اتحادیوں سے مثالی تعلقات ہیں کوئی اختلاف ہے نہ شکایت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار
اپنے علاقے کی پسماندگی کے باعث مریضوں کو اپنے ہاتھوں دم میں توڑتے دیکھا ہے،وزیرا علیٰ پنجاب عثمان بزدارکا پہلا انٹرویو
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پنج دریاؤں سے منسوب نام پنجاب کی حکمرانی ہر دور میں ہر طاقت ور کی خواہش رہی، کیوں کہ نہایت اہمیت کے حامل جغرافیہ محل وقوع کے ساتھ پنجاب کی زرخیز مٹی وافر پانی اور چاروں موسموں کی وجہ سے فصل نہیں سونا اگلتی ہے، لیکن پنجاب کے باسیوں کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہاں حق حکمرانی ہمیشہ طاقت ور خاندانوں یا قبیلوں کے پاس رہا۔
سکندراعظم، بدھوؤں، منگولوں، مغلوں، افغانیوں، مرہٹوں، سکھوں اور برطانوی سامراج نے یہاں کی سونا اگلتی دھرتی اور باسیوں کے ذرخیز دماغوں سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بدلے انہیں محرومیوں اور پسماندگی کے سوا کچھ نہ دیا۔
تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستان کے حصے میں آنے والا پنجاب آج بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک سے بڑا ہے، لیکن افسوس مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل وطن عزیز معرض وجود میں تو آ گیا، لیکن حکمرانی کی ڈگر نہ بدلی۔ پنجاب کے اعلی ترین عہدوں پر بڑے خاندانوں کے افراد ہی براجمان رہے، لیکن 70سال بعد آج پنجاب کے باشندوں کو ایک ایسا حکمران نصیب ہوا ہے، جو انہیں میں سے ہے۔
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصل تونسہ شریف کے ایک چھوٹے سے علاقے ''بارتھی'' سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان احمد خان بزدار آج پنجاب کے سب سے بڑے عہدے یعنی وزارت اعلی پر فائز ہوئے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے والد مرحوم فتح محمد خان بزدار ایک علم دوست انسان تھے، جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا۔ وہ 1981ء میں وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن، 1985ء، 2002ء اور 2008ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔
مئی 1969ء میں سردار فتح محمد خان بزدار کے گھر میں جنم لینے والے عثمان بزدار شرافت، ملنساری، عجزوانکساری جیسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ عثمان بزدار نے پرائمری تعلیم آبائی علاقے بارتھی سے حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے اولیاء کی دھرتی یعنی ملتان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجوایشن کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے ماسٹر اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ قانون کی ڈگری کے توسط سے وہ ہائی کورٹ بار کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 2001ء عملی سیاست کا آغاز تونسہ شریف کی تحصیل نظامت سے کیا۔ وہ ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
نظامت کے ذریعے علاقہ کی خدمت کرنے پر انہیں وہاں کے باسیوں میں خوب پذیرائی ملی اور 2018ء میں تحصیل تونسہ اور کوہ سلیمان کے عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں صوبائی اسمبلی میں پہنچا دیا، جہاں انہیں قدرت نے وہ عزت عطا فرمائی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وزارت اعلی کی کوئی خواہش تھی نہ کبھی اس دوڑ میں شامل ہوا۔ ''ایکسپریس'' نے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد بیان کرنے سے قبل یہاں یہ ذکر کرنا ''ایکسپریس'' کے لئے ایک اعزاز ہے کہ کسی بھی سنڈے میگزین کے لئے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا یہ پہلا انٹرویو ہے۔
ایکسپریس: وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے لوگ آپ کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، کیا آپ ہمارے قارئین کے لئے اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟ خاص طور پر بزدار قبیلے کے بارے میں ضرور بتائیے۔
وزیراعلی پنجاب: سب سے پہلے تو میں ''ایکسپریس'' کی ٹیم کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں، بلاشبہ روزنامہ ایکسپریس بہت عمدہ اور باوقار صحافت کا علمبردار ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج مجھے آپ کے ذریعے ''ایکسپریس'' کے قارئین تک ابلاغ کا موقع مل رہا ہے۔ اچھا اب میں آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب تو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچ قبائل آباد ہیں، جن میں بزدار سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ بلوچ قبائل کے جد امجد میر چاکر خان رند تھے۔ آپ جانتے ہیں قبائلی نظام میں قبیلے کے سردار کو نہ صرف انتظامی بلکہ دیگر اختیارات بھی ہیں تو آپ کے لئے یہ بات نہایت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ عام عوامی تاثر کے برعکس قبائلی علاقے پرامن اور پرسکون ہیں۔ وہاں جرائم کی شرح ناقابل یقین حد تک کم ہے کیوں کہ قبائل میں سردار کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، اس حوالے سے آپ کے احساسات کیا ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: پسماندگی کا لفظ کوہ سلیمان کے خشک اور بیابان علاقے میں آباد لوگو ںکی محرومیوں کا احاطہ کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ لاہور اور ملتان سے چند گھنٹے کی مسافت پر واقع صوبہ پنجاب کا یہ علاقہ جدید دور کی سہولتوں سے کیسے آشنا ہو سکتا تھا، جہاں قیام پاکستان کے 71 سال گزرنے کے بعد آج بجلی آئی ہو۔ کوہ سلیمان کے جفاکش باسیوں کیلئے زندگی محض جہد مسلسل ہے جس میں سہولت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور آسائش کا تو تصور کرنا بھی محال ہے۔ شیشے کے خنک کمروں میں بیٹھ کر کوہ سلیمان کی قبائلی زندگی کے بارے میں سوچنا محال ہے۔ وہاں آج بھی کھیتی باڑی کے لئے بیل اور سواری کے لئے اونٹ اور گدھے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے قبیلے میںبھیڑ بکریاں پالنے کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
ایکسپریس: وزیراعظم عمران خان نے آپ کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس بندے کے گھر میں تو بجلی تک نہیں ۔ آپ کی فیملی عرصہ دراز سے کار حکومت میں شامل رہی تو اس کے باوجود ان علاقوں کا سہولیات سے محروم ہونا کیا آپ کی ناکامی نہیں تصور کیا جائے گا؟
