سلووینیا میں 50 سال بعد پہلی مسجد کا قیام
مسجد کے قیام کی درخواست 1960 میں دی گئی تھی جب کہ تعمیر کا آغاز 2013 میں ہوا تھا
سلووینیا کے مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لے آئی اور 50 سال بعد تمام رکاوٹوں اور مخالفتوں کو شکست دیتے ہوئے پہلی مسجد کا افتتاح کردیا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سلووینیا کے مسلمانوں کی 50 سال سے تعطل کی شکار خواہش نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ دارالحکومت میں قطر کی مالی مدد سے مسلمانوں کے لیے پہلی عبادت گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
سلووینیا میں مسجد کی تعمیر کی درخواست 1960 میں اُس وقت دی گئی تھی جب سلووینیا ایک خودمختار ریاست نہیں تھی بلکہ کمیونسٹ یوسلاویہ کا حصہ تھی تاہم اس وقت سے ہی مسجد کے قیام کی مخالفت کی جاتی رہی۔
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ سے آزادی کے بعد بھی دائیں بازو کے شدت پسندوں نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت جاری رکھی۔ سلووینیا میں کیتھولک مسیحی کُل آبادی کا 73 فیصد ہیں جب کہ 21 فیصد لادین اور 2.4 فیصد مسلمان ہیں۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز 2013 میں ہوا تھا۔
سلووینیا میں مسلمانوں کے رہنما مفتی نیدزاد گریبس نے مسجد کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ آج مسلمان خوشی سے سرشار ہیں اور اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالاتے ہیں۔ مسجد کے قیام سے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سلووینیا کے مسلمانوں کی 50 سال سے تعطل کی شکار خواہش نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ دارالحکومت میں قطر کی مالی مدد سے مسلمانوں کے لیے پہلی عبادت گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
سلووینیا میں مسجد کی تعمیر کی درخواست 1960 میں اُس وقت دی گئی تھی جب سلووینیا ایک خودمختار ریاست نہیں تھی بلکہ کمیونسٹ یوسلاویہ کا حصہ تھی تاہم اس وقت سے ہی مسجد کے قیام کی مخالفت کی جاتی رہی۔
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ سے آزادی کے بعد بھی دائیں بازو کے شدت پسندوں نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت جاری رکھی۔ سلووینیا میں کیتھولک مسیحی کُل آبادی کا 73 فیصد ہیں جب کہ 21 فیصد لادین اور 2.4 فیصد مسلمان ہیں۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز 2013 میں ہوا تھا۔
سلووینیا میں مسلمانوں کے رہنما مفتی نیدزاد گریبس نے مسجد کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ آج مسلمان خوشی سے سرشار ہیں اور اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالاتے ہیں۔ مسجد کے قیام سے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