تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اورحفیظ تائبؒ جنہیں توصیف مصطفی ؐ کے لیے چُن لیا گیا
خدائے عزوجل نے جناب تائبؒ کے قلم کو یہ محاسن اتنے لامحدود اور فراوانی سے عطا کیے ہیں۔
کسے خبر تھی کہ 14 فروری 1931ء کو سرزمین وطن عزیز پر، سالکِ بادیہ تجرید، بندۂ بے ریا، درویش خُدا مست حضرت مولانا الحاج چراغ دین قادری سروری کے ہاں عبدالحفیظ (جو بعد میں دبستانِ ادب میں حفیظ تائب کے نام سے جلوہ گر ہوئے) کے نام سے ایک ایسا پُھول کھلے گا جس کی خوش بُو سے نہ صرف گوجرانوالا بل کہ پورے پاکستان کی چہار جوانب معطر ہوجائیں گی۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ابتداء سے ہی یہ معصوم کلی نجیب الطرفین کہلائی۔ لڑکپن میں ہی عجز و مسکنت، حلیمی و بُردباری، فیاضی طبع و ثروت اخلاق و مروت، محبّت و شفقت، مہر و وفا چہرے بشر سے ہویدا تھی اور یہ ادائے معصومیت ایک مخصوص بانکپن کے ساتھ دم آخر تک جبین نیاز سے جھلکتی رہی۔ آپ کے والد گرامی مولانا چراغ دین قادری بھی علمی و ادبی محاسن سے پوری طرح بہرہ ور تھے۔ تحفۃ الحرمین، چراغ معرفت اور چراغ حیات انہی کی دل پذیر تخلیقات ہیں۔ جناب حفیظ تائب نے اسی صوفی باصفا کے ہاں جنم لیا۔ آپ پیدا تو اپنے ننھیال کے ہاں پشاور میں ہوئے لیکن آپؒ کا آبائی گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالا ہے۔
مدح ممدوح یزداں ﷺ کرتے ہوئے آپ نے ایک احساس اشتیاق و تفاخر کے ساتھ نعتیہ مطلع میں اس کا اظہار کیا ہے۔ چوں کہ حضور سید المرسلین ﷺ کا ایک اسم گرامی ازروئے قرآن، احمد بھی ہے اسی تقدس مآب نسبت کے ساتھ آپ نے ایک معروف کے ساتھ عجیب آمیختہ تیار کیا۔
خُوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
مجھ پر نظر ازل سے شہہ بحر و بر کی ہے
فطرت و مشیت ایزدی کے عین مطابق یہ سعادتیں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتیں، نگاہ کرم جن دلوں کو اس انعام کے لیے چن لیتی ہیں وہی اس سے بہرہ یاب ہوتے ہیں۔ غزل ہو یا نظم، قصیدہ ہو یا مرثیہ نگاری، رباعیات ہوں یا آزاد نظم، یہ تمام اصناف اپنا الگ مقام رکھتی ہیں اور قریب قریب حدود و قیود کے ضوابط سے مستثنٰی ہوتی ہیں، ان میں اخلاقیات و معاشرتی زاویوں کی اتنی پروا نہیں کی جاتی۔ نہ کسی حدِ ادب کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اہل مجاز کے لب و رخسار اور خدوخال کی عکاسی کرتے ہوئے اہل سخن غلو اور مبالغے کا بے باکانہ مظاہرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مگر صنف نعت گوئی لازماً اور حتماً تقاضائے ادب و احترام کی اسیر ہوتی ہے۔
یہاں ہر اک لفظ میزان میں تُل کر نکلنا چاہیے۔ عبد و معبود میں حد فاصل قائم رکھتے ہوئے میدان نعت میں طبع آزمائی کرنا تلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عظیم شناسائے رموز اصناف نظم و نثر نعت گوئی کے لیے قلم ہاتھ میں لیتے ہوئے کانپ اٹھتے ہیں کہ اگر ایک لفظ بھی آداب محبت ممدوح خدا سے فروتر نکل گیا تو کہیں کارکنان قضا و قدر اٹھا کر دارالبوار میں نہ پھینک دیں۔ میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ مبداء فیاض نے مولانا الحاج چراغ دین قادریؒ کے فرزند ارجمند اور بندہ بے ریا جناب عبدالمجید منہاس کے برادر اکبر حضرت حفیظ تائب کو ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے حبیب مکرمؐ کی مدح و توصیف کے لیے چُن لیا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عاشق صادق کی کلک گہر بار کو سارے کا سارا احساس تقدس و تحرم بھی مرحمت فرما دیا جو فن نعت گوئی کا یک بیش قیمت اثاثہ ہوتا ہے۔ حضرت حفیظ تائب عطائے رب ذوالمنن پر کتنے شاداں و فرحاں ہیں ذرا اس شعر پر غور فرمائیے۔