وزیراعلی پنجاب: اس ضمن میں، میں عرض کروں کہ علاقہ میں پہلا سکول میرے دادا محترم اور پہلی سڑک میرے والد نے بنوائی، جس کے بعد وہ مسلسل اس علاقے کی ترقی کے لئے تگ و دو کرتے رہے اور آج میں اس مشن کو لے کر آگے چل رہا ہوں۔
ایکسپریس: بارتھی جیسے علاقوں کے بارے میں پنجاب کے عام لوگ نہیں جانتے، آپ کچھ بتانا پسند کریںگے؟
وزیراعلی پنجاب: میں بارتھی کے چپے چپے سے واقف اور وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا خود گواہ ہوں۔ میں نے صحت کی سہولتیں اور آمد و رفت کیلئے راستے ناپید ہونے کی وجہ سے مریضوں کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا۔ کوہ سلیمان کے خشک خاکستری پہاڑوں کے مکین سہولتوں کے نام سے ہی ناآشنا تھے۔ شہروں کے مکین ان باتوں کو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے تو جا کر دیکھے جب بارتھی کے پہاڑوں کی اوٹ میں ڈھلتے سورج کے ساتھ زندگی زندگی آنکھیں موند لیتی ہے۔
ایکسپریس: کیا آپ کو وزرات اعلیٰ ملنے کے بعد ان لوگوں کے مقدر میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے؟
وزیراعلی پنجاب: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تبدیلی نہ صرف آ رہی ہے بلکہ دکھائی بھی دے رہی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کے لگ بھگ چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل بتانے کا یہاں وقت نہیں، تاہم یہ بتانا چاہوں گا کہ 71 سال کے بعد بارتھی کے لوگ بجلی سے آشنا ہوئے، کوہ سلیمان سے 7 کلب روڈ کا سفر اسی تبدیلی کا نقیب ہے، جس کا برسوں انتظار رہا۔
ایکسپریس:ملکی سیاست میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس منصب پر کام کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: وزیراعظم ملک کا چیف ایگز یکٹو ہے اورآئینی سربراہ ہے ،پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی وزارت اعلیٰ کا منصب کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی توقعات کا معیار بہت بلند ہے۔ سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی ضروری ہے۔
ایکسپریس: بلاشبہ آپ باوقار اورشریف النفس شخصیت کے حامل ہیں لیکن بسا اوقات آپ کے بارے میں ناگفتنی پھیلا دی جاتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟
وزیراعلی پنجاب:دیکھئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ۔نہ مجھے اور نہ میرے خاندان کو کسی قسم کی کوئی خواہش یا لالچ ہے۔ ہاں میڈیا کے کچھ دوست اپنے خیالات کو خبر کی شکل دیتے ہیں تو ان کے بارے میں ہدایت کی دعا کے سواکیا کرسکتا ہوں۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ درست مگر سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کے علاقائی تعصب کے بارے میں آپ کیا کہیںگے۔ ن لیگ نے لاہور کو بنایا ،پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے ملتان کو بنایا۔اسی طرح اب آپ ڈی جی خان میں آئے روز کسی نہ کسی ترقیاتی پروگرام کا افتتاح کررہے ہوتے ہیں۔
وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! میں نے روز اول سے یہ واضح کردیا تھا کہ ہم صوبے کے ہر شہر اور ہر حصے کی یکساں ترقی کے ویژن پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ترقی ہر شہر کا حق ہے چاہے وہ لاہور ہو ملتان یا ڈیرہ غازی خان۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے ایسے لائے جائیں جو عوام کی ضرورت کے مطابق ہوں اوران کی تکمیل پر عوام ریلیف محسوس کریں ۔میں آپ کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ گزشتہ حکومت لاہور سمیت صوبے کے متعدد منصوبے ادھورے چھوڑگئی اور متعدد منصوبے ایسے تھے جن کی ادائیگیاں ہمیں آکر کرنا پڑیں، لیکن ہم نے کسی تعصب کا اظہار کیے بغیر عوامی فلاح کے ہر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ اس کی ایک مثال ہے جسے انشاء اللہ جلد فنکشنل کردیا جائے گا۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام پر اب تک کیا پیش رفت کی جاچکی ہے ؟
وزیراعلی پنجاب: اس حوالے سے پی ٹی آئی کی پالیسی واضح ہے ،جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے قیام کا منصوبہ تیار ہے اوراس ضمن میں فنڈز بھی مختص کیے جاچکے ہیں ۔انشاء اللہ اس پر جلد پیش رفت ہوگی۔ جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ جلد قائم کیا جائے گا۔
ایکسپریس: کبھی (ق) لیگ کبھی( ن) لیگ پھر اچانک تحریک انصاف کیا کامیاب سیاستدان کیلئے یہ سب کچھ کرنا ٹھیک ہے ۔
وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! قائداعظم نے اصولوں کی سیاست کی ایک قابل تقلید مثال قائم کی، لیکن آپ جانتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیااوربعدازاں پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔اس بات کا انحصار آپ کی کمٹمنٹ اور آپ کی نیت پر ہے کہ آپ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا آپ کے ذاتی اغراض و مقاصد ہیں۔
ایکسپریس: موجودہ بلدیاتی نظام تاحال بہتری کی منتظر ہے،آپ اس کے بارے میںکیا فرمائیں گے حالانکہ آپ نے بھی بلدیاتی نظام سے ہی اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا؟
وزیراعلی پنجاب: بلدیاتی اداروں سے متعلق پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ ،پنجاب پنچایت نیبرہڈ ایکٹ منظورہوچکاہے،بلدیاتی اداروں کو جلدازجلد فنکشنل کرنے سے متعلق ضروری اقدامات کیے جاچکے ہیں ۔
ایکسپریس: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ مضبو ط اپوزیشن تو کبھی اتحادیوں کے روزبروز بڑھتے ہوئے مطالبات پر حکومت چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کیا اتحادی حکومت پنجاب کے ساتھ کمفرٹ ایبل ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: (ہنستے ہوئے) یہ تو اتحادی بتا سکتے ہیں لیکن ہم کمفرٹ ایبل ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میرا کسی سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ کوئی شکایت۔ ہمارے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں۔ مخالفین کی خواہشات کے برعکس حکومت پنجاب قائم ہے اورانشاء اللہ قائم رہے گی۔
ایکسپریس: وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اپنے اندر کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں ؟
