عمران خان کو افسوس کیوں

وزیراعظم نے سمٹ میں شرکت کےلیے دعوت نامہ قبول کرلیا تھا لیکن دورہ سعودی عرب کے دوران معذرت کرکے جینیوا چلے گئے

وزیراعظم پاکستان نے دورہ ملائیشیا کے دوران کوالالمپور سمٹ میں شریک نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم عمران خان نے دورہ ملائیشیا کے دوران اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہ دسمبر 2019 میں کوالالمپور سمٹ میں شریک نہ ہوسکے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نے اس سمٹ میں شرکت کےلیے دعوت نامہ قبول کرلیا تھا لیکن پھر دورہ سعودی عرب کے دوران انہوں نے معذرت کرلی اور وہاں سے وہ جینیوا چلے گئے۔ اس سمٹ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بظاہر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے دبائو تھا، کیوں کہ وہ اس کانفرنس کو اپنے متبادل کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

کوالالمپور کانفرنس کی ابتدا 2014 میں ہوئی اور اس کا مقصد مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے حل کےلیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ اس میں دنیا بھر سے سربراہ مملکت، دانشور، اسکالر وغیرہ شریک ہوتے ہیں۔ اس بار بھی کانفرنس کا موضوع اسلاموفوبیا، غربت اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل تھے۔ اس کانفرنس میں اس بار ایران، ترکی اور قطر کے سربراہ مملکت اور مہاتیر محمد نمایاں تھے۔ ایران، ترکی اور قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات خراب ہیں، اسی وجہ سے سعودی عرب نے اس کو اپنے خلاف ایک محاذ کے طور پر لیا۔ حالاںکہ سعودی عرب کو بھی اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ بعض لوگ اس کانفرنس کو او آئی سی کے متبادل کے طور پر دیکھتے رہے۔

سعودی عرب کو مسلم ورلڈ کے اندر کسی حد تک ایک لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن یمن جنگ، ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے اس کے اس قد کاٹھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ آج کی مسلم ورلڈ ملٹی پولر ہوچکی ہے، جہاں مختلف پاور سیکٹر ابھر رہے ہیں۔ ان ہی پاور سیکٹرز میں ترکی اور ملائیشیا بھی شامل ہیں۔ دونوں ممالک اگرچہ سیکولر ہیں لیکن ان کی لیڈرشپ کو دنیا میں مانا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کی اکانومی بہت بہتر ہے۔


مہاتیر محمد اور طیب اردوان اپنے آپ کو کرشماتی لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ان دونوں ممالک کا مسلم دنیا پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ اب یہ دونوں ممالک اپنے اثرورسوخ کےلیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اردوان محمد بن سلمان کی قیادت کو اپنی جدوجہد میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس رکاوٹ کو جمال خاشقجی کے قتل کی صورت میں ہٹانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ بچ نکلے۔ ترکی نے جمال خاشقجی کے معاملے پر محمد بن سلمان کو ٹارگٹ پر رکھا، تاکہ بین الاقوامی سطح پر ان کو کمزور کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ترکی نے سعودی عرب سے نالاں ممالک جیسے قطر اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا، اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرکے امریکا پر انحصار کم کرلیا اور روس کی جانب واضح جھکائو کرلیا ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا جو پہلے مسلم دنیا کے معاملات پر اتنی دلچسپی نہیں لیتا تھا، اب روہنگیا مسلمانوں، بھارت اور چین میں مسلمانوں پر کھل کر بول رہا ہے۔ کوالالمپور سمٹ میں مہاتیر محمد نے انڈین شہریت بل کو بنیاد بنا کر بھارت پر کھل کر تنقید کی۔ کشمیر پر ملائیشیا کا ردعمل حیران کن تھا۔ اقوام متحدہ میں مسلم ممالک میں صرف ترکی اور ملائیشیا ہی نے پاکستان کے ساتھ مل کر آواز اٹھائی۔ ملائیشیا کا کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دینے کی وجہ سے انڈیا کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے۔ انڈیا نے ملائیشیا سے پام آئل امپورٹ کرنے پر پابندی لگادی۔ اس تجارتی نقصان کے باوجود بھی ملائیشیا اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔

عمران خان کی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مہاتیرمحمد اور طیب اردوان کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ عمران خان ان دونون لیڈرز سے ذاتی طور پر متاثر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں لیڈرز روایتی انداز سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔ اسی ملاقات میں تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک مشترکہ چینل لانچ کیا جائے گا جو اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرسکے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے معاملے پر پاکستان کو دوستوں کی حمایت درکار تھی۔ روایتی دوستوں نے اس نازک موقع پر منہ پھیر لیا۔ ادھر آرامکو نے انڈیا میں سرمایہ کاری کا اعلان کردیا، جبکہ کچھ ہفتوں بعد دبئی میں مودی کو ایوارڈ سے نوازا گیا ۔کشمیر کی صورتحال پر او آئی سی کا کردار معذرت خواہانہ تھا۔ عمران خان نے اس بلاک سے امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ وہ خود بھی کسی موقع کی تلاش میں تھے تاکہ اپنے آپ کو مسلم دنیا میں نمایاں کرسکیں۔

عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کرکے ملائیشیا کا شکریہ اور کسی حد تک اس نقصان کا ازالہ بھی کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کرنے کی صورت میں اٹھایا تھا۔ حقیقت پسندی بھی اسی میں تھی کہ نئے مواقع کو استعمال کیا جائے، کیوں کہ روایتی دوست معاشی مفادات کی خاطر دوستی نہیں نبھارہے۔ دوسری طرف او آئی سی جیسے ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو نئی قیادت کی سخت ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story