کتنا بڑا کرم ہے کہ تائب سا بے ہنر
توصیف مصطفیؐ کے لیے چُن لیا گیا
اور پھر مزید یہ کہ خدائے عزوجل نے جناب تائبؒ کے قلم کو یہ محاسن اتنے لامحدود اور فراوانی سے عطا کیے ہیں کہ صفحۂ قرطاس پر قلم جنبش میں آتے ہی دل نشیں تشبیہات و استعارات اور تلمیہات و کنایات کا ایک مینا بازار سجتا ہوا نظر آتا ہے۔ الفاظ و معانی کا ایک سمندر اور ذوق و جستجو کا بحر بے کراں موج زن ہوتا ہے جس کی تلاطم خیز موجیں فدایان سرزمین بطحا اور جاں سپاران مصطفیٰ ﷺ کو چشم تخیل میں طواف بیت اﷲ اور طواف روضۂ خیرالبشر ﷺ میں مصروف و محو کردیتی ہے۔ جناب حفیظ تائب ایک ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں ایک عاشق مسکین ایک طرف تجلیات جلال کی لمعہ افشانیوں کا ایک نظارہ کرتا ہے اور دوسری طرف جلوہ ہائے جمال کی بے کرانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور نعت گوئی میں یہ نادرالوجود کمال ہر کسی کے حصے میں نہیں آسکتا۔ اپنے ان فنی محاسن کا جناب تائب کو بھی خوب احساس تھا لیکن اس میں احساس برتری کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ عجز و انکسار کی ایک ایسی لہر ہے جو ان کے وجود کا ناگزیر حصہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
تھی ہزار تیرگی فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال پر نظر شہۂ عربیؐ رہی
جناب حفیظ تائب کا ذوق نعت گوئی جس دور میں پروان چڑھتا رہا اور پھر بہ حمد اﷲ ارتفاع ارتقاء کے کمال پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دور میں لینن ازم اور مارکس ازم کے پرستار بھی اپنے نظریات کا ڈھول پیٹنے میں مصروف تھے۔ وہ اہل پاکستان کو روحانیت سے دُور لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس مقصد کی کام یابی کے لیے اس گروہ کو غیر ملکی آقاؤں کی امداد بھی حاصل تھی۔ ان لوگوں کا واضح مقصد یہ تھا کہ اہل وطن کے قلوب و اذہان سے اصناف نظم کے توسل سے محبت خدا اور رسول ﷺ محو کردی جائے اور آہستہ آہستہ لینن اور فرائڈ کے نظریات کو راسخ کیا جائے۔ مگر خدا بھلا کرے عاشق رسولؐ حضرت حفیظ تائبؒ کا کہ آپ نے فن نعت گوئی کو اس جولانی طبع اور زوردار طریقے سے رواج دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں تطہیر و تقدیس و حرمت توصیف مصطفیٰ کا ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ انقلاب اتنا کیف آفریں اور وجد آگیں تھا کہ قصر مارکس ازم میں زلزلہ آگیا۔
نوبت بہ ایں جا رسید کہ تبدیلی کے خواہش مند قافلہ سالاروں کی نوک قلم کا رخ بھی نعت گوئی کی طرف پھر گیا۔ اور وہ لوگ اس عہد کے نام ور نعت گو کہلائے۔ یہ سب فدا کار مصطفیٰ حضرت حفیظ تائبؒ کی دل نواز شخصیت اور ان کے قلم کا اعجاز تھا۔ وہ دور اور یقیناً آج کا دور بھی جناب حفیظ تائبؒ کا دور کہلاتا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک بڑے بڑے صاحبان فن اسلوب نعت گوئی کے اس امام کے تتبع میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی محفل آپ کے ذکر خیر کے بعد مکمل نہیں ہوتی اور اس میں شامل ہر دانا و بینا اور صاحب فراست نعت خواں کلام حفیظ تائب کی خوش بُو سے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں۔ جناب تائبؒ کے کلام میں مقصدیت و معنویت بہ درجہ اتم ہویدا نظر آتی ہے۔