وزیراعلی پنجاب: کچھ زیادہ تو نہیں البتہ مجھے یہ لگتا ہے کہ میرے اندر صبر اور برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایکسپریس: غربت اور بے روزگاری نے عوام کا سانس لینا محال کردیا،حالات کی بہتری کب تک متوقع ہے؟
وزیراعلی پنجاب: حالات میں بہتری کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے اور انشاء اللہ بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پنجاب میں سپیشل اکنامک زونز ،انڈسٹریل اسٹیٹس ،علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی وغیرہ کے قیام سے نہ صرف انڈسٹری پھلے پھولے گی بلکہ روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوںگے۔
ایکسپریس: بیوروکریسی اور حکومتی عہدوں میں بڑے پیمانے پرمسلسل تبدیلیاں حکومت کی کارکردگی پر کیامنفی اثرات نہیں ڈالتیں؟
وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! تبادلے وغیرہ کاروبار حکومت کا حصہ ہیں، اسے کسی اور رنگ میں نہیں لینا چاہیے ، جب تبادلے اور تبدیلیاں کرنے کا مقصد ہی بہتری لانا ہو تو ان کے منفی اثرات کیسے ہو سکتے ہیں۔
ایکسپریس: سانحہ ساہیوال جیسے واقعات تھانہ کلچر میں تبدیلی اور اداروں کو عوامی خدمت گزار بنانے کے دعوے کی نفی کررہے ہیں، کیا اداروں کی بہتری کے لئے کوئی میکنزم تشکیل دیا گیا ہے؟
وزیراعلی پنجاب: نئے آئی جی پروفیشنل افسر ہیں، ان کی آمد سے پولیس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اسی طرح چیف سیکرٹری بھی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، مجھے توقع ہے کہ ادارے اور اداروں میں کام کرنے والے تبدیل ہوںگے اور یہ تبدیلی آپ جلد دیکھ سکیں گے۔ اگر آپ تھانہ کلچر کی بات کرتے ہیں تو میں بتانا چاہوں گا کہ پنجاب میں پولیس امور میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہر ضلع میں 2 ماڈل تھانے قائم کئے گئے ہیں۔ آپ ان تھانوں میں جا کر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوگا کیسی عمدہ تبدیلی آئی ہے۔ پولیس کی خراب گاڑیوں کو نیلام کرکے نئی گاڑیاں دی جا رہی ہیں۔ پولیس میں 5 ہزار بھرتیاں اور ٹریفک وارڈن کی 1600 بھرتیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی سیف سٹی کے جدید کمانڈ سینٹر قائم کئے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس: تعلیم پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے میں نمایاں ہے۔ کیا آپ شعبہ تعلیم میں بہتری اور ترقی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! ہم نے پنجاب بھر کے سکولوں میں ضروری سہولتوں کی فراہمی کیلئے فوری طور پر خطیر رقم جاری کی ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری کیلئے ٹیچر لائسنسنگ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ نصاب کو اردو میڈیم میں ڈھالا جا رہا ہے۔ لاہور میں شرح خواندگی میں اضافے کیلئے 35 کروڑ روپے کی لاگت سے 100 سکول کھولے جا رہے ہیں۔نئی یونیورسٹیاں اور فنی تعلیم کے ادارے بنائے جا رہے ہیں۔ ہم نے 5 ہزار سی ٹی آئی بھرتی کئے ہیں اور ان کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھا کر 45 ہزار کردی ہے۔ پہلی مرتبہ 14 وائس چانسلرز میرٹ پر بھرتی کئے گئے ہیں اور میرٹ پر تعلیمی بورڈز کے سربراہ لگائے گئے ہیں۔ لاہور میں بین الاقوامی ادارو ںکے تعاون سے نئی یونیورسٹی قائم کریں گے۔
ایکسپریس: یہ بات ہمارے لئے خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ آپ نے تعلیم کے شعبہ میں اقدامات کا اتنی روانی سے ذکر کیا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ شعبہ تعلیم میں یقینا تبدیلی رونما ہوگی۔ ایکسپریس کے قارئین صحت کے معاملات میں بہتری کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟
وزیراعلی پنجاب: پنجاب میں شعبہ ہیلتھ کے فروغ کیلئے اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جا رہے ہیں جس میں بہت اعلیٰ معیار کے ہسپتال قائم کئے جائیں گے اور فائیو سٹار ہوٹل بھی بنائے جائیں گے تاکہ لوگ باہر سے آ کر علاج کرا سکیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پنجاب میں 9 نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ نشتر ٹو اور شیخ زید ہسپتال ٹو کے منصوبے بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔ ہم نے شعبہ صحت میں 25 ہزار بھرتیاں کی ہیں اور ان میں سے 10 ہزار ڈاکٹر ہیں۔ انتھیسزیا کے ماہرین کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو چھوٹے ہسپتالوں میں لے جانے کیلئے اے سی وین سروس شروع کی گئی ہے۔ چلڈرن ہسپتال کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ لاہور میں دوسرا کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ اور 500 بیڈز پر مشتمل بلڈ ٹرانسفیوژن انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے گا اور اسی طرح پی کے ایل آئی کو بھی موثر طور پر فعال کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس: گزشتہ 3برس سے ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا، جو ہورہے ہیں ،وہ پہلے سے منظور شدہ ہیں اوران کا بجٹ بھی منظور ہوچکا تھا،آپ کی حکومت کب اس طرف آئے گی؟
وزیراعلی پنجاب: یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہم کام کررہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کام کو میڈیا اس طرح سامنے نہیں لے کر آرہا، جیسے لانا چاہیے۔ ہمیں سب سے پہلے تو آتے ہی پہلے والوں کے قرضے اتارنے پڑے جوہمارے لئے چھوڑ گئے تھے، لیکن اس کے باوجود پنجاب کے ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر شہر میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ شروع ہے اور اس سلسلے میں پہلی مرتبہ عوامی نمائندگان کو بھی شریک کیا گیا۔ پھر آپ دیکھیں کہ پنجاب میںترقیاتی بجٹ کے استعمال کا تناسب ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہے اور میں سمجھتا ہوں پنجاب میں ترقی کا عمل رکا نہیں بلکہ تیزی سے جاری ہے۔ جو لوگ اس بات پر تنقید کرتے ہیں انہیں حقیقی اعداد و شمار کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔
اگر آپ مجھے تھوڑا وقت دیں تو میں سارا کچھ تو نہیں کچھ اہم باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ ہماری کوششوں سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح 91فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ میانوالی، لیہ ، اٹک، بہاولنگر اور راجن پور میں دو دو سو بستروں پر مشتمل ماں اور بچے کے لئے ہسپتال قائم کردیئے گئے ہیں۔ صوبے کے 36 اضلاع میں ہسپتالوں کا کچرا درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسکولوں میں ماڈل ہیلتھ رومز بنائے جا رہے ہیں۔ صحت کارڈ کا دائرہ صوبے کے 20 اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ دور دراز کے پسماندہ اضلاع کے 10,800 اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کیا جارہا ہے۔
اساتذہ کی تقرری اور تبادلے کے نظام کو شفاف بنانے کے لئے آن لائن ای ٹرانسفر نظام متعارف کرا دیا گیا ہے اور محض ایک مہینے میں 16,753 اساتذہ کے تبادلے اسی نظام کے ذریعے عمل میں آئے۔ تعلیم میں اصلاحات کے پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں22 اضلاع کے 719 اسکولوں میں دوپہر کی کلاسیں شروع ہو گئی ہیں جہاں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 52.5 فیصد ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی تعلیمی پالیسی ہم نے متعارف کرائی ہے۔ خواتیں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ویمن ہوسٹل بنائے جارہے ہیں۔ ماحول دشمن سرگرمیں کی روک تھام کے لیے 213 روایتی بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ 26 ہزار دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ۔
46 بڑے صنعتی یونٹوں میں ائیر پلوش نظام کی تنصیف ہوئی۔ ایک برس کے دوران 1780 بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کیا گیا جبکہ 2ارب روپے مالیت کی سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادیں قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے تین بنچ بیرون ملک پاکستانیوں کے مقدمات کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ یہ جو کچھ میں بتا رہا ہوں ہماری حکومت کے تمام اقدامات میں سے محض تھوڑی سی باتیں ہیں۔ حکومت پنجاب دکھاوے کے بجائے بنیاد نوعیت کے کاموں پر توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کی روز مرہ زندگی پر جلد مثبت اثرات سامنے آنے لگیں گے۔
ایکسپریس: میٹروبس جیسے عوامی اہمیت کے منصوبے میں کرپشن کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس سے شہریو ں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے تو کیا آپ بھی کوئی ایسا منصوبہ لا رہے ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: ہم بہت کچھ لائیں گے اور بہت کچھ لا چکے ہیں،تفصیل گنوانے بیٹھوں تو بہت سے صفحے اور بہت سا وقت درکارہوگا، خاطر جمع رکھیں، پنجاب بدل رہاہے، پنجاب میں ہم تبدیلی لائیں گے۔
ایکسپریس: کفایت شعاری وزیراعظم عمران خان صاحب کا وژن ہے، حکومت پنجاب اس ضمن میں کیا اقدامات کر رہی ہے؟
وزیراعلی پنجاب: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کفایت شعاری اور بچت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سب سے پہلے اس کا آغاز میں نے اپنی ذات سے کیا ہے۔ وزیراعلیٰ آفس کے اخراجات کو کم از کم کی سطح پرلایا جا رہا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ صرف پٹرول کی مد میں 35 لاکھ روپے کی بچت کی جا رہی ہے۔ سکیورٹی اور سٹاف کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔
ایکسپریس: آپ نے اقتدار سنبھالا تو لوگوں نے آپ کا موازنہ شہبازشریف کے ساتھ کیا۔ کیا یہ مناسب موازنہ ہے؟
وزیراعلی پنجاب: میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم نہ صرف شہبازشریف سے بہتر کام کرکے دکھا رہے ہیں بلکہ میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ ہمارے ابتدائی 15 ماہ کا ن لیگ کے ابتدائی 15 ماہ کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس مختصر عرصے میں ہم نے اتنے کام کئے ہیں جو شاید وہ 5 سال پورے کرنے کے باوجود بھی نہ کر پائے ہوں۔
''تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے''
بلاشبہ شاعری انسانی جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ ہے، مجھے بھی شاعری سے بہت لگاؤ ہے، لیکن سننے اور پڑھنے کی حد تک۔ اچھی شاعری دل کو چھولیتی ہے۔ کالج کے زمانے میں میں نے لائبریری میں موجود شاعری کی ہر کتاب پڑھی، شاید آج بھی ان کتابوں پر میرے دستخط موجود ہوں۔ شاعری میں صرف اردو شاعری نہیں بلکہ سرائیکی میں بھی بڑی معیاری اورعمدہ شاعری کی گئی ہے۔ بعض سرائیکی اشعار تو اب ضرب المثل بن چکے ہیں، جیسے!
توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
دیسی کھانے، ہر قسم کی موسیقی، والد کا طرز سیاست پسند، کتاب سے گہری دوستی، عبدالستار ایدھی سے متاثر ہوں
کھانے میں ہر وہ چیز جو اچھی بنی ہو مجھے پسند ہے اورمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے کھاتا اور اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں جبکہ بہت سے لوگ ان سے محروم ہوں گے، اسی احساس سے پناہ گاہ کے تصور نے جنم لیا اور میں اکثر لاہور میں مختلف پناہ گاہوں کا دورہ کر کے خود کھانے پینے اوردیگر سہولتوں کا جائزہ لیتا ہوں۔
ویسے مجھے سادہ اور دیسی کھانے بہت پسند ہیں۔ موسیقی سننا اچھا لگتا ہے اور مجھے تقریباً ہر قسم کی موسیقی پسند ہے لیکن اب سچ بات تو یہ ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا، موسیقی سننا تو درکنار اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ کتاب سے بڑی گہری دوستی ہے، طالب علمی کے دور میں میرا زیادہ وقت لائبریری میں ہی گزرتا تھا ۔ پسندیدہ سیاست دان کی بات کرتے ہیں تو میں عرض کرچکا ہوں کہ مجھے والد صاحب کے طرز سیاست نے ہمیشہ متاثرکیا۔عمران خان صاحب آج کے دور کے ویژنری لیڈر ہیں ایسے لوگ کسی قوم کے لئے اللہ تعالیٰ کا انعا م ہوتے ہیں، وہ انتہائی حد تک ایماندار اور مخلص ہیں، شاید ایسا لیڈرپاکستان کو پھر نہ ملے۔
ہر انسان کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے، لیکن بحیثیت مسلمان حضرت محمد ؐ میرے آئیڈیل ہیں، سیرت النبیؐ ایسے متاثر کن واقعات سے بھری پڑی ہے کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ فرصت کے اوقات میں، میںاکثر سیرت النبیؐ کے بارے میں کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ نبی کریم ؐ کی زندگی کا ہر پہلو بے مثال ہے۔ خواہش ہے کہ زندگی انہی کی اطاعت میں گزرے۔ دنیاوی اعتبار سے پسندیدگی کی بات کی جائے تو میں پاکستان کی نامور شخصیت عبدالستار ایدھی صاحب سے بھی بہت متاثر ہوں۔ انہوں نے بلاامتیاز انسانوں کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ دور حاضر کے عظیم انسان ہیں۔ میں بھی عبدالستار ایدھی سے متاثر ہو کر اپنے لوگوں، خاص طور پر غریب اور محرومی کا شکار طبقات کی بھرپور خدمت کرنا چاہتا ہوں اور کر رہا ہوں۔
