زرعی ترقی ملک کی ضرورت
ملک کی 80 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے لیکن آج تک جدید طریقوں سے پیداوار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی
یہ ضرور تھا کہ بانی پاکستان کی قیادت میں تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور فقط سات برس کی قلیل ترین مدت میں جدوجہد کے ذریعے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ لازم تھا کہ جیسے کہ بانی پاکستان قائد اعظم نے فرمایا تھا'' ہم نے آزادی حاصل کرلی ہے، بلاشبہ قیام پاکستان ایک مشکل مرحلہ تھا البتہ یہ مشکل مرحلہ ہم نے عبورکرلیا ہے البتہ اب اصل مرحلہ ہے پاکستان کی تعمیر کا۔'' بلاشبہ تعمیر پاکستان ایک مشکل مرحلہ ضرور تھا مگر ناگزیر تھا لازم تھا کہ جیسے قیام پاکستان کے لیے تاریخی جدوجہد کی گئی تھی ایسی ہی تعمیر پاکستان کے لیے بھی مثالی جدوجہد کی جاتی۔ جیسے کہ سب کے علم میں تھا کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور قیام پاکستان کے وقت سو فیصد آبادی زراعت سے وابستہ تھی۔
چنانچہ ضروری تھا کہ اس وقت کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری توجہ زرعی ترقی پر مرکوز کردی جاتی۔ زراعت کے جدید آلات سے استفادہ کیا جاتا اور ان زراعت کے جدید آلات کی مقامی طور پر تیاری میں خصوصی دل چسپی لی جاتی یہ ایک احسن اقدام ہوتا اور ہم آج زراعت کے شعبے میں نہ صرف خودکفیل ہوتے بلکہ زرعی پیداوار برآمد کر رہے ہوتے۔ ساتھ میں دودھ کے حصول کے لیے بھی جدید طریقے اپنائے جاتے بشمول دودھ دینے والے جانوروں کی افزائش نسل پر خصوصی توجہ دی جاتی البتہ اس شعبے میں کسی حد تک تو کام ہوا ہے مگر ابھی بھی اس شعبے میں کافی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم آتے ہیں دوبارہ زرعی شعبے کی جانب تو یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی ملک کی 80 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے مگر آج قیام پاکستان کو 73 برس ہونے کے باوجود زراعت کی جدید طریقوں سے پیداوار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہم فی ایکڑ فقط 35 سے 40 من گندم حاصل کر پاتے ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک میں ایسی ہی کیفیت میں فی ایکڑ 80 من گندم حاصل کی جارہی ہے جب کہ ہمارے پاس پنجاب میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔ پڑوسی ملک میں یہ مربوط نہری نظام بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
ایسا اس لیے بھی ہے کہ آزادی کے بعد اس ملک میں ملکی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے، زراعت کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے زراعت کی صنعت نے ترقی کی البتہ ہم وہی روایتی طریقے سے کاشت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اب بھی اگر ہمیں زرعی ترقی مقصود ہے تو پھر ہمیں زراعت کے لیے آب پاشی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آبی ذخائر کی جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ گزشتہ نصف صدی سے زیر التوا منصوبہ کالا باغ ڈیم جوکہ ہماری زراعت کے لیے ناگزیر ہے کو مکمل کرنا ہوگا مگر چاروں صوبوں کی رضامندی و اتفاق رائے سے یہ لازمی شرط ہے، بصورت دیگرکالا باغ ڈیم اگر اتفاق رائے سے مکمل نہیں ہوتا تو پھر یہ ڈیم ملک میں انتشار کا باعث ہوگا جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا، چنانچہ لازم ہے کالا باغ ڈیم مکمل کیا جائے اور اس منصوبے سے چاروں صوبوں کو منصفانہ طریقے سے پانی تقسیم کیا جائے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ چھوٹے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر بلاسود قرضے دیے جائیں اس کے ساتھ زراعت سے متعلق جو زرعی آلات ہیں جن میں ٹریکٹر ، تھریشر ،گندم کی کٹائی وصفائی کرنے والی مشین حکومتی اداروں سے تصدیق شدہ بیج کے ساتھ کھادیں تمام کیڑے مار ادویات و اسپرے کم سے کم قیمت پر کاشت کاروں کو فراہم کی جائیں۔ گنے کی فصل کے ملک بھر میں یکساں دام مقررکیے جائیں اور تمام فصلوں کی بشمول گنے کی قیمت بروقت کاشت کاروں کو ادا کی جائے۔ ان تمام تر حقائق کے باوجود غنیمت یہ ہے کہ ہماری زرعی پیداوار ہماری ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود غذائی اشیا کے بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ تو اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ٹھیک ہے غذائی اشیا ہماری ضرورت پوری کرسکتی ہیں مگر پھر ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جوکہ ناجائز منافع خوری کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ پہلے غذائی اشیا کا ذخیرہ کرتا ہے پھر ان غذائی اشیا کی طلب و رسد میں عدم توازن پیدا کرتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ ان غذائی اشیا کے معاملے میں ایک ایک کرکے بحران پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں پہلے ٹماٹرکا بحران پیدا ہوا اور ٹماٹر 350 روپے فی کلو بازاروں میں فروخت ہوا۔ جب ٹماٹر کی قیمت کچھ مستحکم ہوئی تو آٹے کا بحران پیدا کیا گیا اور 40 روپے فی کلو فروخت ہونے والا آٹا 75 سے 80 روپے فی کلو میں فروخت ہوا جب کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اس آٹا بحران سے مکمل لاتعلق و لاعلم رہیں یہاں تک ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں فرما دیا کہ اچھا تو ملک میں آٹے کا بحران ہے مگر میرے علم میں یہ بات نہیں۔ ایک اور وزیر موصوف نے فرمایا '' سردیوں میں روٹی زیادہ کھائی جاتی ہے اس لیے آٹا بحران پیدا ہوا ہے'' ایک اور وزیر موصوف نے اپنا موقف ان الفاظ میں دیا کہ جو دو روٹی کھاتا ہے وہ ایک روٹی کھائے۔ آٹا بحران ختم ہوجائے گا۔
ابھی آٹے کا بحران جاری تھا کہ ایک اور بحران ہمارا منتظر تھا وہ ہے چینی کا بحران۔ گویا 70 روپے فی کلو فروخت ہونے والی چینی 85 سے 90 میں فروخت ہو رہی ہے۔ یہ آٹا بحران اس لیے بھی پیدا ہوا کہ چالیس لاکھ ٹن آٹا افغانستان اسمگل کر دیا گیا یہ سوچے بنا کہ ہماری اپنی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ یوں بھی ہم افغان مہاجرین کی میزبانی کا بے مقصد فریضہ انجام دے رہے ہیں مگر اب لازم ہے کہ ہم اپنی ضروریات و وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت طے کریں۔ افغانستان کو اپنے فیصلے کرنے دیں، یوں بھی افغانستان، پاکستان کے بجائے بھارت کے زیادہ قریب تر ہے جوکہ افغانستان میں 116 چھوٹے بڑے منصوبے مکمل کر رہا ہے۔ بہرکیف ہمیں ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زرعی حکمت عملی بنانی ہوگی اور زراعت کی صنعت کو جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگا یہی وقت کا تقاضا ہے۔
چنانچہ ضروری تھا کہ اس وقت کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری توجہ زرعی ترقی پر مرکوز کردی جاتی۔ زراعت کے جدید آلات سے استفادہ کیا جاتا اور ان زراعت کے جدید آلات کی مقامی طور پر تیاری میں خصوصی دل چسپی لی جاتی یہ ایک احسن اقدام ہوتا اور ہم آج زراعت کے شعبے میں نہ صرف خودکفیل ہوتے بلکہ زرعی پیداوار برآمد کر رہے ہوتے۔ ساتھ میں دودھ کے حصول کے لیے بھی جدید طریقے اپنائے جاتے بشمول دودھ دینے والے جانوروں کی افزائش نسل پر خصوصی توجہ دی جاتی البتہ اس شعبے میں کسی حد تک تو کام ہوا ہے مگر ابھی بھی اس شعبے میں کافی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم آتے ہیں دوبارہ زرعی شعبے کی جانب تو یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی ملک کی 80 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے مگر آج قیام پاکستان کو 73 برس ہونے کے باوجود زراعت کی جدید طریقوں سے پیداوار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہم فی ایکڑ فقط 35 سے 40 من گندم حاصل کر پاتے ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک میں ایسی ہی کیفیت میں فی ایکڑ 80 من گندم حاصل کی جارہی ہے جب کہ ہمارے پاس پنجاب میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔ پڑوسی ملک میں یہ مربوط نہری نظام بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