ہر شعر جذبہ عشق رسول ﷺ سے مزین سرشار و سیراب معلوم ہوتا ہے۔ حضور سید دو عالمؐ کی سیرت طیبہ کی لہک نسیم صبح کے روح افزاء جھونکوں کی طرح ہر رگ جاں میں سما جاتی ہے اور پھر نعت کا یہ جگ مگاتا ہوا چراغ قاری و سامع کے دل و دماغ کو منور کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ جناب تائب کا کلام امت مسلمہ کے ارباب دانش کو دعوت فکر بھی دیتا ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس حقیقت کی طرف غور کیا ہے کہ ہم ہیروں اور جواہرات کے امین ہونے کے باوجود کیوں کنکروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہم عصائے موسوی کے حامل ہونے کے باوجود کیوں رسیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اغیار کی دریوزہ گری پر کیوں مجبور ہیں۔ اس کا بڑا شافی جواب حفیظ تائب نے دیا ہے اور یہ شعر بار بار پڑھنے سے انسان کے دیدہ دل کے دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یانبیؐ
اے نوید مسیحا! تیری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہُوا
اس کے کم زور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبیؐ
اگر زندگی نے وفا کی تو میرا مصمم ارادہ ہے کہ جناب حفیظ تائبؒ کے کلام میں مقصدیت سے معمور جو دُرہائے آب دار لعل و جواہر کی طرح بکھرے پڑے ہیں، ان کی توضیحات و تشریحات پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی جائے۔ جو اہل فکر فن کے لیے چراغ راہ تائب ہو اور میرے لیے بھی توشۂ آخرت بن جائے۔ آپ کے برادر اصغر جناب عبدالمجید خصوصی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے برادر محتشم کی یاد میں ہمہ وقت کسی نہ کسی محفل کا اہتمام کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ اﷲ رب العزت انہیں صحت کاملہ سے نوازے اور مزاج شناس نعت حضرت تائبؒ کی لحد کو بقعۂ نور بنادے جس نے ملک پاکستان کو جذبۂ عشق رسول ﷺ کی تابانیت سے منور کردیا ہے۔
یوں تو حضورؐ کے لاکھوں ہیں مداح خواں
تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اور
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ابتداء سے ہی یہ معصوم کلی نجیب الطرفین کہلائی۔ لڑکپن میں ہی عجز و مسکنت، حلیمی و بُردباری، فیاضی طبع و ثروت اخلاق و مروت، محبّت و شفقت، مہر و وفا چہرے بشر سے ہویدا تھی اور یہ ادائے معصومیت ایک مخصوص بانکپن کے ساتھ دم آخر تک جبین نیاز سے جھلکتی رہی۔ آپ کے والد گرامی مولانا چراغ دین قادری بھی علمی و ادبی محاسن سے پوری طرح بہرہ ور تھے۔ تحفۃ الحرمین، چراغ معرفت اور چراغ حیات انہی کی دل پذیر تخلیقات ہیں۔ جناب حفیظ تائب نے اسی صوفی باصفا کے ہاں جنم لیا۔ آپ پیدا تو اپنے ننھیال کے ہاں پشاور میں ہوئے لیکن آپؒ کا آبائی گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالا ہے۔
مدح ممدوح یزداں ﷺ کرتے ہوئے آپ نے ایک احساس اشتیاق و تفاخر کے ساتھ نعتیہ مطلع میں اس کا اظہار کیا ہے۔ چوں کہ حضور سید المرسلین ﷺ کا ایک اسم گرامی ازروئے قرآن، احمد بھی ہے اسی تقدس مآب نسبت کے ساتھ آپ نے ایک معروف کے ساتھ عجیب آمیختہ تیار کیا۔
خُوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
مجھ پر نظر ازل سے شہہ بحر و بر کی ہے