سکندراعظم، بدھوؤں، منگولوں، مغلوں، افغانیوں، مرہٹوں، سکھوں اور برطانوی سامراج نے یہاں کی سونا اگلتی دھرتی اور باسیوں کے ذرخیز دماغوں سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بدلے انہیں محرومیوں اور پسماندگی کے سوا کچھ نہ دیا۔
تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستان کے حصے میں آنے والا پنجاب آج بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک سے بڑا ہے، لیکن افسوس مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل وطن عزیز معرض وجود میں تو آ گیا، لیکن حکمرانی کی ڈگر نہ بدلی۔ پنجاب کے اعلی ترین عہدوں پر بڑے خاندانوں کے افراد ہی براجمان رہے، لیکن 70سال بعد آج پنجاب کے باشندوں کو ایک ایسا حکمران نصیب ہوا ہے، جو انہیں میں سے ہے۔
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصل تونسہ شریف کے ایک چھوٹے سے علاقے ''بارتھی'' سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان احمد خان بزدار آج پنجاب کے سب سے بڑے عہدے یعنی وزارت اعلی پر فائز ہوئے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے والد مرحوم فتح محمد خان بزدار ایک علم دوست انسان تھے، جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا۔ وہ 1981ء میں وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن، 1985ء، 2002ء اور 2008ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔
مئی 1969ء میں سردار فتح محمد خان بزدار کے گھر میں جنم لینے والے عثمان بزدار شرافت، ملنساری، عجزوانکساری جیسی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ عثمان بزدار نے پرائمری تعلیم آبائی علاقے بارتھی سے حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے اولیاء کی دھرتی یعنی ملتان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجوایشن کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے ماسٹر اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ قانون کی ڈگری کے توسط سے وہ ہائی کورٹ بار کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 2001ء عملی سیاست کا آغاز تونسہ شریف کی تحصیل نظامت سے کیا۔ وہ ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
نظامت کے ذریعے علاقہ کی خدمت کرنے پر انہیں وہاں کے باسیوں میں خوب پذیرائی ملی اور 2018ء میں تحصیل تونسہ اور کوہ سلیمان کے عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں صوبائی اسمبلی میں پہنچا دیا، جہاں انہیں قدرت نے وہ عزت عطا فرمائی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وزارت اعلی کی کوئی خواہش تھی نہ کبھی اس دوڑ میں شامل ہوا۔ ''ایکسپریس'' نے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد بیان کرنے سے قبل یہاں یہ ذکر کرنا ''ایکسپریس'' کے لئے ایک اعزاز ہے کہ کسی بھی سنڈے میگزین کے لئے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا یہ پہلا انٹرویو ہے۔
ایکسپریس: وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے لوگ آپ کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، کیا آپ ہمارے قارئین کے لئے اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟ خاص طور پر بزدار قبیلے کے بارے میں ضرور بتائیے۔
وزیراعلی پنجاب: سب سے پہلے تو میں ''ایکسپریس'' کی ٹیم کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں، بلاشبہ روزنامہ ایکسپریس بہت عمدہ اور باوقار صحافت کا علمبردار ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج مجھے آپ کے ذریعے ''ایکسپریس'' کے قارئین تک ابلاغ کا موقع مل رہا ہے۔ اچھا اب میں آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب تو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچ قبائل آباد ہیں، جن میں بزدار سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ بلوچ قبائل کے جد امجد میر چاکر خان رند تھے۔ آپ جانتے ہیں قبائلی نظام میں قبیلے کے سردار کو نہ صرف انتظامی بلکہ دیگر اختیارات بھی ہیں تو آپ کے لئے یہ بات نہایت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ عام عوامی تاثر کے برعکس قبائلی علاقے پرامن اور پرسکون ہیں۔ وہاں جرائم کی شرح ناقابل یقین حد تک کم ہے کیوں کہ قبائل میں سردار کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، اس حوالے سے آپ کے احساسات کیا ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: پسماندگی کا لفظ کوہ سلیمان کے خشک اور بیابان علاقے میں آباد لوگو ںکی محرومیوں کا احاطہ کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ لاہور اور ملتان سے چند گھنٹے کی مسافت پر واقع صوبہ پنجاب کا یہ علاقہ جدید دور کی سہولتوں سے کیسے آشنا ہو سکتا تھا، جہاں قیام پاکستان کے 71 سال گزرنے کے بعد آج بجلی آئی ہو۔ کوہ سلیمان کے جفاکش باسیوں کیلئے زندگی محض جہد مسلسل ہے جس میں سہولت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور آسائش کا تو تصور کرنا بھی محال ہے۔ شیشے کے خنک کمروں میں بیٹھ کر کوہ سلیمان کی قبائلی زندگی کے بارے میں سوچنا محال ہے۔ وہاں آج بھی کھیتی باڑی کے لئے بیل اور سواری کے لئے اونٹ اور گدھے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے قبیلے میںبھیڑ بکریاں پالنے کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
ایکسپریس: وزیراعظم عمران خان نے آپ کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس بندے کے گھر میں تو بجلی تک نہیں ۔ آپ کی فیملی عرصہ دراز سے کار حکومت میں شامل رہی تو اس کے باوجود ان علاقوں کا سہولیات سے محروم ہونا کیا آپ کی ناکامی نہیں تصور کیا جائے گا؟
وزیراعلی پنجاب: اس ضمن میں، میں عرض کروں کہ علاقہ میں پہلا سکول میرے دادا محترم اور پہلی سڑک میرے والد نے بنوائی، جس کے بعد وہ مسلسل اس علاقے کی ترقی کے لئے تگ و دو کرتے رہے اور آج میں اس مشن کو لے کر آگے چل رہا ہوں۔
