا ہو، پاخانہ کے دوران خون آئے ، بلغم یا تھوک کے ساتھ خون آرہا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرکے متعلقہ ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ پیشاب یا پاخانہ کی عادت میں غیر معمولی تبدیلی کا آنا بھی کینسر کی علامت ہے۔ اگر پاخانہ میں رکاوٹ محسوس ہورہی ہو، پاخانہ زیادہ آرہا ہو، پاخانہ یا پیشاب میں خون آرہا ہو تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اگر جسم میں کچھ ایسے زخم ہوں جو جلدی ٹھیک نہیں ہورہے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وجہ کیا ہے اور مرض کیا ہے۔ عمومی طور پر زخم 5 سے 7 دن میں ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر نہیں ہورہے تو ان کی تشخیص کرنا بہت ضروری ہے۔یہ وہ علامات ہیں جو ابتدائی تشخیص کیلئے معلوم ہونی چاہئیں۔ جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کینسر ہونے سے کیسے بچا جاسکتا ہے، ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ کوئی بھی علامت ظاہر ہونے کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے رابطہ کریںجو ٹیسٹ وغیرہ کروا کر مرض کی تشخیص کرتے ہوئے علاج کو آگے بڑھا سکے۔ اگر کسی کو ڈر ہے کہ اس کے اندر کینسر ہے یا ہوسکتا ہے تو اس کے لیے کینسر سکریننگ کا طریقہ کار موجود ہے۔اگر ڈاکٹر سے رجوع کر کے سکریننگ کروالیں تو کینسر کے امکانات کو جلد پکڑا جاسکتا ہے۔ ہمی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو ہر تین میں سے ایک زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
میمو گرافی، بریسٹ کینسر سکریننگ اور تشخیص کیلئے اچھا اور سستا ٹیسٹ ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہے۔ 45 سال سے زائد خواتین کو ہر سال یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے یا اگر کوئی لمپ محسوس ہو تو ڈاکٹرکے مشورے سے ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔ یہ اچھا ٹیسٹ ہے جس میں ایک سینٹی میٹر جتنے چھوٹے ٹیومر کی بھی تشخیص ہوسکتی ہے۔ اگر ٹیومر جلدی پکڑا جائے تو زندگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کینسر کے علاج کی صورت میں تکالیف بھی کم ہوسکتی ہیں۔ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو چھوٹے سے آپریشن سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور مزید پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
کلونو سکوپی ایسا ٹیسٹ ہے جس میں آنت کو کیمرے کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ اس میںکوئی ایسا مسئلہ تو نہیں جس سے کینسر ہو۔ 50 سال کے بعد یہ ٹیسٹ کروالینا چاہیے، اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔ سب کو اپنے جسم کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے اور جو علامات یہاں بتائی گئی ہیں ، ظاہر ہونے کی صورت میں بغیر کسی انتظار کے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ عطائیوں کے پاس جا کر وقت ضائع نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ کینسر کی جلد تشخیص سے مرض کا علاج آسانی سے ممکن ہے اور اس کے ساتھ شفایابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحانہ بدر
(سیکرٹری پنجاب کینسر رجسٹری)
ہمارے پاس ہسپتال اور آبادی کے لحاظ سے کینسر رجسٹری ہے۔ ہسپتال پر مبنی رجسٹری ہمیں کینسر کے ان مریضوں کے بارے میں بتاتی ہے جو ہسپتال میں زیر علاج ہوتے ہیں جبکہ آبادی پر مبنی رجسٹری ہمیں کسی خاص جغرفیائی علاقے میں رہنے والی آبادی میں رجسٹرڈ کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا دیتی ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری 2005ء میںقائم کی گئی اور اِس وقت اس کے 47 اراکین اور ملک بھر میں 26 اشتراکی سینٹرز ہیں جن میں سرکاری و نجی دونوں سینٹرز شامل ہیں۔ ڈیٹا مختلف طریقوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہم کاغذی شکل میں اور ڈیٹا کولیکشن موبائل ایپ کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔
یہ ڈیٹا بعد ازاں شوکت خانم ہسپتال کے انفارمیشن سسٹم میں درج کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری کی ویب سائٹ پر کینسر کے حوالے سے تمام ڈیٹا موجود ہے اور وہاں سے عوام یہ ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع ہیں اور یہاں سے ہم 10کروڑ کی آبادی سے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جو پورے ملک کی تقریباََ نصف آبادی بنتی ہے۔ ہم نے لاہور میں کینسر رجسٹریشن کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ اس میں ہمیں مختلف ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیگر اضلاع میں بھی کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔
2005ء میں رجسٹری کے قیام سے لے کر 2018ء تک لاہور کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو کینسر کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ 2005ء میں یہ تعداد 2ہزار 6 تھی جبکہ 2018ء میں 6ہزار 248 ہوگئی جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ سال 2019ء کا ڈیٹا ابھی مرتب کیا جا رہا ہے۔ جب ہم نے اس کا آغاز کیا تو یہ آسان نہیں تھا مگر اب ہمیں بہت سارے سینٹرز کا تعاون حاصل ہے۔ لاہور میں 6 ہزار سے زائد نئے کینسر کے مریضوں کا سامنے آنا بہت تشویشناک بات ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ابھی بھی بے شمار کیسز رپورٹ نہیں ہوئے جو ایک الگ مسئلہ ہے۔ کینسر کے اتنے زیادہ مریضوں سے ڈیل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ہم نے حال ہی میں کینسر کے مریضوں کے حوالے سے 6 سالہ سٹڈی مکمل کی ہے جو ابھی شائع نہیں کی گئی مگر یہ پیپر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے جرنل کے لیے منظور کر لیا گیا ہے جو رواں ماہ شائع ہو جائے گا۔ لاہور کی آبادی کا جائزہ لیں تو یہاں کی 40 فیصد آبادی 15 برس سے کم عمر ہے لہٰذا ہمیں اس فیکٹر کو بھی دیکھنا ہے۔ ہماری آبادی کا گراف ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے۔