فطرت و مشیت ایزدی کے عین مطابق یہ سعادتیں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتیں، نگاہ کرم جن دلوں کو اس انعام کے لیے چن لیتی ہیں وہی اس سے بہرہ یاب ہوتے ہیں۔ غزل ہو یا نظم، قصیدہ ہو یا مرثیہ نگاری، رباعیات ہوں یا آزاد نظم، یہ تمام اصناف اپنا الگ مقام رکھتی ہیں اور قریب قریب حدود و قیود کے ضوابط سے مستثنٰی ہوتی ہیں، ان میں اخلاقیات و معاشرتی زاویوں کی اتنی پروا نہیں کی جاتی۔ نہ کسی حدِ ادب کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اہل مجاز کے لب و رخسار اور خدوخال کی عکاسی کرتے ہوئے اہل سخن غلو اور مبالغے کا بے باکانہ مظاہرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مگر صنف نعت گوئی لازماً اور حتماً تقاضائے ادب و احترام کی اسیر ہوتی ہے۔
یہاں ہر اک لفظ میزان میں تُل کر نکلنا چاہیے۔ عبد و معبود میں حد فاصل قائم رکھتے ہوئے میدان نعت میں طبع آزمائی کرنا تلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عظیم شناسائے رموز اصناف نظم و نثر نعت گوئی کے لیے قلم ہاتھ میں لیتے ہوئے کانپ اٹھتے ہیں کہ اگر ایک لفظ بھی آداب محبت ممدوح خدا سے فروتر نکل گیا تو کہیں کارکنان قضا و قدر اٹھا کر دارالبوار میں نہ پھینک دیں۔ میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ مبداء فیاض نے مولانا الحاج چراغ دین قادریؒ کے فرزند ارجمند اور بندہ بے ریا جناب عبدالمجید منہاس کے برادر اکبر حضرت حفیظ تائب کو ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے حبیب مکرمؐ کی مدح و توصیف کے لیے چُن لیا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عاشق صادق کی کلک گہر بار کو سارے کا سارا احساس تقدس و تحرم بھی مرحمت فرما دیا جو فن نعت گوئی کا یک بیش قیمت اثاثہ ہوتا ہے۔ حضرت حفیظ تائب عطائے رب ذوالمنن پر کتنے شاداں و فرحاں ہیں ذرا اس شعر پر غور فرمائیے۔
کتنا بڑا کرم ہے کہ تائب سا بے ہنر
توصیف مصطفیؐ کے لیے چُن لیا گیا
اور پھر مزید یہ کہ خدائے عزوجل نے جناب تائبؒ کے قلم کو یہ محاسن اتنے لامحدود اور فراوانی سے عطا کیے ہیں کہ صفحۂ قرطاس پر قلم جنبش میں آتے ہی دل نشیں تشبیہات و استعارات اور تلمیہات و کنایات کا ایک مینا بازار سجتا ہوا نظر آتا ہے۔ الفاظ و معانی کا ایک سمندر اور ذوق و جستجو کا بحر بے کراں موج زن ہوتا ہے جس کی تلاطم خیز موجیں فدایان سرزمین بطحا اور جاں سپاران مصطفیٰ ﷺ کو چشم تخیل میں طواف بیت اﷲ اور طواف روضۂ خیرالبشر ﷺ میں مصروف و محو کردیتی ہے۔ جناب حفیظ تائب ایک ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں ایک عاشق مسکین ایک طرف تجلیات جلال کی لمعہ افشانیوں کا ایک نظارہ کرتا ہے اور دوسری طرف جلوہ ہائے جمال کی بے کرانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور نعت گوئی میں یہ نادرالوجود کمال ہر کسی کے حصے میں نہیں آسکتا۔ اپنے ان فنی محاسن کا جناب تائب کو بھی خوب احساس تھا لیکن اس میں احساس برتری کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ عجز و انکسار کی ایک ایسی لہر ہے جو ان کے وجود کا ناگزیر حصہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
تھی ہزار تیرگی فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال پر نظر شہۂ عربیؐ رہی