ایسا اس لیے بھی ہے کہ آزادی کے بعد اس ملک میں ملکی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے، زراعت کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے زراعت کی صنعت نے ترقی کی البتہ ہم وہی روایتی طریقے سے کاشت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اب بھی اگر ہمیں زرعی ترقی مقصود ہے تو پھر ہمیں زراعت کے لیے آب پاشی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آبی ذخائر کی جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ گزشتہ نصف صدی سے زیر التوا منصوبہ کالا باغ ڈیم جوکہ ہماری زراعت کے لیے ناگزیر ہے کو مکمل کرنا ہوگا مگر چاروں صوبوں کی رضامندی و اتفاق رائے سے یہ لازمی شرط ہے، بصورت دیگرکالا باغ ڈیم اگر اتفاق رائے سے مکمل نہیں ہوتا تو پھر یہ ڈیم ملک میں انتشار کا باعث ہوگا جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا، چنانچہ لازم ہے کالا باغ ڈیم مکمل کیا جائے اور اس منصوبے سے چاروں صوبوں کو منصفانہ طریقے سے پانی تقسیم کیا جائے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ چھوٹے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر بلاسود قرضے دیے جائیں اس کے ساتھ زراعت سے متعلق جو زرعی آلات ہیں جن میں ٹریکٹر ، تھریشر ،گندم کی کٹائی وصفائی کرنے والی مشین حکومتی اداروں سے تصدیق شدہ بیج کے ساتھ کھادیں تمام کیڑے مار ادویات و اسپرے کم سے کم قیمت پر کاشت کاروں کو فراہم کی جائیں۔ گنے کی فصل کے ملک بھر میں یکساں دام مقررکیے جائیں اور تمام فصلوں کی بشمول گنے کی قیمت بروقت کاشت کاروں کو ادا کی جائے۔ ان تمام تر حقائق کے باوجود غنیمت یہ ہے کہ ہماری زرعی پیداوار ہماری ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود غذائی اشیا کے بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ تو اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ٹھیک ہے غذائی اشیا ہماری ضرورت پوری کرسکتی ہیں مگر پھر ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جوکہ ناجائز منافع خوری کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ پہلے غذائی اشیا کا ذخیرہ کرتا ہے پھر ان غذائی اشیا کی طلب و رسد میں عدم توازن پیدا کرتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ ان غذائی اشیا کے معاملے میں ایک ایک کرکے بحران پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں پہلے ٹماٹرکا بحران پیدا ہوا اور ٹماٹر 350 روپے فی کلو بازاروں میں فروخت ہوا۔ جب ٹماٹر کی قیمت کچھ مستحکم ہوئی تو آٹے کا بحران پیدا کیا گیا اور 40 روپے فی کلو فروخت ہونے والا آٹا 75 سے 80 روپے فی کلو میں فروخت ہوا جب کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اس آٹا بحران سے مکمل لاتعلق و لاعلم رہیں یہاں تک ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں فرما دیا کہ اچھا تو ملک میں آٹے کا بحران ہے مگر میرے علم میں یہ بات نہیں۔ ایک اور وزیر موصوف نے فرمایا '' سردیوں میں روٹی زیادہ کھائی جاتی ہے اس لیے آٹا بحران پیدا ہوا ہے'' ایک اور وزیر موصوف نے اپنا موقف ان الفاظ میں دیا کہ جو دو روٹی کھاتا ہے وہ ایک روٹی کھائے۔ آٹا بحران ختم ہوجائے گا۔
ابھی آٹے کا بحران جاری تھا کہ ایک اور بحران ہمارا منتظر تھا وہ ہے چینی کا بحران۔ گویا 70 روپے فی کلو فروخت ہونے والی چینی 85 سے 90 میں فروخت ہو رہی ہے۔ یہ آٹا بحران اس لیے بھی پیدا ہوا کہ چالیس لاکھ ٹن آٹا افغانستان اسمگل کر دیا گیا یہ سوچے بنا کہ ہماری اپنی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ یوں بھی ہم افغان مہاجرین کی میزبانی کا بے مقصد فریضہ انجام دے رہے ہیں مگر اب لازم ہے کہ ہم اپنی ضروریات و وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت طے کریں۔ افغانستان کو اپنے فیصلے کرنے دیں، یوں بھی افغانستان، پاکستان کے بجائے بھارت کے زیادہ قریب تر ہے جوکہ افغانستان میں 116 چھوٹے بڑے منصوبے مکمل کر رہا ہے۔ بہرکیف ہمیں ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زرعی حکمت عملی بنانی ہوگی اور زراعت کی صنعت کو جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگا یہی وقت کا تقاضا ہے۔