ان 6 برسوں کے دوران 33 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس سامنے آئے۔ عمر کے لحاظ سے جائزہ لیں تو نوزائدہ بچوں سے 14 برس کی عمر تک تقریباََ 6 فیصد، 15 سے 19 برس کی عمر تک 2 فیصد جبکہ 90 فیصد سے زائد کیس 20 برس سے 75 برس تک کی عمر میں تشخیص ہوئے۔ 45برس سے 64 برس کی عمر تک کے افراد میں تقریباََ 42 فیصد کینسر کے کیس سامنے آئے، یہ عمر کینسر کے حوالے سے لاہور میں توجہ طلب ہے۔
لوکیمیا، بون میرو ٹیومر اور برین نروس سسٹم، کینسر کی تین عام اقسام ہیں۔ جب یہ پیپر شائع ہوگا تو کینسر کی 10 مختلف اقسام کے حوالے سے اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ مرد اور خواتین کا جائزہ لیا جائے تو خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ کینسر ایک لاکھ خواتین میں سے تقریباََ نصف کو تھا۔ اس کے علاوہ کینسر کی دیگر اقسام بھی خواتین کو لاحق تھی مگر ان کی تعداد کم ہے۔ مردوں میںپروسٹیٹ اور بلیڈر کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ خواتین کو لاحق ہونے والے بریسٹ کینسر سے کئی گنا کم ہے۔ 45 سے 65برس کی عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ اس عمر میں کینسر کی بروقت تشخیص کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح مردوں میں 45 برس کی عمر کے بعد سے پروسٹیٹ کینسر کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پنجاب کینسر رجسٹری لاہور کا ڈیٹا ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ کینسر کے تمام کیس رجسٹرڈ نہیں ہوئے مگر اس کے باوجود کینسر کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم نارتھ ویسٹ کینسر رجسٹری پر بھی کام کر رہے ہیں جس میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے موجود ہیں۔
ہم نے 3 برس قبل اس پر کام کا آغازکیا ہے لہٰذا امید ہے کہ آئندہ برسوں میں ان علاقوں کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کیلئے گلوبوکین 2018ء کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو 20 کروڑ کی آبادی میں 1لاکھ 70 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس جبکہ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ سے زائد کیس سامنے آئے۔ گلوبو کین رپورٹ میں پنجاب کینسر رجسٹری کا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گلوبوکین رپورٹ کے مطابق خواتین میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر پایا جاتا ہے جبکہ مردوں میں لب اور منہ کا کینسرزیادہ ہے ، اس کے بعد پھیپھڑوں کے کینسر کا نمبر آتا ہے۔
اس رپورٹ میں کینسر کے حوالے سے تفصیل سے ڈیٹا موجود ہے۔ 2018ء کی اس رپورٹ میں مردوں اور خواتین میں کینسر کی 5 بڑی اقسام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک لاکھ مرد اور ایک لاکھ خواتین کے اس ڈیٹا کے مطابق خواتین میں 43.9 فیصد بریسٹ کینسر، 8.1 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 7.3 فیصد سروکس یوٹری کینسر، 4.4میں اسوفیگس کینسر جبکہ 3.8 میں کولو ریکٹم کا کینسر ہے۔ اسی طرح مردوں میں 16.3 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 11.5 فیصد پھیپھڑوں کا کینسر، 6.7 فیصد پروسٹیٹ کینسر، 6.5 فیصد اسوفیگس کینسر اور 4.9 فیصد بلیڈر کا کینسر شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بریسٹ کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے، اس کے بعد ہونٹ اور منہ کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر اور اسوفیگس کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں کینسر کی 10 بڑی اقسام کی تشخیص اور اموات کا ڈیٹا موجود ہے جو ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ کینسر رجسٹری بنانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ لاہور کے حوالے سے ڈیٹا کولیشن جاری رہنی چاہیے۔ ملک بھر کے اضلاع میں موجود ماہرین کو سہولیات دینی چاہئیں تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے میں کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کینسر جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے کینسر رجسٹریشن انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
سید رضوان عزیز
( ہیڈ آف بینک اشورنس جوبلیلائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ )
ہمارے ایک ساتھی کو جنوری 2019ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد ہمیںاس بیماری سے ہونے والی پریشانی و مسائل کا ادراک ہوا۔ مریض اور اس کے خاندان پر جذباتی طور پر تو دباؤ ہوتا ہے مگر ان کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ آپ بیماری سے تو لڑ رہے ہوتے ہیں مگر علاج کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ آپ کو پیسے کیلئے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ جب ہمارے ساتھی کو کینسر ہوا تو ہم 6 ماہ کیلئے اس کے ساتھ تھے جن میں وہ علاج معالجے کے مراحل سے گزرا۔ اس کے بعد جوبلی لائف کی مینجمنٹ بیٹھی، اس بیماری کے حوالے سے حل نکالا اور نومبر2019ء میں یہ پراڈکٹ لانچ کی۔
