نغمہ صحرا… ریشماں
قدرت کی صناعی کا عظیم کرشمہ منفرد آواز ریشماں کا دنیا سے چلے جانا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔
قدرت کی صناعی کا عظیم کرشمہ منفرد آواز ریشماں کا دنیا سے چلے جانا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔
''میں'' صرف خالق کائنات ہے ، باقی سب ''ہم'' ہے ، اﷲ ایسے کرشمے دکھاکر ہمیں کہتاہے مجھے مانو کہ میں ہی ہر چیز پر قادر ہوں۔ میں جو چاہوں، جیسا چاہوں، کردوں، میری مرضی اور اﷲ نے خانہ بدوش بنجاروں کی ایک صحرا نورد بچی کے گلے میں ایسا سوز بھردیا کہ ایک دنیا اس بچی کی دیوانی ہوگئی۔ ریشماں نے ابتداء میں کسی سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہ صحرا میں اگنے والا ایک خود رو پودا تھا جس کے خوش رنگ پھولوں اور مہک نے ایک زمانے کو رنگین اور معطر کردیا۔
یہ ساٹھ کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ 65 کی جنگ ہوچکی تھی۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی معروف شاعر مشتاق مبارک مرکزی محکمہ اطلاعات و مطبوعات حکومت پاکستان میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ اس زمانے میں سینماؤں میں فلم شروع ہونے سے پہلے حکومت کی طرف سے سینماہال میں بیٹھے لوگوں کو ''پاکستان کا تصویری خبر نامہ'' کے عنوان سے پانچ یا دس منٹ کی فلم دکھائی جاتی تھی۔ اسی پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں بھائی مشتاق مبارک سیہون شریف میں سالانہ عرس و میلہ حضرت شہباز قلندرؒ کی فلم بندی کے لیے اپنی ٹیم کے ہمراہ گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بنجارن بچی گارہی تھی۔ فن موسیقی کی تمام پابندیوں سے آزاد مگر سروں میں بھیگی جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔ بنجارن بچی شاعر منظور جھلا کا گیت گارہی تھی۔
وے میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اکھاں
ماہیاں کی لج تیرے لئی میں گوائی وے
توں تاں انجان ساڈی قدر نہ پائی وے
فروی جھلی ہوکے راہ تیری تکاں
اس پنجابی گیت کا اردو ترجمہ دیکھ لیں تو آگے بڑھتے ہیں ''ارے میں نے چوری چوری تیرے ساتھ آنکھوں سے آنکھیں ملالیں، ماں باپ کی لاج تیرے لیے گنوادی، تو انجان کہ میری قدر نہیں کی، پھر بھی میں پاگل ہوکر تیری راہ دیکھ رہی ہوں۔''
یہاں میں یہ بھی بتادوں میں نے سنا ہے کہ پنجاب کے (دونوں طرف کے پنجاب ) گاؤں دیہاتوں کا مقبول شاعر منظور جھلا اپنے گیتوں کا لحن بھی یعنی طرز بھی خود ہی بناتاتھا اور ان کی آواز بھی اونچی اور اچھی تھی۔ پھر پنجاب کے سارے لوک فنکار اسی طرز میں یہ گیت گاتے تھے اور اس خوبصورت طرز کی شان دیکھیے کہ ہندوستان کی فلم میں اس طرز کو لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے گایا۔ مشہور گیت ''یارا سیلی سیلی برہاکی رات'' منظور جھلا، پنجابی لوک گلوکاروں کا بڑا اہم شاعر تھا۔ ہائے ''زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے'' پتا نہیں اس شاعر کی قبر کہاں اور کس حال میں ہے۔ منظور جھلا کے ایک اور گیت کا ذکر کرنا چاہتاہوں۔ پنجاب کی ایک شادی میں رات گئے دیر گانا گایا جارہاتھا ''دل لے کے میرا دور نہ نس سجنا وے میں ہاری آں وے'' یعنی میرا دل لے کر میرے سجن مجھ سے دور مت جا، ارے میں تو ہاری ہوئی ہوں۔ اس گیت کی طرز بھی منظور جھلا نے خود ہی بنائی تھی اور بہت ہی خوبصورت دل کو چھولینے والی طرز۔ چلیے ریشماں کی یادوں میں منظور جھلا کی یادیں بھی شامل ہوگئیں۔