ایکسپریس: بارتھی جیسے علاقوں کے بارے میں پنجاب کے عام لوگ نہیں جانتے، آپ کچھ بتانا پسند کریںگے؟
وزیراعلی پنجاب: میں بارتھی کے چپے چپے سے واقف اور وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا خود گواہ ہوں۔ میں نے صحت کی سہولتیں اور آمد و رفت کیلئے راستے ناپید ہونے کی وجہ سے مریضوں کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا۔ کوہ سلیمان کے خشک خاکستری پہاڑوں کے مکین سہولتوں کے نام سے ہی ناآشنا تھے۔ شہروں کے مکین ان باتوں کو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے تو جا کر دیکھے جب بارتھی کے پہاڑوں کی اوٹ میں ڈھلتے سورج کے ساتھ زندگی زندگی آنکھیں موند لیتی ہے۔
ایکسپریس: کیا آپ کو وزرات اعلیٰ ملنے کے بعد ان لوگوں کے مقدر میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے؟
وزیراعلی پنجاب: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تبدیلی نہ صرف آ رہی ہے بلکہ دکھائی بھی دے رہی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کے لگ بھگ چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل بتانے کا یہاں وقت نہیں، تاہم یہ بتانا چاہوں گا کہ 71 سال کے بعد بارتھی کے لوگ بجلی سے آشنا ہوئے، کوہ سلیمان سے 7 کلب روڈ کا سفر اسی تبدیلی کا نقیب ہے، جس کا برسوں انتظار رہا۔
ایکسپریس:ملکی سیاست میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس منصب پر کام کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: وزیراعظم ملک کا چیف ایگز یکٹو ہے اورآئینی سربراہ ہے ،پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی وزارت اعلیٰ کا منصب کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی توقعات کا معیار بہت بلند ہے۔ سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی ضروری ہے۔
ایکسپریس: بلاشبہ آپ باوقار اورشریف النفس شخصیت کے حامل ہیں لیکن بسا اوقات آپ کے بارے میں ناگفتنی پھیلا دی جاتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟
وزیراعلی پنجاب:دیکھئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ۔نہ مجھے اور نہ میرے خاندان کو کسی قسم کی کوئی خواہش یا لالچ ہے۔ ہاں میڈیا کے کچھ دوست اپنے خیالات کو خبر کی شکل دیتے ہیں تو ان کے بارے میں ہدایت کی دعا کے سواکیا کرسکتا ہوں۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ازالہ درست مگر سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کے علاقائی تعصب کے بارے میں آپ کیا کہیںگے۔ ن لیگ نے لاہور کو بنایا ،پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے ملتان کو بنایا۔اسی طرح اب آپ ڈی جی خان میں آئے روز کسی نہ کسی ترقیاتی پروگرام کا افتتاح کررہے ہوتے ہیں۔
وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! میں نے روز اول سے یہ واضح کردیا تھا کہ ہم صوبے کے ہر شہر اور ہر حصے کی یکساں ترقی کے ویژن پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ترقی ہر شہر کا حق ہے چاہے وہ لاہور ہو ملتان یا ڈیرہ غازی خان۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے ایسے لائے جائیں جو عوام کی ضرورت کے مطابق ہوں اوران کی تکمیل پر عوام ریلیف محسوس کریں ۔میں آپ کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ گزشتہ حکومت لاہور سمیت صوبے کے متعدد منصوبے ادھورے چھوڑگئی اور متعدد منصوبے ایسے تھے جن کی ادائیگیاں ہمیں آکر کرنا پڑیں، لیکن ہم نے کسی تعصب کا اظہار کیے بغیر عوامی فلاح کے ہر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ اس کی ایک مثال ہے جسے انشاء اللہ جلد فنکشنل کردیا جائے گا۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام پر اب تک کیا پیش رفت کی جاچکی ہے ؟
وزیراعلی پنجاب: اس حوالے سے پی ٹی آئی کی پالیسی واضح ہے ،جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے قیام کا منصوبہ تیار ہے اوراس ضمن میں فنڈز بھی مختص کیے جاچکے ہیں ۔انشاء اللہ اس پر جلد پیش رفت ہوگی۔ جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ جلد قائم کیا جائے گا۔
ایکسپریس: کبھی (ق) لیگ کبھی( ن) لیگ پھر اچانک تحریک انصاف کیا کامیاب سیاستدان کیلئے یہ سب کچھ کرنا ٹھیک ہے ۔
وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! قائداعظم نے اصولوں کی سیاست کی ایک قابل تقلید مثال قائم کی، لیکن آپ جانتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیااوربعدازاں پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔اس بات کا انحصار آپ کی کمٹمنٹ اور آپ کی نیت پر ہے کہ آپ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا آپ کے ذاتی اغراض و مقاصد ہیں۔
ایکسپریس: موجودہ بلدیاتی نظام تاحال بہتری کی منتظر ہے،آپ اس کے بارے میںکیا فرمائیں گے حالانکہ آپ نے بھی بلدیاتی نظام سے ہی اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا؟
وزیراعلی پنجاب: بلدیاتی اداروں سے متعلق پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ ،پنجاب پنچایت نیبرہڈ ایکٹ منظورہوچکاہے،بلدیاتی اداروں کو جلدازجلد فنکشنل کرنے سے متعلق ضروری اقدامات کیے جاچکے ہیں ۔
ایکسپریس: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ مضبو ط اپوزیشن تو کبھی اتحادیوں کے روزبروز بڑھتے ہوئے مطالبات پر حکومت چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کیا اتحادی حکومت پنجاب کے ساتھ کمفرٹ ایبل ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: (ہنستے ہوئے) یہ تو اتحادی بتا سکتے ہیں لیکن ہم کمفرٹ ایبل ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میرا کسی سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ کوئی شکایت۔ ہمارے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں۔ مخالفین کی خواہشات کے برعکس حکومت پنجاب قائم ہے اورانشاء اللہ قائم رہے گی۔
ایکسپریس: وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اپنے اندر کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں ؟
وزیراعلی پنجاب: کچھ زیادہ تو نہیں البتہ مجھے یہ لگتا ہے کہ میرے اندر صبر اور برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایکسپریس: غربت اور بے روزگاری نے عوام کا سانس لینا محال کردیا،حالات کی بہتری کب تک متوقع ہے؟