ہم اس بیماری کی تکلیف سے گزرے ہیں، اسی لیے ہم نے یہ پراڈکٹ متعارف کرائی ہے اور ہم پہلی انشورنس کمپنی ہیں جس نے کینسر کے حوالے سے پراڈکٹ لانچ کی۔ دنیا بھر میں 2018ء میں 17 ملین کینسر کے نئے مریض سامنے آئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 2040ء میں کینسر کے 27.5 ملین نئے کیس سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں بھی کینسر کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔ ہر سال ایک لاکھ 70 ہزار کینسر کے نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ 50 ہزار کینسر کے زندہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
کینسر کے اس عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس مرض کے خلاف بھرپور جنگ لڑیں گے مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ لڑائی آسان نہیں ہے۔ کینسر قابل علاج ہے مگر اس کے اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ بسا اوقات یہ اخراجات متوسط پاکستانی کی پہنچ سے بھی باہر ہوجاتے ہیں۔ ادویات اور ریڈی ایشن تھراپی علاج کے ہر مرحلے میں ہوتی ہے جس کے لیے خاطر خواہ رقم درکار ہے۔ جوبلی لائف انشورنس نے پاکستان میں کینسر کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''پاکستان کا پہلا کینسر پروٹیکشن پلان'' دیا ہے۔
یہ پلان کینسر کی عام قسم سے لے کر کمیاب قسم تک کے مریض کو تحفظ دے گا۔ پلان کووریج کی رقم پر بینیفٹ اماؤنٹ 25 فیصد ابتدائی کینسر جبکہ دیر سے تشخیص ہونے والے کینسر کیلئے 100 فیصد ہے۔ پلان کا سالانہ پریمیم 735 روپے سے شروع ہوتا ہے جو تقریباََ 2 روپے روزانہ بنتا ہے۔ پلان کی مدت 10 سے 47 برس ہوسکتی ہے ۔ ہم نے ایسا پلان تیار کیا ہے جو ہیلتھ کیئر کے حوالے سے مریض کو انتہائی مدد فراہم کرے گا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ان سب کے لیے انتہائی اہم سپورٹ سسٹم بنے گا جو کینسر کے مرض سے لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 38 فیصد اوسط گروتھ کے ساتھ ہم یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ منافع بخش اور بیش قیمت لائف انشورنس کمپنی ہیں۔ ہم عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو برووے کار لاتے ہوئے عوامی خدمت کرر ہے ہیں۔
اظفر نظامی
(ایگز یکٹیو ڈائریکٹر مارکیٹنگ ایکسپریس پبلی کیشنز)
ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر برائے صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد، مقررین اور شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جوبلی لائف انشورنس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے اس سیمینار کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ ذرائع ابلاغ کا ادارہ ہوتے ہوئے یہ ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ ہم مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو آگاہی دیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے انشورنس محتسب کی افادیت کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جس کے مہمان خصوصی صدر مملکت عارف علوی تھے۔ دو برسوں سے ہم نے مختلف بیماریوں سے متعلق موضوعات پر سیمینار منعقد کروائے جن میں لوگوں کو بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی اور یہ اہم بات سامنے آئی کہ ''پرہیز علاج سے بہتر ہے''۔ میرے نزدیک اگر اس پر کام کیا جائے تو ہمارے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ آج کے اس سمینار سے میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے حاضرین ،ناضرین اور قارئین کو آگاہی ملے گی اور ان کے علم میں اضافہ ہوگا۔
سیمینار میں میڈیکل کے اساتذہ، طلبہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے خصوصی شرکت کی ۔ سیمینار کے انعقاد میں سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان نے خصوصی تعاون کیا۔ سمینارکی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد
(صوبائی وزیر صحت پنجاب)
کینسر کی بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویشناک ہے۔ اس میں ہمارا طرز زندگی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا اگر اپنا لائف سٹائل تبدیل کر لیا جائے تو کینسر کی بیشتر اقسام کا خاتمہ ممکن ہے۔ منہ کا کینسر باعث تشویش ہے اور مردوں میں اس کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ تمباکو نوشی، گٹکے وغیرہ کا استعمال ہے، یہ عادت ترک کر دی جائے تو منہ کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے جس کی باعث مریض کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے لہٰذا اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں70 فیصد مریض اپنے علاج معالجے کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔
حکومت صرف 30 فیصد مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات دیتی ہے۔ کینسر کی بات کی جائے تو اس حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے۔ کینسر کی ادویات و علاج مہنگا ہے لہٰذا ایک خاص حد تک ہی مریض کو ہسپتال میں سہولیات دی جاسکتی ہیں تاہم ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ صحت کے حوالے سے لوگوں کو بہترین سہولیات دیں گے۔تحریک انصاف کی حکومت نے سب سے پہلا کام غرباء کی صحت کو تحفظ دینے کے لیے کیا۔ اس حوالے سے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراع کیا گیا اور اب تک پنجاب میں 62لاکھ خاندانوں کو یہ کارڈ دیئے جا چکے ہیں۔ اس کارڈ کی حد 7لاکھ 20 ہزار روپے ہے تاہم اگر مرض سنگین نوعیت کا ہو اور مزید علاج کی ضرورت ہو تو اس کارڈ کے ذریعے مزید 7 لاکھ روپے تک کا علاج کروایا جاسکتا ہے۔