تو بات عرس حضرت شہباز قلندر کی ہورہی تھی۔ جہاں ایک بنجارن بچی اپنی آواز کا جادو جگارہی تھی۔ مشتاق مبارک صاحب نے بچی کے والدین کو کراچی آنے کی تاکید کرتے ہوئے اپنا نام، پتہ اور فون نمبر دے دیا۔ کچھ دنوں بعد سارنگی نواز استاد نتھوخان کے سپرد کیا اور کراچی ریڈیو اسٹیشن بھی لے گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مشتاق مبارک صاحب نے ایک بڑے روزنامہ اخبار میں ''نغمہ صحرا'' کے عنوان سے مضمون بھی لکھا۔ اس طرح ریشماں منظر عام پر آتی چلی گئی۔
ریشماں دلکش اور منفرد آواز کے ساتھ ساتھ صحرائی حسن بھی رکھتی تھی۔ خوبصورت اور گہرائی لیے سنہری آنکھیں، کوئی دیکھے تو ڈوبتا چلا جائے۔ صحت مند، سروقد، اﷲ نے اسے ہر طرح سے خوب بنایا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ریشماں بولتی تھی تو لوگ خاموش اسے سنتے تھے اور جب ریشماں گاتی تھی تو لوگ اس کے ساتھ صحراؤں میں بھٹکتے تھے۔ کبھی تپتی ریت تو کبھی ٹھنڈی راتوں میں، کبھی رم جھم برساتوں میں کوکتی کوئل رقص کرتے مور اور ریشماں تان لگاتی۔
شہر بھنبھور دی کڑیو، تسی نک وچ نتھ نہ پائیو
میں بھل گئی، تسی بھل نہ جائیو، یاری نال بلوچ نہ لائیو
ہائے اور ربانئیں لگدا دل میرا
سجناں باج ہو یا ہنیرا
ریشماں کا ایک گیت تو اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے اردو ترجمے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ بول لوگوں کے دلوں میں رچے بسے ہیں۔
ریشماں نے چند اردو گیت بھی گائے اور وہاں بھی ریشماں عروج پر نظر آتی ہے ''اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے'' اور ''میری ہمجولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں، نام لے کر ترا، مسکرائیں، گنگنائیں، دل جلائیں مرا، ہائے جاؤں کہاں۔ موسیقاروں کو سامنے رکھ کے یہ دونوں طرزیں خوب بنائی ہیں۔
اب ماتم بے قیمت ہے۔ گزرے کل ہم نے توقیر نہیں کی۔ ٹھیک ہے بیماری کے آخری ایک دو سال حکومت نے اپنے خرچ پر علاج معالجہ کروایا۔ مگر ریشماں اور ان جیسے دوسرے ''خاص'' لوگ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔ مگر کیا کریں ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزاد نہیں ہیں۔ آزاد قومیں ہی اﷲ کے بنائے ہوئے خاص بندوں کا خاص خیال رکھا کرتی ہیں۔ ریشماں سے پہلے بھی کچھ بنجارے گھومتے پھرے دنیا کو حیران کرتے، اپنا کام کرکے چلے گئے۔ یہی طفیل نیازی، سائیں اختر حسین، استاد امانت علی خان، سائیں مرنا (اک تارا بجاتے تھے) یہ وہ فنکار تھے جنھیں ''محلوں'' میں سروں کے چراغ جلانے کے لیے بلایاجاتا تھا اور پھر رات کے آخری پہر میں یہ فنکار اپنے ''محلوں'' میں سوجاتے تھے۔
میں ریشماں کے لیے آخری چند سطریں لکھنا چاہ رہا تھا مگر ریشماں خود آگئی ہیں۔ وہ گارہی ہیں۔ ہمیں درس دے رہی ہیں۔
چار دناں دا، پیار اور ربا، بڑی لمبی جدائی، لمبی جدائی اور ہم اس چار دنوں کے پیار میں کیا کیا گند گھولتے ہیں۔ اور اس لمبی جدائی کا دھیان ہی نہیں کرتے۔ چار دن کی زندگی میں کیا کیا قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ قتل کردیتے ہیں، خدا بن جاتے ہیں، غاصب، قابض بن جاتے ہیں۔ ریشماں اپنی گور میں اتر گئی مگر بقول بھلے شاہ۔