وزیراعلی پنجاب: حالات میں بہتری کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے اور انشاء اللہ بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پنجاب میں سپیشل اکنامک زونز ،انڈسٹریل اسٹیٹس ،علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی وغیرہ کے قیام سے نہ صرف انڈسٹری پھلے پھولے گی بلکہ روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوںگے۔
ایکسپریس: بیوروکریسی اور حکومتی عہدوں میں بڑے پیمانے پرمسلسل تبدیلیاں حکومت کی کارکردگی پر کیامنفی اثرات نہیں ڈالتیں؟
وزیراعلی پنجاب: دیکھیں! تبادلے وغیرہ کاروبار حکومت کا حصہ ہیں، اسے کسی اور رنگ میں نہیں لینا چاہیے ، جب تبادلے اور تبدیلیاں کرنے کا مقصد ہی بہتری لانا ہو تو ان کے منفی اثرات کیسے ہو سکتے ہیں۔
ایکسپریس: سانحہ ساہیوال جیسے واقعات تھانہ کلچر میں تبدیلی اور اداروں کو عوامی خدمت گزار بنانے کے دعوے کی نفی کررہے ہیں، کیا اداروں کی بہتری کے لئے کوئی میکنزم تشکیل دیا گیا ہے؟
وزیراعلی پنجاب: نئے آئی جی پروفیشنل افسر ہیں، ان کی آمد سے پولیس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اسی طرح چیف سیکرٹری بھی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، مجھے توقع ہے کہ ادارے اور اداروں میں کام کرنے والے تبدیل ہوںگے اور یہ تبدیلی آپ جلد دیکھ سکیں گے۔ اگر آپ تھانہ کلچر کی بات کرتے ہیں تو میں بتانا چاہوں گا کہ پنجاب میں پولیس امور میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہر ضلع میں 2 ماڈل تھانے قائم کئے گئے ہیں۔ آپ ان تھانوں میں جا کر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوگا کیسی عمدہ تبدیلی آئی ہے۔ پولیس کی خراب گاڑیوں کو نیلام کرکے نئی گاڑیاں دی جا رہی ہیں۔ پولیس میں 5 ہزار بھرتیاں اور ٹریفک وارڈن کی 1600 بھرتیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی سیف سٹی کے جدید کمانڈ سینٹر قائم کئے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس: تعلیم پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے میں نمایاں ہے۔ کیا آپ شعبہ تعلیم میں بہتری اور ترقی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
وزیراعلی پنجاب: دیکھئے! ہم نے پنجاب بھر کے سکولوں میں ضروری سہولتوں کی فراہمی کیلئے فوری طور پر خطیر رقم جاری کی ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری کیلئے ٹیچر لائسنسنگ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ نصاب کو اردو میڈیم میں ڈھالا جا رہا ہے۔ لاہور میں شرح خواندگی میں اضافے کیلئے 35 کروڑ روپے کی لاگت سے 100 سکول کھولے جا رہے ہیں۔نئی یونیورسٹیاں اور فنی تعلیم کے ادارے بنائے جا رہے ہیں۔ ہم نے 5 ہزار سی ٹی آئی بھرتی کئے ہیں اور ان کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھا کر 45 ہزار کردی ہے۔ پہلی مرتبہ 14 وائس چانسلرز میرٹ پر بھرتی کئے گئے ہیں اور میرٹ پر تعلیمی بورڈز کے سربراہ لگائے گئے ہیں۔ لاہور میں بین الاقوامی ادارو ںکے تعاون سے نئی یونیورسٹی قائم کریں گے۔
ایکسپریس: یہ بات ہمارے لئے خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ آپ نے تعلیم کے شعبہ میں اقدامات کا اتنی روانی سے ذکر کیا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ شعبہ تعلیم میں یقینا تبدیلی رونما ہوگی۔ ایکسپریس کے قارئین صحت کے معاملات میں بہتری کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟
وزیراعلی پنجاب: پنجاب میں شعبہ ہیلتھ کے فروغ کیلئے اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جا رہے ہیں جس میں بہت اعلیٰ معیار کے ہسپتال قائم کئے جائیں گے اور فائیو سٹار ہوٹل بھی بنائے جائیں گے تاکہ لوگ باہر سے آ کر علاج کرا سکیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پنجاب میں 9 نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ نشتر ٹو اور شیخ زید ہسپتال ٹو کے منصوبے بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔ ہم نے شعبہ صحت میں 25 ہزار بھرتیاں کی ہیں اور ان میں سے 10 ہزار ڈاکٹر ہیں۔ انتھیسزیا کے ماہرین کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو چھوٹے ہسپتالوں میں لے جانے کیلئے اے سی وین سروس شروع کی گئی ہے۔ چلڈرن ہسپتال کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ لاہور میں دوسرا کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ اور 500 بیڈز پر مشتمل بلڈ ٹرانسفیوژن انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے گا اور اسی طرح پی کے ایل آئی کو بھی موثر طور پر فعال کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس: گزشتہ 3برس سے ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا، جو ہورہے ہیں ،وہ پہلے سے منظور شدہ ہیں اوران کا بجٹ بھی منظور ہوچکا تھا،آپ کی حکومت کب اس طرف آئے گی؟
وزیراعلی پنجاب: یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہم کام کررہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کام کو میڈیا اس طرح سامنے نہیں لے کر آرہا، جیسے لانا چاہیے۔ ہمیں سب سے پہلے تو آتے ہی پہلے والوں کے قرضے اتارنے پڑے جوہمارے لئے چھوڑ گئے تھے، لیکن اس کے باوجود پنجاب کے ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر شہر میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ شروع ہے اور اس سلسلے میں پہلی مرتبہ عوامی نمائندگان کو بھی شریک کیا گیا۔ پھر آپ دیکھیں کہ پنجاب میںترقیاتی بجٹ کے استعمال کا تناسب ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہے اور میں سمجھتا ہوں پنجاب میں ترقی کا عمل رکا نہیں بلکہ تیزی سے جاری ہے۔ جو لوگ اس بات پر تنقید کرتے ہیں انہیں حقیقی اعداد و شمار کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔
اگر آپ مجھے تھوڑا وقت دیں تو میں سارا کچھ تو نہیں کچھ اہم باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ ہماری کوششوں سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح 91فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ میانوالی، لیہ ، اٹک، بہاولنگر اور راجن پور میں دو دو سو بستروں پر مشتمل ماں اور بچے کے لئے ہسپتال قائم کردیئے گئے ہیں۔ صوبے کے 36 اضلاع میں ہسپتالوں کا کچرا درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسکولوں میں ماڈل ہیلتھ رومز بنائے جا رہے ہیں۔ صحت کارڈ کا دائرہ صوبے کے 20 اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ دور دراز کے پسماندہ اضلاع کے 10,800 اسکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کیا جارہا ہے۔
