لاپتا افرادکے لیے لانگ مارچ… کوئی حل ہے
جیسے اُنہیں کیمپ سے نکلتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ وہ تعداد میں کتنے ہوں گے ، ایسے ہی انھیں کوئی امید نہیں کہ وہ جب۔۔۔
جیسے اُنہیں کیمپ سے نکلتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ وہ تعداد میں کتنے ہوں گے ، ایسے ہی انھیں کوئی امید نہیں کہ وہ جب آٹھ سو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے ملک کے کاسمو پولیٹن پہنچیں گے تو ان کے پیروں کے چھالوں پہ مرہم رکھنے والا کوئی ہوگا یا نہیں۔ان کے تو اپنوں کے دیس میں لگے ہوئے کیمپ میں ہفتوں کوئی حال لینے والا نہ ہوتا تھا ، تو اس شہر ناپرساں میں جہاں گھر کے احباب ایک دوسرے کا چہرہ ہفتوں نہیں دیکھ پاتے، کون ان کے درد بانٹے گا، کون ان کے زخموں پہ مرہم رکھے گا۔لیکن برسوں کے تجربے سے یہ لوگ بھی اب اس ناترسی کے عادی ہو چکے ہیں، اس لیے ان کے ہونٹوں پہ اس بے مہری پہ اب کوئی شکوہ نہیں ہوتا، کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ اور پھر ان کا درد اتنا بڑا ہے کہ نامہربانی کے چھوٹے موٹے درد تو اب ان کے لیے تکلیف کا باعث ہی نہیں ہوتے۔ جب پورا گھر آ گ کی لپیٹ میں ہو تو اپنے پیروں کے چھالوں کی پروا، ہی کون کرتا ہے!
بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی جانے والا لانگ مارچ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک اپنی منزل کو پہنچ چکا ہو(... ان کی منزل ہے کہاں؟!)لیکن اس پر ہونے والی چہ میگوئیاں تب بھی جاری رہیں گی جن میں سرد مہری کم اور ناترسی کا تاثر زیادہ ہے۔ اس لانگ مارچ نے بلوچستان کی سیاست میں بظاہر بھلے کوئی اتھل پتھل پیدا نہ کی ہو لیکن اس نے ایسے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جو بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر کئی نئے مباحث کا باعث بن سکتے ہیں مگر افسوس کہ عرصہ ہوا بلوچستان کے سیاسی میدان میں مباحث اور مکالمے کا دروازہ بند ہو چکا۔ یہاں اب مکالمہ زبان سے نہیں، بندوق کی نوک سے ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کھیل میں جیت طاقت کی ہی ہونی ہے اور طاقت محض بندوق کی نہیں ہوتی، طاقت جیت کے لیے اپنے تمام ذرایع استعمال کرتی ہے۔
اس میں ایک نہایت طاقت ور اور مؤثر ذریعہ پروپیگنڈے کا ہے۔ سو طاقت ور قوتوں نے اس معاملے پہ وہ پروپیگنڈہ پھیلا رکھا ہے کہ کوئی اہلِ دل جسے سننے کی تاب بھی نہ رکھے۔ یہ کیا ظلم نہیں کہ کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے سامنے لگائے گئے کیمپ کو اب 'دکان' کا نام دے دیا گیا ہے جو خانہ بدوشوں کی طرح گرمیوں کا سیزن کوئٹہ میں گزارنے کے بعد یخ بستہ سردیوں میں کراچی یا اسلام آباد منتقل ہو جاتا ہے۔ بعضے تو نہایت ناترسی اور بے شرمی کے ساتھ اسے 'بلیک میلنگ' کہنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ یہ کیا المیہ ہے کہ معروف صحافی بھی اب اپنے جگر گوشوں کے لیے احتجاج کرنیوالے سیاسی لوگوں کو بلیک میلنگ کا الزام دیتے ہیں۔ بزرگوں نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ چور کو سارا محلہ چور ہی نظر آتا ہے۔
اس پروپیگنڈہ مشینری کا اصل مقصد ہے بدعتی نوعیت کے مباحث پیدا کر کے اصل معاملے سے توجہ ہٹانا۔ جیسے کوئٹہ میں آپ کو اس مشینری کے لوگ اس کیمپ سے متعلق لوگوں کواِس قسم کے سوالات میں الجھاتے نظر آئیں گے کہ کیمپ کے لیے لگے ہوئے ٹینٹ کا روزانہ کا خرچ پانچ سو سے ہزار روپے ہے، آخر یہ کون ادا کر رہا ہے؟ بیس ہزار لوگ لاپتہ ہیں لیکن کیمپ میں بیس لوگ بھی نظر نہیں آتے، آخر ان کے لواحقین کہاں ہیں؟ کیمپ میں ماما قدیر کے ساتھ سیاسی کارکنوں کی بجائے لڑکیوں کو بٹھانے کا آخر کیا مقصد ہے؟ وغیرہ ۔حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کیمپ میں بیٹھنے والے سیاسی کارکنوں کو بھی ایک ایک کر کے لاپتہ کیا گیا، اور یہ بچیاں انھی کی لواحقین ہیں۔ ٹینٹ کے اخراجات سیاسی کارکن اپنی جیب اور چندے سے ادا کر رہے ہیں، لیکن چونکہ ان کا اصل مقصد تسلی بخش جواب کا حصول نہیں بلکہ غیر ضروری مباحث کو ہوا دے کر اصل معاملے سے توجہ ہٹانا ہے، اس لیے وہ آپ کے تمام دلائل ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکالتے جاتے ہیں، اور ان کاآخری صحافیانہ حربہ ہوتا ہے،''آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں بھائی، یہ سب اوپر کا کھیل ہے!''