حکومت مریضوں پر خرچ کرتی رہے گی مگر یہ حل نہیں ہے۔ ہمیں علاج سے پہلے احتیاط کی جانب بڑھنا ہوگا اور اس پر توانائی و وسائل خرچ کرنا ہوں گے۔ لوگوں کو کینسر سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور انہیں تمباکو نوشی، گٹکا و دیگر نشہ آور اشیاء کے نقصان کے بارے میں بھی بتایا جائے تاکہ منہ کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔ یہ درست کہا گیا کہ ہمارا طرز زندگی صحتمندنہیں ہے۔ ہم صحت مند خوراک کے بجائے فاسٹ فوڈ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بچے سبزی کھانے کو تیار نہیں حالانکہ یہ ان کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہمارے بچپن میں نہ لیپ ٹاپ تھے نہ ہی موبائل، ہم کھیل کود زیادہ کرتے تھے اور چست رہتے تھے۔ آج سب اس کے الٹ ہے۔ ہم اپنی ہی غلط عادات کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ماں بچے کو چپ کروانے کیلئے موبائل پکڑا دیتی ہے، ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ اس فون سے نکلنے والی شعاعیں دماغ اور جسم کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ کینسر تکلیف دہ بیماری ہے مگر اس سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر شروع میں ہی اس بیماری کو پکڑ لیا جائے تو اس کا مکمل علاج کیا جاسکتا ہے۔ بریسٹ کینسر کو ابتداء میں آپریشن سے حل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کولون کینسر ہے، اگر اسے بھی وقت پر پکڑ لیا جائے تو مکمل علاج ممکن ہے۔ کینسر کی علامات کا لوگوں کو علم ہونا چاہیے اور اگر جسم میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ جسم اللہ کی امانت ہے لہٰذا ہمیںا س نعمت کا خیال رکھنا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بیماری سے صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔
کینسر کے علاج کے حوالے سے حکومت انکالوجی کے نئے سینٹرز قائم کر رہی ہے، یہ صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔اس حوالے سے ڈی جی خان میں انکالوجی سینٹر کا آغاز کرنے جارہے ہیں جبکہ ملتان کے سینٹر کو وسیع بھی کیا جائے گا۔ حکومت لوگوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات دینے کیلئے کوشاں ہے مگر اس میں وقت لگے گا تاہم پرہیز فوری ممکن ہے۔ اگر ہم وسائل اور توانائی اس پر زیادہ خرچ کریں تو فوری فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس حوالے سے تربیت دینے جارہے ہیں کہ وہ خواتین کو بریسٹ کینسر کے بارے میںآگاہی دیں تاکہ اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح کو کم کیا جاسکے۔پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر پر حکومت کی توجہ ہے اور ہم اس حوالے سے سخت محنت بھی کر رہے ہیں مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی، ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پروفیسرڈاکٹر زیبا عزیز
( صدر سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان)
کینسر ہمارے ملک میں بہت زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، یہ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آفت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2040ء تک ترقی پذیر ممالک میں کینسر موت کی سب سے بڑی وجہ ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں 20 سے 30 فیصد مریض کینسر کی اگلی سٹیج پر مرتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں 70 فیصد مریض کینسر کی تشخیص کے بعد بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ غربت، ناخواندگی ، مرض کی علامات کو نظر انداز کرنا اور کینسر سینٹرز تک رسائی نہ ہونا کینسر کے بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے بڑے شہروں کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میںکینسر سینٹرز موجود ہیں مگر دور دراز علاقوں میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے دیگر علاقوں کے مریضوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر علاج کیلئے شہر جانا پڑتا ہے اور بیشتر لوگ مشکلات کے نہیں آتے اور اگر ایک بار آتے بھی ہیں تو دوبارہ نہیں آتے۔ ہمارے ہاں کینسر کی بنیادی ادویات کی دستیابی کا بھی مسئلہ ہے۔
ادویات زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لہٰذا سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کی ادویات دستیاب ہونی چاہئیں تاکہ مریض کا صحیح علاج ممکن ہوسکے۔ جب صحیح علاج نہیں ہوتا توقبل از وقت موت ، خصوصاََ 65برس سے کم عمر افراد کی شرح اموات بڑھ جاتی ہیں۔ علاج کا مریض پر معاشی و سماجی اثر ہوتا ہے۔ علاج کے کیلئے لوگ اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں اور پورے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس بھی وسائل محدود ہوتے ہیں اور اسے تمام معاملات دیکھنا ہوتے ہیں۔ کینسر ، ہارٹ اٹیک، ذیابطیس و دیگربیماریاں حکومت کیلئے چیلنج ہیں اور اسے تمام امراض کے حوالے سے عوام کو سہولیات دینی ہیں لہٰذا صرف حکومت کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا، ہمیں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔
ایسے انفیکشن جن سے بچ کر کینسر سے بچا جاسکتا ہے ان کی شرح ترقی پذیر ممالک میں 26فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 8 فیصد ہے لہٰذا ہمیں احتیاط کی طرف جانا چاہیے۔ کینسر کی بعض اقسام کا تعلق غربت سے ہے جن میں سرویکل، اسوفیگس اور جگر کا کینسر شامل ہیں۔ مغربی طرز زندگی کے حساب سے دیکھیں تو بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر اور کولوریکٹل کینسر شامل ہیں۔ پاکستان میں پرائمری اور سیکنڈری پری وینشن نہیں ہے۔ لوگوں کو علاج سے پہلے احتیاط اور کینسر کی علامات کے حوالے سے بتایا جائے تو نہ صرف وہ اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اس کی ابتدائی مراحل میں تشخیص بھی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح مریض کی زندگی کے ساتھ ساتھ وسائل کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
