بچوں کا قتل عام
حقیقی معنوں میں بچے معصوم ہوتے ہیں۔ بچوں کے ذہن میں میرا اور تیرا یعنی ملکیت کا تصور ہوتا ہی نہیں
''بچے من کے سچے/ ساری جگ کی آنکھ کے تارے/ یہ وہ نہیں پھول ہیں جو/ بھگوان کو لگتے پیارے/ بچے من کے سچے/ خود روٹھے خود مان جائے/ پھر ہم جولی بن جائے/ جھگڑے جس کے ساتھ کرے/ اگلی ہی پل پھر بات کرے/ ان کو کسی کی بیر نہیں، ان کے لیے کوئی غیر نہیں۔''
انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے بچوں کے بارے میں کتنی سچی اورکھری سوچ کا اظہارکیا ہے۔ حقیقی معنوں میں بچے معصوم ہوتے ہیں۔ بچوں کے ذہن میں میرا اور تیرا یعنی ملکیت کا تصور ہوتا ہی نہیں۔ بغض، کینہ، تعصب، خودغرضی اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوتے ہیں۔ یہ ساری طبقاتی خود غرضی اور برائیاں بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ مگر پاکستان میں سب سے زیادہ تشدد ، قتل اور زیادتی کے شکار بچے ہوتے ہیں۔
شاید دنیا میں دو چار ممالک پاکستان کی طرح ہوں گے جہاں سب سے زیادہ قتل بچے ہوتے ہوں گے۔ اعداد وشمار کے مطابق روزانہ چار اور ماہانہ کم ازکم سو اور سال میں خاص کر دو سو انیس میں تیرہ بچے اغوا، تشدد، زیادتی کا شکار اور قتل ہوئے۔ یہ ان کی بات کر رہا ہوں جو سرکاری رپورٹ میں درج ہوئے جب کہ حقیقتاً اس سے کم ازکم چار گنا زیادہ زیادتی کے شکار اور قتل ہوئے ہوں گے۔ اغوا، زیادتی اور قتل لڑکوں میں بیس فیصد جب کہ لڑکیوں میں اسی فیصد ہیں۔
ان کی عمریں پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کی ہوتی ہیں۔ ان میں پانچ فیصد تاوان کے لیے اغوا کیے جاتے ہیں، دس فیصد خرکاروں کے کیمپ کے لیے اور دس فیصد سے بھی زیادہ بیرون ملک اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ عرب ممالک میں اونٹ کی دوڑ میں کام آتے ہیں۔ تقریباً سات فیصد لڑکیاں جن کی عمر بارہ سے سولہ سال کی ہے، ان سے عصمت فروشی کرائی جاتی ہے۔ تقریباً چار اعشاریہ پانچ فیصد بچوں کو معذور یا اپاہج کرکے گداگری کروائی جاتی ہے۔
ایک مخصوص صورتحال تھرپارکر میں ہے۔ یہاں اسی فیصد اچھوت ہندو رہائش پذیر ہیں جو یہاں کی قدیم ترین آبادی میں سے ہیں۔ یہ کولھی، بھیل اور میگھواڑ کہلاتے ہیں۔ یہاں جب کبھی بچیوں سے زیادتی کرنے کے خلاف ان کے والدین انصاف کے لیے رخ کرتے ہیں تو یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ اغوا کرنے والے لڑکی کے والدین کو دس یا بیس من گندم جرمانے کے طور پر ادا کریں اور لڑکی کو لوٹا دیں۔ ہم اکثر اخبار میں یہ خبر بھی پڑھتے ہیں کہ فلاں لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین اور مرد حضرات کیوں اسلام قبول نہیں کرتے، صرف کم سن بچیاں ہی کیوں؟ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ اس عمل کے خلاف سخت سزائیں بھی نہیں ہیں۔
ملک بھر میں جو بچیاں اغوا ہوتی ہیں انھیں جنسی زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ قاتل زیادہ تر اپنے ہی محلے، دوستوں اور رشتے داروں میں سے ہوتے ہیں۔ بچوں کو حیلے بہانے، گھمانے پھرانے لے جاتے ہیں اور پھر ان کا ریپ کرکے قتل کر دیتے ہیں۔ ایسے سیکڑوں واقعات ہوچکے ہیں جن کو عدالت سے سزائیں ملی ہیں، سزائے موت بھی ہوئی ہے، اس کے باوجود یہ گھناؤنے واقعات رکنے کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کے اپنے فطری تقاضے ہوتے ہیں۔ عمر بڑھ جاتی ہے تو پھر روزگار اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ بے روزگار شخص شادی کہاں سے کرے گا۔ اس کا اپنا گھر بھی نہیں ہوتا۔ پھر انسان بے راہ روی اور گھناؤنے واقعات میں ملوث ہوتا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں خاص کر مذہبی جماعتیں مختلف مسائل پر آواز بلند تو کرتی ہیں لیکن آٹا مہنگا ہونے اور بچیوں کے ساتھ ریپ ہونے پرکوئی ہڑتال یا کوئی موثر احتجاج نہیں کرتیں۔ اب یہ بچیاں اور ان کے والدین کس کے پاس فریاد لے کر جائیں۔ ساحر لدھیانوی نے اسی پر کہا تھا کہ ''مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی/ یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی/ پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی/ بلاؤ خدایان دیں کو بلاؤ، یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ/ ثناخوان تقدیس مشرق کو لاؤ، ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں'' ان گھناؤنے واقعات کے رونما ہونے کی ایک بڑی وجہ علم و شعور اورآگہی کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم نہیں ہے اور جنسی آگہی کے بارے میں کچھ بھی پڑھایا نہیں جاتا۔ کم عمری میں ہی پڑھائی چھوڑ کر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔
عالمی ادارے چائلڈ لیبر کو خلاف انسانی حقوق قرار دیتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آٹا، دال، چاول اتنا مہنگا ہے کہ اگر بچے کام نہ کریں تو خاندان کا ایک شخص کما کر نہیں کھلا سکتا پھر وہ نیم فاقہ کشی یا فاقہ کشی کے دن گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ جہاں تک پولیس اور خفیہ ادارے جن کا کام ہے کہ ان گھناؤنے اقدام سے لوگوں کو روکیں، بعض اوقات پولیس خود ایسے اقدام میں شریک کار ہوتی ہے۔ بیشتر پولیس والوں کو پیسہ دے کر جو چاہیں کروا لیں۔ چونکہ ہمارا سماج ہی سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام پر مشتمل ہے اس لیے ہر موڑ پر، ہر دام پہ، اور شاخ پر رشوت خور بیٹھے ہوتے ہیں۔
کون سا ایسا ادارہ ہے کہ سترہ سے بائیس گریڈ کے افسران روزانہ لاکھوں روپے رشوت نہیں لیتے۔ پولیس، ٹریفک پولیس، خفیہ ادارے، کسٹم، اینٹی کرپشن، ایف بی آئی، وغیرہ تو پاکستان میں روزانہ اربوں کی رشوت وصول کرتے ہیں۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی، ایل ڈی اے، ایچ ڈی ایل، کے الیکٹرک کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ان کا پورا چین کا دارومدار رشوت پر منحصر ہے۔ تو پھر اس بدترین اور لوٹ کھسوٹ کے بازار میں کس کو بچوں کی فکر ہوگی۔ مگر مجھے یہ یقین ہے کہ یہ بچے ہی اس معاشرے کو درست بھی کریں گے۔ میں نے ایک انڈین آرٹ فلم ''انکور'' دیکھی تھی۔ جس میں ایک کسان کو ٹیکس نہ ادا کرنے پر جاگیردار اپنے کارندوں سے کوڑے مروا رہا تھا جب کہ دور سے ایک بچہ کوڑے مارنے والے کو پتھر مار کر بھاگ جاتا ہے۔ یہی اس لوٹ مار کے سماج کے خلاف بغاوت کی ابتدا ہے۔
پاکستان میں ایک بچے اعتزاز احسن نے خودکش بمبار کو روکتے ہوئے اپنی جان تو دے دی لیکن سیکڑوں اسکول کے بچوں کو بچا لیا۔ چند دنوں کی بات ہے کہ صوابی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی دو خواتین جو پولیو کے قطرے پلانے جا رہی تھیں ان کے ساتھ پولیس کو نہیں بھیجا گیا تھا، دہشت گردوں نے گولی مار کر شہید کردیا۔ ان کے جنازے میں کسی وزیر یا مشیر نے شرکت نہیں کی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے پی کے کے صدر نے ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ ''ہم بیس ہزار روپے تنخواہ پانے والے ہی کیوں مارے جاتے ہیں، دفتروں میں بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کیوں نہیں مارے جاتے، ہمارے شہیدوں کے لواحقین کو اتنی ہی رقوم ادا کی جائیں جتنی سیکیورٹی اداروںکے اہلکاروں کو دی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود پولیوکا خاتمہ نہیں چاہتی، اس لیے کہ اگر پولیو کا خاتمہ ہو گیا تو ان افسران کو لاکھوں کی تنخواہیں کہاں سے ملیں گی۔ گزشتہ سال ایک سو بیس لیڈی ہیلتھ ورکرز شہید ہوئیں۔ جدوجہد ہی مسائل کا واحد حل ہے جو آگے چل کر ایسا سماج تشکیل دے گا جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے یعنی ایک امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج ہی مسائل کو حل کرے گا۔
انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے بچوں کے بارے میں کتنی سچی اورکھری سوچ کا اظہارکیا ہے۔ حقیقی معنوں میں بچے معصوم ہوتے ہیں۔ بچوں کے ذہن میں میرا اور تیرا یعنی ملکیت کا تصور ہوتا ہی نہیں۔ بغض، کینہ، تعصب، خودغرضی اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوتے ہیں۔ یہ ساری طبقاتی خود غرضی اور برائیاں بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ مگر پاکستان میں سب سے زیادہ تشدد ، قتل اور زیادتی کے شکار بچے ہوتے ہیں۔
شاید دنیا میں دو چار ممالک پاکستان کی طرح ہوں گے جہاں سب سے زیادہ قتل بچے ہوتے ہوں گے۔ اعداد وشمار کے مطابق روزانہ چار اور ماہانہ کم ازکم سو اور سال میں خاص کر دو سو انیس میں تیرہ بچے اغوا، تشدد، زیادتی کا شکار اور قتل ہوئے۔ یہ ان کی بات کر رہا ہوں جو سرکاری رپورٹ میں درج ہوئے جب کہ حقیقتاً اس سے کم ازکم چار گنا زیادہ زیادتی کے شکار اور قتل ہوئے ہوں گے۔ اغوا، زیادتی اور قتل لڑکوں میں بیس فیصد جب کہ لڑکیوں میں اسی فیصد ہیں۔
ان کی عمریں پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کی ہوتی ہیں۔ ان میں پانچ فیصد تاوان کے لیے اغوا کیے جاتے ہیں، دس فیصد خرکاروں کے کیمپ کے لیے اور دس فیصد سے بھی زیادہ بیرون ملک اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ عرب ممالک میں اونٹ کی دوڑ میں کام آتے ہیں۔ تقریباً سات فیصد لڑکیاں جن کی عمر بارہ سے سولہ سال کی ہے، ان سے عصمت فروشی کرائی جاتی ہے۔ تقریباً چار اعشاریہ پانچ فیصد بچوں کو معذور یا اپاہج کرکے گداگری کروائی جاتی ہے۔
ایک مخصوص صورتحال تھرپارکر میں ہے۔ یہاں اسی فیصد اچھوت ہندو رہائش پذیر ہیں جو یہاں کی قدیم ترین آبادی میں سے ہیں۔ یہ کولھی، بھیل اور میگھواڑ کہلاتے ہیں۔ یہاں جب کبھی بچیوں سے زیادتی کرنے کے خلاف ان کے والدین انصاف کے لیے رخ کرتے ہیں تو یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ اغوا کرنے والے لڑکی کے والدین کو دس یا بیس من گندم جرمانے کے طور پر ادا کریں اور لڑکی کو لوٹا دیں۔ ہم اکثر اخبار میں یہ خبر بھی پڑھتے ہیں کہ فلاں لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین اور مرد حضرات کیوں اسلام قبول نہیں کرتے، صرف کم سن بچیاں ہی کیوں؟ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ اس عمل کے خلاف سخت سزائیں بھی نہیں ہیں۔
ملک بھر میں جو بچیاں اغوا ہوتی ہیں انھیں جنسی زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ قاتل زیادہ تر اپنے ہی محلے، دوستوں اور رشتے داروں میں سے ہوتے ہیں۔ بچوں کو حیلے بہانے، گھمانے پھرانے لے جاتے ہیں اور پھر ان کا ریپ کرکے قتل کر دیتے ہیں۔ ایسے سیکڑوں واقعات ہوچکے ہیں جن کو عدالت سے سزائیں ملی ہیں، سزائے موت بھی ہوئی ہے، اس کے باوجود یہ گھناؤنے واقعات رکنے کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کے اپنے فطری تقاضے ہوتے ہیں۔ عمر بڑھ جاتی ہے تو پھر روزگار اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ بے روزگار شخص شادی کہاں سے کرے گا۔ اس کا اپنا گھر بھی نہیں ہوتا۔ پھر انسان بے راہ روی اور گھناؤنے واقعات میں ملوث ہوتا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں خاص کر مذہبی جماعتیں مختلف مسائل پر آواز بلند تو کرتی ہیں لیکن آٹا مہنگا ہونے اور بچیوں کے ساتھ ریپ ہونے پرکوئی ہڑتال یا کوئی موثر احتجاج نہیں کرتیں۔ اب یہ بچیاں اور ان کے والدین کس کے پاس فریاد لے کر جائیں۔ ساحر لدھیانوی نے اسی پر کہا تھا کہ ''مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی/ یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی/ پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی/ بلاؤ خدایان دیں کو بلاؤ، یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ/ ثناخوان تقدیس مشرق کو لاؤ، ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں'' ان گھناؤنے واقعات کے رونما ہونے کی ایک بڑی وجہ علم و شعور اورآگہی کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم نہیں ہے اور جنسی آگہی کے بارے میں کچھ بھی پڑھایا نہیں جاتا۔ کم عمری میں ہی پڑھائی چھوڑ کر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔
عالمی ادارے چائلڈ لیبر کو خلاف انسانی حقوق قرار دیتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آٹا، دال، چاول اتنا مہنگا ہے کہ اگر بچے کام نہ کریں تو خاندان کا ایک شخص کما کر نہیں کھلا سکتا پھر وہ نیم فاقہ کشی یا فاقہ کشی کے دن گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ جہاں تک پولیس اور خفیہ ادارے جن کا کام ہے کہ ان گھناؤنے اقدام سے لوگوں کو روکیں، بعض اوقات پولیس خود ایسے اقدام میں شریک کار ہوتی ہے۔ بیشتر پولیس والوں کو پیسہ دے کر جو چاہیں کروا لیں۔ چونکہ ہمارا سماج ہی سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام پر مشتمل ہے اس لیے ہر موڑ پر، ہر دام پہ، اور شاخ پر رشوت خور بیٹھے ہوتے ہیں۔
کون سا ایسا ادارہ ہے کہ سترہ سے بائیس گریڈ کے افسران روزانہ لاکھوں روپے رشوت نہیں لیتے۔ پولیس، ٹریفک پولیس، خفیہ ادارے، کسٹم، اینٹی کرپشن، ایف بی آئی، وغیرہ تو پاکستان میں روزانہ اربوں کی رشوت وصول کرتے ہیں۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی، ایل ڈی اے، ایچ ڈی ایل، کے الیکٹرک کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ان کا پورا چین کا دارومدار رشوت پر منحصر ہے۔ تو پھر اس بدترین اور لوٹ کھسوٹ کے بازار میں کس کو بچوں کی فکر ہوگی۔ مگر مجھے یہ یقین ہے کہ یہ بچے ہی اس معاشرے کو درست بھی کریں گے۔ میں نے ایک انڈین آرٹ فلم ''انکور'' دیکھی تھی۔ جس میں ایک کسان کو ٹیکس نہ ادا کرنے پر جاگیردار اپنے کارندوں سے کوڑے مروا رہا تھا جب کہ دور سے ایک بچہ کوڑے مارنے والے کو پتھر مار کر بھاگ جاتا ہے۔ یہی اس لوٹ مار کے سماج کے خلاف بغاوت کی ابتدا ہے۔
پاکستان میں ایک بچے اعتزاز احسن نے خودکش بمبار کو روکتے ہوئے اپنی جان تو دے دی لیکن سیکڑوں اسکول کے بچوں کو بچا لیا۔ چند دنوں کی بات ہے کہ صوابی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی دو خواتین جو پولیو کے قطرے پلانے جا رہی تھیں ان کے ساتھ پولیس کو نہیں بھیجا گیا تھا، دہشت گردوں نے گولی مار کر شہید کردیا۔ ان کے جنازے میں کسی وزیر یا مشیر نے شرکت نہیں کی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے پی کے کے صدر نے ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ ''ہم بیس ہزار روپے تنخواہ پانے والے ہی کیوں مارے جاتے ہیں، دفتروں میں بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کیوں نہیں مارے جاتے، ہمارے شہیدوں کے لواحقین کو اتنی ہی رقوم ادا کی جائیں جتنی سیکیورٹی اداروںکے اہلکاروں کو دی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود پولیوکا خاتمہ نہیں چاہتی، اس لیے کہ اگر پولیو کا خاتمہ ہو گیا تو ان افسران کو لاکھوں کی تنخواہیں کہاں سے ملیں گی۔ گزشتہ سال ایک سو بیس لیڈی ہیلتھ ورکرز شہید ہوئیں۔ جدوجہد ہی مسائل کا واحد حل ہے جو آگے چل کر ایسا سماج تشکیل دے گا جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے یعنی ایک امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج ہی مسائل کو حل کرے گا۔