کھیل اوپر کا ہو یا نیچے کا، دائیں کا ہو یا بائیں کا، ہمیں کچھ اور پتہ ہو یا نہ ہو ہم اتنا جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں ہر شخص کو اظہارِ رائے اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کی آزادی کا حق حاصل ہے، نیز یہ کہ غداری کی بھی ایک آئینی اور قانونی سزا مقرر ہے اس لیے سادہ سا مطالبہ یہ ہے کہ ملزمان پر خواہ کیسا ہی کڑا الزام کیوں نہ ہو، باید ہے کہ انھیں عدالتوں میں لایا جائے، ان پر مقدمہ چلایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ معاملہ یہ نہیں کہ بیس ہزار لوگ لاپتہ ہیں یا محض بیس افراد، حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک بھی شخص غیر قانونی طور پر لاپتہ ہے تو ریاست اور اس کے اداروں کے آئینی کردار پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔ بلوچستان میں نسلی بنیادوں پر ہونے والاعام آدمی کا قتل ہو یا ریاستی اداروں کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل، دونوں بیک وقت قابلِ مذمت ہیں۔
آئیے اب ذرا جذباتی سطح سے ہٹ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کا آخر حل کیا ہے؟
بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ کچھ نیا نہیں۔ پرویز مشرف کے آمرانہ عہد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی کے جمہوری دور سے ہوتا ہوا موجودہ عہد تک جاری ہے۔ بلوچستان میں بھی عنانِ اقتدار نام نہاد سیاسی قیادت سے ہوتی ہوئی 'حقیقی قوم پرست' قیادت کے ہاتھوں میں آ چکی لیکن معاملہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بلوچستان میں 'نوابوں' کی حکومت قائم ہونے پر یہی خوش فہمی پال لی گئی تھی کہ چونکہ بلوچستان میں تمام معاملات نوابوں کے ہاتھ میں ہیں اس لیے ان کی حکومت قائم ہونے سے اب معاملات حل ہو جائینگے، کچھ ایسی ہی غلط فہمی اب موجودہ حکومت سے متعلق قائم کر لی گئی ہے۔
موجودہ حکمرانوں نے بھی اس معاملے پر کچھ زیادہ ہی پھرتی دکھانے کی کوشش کی ، لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کیے، مسخ شدہ لاشوں کیے سلسلے کو ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ وزیر اعلیٰ تو ایک قدم آگے بڑھ کر حلف اٹھاتے ہی لاپتہ افراد کے کیمپ تک چلے گئے۔ لیکن معاملہ چونکہ ان کے 'ڈومین' میں ہی نہیں آتا، اس لیے نہ اس کا کچھ ہونا تھا، نہ کچھ ہوا۔لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی حکومت سے حل ہونے کی توقع رکھنے والے یا تو سادہ لوحی سے کام لے رہے ہیں یا پھر چالاکی دکھا رہے ہیں۔ یہ نہایت واضح بات ہے کہ یہ معاملہ سیاسی حکومتوں کے بس کی بات نہیں، حکومت خواہ کسی نواب کی ہو یا کسی مڈل کلاس قوم پرست کی۔
یہ مسئلہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے پیداکردہ ہے، اسے حل بھی وہی کر سکتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں ابھی اتنی طاقت ور نہیں ہوئیں کہ سکیورٹی اداروں کی جوابدہی کر سکیں۔ ایسے میں پاکستان کی سول سوسائٹی اس معاملے پر سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط کرے اور عالمی طاقتیں اگر اس میں اپنا کردار ادا کریں تو معاملہ سلجھنے کی کوئی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ وگرنہ یہ اکیلے بے بس سیاسی قوتوں کے بس کی بات نہیں، نہ ہی انھیں لعن طعن کرنے سے معاملہ حل ہو پائے گا۔
سیاسی فکر رکھنے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاست اور طاقت کی جنگ میں حتمی جیت سیاست کی ہی ہونی ہے، لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے کتنے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کا سفر طے کرنا ہو گا!
بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی جانے والا لانگ مارچ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک اپنی منزل کو پہنچ چکا ہو(... ان کی منزل ہے کہاں؟!)لیکن اس پر ہونے والی چہ میگوئیاں تب بھی جاری رہیں گی جن میں سرد مہری کم اور ناترسی کا تاثر زیادہ ہے۔ اس لانگ مارچ نے بلوچستان کی سیاست میں بظاہر بھلے کوئی اتھل پتھل پیدا نہ کی ہو لیکن اس نے ایسے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جو بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر کئی نئے مباحث کا باعث بن سکتے ہیں مگر افسوس کہ عرصہ ہوا بلوچستان کے سیاسی میدان میں مباحث اور مکالمے کا دروازہ بند ہو چکا۔ یہاں اب مکالمہ زبان سے نہیں، بندوق کی نوک سے ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کھیل میں جیت طاقت کی ہی ہونی ہے اور طاقت محض بندوق کی نہیں ہوتی، طاقت جیت کے لیے اپنے تمام ذرایع استعمال کرتی ہے۔
اس میں ایک نہایت طاقت ور اور مؤثر ذریعہ پروپیگنڈے کا ہے۔ سو طاقت ور قوتوں نے اس معاملے پہ وہ پروپیگنڈہ پھیلا رکھا ہے کہ کوئی اہلِ دل جسے سننے کی تاب بھی نہ رکھے۔ یہ کیا ظلم نہیں کہ کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے سامنے لگائے گئے کیمپ کو اب 'دکان' کا نام دے دیا گیا ہے جو خانہ بدوشوں کی طرح گرمیوں کا سیزن کوئٹہ میں گزارنے کے بعد یخ بستہ سردیوں میں کراچی یا اسلام آباد منتقل ہو جاتا ہے۔ بعضے تو نہایت ناترسی اور بے شرمی کے ساتھ اسے 'بلیک میلنگ' کہنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ یہ کیا المیہ ہے کہ معروف صحافی بھی اب اپنے جگر گوشوں کے لیے احتجاج کرنیوالے سیاسی لوگوں کو بلیک میلنگ کا الزام دیتے ہیں۔ بزرگوں نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ چور کو سارا محلہ چور ہی نظر آتا ہے۔
اس پروپیگنڈہ مشینری کا اصل مقصد ہے بدعتی نوعیت کے مباحث پیدا کر کے اصل معاملے سے توجہ ہٹانا۔ جیسے کوئٹہ میں آپ کو اس مشینری کے لوگ اس کیمپ سے متعلق لوگوں کواِس قسم کے سوالات میں الجھاتے نظر آئیں گے کہ کیمپ کے لیے لگے ہوئے ٹینٹ کا روزانہ کا خرچ پانچ سو سے ہزار روپے ہے، آخر یہ کون ادا کر رہا ہے؟ بیس ہزار لوگ لاپتہ ہیں لیکن کیمپ میں بیس لوگ بھی نظر نہیں آتے، آخر ان کے لواحقین کہاں ہیں؟ کیمپ میں ماما قدیر کے ساتھ سیاسی کارکنوں کی بجائے لڑکیوں کو بٹھانے کا آخر کیا مقصد ہے؟ وغیرہ ۔حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کیمپ میں بیٹھنے والے سیاسی کارکنوں کو بھی ایک ایک کر کے لاپتہ کیا گیا، اور یہ بچیاں انھی کی لواحقین ہیں۔ ٹینٹ کے اخراجات سیاسی کارکن اپنی جیب اور چندے سے ادا کر رہے ہیں، لیکن چونکہ ان کا اصل مقصد تسلی بخش جواب کا حصول نہیں بلکہ غیر ضروری مباحث کو ہوا دے کر اصل معاملے سے توجہ ہٹانا ہے، اس لیے وہ آپ کے تمام دلائل ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکالتے جاتے ہیں، اور ان کاآخری صحافیانہ حربہ ہوتا ہے،''آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں بھائی، یہ سب اوپر کا کھیل ہے!''