بھلے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
بھلے شاہ بھی زندہ ہیں اور ریشماں بھی زندہ رہے گی، اﷲ درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
''میں'' صرف خالق کائنات ہے ، باقی سب ''ہم'' ہے ، اﷲ ایسے کرشمے دکھاکر ہمیں کہتاہے مجھے مانو کہ میں ہی ہر چیز پر قادر ہوں۔ میں جو چاہوں، جیسا چاہوں، کردوں، میری مرضی اور اﷲ نے خانہ بدوش بنجاروں کی ایک صحرا نورد بچی کے گلے میں ایسا سوز بھردیا کہ ایک دنیا اس بچی کی دیوانی ہوگئی۔ ریشماں نے ابتداء میں کسی سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہ صحرا میں اگنے والا ایک خود رو پودا تھا جس کے خوش رنگ پھولوں اور مہک نے ایک زمانے کو رنگین اور معطر کردیا۔
یہ ساٹھ کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ 65 کی جنگ ہوچکی تھی۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی معروف شاعر مشتاق مبارک مرکزی محکمہ اطلاعات و مطبوعات حکومت پاکستان میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ اس زمانے میں سینماؤں میں فلم شروع ہونے سے پہلے حکومت کی طرف سے سینماہال میں بیٹھے لوگوں کو ''پاکستان کا تصویری خبر نامہ'' کے عنوان سے پانچ یا دس منٹ کی فلم دکھائی جاتی تھی۔ اسی پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں بھائی مشتاق مبارک سیہون شریف میں سالانہ عرس و میلہ حضرت شہباز قلندرؒ کی فلم بندی کے لیے اپنی ٹیم کے ہمراہ گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بنجارن بچی گارہی تھی۔ فن موسیقی کی تمام پابندیوں سے آزاد مگر سروں میں بھیگی جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔ بنجارن بچی شاعر منظور جھلا کا گیت گارہی تھی۔
وے میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اکھاں
ماہیاں کی لج تیرے لئی میں گوائی وے
توں تاں انجان ساڈی قدر نہ پائی وے
فروی جھلی ہوکے راہ تیری تکاں
اس پنجابی گیت کا اردو ترجمہ دیکھ لیں تو آگے بڑھتے ہیں ''ارے میں نے چوری چوری تیرے ساتھ آنکھوں سے آنکھیں ملالیں، ماں باپ کی لاج تیرے لیے گنوادی، تو انجان کہ میری قدر نہیں کی، پھر بھی میں پاگل ہوکر تیری راہ دیکھ رہی ہوں۔''
یہاں میں یہ بھی بتادوں میں نے سنا ہے کہ پنجاب کے (دونوں طرف کے پنجاب ) گاؤں دیہاتوں کا مقبول شاعر منظور جھلا اپنے گیتوں کا لحن بھی یعنی طرز بھی خود ہی بناتاتھا اور ان کی آواز بھی اونچی اور اچھی تھی۔ پھر پنجاب کے سارے لوک فنکار اسی طرز میں یہ گیت گاتے تھے اور اس خوبصورت طرز کی شان دیکھیے کہ ہندوستان کی فلم میں اس طرز کو لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر نے گایا۔ مشہور گیت ''یارا سیلی سیلی برہاکی رات'' منظور جھلا، پنجابی لوک گلوکاروں کا بڑا اہم شاعر تھا۔ ہائے ''زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے'' پتا نہیں اس شاعر کی قبر کہاں اور کس حال میں ہے۔ منظور جھلا کے ایک اور گیت کا ذکر کرنا چاہتاہوں۔ پنجاب کی ایک شادی میں رات گئے دیر گانا گایا جارہاتھا ''دل لے کے میرا دور نہ نس سجنا وے میں ہاری آں وے'' یعنی میرا دل لے کر میرے سجن مجھ سے دور مت جا، ارے میں تو ہاری ہوئی ہوں۔ اس گیت کی طرز بھی منظور جھلا نے خود ہی بنائی تھی اور بہت ہی خوبصورت دل کو چھولینے والی طرز۔ چلیے ریشماں کی یادوں میں منظور جھلا کی یادیں بھی شامل ہوگئیں۔
