’جن‘ انسان سے قدیم مخلوق
اسلامی عقائد میں جن کا وجود متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ''بے شک ہم نے انسان کو بہترین انداز پر بنایا ہے ''(سورہ والتین آیت4) حضور اکرم ؐ کا ارشاد مبارک ہے انسان اپنی خلقت میں سب سے اشرف ہے، خوب صورتی اور وضع قطع میں دنیا کی کوئی چیز اس کے مد مقابل نہیں ہے۔ (اسلام کا نظام حیات)
جن اللہ کی مخلوق ہیں جنہیں انسان کی پیدائش سے بھی قبل پیدا کیا گیا تھا۔ اس مخلوق کے وجود کے تمام قائل ہیں۔ شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ''مسلمانوں میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیوںکہ جنات کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حد تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں جس کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے، جس کو عوام بھی جانتے ہیں اور خواص بھی۔ جاہل فلسفیوں کی معمولی جماعت کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ اسلامی عقائد میں جن کا وجود متفقہ تسلیم کیا گیا ہے۔
جن کے معنی چھپے ہوئے، پوشیدہ، دیو بھوت ہیں (نقاد اللغات) جس لفظ میں ج اور ن ایک ساتھ آتے ہیں اگرچہ ان پر تشدید بھی لگی ہو تو اس میں پوشیدگی کا مادہ کارفرما ہوتا ہے مثلاً جنت، جنین (وہ بچہ جو رحمِ مادر میں ہو) اسی طرح ایک اور لفظ جنون ہے جس کے معنی عقل پرپر دہ ڈالنا ہے۔ جنان کا اطلاق دل پر اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود پسلیوں کے پیچھے پوشیدہ اور اس کے اندر آتے ہوئے خیال چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔
اسی طرح جنہ ڈھال کو کہتے ہیں جو ایک حربی ہتھیار ہے جسے سامنے کرکے سپاہی اپنے مخالف کے وار سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور اس طرح وہ کاری وار سے بچ جاتا ہے۔ چناںچہ اسے جن کا نام اسی لیے دیا گیا کہ یہ لطافت مادہ کے سبب ہماری حس بصیر (دیکھنے کی صلاحیت و قوت) سے پوشیدہ ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ ایک غیرمرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم میں 8 سورتوں کی 12اور سورہ الجن کی 15آیات میں موجود ہے۔ سورہ الانعام آیت 112اور 128الحجر 27-26 بنی اسرائیل 88النمل 39السبا 12تا14۔ الذاریات 56۔ الرحمٰن 33اور15سورہ الاحقاف آیت29۔
جنوں کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی۔ بعض محققین اور تاریخ داں لکھتے ہیں کہ جنات کو آدم ؑ کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے ترجمہ ''اور ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا۔'' (سورہ الحجر آیات 27-26 ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے ترجمہ ''اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پید ا کیا۔'' (سورۂ رحمن آیات 14-15) ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صلصال خشک مٹی اور جس میں آواز ہو فخّار۔ آگ میں پکی ہوئی مٹی کو ٹھیکری کہتے ہیں۔ مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابوالجن کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کو ابوالآدم کہا جاتا ہے۔ یہاں مراد جنوں کا باپ یا جن بطور جنس کے لیے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا ہے۔ لغت میں مارج آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
تفہیم القرآن میں سید مودودی رقم طراز ہیں کہ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفے سے چلی۔ اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض ایک تودۂ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتشیں نہیں ہیں۔'' (تفسیر سورہ الرحمن آیت 15)
ایک روایت میں آیا ہے کہ جنوں کو جمعرات کو تخلیق کیا گیا تھا۔
جنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تھا جس کی تصدیق قرآن حکیم نے ان الفاظ سے کی ہے ترجمہ ''اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (سورہ الذاریات آیت 56) اس آیۂ مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ انسان ایک مخلوق ہے جسے اللہ نے عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح جنات بھی ایک مخلوق ہیں انہیں بھی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور قرآن حکیم ان دونوں مخلوقات کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
اہل عرب دورِجاہلیت میں بڑے تو ہم پرست تھے 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ الگ بت ہوا کرتا تھا کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا۔ چناںچہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے تو راستے میں کوئی وادی یا خوف ناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ ادا کرکے گزرتے ''میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں۔'' ان کے خیال سے بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ماتحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سرکشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے اور اپنے مادے کی خاصیت کی بنا پر ایسا ہونا بھی چاہیے، کیوںکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے۔
جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور بدنفس بھی۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک جن کا نام ابلیس ہے جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ترجمہ:''جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ چناںچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس! اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ غرور میں آگیا ہے یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
اس نے جو اب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن (قیامت ) تک کی مہلت دے ۔ فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔'' (سورہ ص ٓ آیات 72تا85)
یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم پر عمل کرسکتے ہیں۔ آسمان دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کی ٹوہ میں جائیں گے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے اور وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ:''یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجادیا ہے اور اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگتا ہے۔'' (سورہ الحجر آیات 16تا18) اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں۔
رجیم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے صحیح بخاری وتفسیر سورہ الحجر دیکھیے) ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات میں وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جن و شیاطین کو سبق سکھانے کے لیے گرز کا کام بھی دیتے ہیں۔
جنات میں جہاں بدطینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ قسم کے گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال آنحضور ؐ کے دورنبوت کی ہے جب ایک مرتبہ ان جنات نے آنحضور ؐ سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ ترجمہ ''آپ کہہ د یں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایما ن لاچکے ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ناں اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگائیں۔
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سر کشی میں بڑھ گئے اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکی داروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان پر جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے اور یہ کہ ہم نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں اور ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لاچکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماںبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔'' (سورۂ الجن آیات1تا15)
یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جِنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کے لیے پھیل گئیں۔ انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ) مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب) جہاں یہ وقوعہ پیش آیا وہاں اب مسجدِجن بنا دی گئی ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر) جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہے۔