دنیا کے مقابلے میں ہم اپنے علاج کیلئے 80 فیصد تک اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ پاکستان کا سالانہ جی ڈی پی2 لاکھ 10 ہزار روپے ہے جبکہ ماہانہ جی ڈی پی 17 ہزار 515 روپے ہے۔ ہمارے ہاں پانچ افراد والے گھر کی ماہانہ اوسط آمدن 87 ہزار575 روپے ہے۔ ہماری 40 فیصد آبادی مختلف اقسام کی غربت کا شکار ہے۔ کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ غریب اپنی صحت پر 5 ہزار روپے خرچ کرسکے گا؟ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی آمدن کا صرف 10 فیصد ان کی صحت پر خرچ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں 71 فیصد اخراجات مریض خود کرتا ہے کیونکہ یہاں ہیلتھ انشورنس نہیں ہے۔ بیماریوں پر اخراجات کی وجہ سے خاندانوں کے غریب ہونے کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
70فیصد سے زائد کینسر کے مریض اپنی 50 سے 100 فیصد بچت یا اثاثہ جات علاج کے اخراجات پورے کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ اگر مرض سنگین ہو تو مریض دنیا سے چلا جاتا ہے اور اس کے خاندان کیلئے زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔انہی وجوہات کی وجہ سے کینسر جیسے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں کینسر کے 6 ہزار 800 نئے کیس سامنے آئے اور اسی سال 6 ہزار 13 کی موت ہوگئی۔ پاکستان میں روزانہ 177 ملین سگریٹ پیئے جاتے ہیں۔ 46 فیصد مرد جبکہ 5.7 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ سال 2014ء میں 64 بلین سگریٹ پر 250بلین روپے خرچ کیے گئے۔
ملک میں 23.9 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ 1 لاکھ 25 ہزار افراد کی موت تمباکو سے لاحق ہونے والے امراض سے ہوتی ہے۔ جب لوگ سگریٹ پیتے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کس طرح ان کے پھیپھڑوں کو متاثر کر رہا ہے۔ امریکا میں ایک سٹڈی کے مطابق جو نوجوان سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ان کے اردگرد موجو د دیگر نوجوان بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں سموگ پر کافی شور مچایا گیا لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ فصلوں کی باقیات کو جلایا جارہا ہے اور ہماری گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑ رہی ہیں۔
لاہور کی آبادی صحت مند نہیں ہے۔ 22 فیصد سالانہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس آلودگی کی وجہ سے کینسر، ہارٹ اٹیک و دیگر بیماریوں میںاضافہ ہوتا ہے ۔ غریب عوام اور مزدور اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحت کی سہولیات تک رسائی بھی نہیں ہے۔ ہر 20میں سے 1 پاکستانی ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہے۔ ہائی رسک آبادی میں ہر 6 میں سے 1 شخص ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔ہم بچیوں کے کان چھدواتے وقت یہ تسلی نہیں کرتے کے آلات سٹریلائزڈ ہیں یا نہیں،یہی عالم ٹیٹو بنواتے وقت بھی ہوتا ہے۔اسی طرح لوگ فٹ پاتھ پر بیٹھے دندان ساز سے دانت نکلواتے ہیں جس کے آلات صاف نہیں ہوتے۔ اس طرح ہیپاٹائٹس پھیلتا ہے۔
اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم بیماری سے پہلے احتیاط کیوں نہیں کرتے؟ہیپاٹائٹس 'سی' سے صرف کینسر ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ H. Pylori معدے کا انفیکشن ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں 90 فیصد افراد کو یہ انفیکشن ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 50 فیصد آبادی اس کا شکار ہے۔ معدے کا کینسر مضر صحت کھانا کھانے سے ہوتا ہے۔ HPV انفیکشن، سرویکل کینسر ہے۔ مردوں میں کینسر کی بہت ساری اقسام آرہی ہیں جن میں دماغ اور گردن کا کینسر، ہونٹ کا کینسر و دیگر اقسام شامل ہیں۔ یہ کینسر انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ویکسینیشن یقینی بنائی جائے تو مرض سے بچا جاسکتا ہے۔
یورپ میں سٹڈی کے مطابق HPV انفیکشن سے ہونے والے سرویکل کینسر، دماغ اور گردن کے کینسر وغیرہ میں ویکسینیشن کی وجہ سے 75 فیصد کمی آئی ہے۔ ایفلوٹوکسن پاکستان میں بہت عام ہے۔ گندم، مرچ، مصالحے و دیگر کھانے کی اشیاء کی سٹوریج محفوظ نہیں ہوتی بلکہ گندی جگہ پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے فنگس بن جاتی ہے جو کھانے کو متاثر کرتی ہے۔ جب یہ کھانا چھوٹے بچے کھاتے ہیں تو یہ فنگس ان کے جسم میں زہریلا مادہ اور کینسر بناتی ہے، اس سے خاص طور پر لیور کینسر ہوتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔20 فیصد سے زائد پاکستانی الکوحل پیتے ہیں۔
ہارڈ لیکر اور دیسی شراب کا کوالٹی کنٹرول نہیں ہے لہٰذا جب یہ معیاری نہیں ہوگی تو پینے والے کا نقصان کرے گی۔ایک عادی شراب نوش جس کی خوراک اچھی نہ ہو وہ کولن کینسر، لیرکس، اسوفیگس، منہ و دیگر اقسام کے کینسر کا شکار ہوسکتا ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنا طرز زندگی تبدیل کرلیں تو 30 فیصدکینسر کے کیس ختم کیے جاسکتے ہیں۔ ہم بچپن سے ہی ورزش نہیں کرتے، فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں۔ اچھی زندگی کیلئے ہمیں اپنے نفس کو مارنا ہوگا۔ پیدل چلنے کو ترجیح دیں، گاڑی دور کسی پارکنگ میں کھڑی کریں۔ اچھا اور معیاری کھانا کھائیں اور اپنے وزن کا خیال کرکھیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہم محفوظ ہوں گے بلکہ ہمارا خاندان بھی خوشحال رہے گا۔