کھیل اوپر کا ہو یا نیچے کا، دائیں کا ہو یا بائیں کا، ہمیں کچھ اور پتہ ہو یا نہ ہو ہم اتنا جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں ہر شخص کو اظہارِ رائے اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کی آزادی کا حق حاصل ہے، نیز یہ کہ غداری کی بھی ایک آئینی اور قانونی سزا مقرر ہے اس لیے سادہ سا مطالبہ یہ ہے کہ ملزمان پر خواہ کیسا ہی کڑا الزام کیوں نہ ہو، باید ہے کہ انھیں عدالتوں میں لایا جائے، ان پر مقدمہ چلایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ معاملہ یہ نہیں کہ بیس ہزار لوگ لاپتہ ہیں یا محض بیس افراد، حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک بھی شخص غیر قانونی طور پر لاپتہ ہے تو ریاست اور اس کے اداروں کے آئینی کردار پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔ بلوچستان میں نسلی بنیادوں پر ہونے والاعام آدمی کا قتل ہو یا ریاستی اداروں کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل، دونوں بیک وقت قابلِ مذمت ہیں۔
آئیے اب ذرا جذباتی سطح سے ہٹ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کا آخر حل کیا ہے؟
بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ کچھ نیا نہیں۔ پرویز مشرف کے آمرانہ عہد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی کے جمہوری دور سے ہوتا ہوا موجودہ عہد تک جاری ہے۔ بلوچستان میں بھی عنانِ اقتدار نام نہاد سیاسی قیادت سے ہوتی ہوئی 'حقیقی قوم پرست' قیادت کے ہاتھوں میں آ چکی لیکن معاملہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بلوچستان میں 'نوابوں' کی حکومت قائم ہونے پر یہی خوش فہمی پال لی گئی تھی کہ چونکہ بلوچستان میں تمام معاملات نوابوں کے ہاتھ میں ہیں اس لیے ان کی حکومت قائم ہونے سے اب معاملات حل ہو جائینگے، کچھ ایسی ہی غلط فہمی اب موجودہ حکومت سے متعلق قائم کر لی گئی ہے۔
موجودہ حکمرانوں نے بھی اس معاملے پر کچھ زیادہ ہی پھرتی دکھانے کی کوشش کی ، لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوے کیے، مسخ شدہ لاشوں کیے سلسلے کو ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ وزیر اعلیٰ تو ایک قدم آگے بڑھ کر حلف اٹھاتے ہی لاپتہ افراد کے کیمپ تک چلے گئے۔ لیکن معاملہ چونکہ ان کے 'ڈومین' میں ہی نہیں آتا، اس لیے نہ اس کا کچھ ہونا تھا، نہ کچھ ہوا۔لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی حکومت سے حل ہونے کی توقع رکھنے والے یا تو سادہ لوحی سے کام لے رہے ہیں یا پھر چالاکی دکھا رہے ہیں۔ یہ نہایت واضح بات ہے کہ یہ معاملہ سیاسی حکومتوں کے بس کی بات نہیں، حکومت خواہ کسی نواب کی ہو یا کسی مڈل کلاس قوم پرست کی۔
یہ مسئلہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے پیداکردہ ہے، اسے حل بھی وہی کر سکتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں ابھی اتنی طاقت ور نہیں ہوئیں کہ سکیورٹی اداروں کی جوابدہی کر سکیں۔ ایسے میں پاکستان کی سول سوسائٹی اس معاملے پر سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط کرے اور عالمی طاقتیں اگر اس میں اپنا کردار ادا کریں تو معاملہ سلجھنے کی کوئی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ وگرنہ یہ اکیلے بے بس سیاسی قوتوں کے بس کی بات نہیں، نہ ہی انھیں لعن طعن کرنے سے معاملہ حل ہو پائے گا۔
سیاسی فکر رکھنے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاست اور طاقت کی جنگ میں حتمی جیت سیاست کی ہی ہونی ہے، لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے کتنے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کا سفر طے کرنا ہو گا!