جن اللہ کی مخلوق ہیں جنہیں انسان کی پیدائش سے بھی قبل پیدا کیا گیا تھا۔ اس مخلوق کے وجود کے تمام قائل ہیں۔ شیخ تقی الدین ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ''مسلمانوں میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیوںکہ جنات کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حد تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں جس کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے، جس کو عوام بھی جانتے ہیں اور خواص بھی۔ جاہل فلسفیوں کی معمولی جماعت کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ اسلامی عقائد میں جن کا وجود متفقہ تسلیم کیا گیا ہے۔
جن کے معنی چھپے ہوئے، پوشیدہ، دیو بھوت ہیں (نقاد اللغات) جس لفظ میں ج اور ن ایک ساتھ آتے ہیں اگرچہ ان پر تشدید بھی لگی ہو تو اس میں پوشیدگی کا مادہ کارفرما ہوتا ہے مثلاً جنت، جنین (وہ بچہ جو رحمِ مادر میں ہو) اسی طرح ایک اور لفظ جنون ہے جس کے معنی عقل پرپر دہ ڈالنا ہے۔ جنان کا اطلاق دل پر اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود پسلیوں کے پیچھے پوشیدہ اور اس کے اندر آتے ہوئے خیال چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔
اسی طرح جنہ ڈھال کو کہتے ہیں جو ایک حربی ہتھیار ہے جسے سامنے کرکے سپاہی اپنے مخالف کے وار سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور اس طرح وہ کاری وار سے بچ جاتا ہے۔ چناںچہ اسے جن کا نام اسی لیے دیا گیا کہ یہ لطافت مادہ کے سبب ہماری حس بصیر (دیکھنے کی صلاحیت و قوت) سے پوشیدہ ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ ایک غیرمرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم میں 8 سورتوں کی 12اور سورہ الجن کی 15آیات میں موجود ہے۔ سورہ الانعام آیت 112اور 128الحجر 27-26 بنی اسرائیل 88النمل 39السبا 12تا14۔ الذاریات 56۔ الرحمٰن 33اور15سورہ الاحقاف آیت29۔
جنوں کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی۔ بعض محققین اور تاریخ داں لکھتے ہیں کہ جنات کو آدم ؑ کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے ترجمہ ''اور ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا۔'' (سورہ الحجر آیات 27-26 ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے ترجمہ ''اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پید ا کیا۔'' (سورۂ رحمن آیات 14-15) ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صلصال خشک مٹی اور جس میں آواز ہو فخّار۔ آگ میں پکی ہوئی مٹی کو ٹھیکری کہتے ہیں۔ مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابوالجن کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کو ابوالآدم کہا جاتا ہے۔ یہاں مراد جنوں کا باپ یا جن بطور جنس کے لیے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا ہے۔ لغت میں مارج آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
تفہیم القرآن میں سید مودودی رقم طراز ہیں کہ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفے سے چلی۔ اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض ایک تودۂ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتشیں نہیں ہیں۔'' (تفسیر سورہ الرحمن آیت 15)
ایک روایت میں آیا ہے کہ جنوں کو جمعرات کو تخلیق کیا گیا تھا۔
جنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تھا جس کی تصدیق قرآن حکیم نے ان الفاظ سے کی ہے ترجمہ ''اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (سورہ الذاریات آیت 56) اس آیۂ مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ انسان ایک مخلوق ہے جسے اللہ نے عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح جنات بھی ایک مخلوق ہیں انہیں بھی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور قرآن حکیم ان دونوں مخلوقات کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
اہل عرب دورِجاہلیت میں بڑے تو ہم پرست تھے 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ الگ بت ہوا کرتا تھا کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا۔ چناںچہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے تو راستے میں کوئی وادی یا خوف ناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ ادا کرکے گزرتے ''میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں۔'' ان کے خیال سے بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ماتحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سرکشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے اور اپنے مادے کی خاصیت کی بنا پر ایسا ہونا بھی چاہیے، کیوںکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے۔
جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور بدنفس بھی۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک جن کا نام ابلیس ہے جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ترجمہ:''جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ چناںچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس! اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ غرور میں آگیا ہے یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
اس نے جو اب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن (قیامت ) تک کی مہلت دے ۔ فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔'' (سورہ ص ٓ آیات 72تا85)
یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم پر عمل کرسکتے ہیں۔ آسمان دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کی ٹوہ میں جائیں گے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے اور وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ:''یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجادیا ہے اور اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگتا ہے۔'' (سورہ الحجر آیات 16تا18) اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں۔
رجیم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے صحیح بخاری وتفسیر سورہ الحجر دیکھیے) ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات میں وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جن و شیاطین کو سبق سکھانے کے لیے گرز کا کام بھی دیتے ہیں۔
جنات میں جہاں بدطینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ قسم کے گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال آنحضور ؐ کے دورنبوت کی ہے جب ایک مرتبہ ان جنات نے آنحضور ؐ سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ ترجمہ ''آپ کہہ د یں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایما ن لاچکے ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ناں اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگائیں۔
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سر کشی میں بڑھ گئے اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکی داروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان پر جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے اور یہ کہ ہم نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں اور ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لاچکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماںبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔'' (سورۂ الجن آیات1تا15)
یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جِنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کے لیے پھیل گئیں۔ انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ) مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب) جہاں یہ وقوعہ پیش آیا وہاں اب مسجدِجن بنا دی گئی ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر) جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہے۔