تو بات عرس حضرت شہباز قلندر کی ہورہی تھی۔ جہاں ایک بنجارن بچی اپنی آواز کا جادو جگارہی تھی۔ مشتاق مبارک صاحب نے بچی کے والدین کو کراچی آنے کی تاکید کرتے ہوئے اپنا نام، پتہ اور فون نمبر دے دیا۔ کچھ دنوں بعد سارنگی نواز استاد نتھوخان کے سپرد کیا اور کراچی ریڈیو اسٹیشن بھی لے گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مشتاق مبارک صاحب نے ایک بڑے روزنامہ اخبار میں ''نغمہ صحرا'' کے عنوان سے مضمون بھی لکھا۔ اس طرح ریشماں منظر عام پر آتی چلی گئی۔
ریشماں دلکش اور منفرد آواز کے ساتھ ساتھ صحرائی حسن بھی رکھتی تھی۔ خوبصورت اور گہرائی لیے سنہری آنکھیں، کوئی دیکھے تو ڈوبتا چلا جائے۔ صحت مند، سروقد، اﷲ نے اسے ہر طرح سے خوب بنایا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ریشماں بولتی تھی تو لوگ خاموش اسے سنتے تھے اور جب ریشماں گاتی تھی تو لوگ اس کے ساتھ صحراؤں میں بھٹکتے تھے۔ کبھی تپتی ریت تو کبھی ٹھنڈی راتوں میں، کبھی رم جھم برساتوں میں کوکتی کوئل رقص کرتے مور اور ریشماں تان لگاتی۔
شہر بھنبھور دی کڑیو، تسی نک وچ نتھ نہ پائیو
میں بھل گئی، تسی بھل نہ جائیو، یاری نال بلوچ نہ لائیو
ہائے اور ربانئیں لگدا دل میرا
سجناں باج ہو یا ہنیرا
ریشماں کا ایک گیت تو اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے اردو ترجمے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ بول لوگوں کے دلوں میں رچے بسے ہیں۔
ریشماں نے چند اردو گیت بھی گائے اور وہاں بھی ریشماں عروج پر نظر آتی ہے ''اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے'' اور ''میری ہمجولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں، نام لے کر ترا، مسکرائیں، گنگنائیں، دل جلائیں مرا، ہائے جاؤں کہاں۔ موسیقاروں کو سامنے رکھ کے یہ دونوں طرزیں خوب بنائی ہیں۔
اب ماتم بے قیمت ہے۔ گزرے کل ہم نے توقیر نہیں کی۔ ٹھیک ہے بیماری کے آخری ایک دو سال حکومت نے اپنے خرچ پر علاج معالجہ کروایا۔ مگر ریشماں اور ان جیسے دوسرے ''خاص'' لوگ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔ مگر کیا کریں ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزاد نہیں ہیں۔ آزاد قومیں ہی اﷲ کے بنائے ہوئے خاص بندوں کا خاص خیال رکھا کرتی ہیں۔ ریشماں سے پہلے بھی کچھ بنجارے گھومتے پھرے دنیا کو حیران کرتے، اپنا کام کرکے چلے گئے۔ یہی طفیل نیازی، سائیں اختر حسین، استاد امانت علی خان، سائیں مرنا (اک تارا بجاتے تھے) یہ وہ فنکار تھے جنھیں ''محلوں'' میں سروں کے چراغ جلانے کے لیے بلایاجاتا تھا اور پھر رات کے آخری پہر میں یہ فنکار اپنے ''محلوں'' میں سوجاتے تھے۔
میں ریشماں کے لیے آخری چند سطریں لکھنا چاہ رہا تھا مگر ریشماں خود آگئی ہیں۔ وہ گارہی ہیں۔ ہمیں درس دے رہی ہیں۔
چار دناں دا، پیار اور ربا، بڑی لمبی جدائی، لمبی جدائی اور ہم اس چار دنوں کے پیار میں کیا کیا گند گھولتے ہیں۔ اور اس لمبی جدائی کا دھیان ہی نہیں کرتے۔ چار دن کی زندگی میں کیا کیا قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ قتل کردیتے ہیں، خدا بن جاتے ہیں، غاصب، قابض بن جاتے ہیں۔ ریشماں اپنی گور میں اتر گئی مگر بقول بھلے شاہ۔
بھلے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
بھلے شاہ بھی زندہ ہیں اور ریشماں بھی زندہ رہے گی، اﷲ درجات بلند فرمائے۔ (آمین)