ڈاکٹرمحمد عباس کھوکھر
( ہیڈ آف میڈیکل انکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور)
کینسر کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کینسر سے کیسے بچ سکتے ہیں اور دوسری یہ کہ کینسر کی علامات سے جلد تشخیص کیسے ممکن ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کینسر کی وجہ سے اموات میں کمی آئی ہے، وہاں انہوں نے جلد تشخیص کو بہتر بنایا۔ اگر ہم کینسر کو جلد نہیں پکڑتے اور وہ پھیل جائے تو اس میں ادویات تو بہت ساری استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن اس کو مکمل ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کینسر کی علامات کیا ہیں۔ اس کی بہت ساری علامات ا یسی بھی ہیں جو دیگر بیماریوں میں مشترک ہیں۔ کینسر کی سب سے عام علامت کسی جگہ گلٹی کا نمودار ہونا ہے مگر ہر گلٹی کینسر کی نہیں ہوتی۔ بریسٹ کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام ہے۔
دنیا میں تقریباََ ہر سال 2 ملین سے زائد کینسر کے کیس سامنے آتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ سے زائد کی موت ہوجاتی ہے۔ کینسر اتنا عام ہے لہٰذا سب کو خصوصاََ خواتین کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، کہیں کوئی ایسی تبدیلی تو نہیں جو کینسر کا سبب ہو۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے دیکھا جائے تو بریسٹ میں گلٹی کا نمودار ہونا، گڑھا پڑ جانا، جلد کا رنگ بدلنا ، بلیڈنگ یا ڈسچارج ہونا یا کوئی غیر معمولی عمل کا ہونا کینسر کی علامات ہوسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے۔ جسم میں کسی اور جگہ بھی گلٹی پیدا ہوسکتی ہے۔
اگر یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کر کے مکمل تشخیص کروانا ضروری ہے۔ اس کی تحقیق کے لیے بائیوپسی ہوتی ہے، جس کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہوتی ہے لہٰذا جلد تشخیص کے بعد مکمل علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ کینسر کی علامات میں بلاوجہ یا غیر معمولی طور پر خون کا آناشامل ہے۔ ماہواری کے دوران غیر معمولی خون آرہا ہو، پاخانہ کے دوران خون آئے ، بلغم یا تھوک کے ساتھ خون آرہا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرکے متعلقہ ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ پیشاب یا پاخانہ کی عادت میں غیر معمولی تبدیلی کا آنا بھی کینسر کی علامت ہے۔ اگر پاخانہ میں رکاوٹ محسوس ہورہی ہو، پاخانہ زیادہ آرہا ہو، پاخانہ یا پیشاب میں خون آرہا ہو تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اگر جسم میں کچھ ایسے زخم ہوں جو جلدی ٹھیک نہیں ہورہے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وجہ کیا ہے اور مرض کیا ہے۔ عمومی طور پر زخم 5 سے 7 دن میں ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر نہیں ہورہے تو ان کی تشخیص کرنا بہت ضروری ہے۔یہ وہ علامات ہیں جو ابتدائی تشخیص کیلئے معلوم ہونی چاہئیں۔ جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کینسر ہونے سے کیسے بچا جاسکتا ہے، ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ کوئی بھی علامت ظاہر ہونے کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے رابطہ کریںجو ٹیسٹ وغیرہ کروا کر مرض کی تشخیص کرتے ہوئے علاج کو آگے بڑھا سکے۔ اگر کسی کو ڈر ہے کہ اس کے اندر کینسر ہے یا ہوسکتا ہے تو اس کے لیے کینسر سکریننگ کا طریقہ کار موجود ہے۔اگر ڈاکٹر سے رجوع کر کے سکریننگ کروالیں تو کینسر کے امکانات کو جلد پکڑا جاسکتا ہے۔ ہمی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو ہر تین میں سے ایک زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
میمو گرافی، بریسٹ کینسر سکریننگ اور تشخیص کیلئے اچھا اور سستا ٹیسٹ ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہے۔ 45 سال سے زائد خواتین کو ہر سال یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے یا اگر کوئی لمپ محسوس ہو تو ڈاکٹرکے مشورے سے ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔ یہ اچھا ٹیسٹ ہے جس میں ایک سینٹی میٹر جتنے چھوٹے ٹیومر کی بھی تشخیص ہوسکتی ہے۔ اگر ٹیومر جلدی پکڑا جائے تو زندگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کینسر کے علاج کی صورت میں تکالیف بھی کم ہوسکتی ہیں۔ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو چھوٹے سے آپریشن سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور مزید پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
کلونو سکوپی ایسا ٹیسٹ ہے جس میں آنت کو کیمرے کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ اس میںکوئی ایسا مسئلہ تو نہیں جس سے کینسر ہو۔ 50 سال کے بعد یہ ٹیسٹ کروالینا چاہیے، اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔ سب کو اپنے جسم کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے اور جو علامات یہاں بتائی گئی ہیں ، ظاہر ہونے کی صورت میں بغیر کسی انتظار کے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ عطائیوں کے پاس جا کر وقت ضائع نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ کینسر کی جلد تشخیص سے مرض کا علاج آسانی سے ممکن ہے اور اس کے ساتھ شفایابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحانہ بدر
(سیکرٹری پنجاب کینسر رجسٹری)