جناب حفیظ تائب کا ذوق نعت گوئی جس دور میں پروان چڑھتا رہا اور پھر بہ حمد اﷲ ارتفاع ارتقاء کے کمال پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دور میں لینن ازم اور مارکس ازم کے پرستار بھی اپنے نظریات کا ڈھول پیٹنے میں مصروف تھے۔ وہ اہل پاکستان کو روحانیت سے دُور لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس مقصد کی کام یابی کے لیے اس گروہ کو غیر ملکی آقاؤں کی امداد بھی حاصل تھی۔ ان لوگوں کا واضح مقصد یہ تھا کہ اہل وطن کے قلوب و اذہان سے اصناف نظم کے توسل سے محبت خدا اور رسول ﷺ محو کردی جائے اور آہستہ آہستہ لینن اور فرائڈ کے نظریات کو راسخ کیا جائے۔ مگر خدا بھلا کرے عاشق رسولؐ حضرت حفیظ تائبؒ کا کہ آپ نے فن نعت گوئی کو اس جولانی طبع اور زوردار طریقے سے رواج دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں تطہیر و تقدیس و حرمت توصیف مصطفیٰ کا ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ انقلاب اتنا کیف آفریں اور وجد آگیں تھا کہ قصر مارکس ازم میں زلزلہ آگیا۔
نوبت بہ ایں جا رسید کہ تبدیلی کے خواہش مند قافلہ سالاروں کی نوک قلم کا رخ بھی نعت گوئی کی طرف پھر گیا۔ اور وہ لوگ اس عہد کے نام ور نعت گو کہلائے۔ یہ سب فدا کار مصطفیٰ حضرت حفیظ تائبؒ کی دل نواز شخصیت اور ان کے قلم کا اعجاز تھا۔ وہ دور اور یقیناً آج کا دور بھی جناب حفیظ تائبؒ کا دور کہلاتا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک بڑے بڑے صاحبان فن اسلوب نعت گوئی کے اس امام کے تتبع میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی محفل آپ کے ذکر خیر کے بعد مکمل نہیں ہوتی اور اس میں شامل ہر دانا و بینا اور صاحب فراست نعت خواں کلام حفیظ تائب کی خوش بُو سے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں۔ جناب تائبؒ کے کلام میں مقصدیت و معنویت بہ درجہ اتم ہویدا نظر آتی ہے۔
ہر شعر جذبہ عشق رسول ﷺ سے مزین سرشار و سیراب معلوم ہوتا ہے۔ حضور سید دو عالمؐ کی سیرت طیبہ کی لہک نسیم صبح کے روح افزاء جھونکوں کی طرح ہر رگ جاں میں سما جاتی ہے اور پھر نعت کا یہ جگ مگاتا ہوا چراغ قاری و سامع کے دل و دماغ کو منور کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ جناب تائب کا کلام امت مسلمہ کے ارباب دانش کو دعوت فکر بھی دیتا ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس حقیقت کی طرف غور کیا ہے کہ ہم ہیروں اور جواہرات کے امین ہونے کے باوجود کیوں کنکروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہم عصائے موسوی کے حامل ہونے کے باوجود کیوں رسیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اغیار کی دریوزہ گری پر کیوں مجبور ہیں۔ اس کا بڑا شافی جواب حفیظ تائب نے دیا ہے اور یہ شعر بار بار پڑھنے سے انسان کے دیدہ دل کے دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یانبیؐ
اے نوید مسیحا! تیری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہُوا
اس کے کم زور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبیؐ
اگر زندگی نے وفا کی تو میرا مصمم ارادہ ہے کہ جناب حفیظ تائبؒ کے کلام میں مقصدیت سے معمور جو دُرہائے آب دار لعل و جواہر کی طرح بکھرے پڑے ہیں، ان کی توضیحات و تشریحات پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی جائے۔ جو اہل فکر فن کے لیے چراغ راہ تائب ہو اور میرے لیے بھی توشۂ آخرت بن جائے۔ آپ کے برادر اصغر جناب عبدالمجید خصوصی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے برادر محتشم کی یاد میں ہمہ وقت کسی نہ کسی محفل کا اہتمام کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ اﷲ رب العزت انہیں صحت کاملہ سے نوازے اور مزاج شناس نعت حضرت تائبؒ کی لحد کو بقعۂ نور بنادے جس نے ملک پاکستان کو جذبۂ عشق رسول ﷺ کی تابانیت سے منور کردیا ہے۔
یوں تو حضورؐ کے لاکھوں ہیں مداح خواں
تائب سی لکھ رہا ہے مگر کون نعت اور