سالانہ 9 ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص باعث تشویش ہے ڈاکٹر نعیم جبار

بخار، جسم میں درد، ہڈیوں میں درد، جسم پر سرخ دھبے ، ناک یا منہ سے خون آنا یا گردن میں گٹھلیاں کینسر کی علامات ہیں

انڈس اسپتال میں ہر سال کینسر کے 1000 سے 1200 نئے بچے رجسٹرڈ ہوتے ہیں، ہیماٹالوجسٹ کی ایکسپریس سے گفتگو

انڈس اسپتال میں کنسلٹنٹ ہیماٹالوجسٹ واونکولوجسٹ ڈاکٹر نعیم جبار نے کہا ہے عموما بچوں کے کینسر کی وجہ جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہے، ملک میں کینسرکی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک ہے اور سالانہ 9 ہزار بچوں میں کینسر کے مرض کی تشخیص ہونا خطرناک صورتحال ہے۔

ڈاکٹر نعیم جبار ڈاکٹر نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 2 کروڑ آبادی والے شہرکراچی میں بچوں کے کینسر کے علاج کرنے والے صرف دو سرکاری ادارے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کا بوجھ بڑھ جانے کے باعث اسپتالوں کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے جبکہ اسپتال معیاری علاج فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں، کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کو ترجیحی بنیاد پر کینسر کے مزید اسپتال قائم کرنے، موثر انفراسٹرکچر مرتب کرنے اور آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اداروں کے کوائف پر مشتمل اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا ہر سال 8 سے 9 ہزار بچوں میں کینسر کے مرض کی تشخیص ہوتی ہے، بچوں کے کینسر میں بروقت تشخیص اور آپٹیمل کئیر فراہم کی جائے تو 80 فیصد بچوں کو بچا سکتے ہیں، انڈس اسپتال میں کینسر کے سالانہ 1000 سے 1200 نئے بچے رجسٹرڈ ہوتے ہیں دیگر کینسر کے بچے علاج کے لیے کہاں جائیں گے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کینسر کے علاج کے لیے ادارے موجود نہیں ہیں ، دنیا کے اچھے سینٹرز میں کیمیا کے 90 فیصد بچے ہمیشہ کے لیے بالکل ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

ہمارے یہاں بدقسمتی سے نتائج اچھے نہیں ہیں، پاکستان کے چند بڑے شہروں میں بچوں کے کینسر کے اسپتال قائم ہیں، دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں بچوں کے کینسر کے علاج کے صرف دو سرکاری ادارے ہیں این آئی سی ایچ اور انڈس اسپتال جہاں کراچی سمیت مختلف شہروں سے کینسر میں مبتلا مریض بچے علاج کے لیے آتے ہیں جو مریضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باعث معیاری علاج فراہم نہیں کرپاتے اور دو نجی اسپتال ہیں جہاں علاج بہت مہنگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر مریض سرکاری اسپتال سے علاج کروانے کو ترجیح دیتا ہے جبکہ کئی بچے اسپتال تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔


ڈاکٹر نعیم جبارنے بتایاکہ بچوں میں کینسر کی 12 اقسام ہیں جن میں زیادہ بلڈ کینسر، برین ٹیومر اور غدود کا کینسر ہے، بچوں میں سب سے عام بلڈ کینسر (کیمیا) ہوتا ہے، پاکستان میں تقریبا 35 سے 40 فیصد مریض کیمیا کے آتے ہیں، غدود کا کینسر اور دماغ کا کینسر بہت عام ہے جبکہ دیگر اقسام میں مسلز، ہڈیوں اور گردوں کا کینسر سمیت دیگر اقسام شامل ہیں۔ کینسر کی تشخیص جتنی جلدی ہوگی اس کے ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، فزیشنز میں بھی آگاہی کی کمی ہے۔

بچوں میں بلڈکینسر کی علامات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بخار کا آنا، جسم میں درد ہونا، ہڈیوں میں درد ہونا، جسم پرسرخ دھبے ہونا، ناک یا منہ سے خون آنا یا گردن میں غدود (گھٹلیاں) ظاہرہوناکینسرکی علامات ہیں، علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ایک اچھی لیبارٹری سے بلڈٹیسٹ (سی بی سی) ضرورکروائیں جو خون کے کینسر کی تشخیص میں سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتاہے، کینسر کے تشخیص ہونے کی صورت میں فوری کسی اچھے اسپتال لے جایا جائے تاکہ علاج بروقت کیاجاسکے، کینسرکا عالمی دن دنیا بھر میں 4 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں نا صرف آگاہی فراہم کرنا بلکہ کینسر کے شکار افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔

کینسر تھا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ٹھیک ہو جاؤں گی

انڈس اسپتال میں زیر علاج خون کے کینسر میں مبتلا 14 سالہ زینب کا کہنا تھا کہ جب میں 13 سال کی تھی تو علاج کے لیے اسپتال آئی تھی، علاج بہت اچھا ہوا ہے اب صحت بہت بہتر ہے ، اسپتال میں میرے ٹیسٹ کیے جاتے اوردوائیں دی جاتی ہہیں،زینب کا کہنا تھا کہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ٹھیک بھی ہوجاؤں گی۔

علاج مکمل ہونے کے بعد دوبارہ پڑھائی شروع کرونگی، کوئٹہ بلوچستان سے آئے ہڈی کے کینسر سے متاثرہ بچے رضوان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے کینسر ہے، ٹیسٹ کروانے کے بعد پتہ چلا، خوش قسمتی کی بات ہے کہ علاج ہوگیا اب میں چل پھر سکتا ہوں،مریض بچوں کے ہمراہ آئے والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی کے علاوہ دوسرے دور دراز شہروں میں بھی اسپتال بنائے جائیں ، ملک بھر میں ایسے ادارے بنائیں جائیں جہاں کینسر کا علاج ہوسکے تاکہ ہمیں دور دراز سے کراچی علاج کے لیے نہ آنا پڑے۔
Load Next Story