ہمارے پاس ہسپتال اور آبادی کے لحاظ سے کینسر رجسٹری ہے۔ ہسپتال پر مبنی رجسٹری ہمیں کینسر کے ان مریضوں کے بارے میں بتاتی ہے جو ہسپتال میں زیر علاج ہوتے ہیں جبکہ آبادی پر مبنی رجسٹری ہمیں کسی خاص جغرفیائی علاقے میں رہنے والی آبادی میں رجسٹرڈ کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا دیتی ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری 2005ء میںقائم کی گئی اور اِس وقت اس کے 47 اراکین اور ملک بھر میں 26 اشتراکی سینٹرز ہیں جن میں سرکاری و نجی دونوں سینٹرز شامل ہیں۔ ڈیٹا مختلف طریقوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہم کاغذی شکل میں اور ڈیٹا کولیکشن موبائل ایپ کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔
یہ ڈیٹا بعد ازاں شوکت خانم ہسپتال کے انفارمیشن سسٹم میں درج کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری کی ویب سائٹ پر کینسر کے حوالے سے تمام ڈیٹا موجود ہے اور وہاں سے عوام یہ ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع ہیں اور یہاں سے ہم 10کروڑ کی آبادی سے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جو پورے ملک کی تقریباََ نصف آبادی بنتی ہے۔ ہم نے لاہور میں کینسر رجسٹریشن کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ اس میں ہمیں مختلف ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیگر اضلاع میں بھی کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔
2005ء میں رجسٹری کے قیام سے لے کر 2018ء تک لاہور کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو کینسر کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ 2005ء میں یہ تعداد 2ہزار 6 تھی جبکہ 2018ء میں 6ہزار 248 ہوگئی جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ سال 2019ء کا ڈیٹا ابھی مرتب کیا جا رہا ہے۔ جب ہم نے اس کا آغاز کیا تو یہ آسان نہیں تھا مگر اب ہمیں بہت سارے سینٹرز کا تعاون حاصل ہے۔ لاہور میں 6 ہزار سے زائد نئے کینسر کے مریضوں کا سامنے آنا بہت تشویشناک بات ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ابھی بھی بے شمار کیسز رپورٹ نہیں ہوئے جو ایک الگ مسئلہ ہے۔ کینسر کے اتنے زیادہ مریضوں سے ڈیل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ہم نے حال ہی میں کینسر کے مریضوں کے حوالے سے 6 سالہ سٹڈی مکمل کی ہے جو ابھی شائع نہیں کی گئی مگر یہ پیپر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے جرنل کے لیے منظور کر لیا گیا ہے جو رواں ماہ شائع ہو جائے گا۔ لاہور کی آبادی کا جائزہ لیں تو یہاں کی 40 فیصد آبادی 15 برس سے کم عمر ہے لہٰذا ہمیں اس فیکٹر کو بھی دیکھنا ہے۔ ہماری آبادی کا گراف ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے۔
ان 6 برسوں کے دوران 33 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس سامنے آئے۔ عمر کے لحاظ سے جائزہ لیں تو نوزائدہ بچوں سے 14 برس کی عمر تک تقریباََ 6 فیصد، 15 سے 19 برس کی عمر تک 2 فیصد جبکہ 90 فیصد سے زائد کیس 20 برس سے 75 برس تک کی عمر میں تشخیص ہوئے۔ 45برس سے 64 برس کی عمر تک کے افراد میں تقریباََ 42 فیصد کینسر کے کیس سامنے آئے، یہ عمر کینسر کے حوالے سے لاہور میں توجہ طلب ہے۔
لوکیمیا، بون میرو ٹیومر اور برین نروس سسٹم، کینسر کی تین عام اقسام ہیں۔ جب یہ پیپر شائع ہوگا تو کینسر کی 10 مختلف اقسام کے حوالے سے اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ مرد اور خواتین کا جائزہ لیا جائے تو خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ کینسر ایک لاکھ خواتین میں سے تقریباََ نصف کو تھا۔ اس کے علاوہ کینسر کی دیگر اقسام بھی خواتین کو لاحق تھی مگر ان کی تعداد کم ہے۔ مردوں میںپروسٹیٹ اور بلیڈر کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ خواتین کو لاحق ہونے والے بریسٹ کینسر سے کئی گنا کم ہے۔ 45 سے 65برس کی عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ اس عمر میں کینسر کی بروقت تشخیص کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح مردوں میں 45 برس کی عمر کے بعد سے پروسٹیٹ کینسر کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پنجاب کینسر رجسٹری لاہور کا ڈیٹا ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ کینسر کے تمام کیس رجسٹرڈ نہیں ہوئے مگر اس کے باوجود کینسر کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم نارتھ ویسٹ کینسر رجسٹری پر بھی کام کر رہے ہیں جس میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے موجود ہیں۔
ہم نے 3 برس قبل اس پر کام کا آغازکیا ہے لہٰذا امید ہے کہ آئندہ برسوں میں ان علاقوں کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کیلئے گلوبوکین 2018ء کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو 20 کروڑ کی آبادی میں 1لاکھ 70 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس جبکہ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ سے زائد کیس سامنے آئے۔ گلوبو کین رپورٹ میں پنجاب کینسر رجسٹری کا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گلوبوکین رپورٹ کے مطابق خواتین میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر پایا جاتا ہے جبکہ مردوں میں لب اور منہ کا کینسرزیادہ ہے ، اس کے بعد پھیپھڑوں کے کینسر کا نمبر آتا ہے۔