اساتذہ کی تقرری اور تبادلے کے نظام کو شفاف بنانے کے لئے آن لائن ای ٹرانسفر نظام متعارف کرا دیا گیا ہے اور محض ایک مہینے میں 16,753 اساتذہ کے تبادلے اسی نظام کے ذریعے عمل میں آئے۔ تعلیم میں اصلاحات کے پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں22 اضلاع کے 719 اسکولوں میں دوپہر کی کلاسیں شروع ہو گئی ہیں جہاں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 52.5 فیصد ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی تعلیمی پالیسی ہم نے متعارف کرائی ہے۔ خواتیں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ویمن ہوسٹل بنائے جارہے ہیں۔ ماحول دشمن سرگرمیں کی روک تھام کے لیے 213 روایتی بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ 26 ہزار دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ۔
46 بڑے صنعتی یونٹوں میں ائیر پلوش نظام کی تنصیف ہوئی۔ ایک برس کے دوران 1780 بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کیا گیا جبکہ 2ارب روپے مالیت کی سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادیں قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے تین بنچ بیرون ملک پاکستانیوں کے مقدمات کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ یہ جو کچھ میں بتا رہا ہوں ہماری حکومت کے تمام اقدامات میں سے محض تھوڑی سی باتیں ہیں۔ حکومت پنجاب دکھاوے کے بجائے بنیاد نوعیت کے کاموں پر توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کی روز مرہ زندگی پر جلد مثبت اثرات سامنے آنے لگیں گے۔
ایکسپریس: میٹروبس جیسے عوامی اہمیت کے منصوبے میں کرپشن کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس سے شہریو ں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے تو کیا آپ بھی کوئی ایسا منصوبہ لا رہے ہیں؟
وزیراعلی پنجاب: ہم بہت کچھ لائیں گے اور بہت کچھ لا چکے ہیں،تفصیل گنوانے بیٹھوں تو بہت سے صفحے اور بہت سا وقت درکارہوگا، خاطر جمع رکھیں، پنجاب بدل رہاہے، پنجاب میں ہم تبدیلی لائیں گے۔
ایکسپریس: کفایت شعاری وزیراعظم عمران خان صاحب کا وژن ہے، حکومت پنجاب اس ضمن میں کیا اقدامات کر رہی ہے؟
وزیراعلی پنجاب: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کفایت شعاری اور بچت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سب سے پہلے اس کا آغاز میں نے اپنی ذات سے کیا ہے۔ وزیراعلیٰ آفس کے اخراجات کو کم از کم کی سطح پرلایا جا رہا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ صرف پٹرول کی مد میں 35 لاکھ روپے کی بچت کی جا رہی ہے۔ سکیورٹی اور سٹاف کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔
ایکسپریس: آپ نے اقتدار سنبھالا تو لوگوں نے آپ کا موازنہ شہبازشریف کے ساتھ کیا۔ کیا یہ مناسب موازنہ ہے؟
وزیراعلی پنجاب: میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم نہ صرف شہبازشریف سے بہتر کام کرکے دکھا رہے ہیں بلکہ میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ ہمارے ابتدائی 15 ماہ کا ن لیگ کے ابتدائی 15 ماہ کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس مختصر عرصے میں ہم نے اتنے کام کئے ہیں جو شاید وہ 5 سال پورے کرنے کے باوجود بھی نہ کر پائے ہوں۔
''تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے''
بلاشبہ شاعری انسانی جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ ہے، مجھے بھی شاعری سے بہت لگاؤ ہے، لیکن سننے اور پڑھنے کی حد تک۔ اچھی شاعری دل کو چھولیتی ہے۔ کالج کے زمانے میں میں نے لائبریری میں موجود شاعری کی ہر کتاب پڑھی، شاید آج بھی ان کتابوں پر میرے دستخط موجود ہوں۔ شاعری میں صرف اردو شاعری نہیں بلکہ سرائیکی میں بھی بڑی معیاری اورعمدہ شاعری کی گئی ہے۔ بعض سرائیکی اشعار تو اب ضرب المثل بن چکے ہیں، جیسے!
توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
دیسی کھانے، ہر قسم کی موسیقی، والد کا طرز سیاست پسند، کتاب سے گہری دوستی، عبدالستار ایدھی سے متاثر ہوں
کھانے میں ہر وہ چیز جو اچھی بنی ہو مجھے پسند ہے اورمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے کھاتا اور اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں جبکہ بہت سے لوگ ان سے محروم ہوں گے، اسی احساس سے پناہ گاہ کے تصور نے جنم لیا اور میں اکثر لاہور میں مختلف پناہ گاہوں کا دورہ کر کے خود کھانے پینے اوردیگر سہولتوں کا جائزہ لیتا ہوں۔
ویسے مجھے سادہ اور دیسی کھانے بہت پسند ہیں۔ موسیقی سننا اچھا لگتا ہے اور مجھے تقریباً ہر قسم کی موسیقی پسند ہے لیکن اب سچ بات تو یہ ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا، موسیقی سننا تو درکنار اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ کتاب سے بڑی گہری دوستی ہے، طالب علمی کے دور میں میرا زیادہ وقت لائبریری میں ہی گزرتا تھا ۔ پسندیدہ سیاست دان کی بات کرتے ہیں تو میں عرض کرچکا ہوں کہ مجھے والد صاحب کے طرز سیاست نے ہمیشہ متاثرکیا۔عمران خان صاحب آج کے دور کے ویژنری لیڈر ہیں ایسے لوگ کسی قوم کے لئے اللہ تعالیٰ کا انعا م ہوتے ہیں، وہ انتہائی حد تک ایماندار اور مخلص ہیں، شاید ایسا لیڈرپاکستان کو پھر نہ ملے۔
ہر انسان کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے، لیکن بحیثیت مسلمان حضرت محمد ؐ میرے آئیڈیل ہیں، سیرت النبیؐ ایسے متاثر کن واقعات سے بھری پڑی ہے کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ فرصت کے اوقات میں، میںاکثر سیرت النبیؐ کے بارے میں کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ نبی کریم ؐ کی زندگی کا ہر پہلو بے مثال ہے۔ خواہش ہے کہ زندگی انہی کی اطاعت میں گزرے۔ دنیاوی اعتبار سے پسندیدگی کی بات کی جائے تو میں پاکستان کی نامور شخصیت عبدالستار ایدھی صاحب سے بھی بہت متاثر ہوں۔ انہوں نے بلاامتیاز انسانوں کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ دور حاضر کے عظیم انسان ہیں۔ میں بھی عبدالستار ایدھی سے متاثر ہو کر اپنے لوگوں، خاص طور پر غریب اور محرومی کا شکار طبقات کی بھرپور خدمت کرنا چاہتا ہوں اور کر رہا ہوں۔