اس رپورٹ میں کینسر کے حوالے سے تفصیل سے ڈیٹا موجود ہے۔ 2018ء کی اس رپورٹ میں مردوں اور خواتین میں کینسر کی 5 بڑی اقسام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک لاکھ مرد اور ایک لاکھ خواتین کے اس ڈیٹا کے مطابق خواتین میں 43.9 فیصد بریسٹ کینسر، 8.1 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 7.3 فیصد سروکس یوٹری کینسر، 4.4میں اسوفیگس کینسر جبکہ 3.8 میں کولو ریکٹم کا کینسر ہے۔ اسی طرح مردوں میں 16.3 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 11.5 فیصد پھیپھڑوں کا کینسر، 6.7 فیصد پروسٹیٹ کینسر، 6.5 فیصد اسوفیگس کینسر اور 4.9 فیصد بلیڈر کا کینسر شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بریسٹ کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے، اس کے بعد ہونٹ اور منہ کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر اور اسوفیگس کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں کینسر کی 10 بڑی اقسام کی تشخیص اور اموات کا ڈیٹا موجود ہے جو ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ کینسر رجسٹری بنانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ لاہور کے حوالے سے ڈیٹا کولیشن جاری رہنی چاہیے۔ ملک بھر کے اضلاع میں موجود ماہرین کو سہولیات دینی چاہئیں تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے میں کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کینسر جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے کینسر رجسٹریشن انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
سید رضوان عزیز
( ہیڈ آف بینک اشورنس جوبلیلائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ )
ہمارے ایک ساتھی کو جنوری 2019ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد ہمیںاس بیماری سے ہونے والی پریشانی و مسائل کا ادراک ہوا۔ مریض اور اس کے خاندان پر جذباتی طور پر تو دباؤ ہوتا ہے مگر ان کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ آپ بیماری سے تو لڑ رہے ہوتے ہیں مگر علاج کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ آپ کو پیسے کیلئے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ جب ہمارے ساتھی کو کینسر ہوا تو ہم 6 ماہ کیلئے اس کے ساتھ تھے جن میں وہ علاج معالجے کے مراحل سے گزرا۔ اس کے بعد جوبلی لائف کی مینجمنٹ بیٹھی، اس بیماری کے حوالے سے حل نکالا اور نومبر2019ء میں یہ پراڈکٹ لانچ کی۔
ہم اس بیماری کی تکلیف سے گزرے ہیں، اسی لیے ہم نے یہ پراڈکٹ متعارف کرائی ہے اور ہم پہلی انشورنس کمپنی ہیں جس نے کینسر کے حوالے سے پراڈکٹ لانچ کی۔ دنیا بھر میں 2018ء میں 17 ملین کینسر کے نئے مریض سامنے آئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 2040ء میں کینسر کے 27.5 ملین نئے کیس سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں بھی کینسر کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔ ہر سال ایک لاکھ 70 ہزار کینسر کے نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ 50 ہزار کینسر کے زندہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
کینسر کے اس عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس مرض کے خلاف بھرپور جنگ لڑیں گے مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ لڑائی آسان نہیں ہے۔ کینسر قابل علاج ہے مگر اس کے اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ بسا اوقات یہ اخراجات متوسط پاکستانی کی پہنچ سے بھی باہر ہوجاتے ہیں۔ ادویات اور ریڈی ایشن تھراپی علاج کے ہر مرحلے میں ہوتی ہے جس کے لیے خاطر خواہ رقم درکار ہے۔ جوبلی لائف انشورنس نے پاکستان میں کینسر کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''پاکستان کا پہلا کینسر پروٹیکشن پلان'' دیا ہے۔
یہ پلان کینسر کی عام قسم سے لے کر کمیاب قسم تک کے مریض کو تحفظ دے گا۔ پلان کووریج کی رقم پر بینیفٹ اماؤنٹ 25 فیصد ابتدائی کینسر جبکہ دیر سے تشخیص ہونے والے کینسر کیلئے 100 فیصد ہے۔ پلان کا سالانہ پریمیم 735 روپے سے شروع ہوتا ہے جو تقریباََ 2 روپے روزانہ بنتا ہے۔ پلان کی مدت 10 سے 47 برس ہوسکتی ہے ۔ ہم نے ایسا پلان تیار کیا ہے جو ہیلتھ کیئر کے حوالے سے مریض کو انتہائی مدد فراہم کرے گا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ان سب کے لیے انتہائی اہم سپورٹ سسٹم بنے گا جو کینسر کے مرض سے لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 38 فیصد اوسط گروتھ کے ساتھ ہم یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ منافع بخش اور بیش قیمت لائف انشورنس کمپنی ہیں۔ ہم عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو برووے کار لاتے ہوئے عوامی خدمت کرر ہے ہیں۔
اظفر نظامی
(ایگز یکٹیو ڈائریکٹر مارکیٹنگ ایکسپریس پبلی کیشنز)
ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر برائے صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد، مقررین اور شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جوبلی لائف انشورنس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے اس سیمینار کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ ذرائع ابلاغ کا ادارہ ہوتے ہوئے یہ ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ ہم مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو آگاہی دیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے انشورنس محتسب کی افادیت کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جس کے مہمان خصوصی صدر مملکت عارف علوی تھے۔ دو برسوں سے ہم نے مختلف بیماریوں سے متعلق موضوعات پر سیمینار منعقد کروائے جن میں لوگوں کو بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی اور یہ اہم بات سامنے آئی کہ ''پرہیز علاج سے بہتر ہے''۔ میرے نزدیک اگر اس پر کام کیا جائے تو ہمارے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ آج کے اس سمینار سے میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے حاضرین ،ناضرین اور قارئین کو آگاہی ملے گی اور ان کے علم میں اضافہ ہوگا۔