غریب ممالک میں 2040 تک کینسرکے مریض 81 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں ڈبلیو ایچ او
غریب اور درمیانی آمدنی والے ممالک کینسر سے حفاظت اور علاج کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہیں کررہے
عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک اگلے 20 برس میں کینسر کی غیرمعمولی صورتحال کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان ممالک میں سرطان کے مریضوں کی تعداد آج کے مقابلے میں 81 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ ان ممالک میں ماہرین کی تیاری، انفراسٹرکچر، ہسپتالوں اور تحقیق پر کوئی منصوبہ بندی یا سرمایہ کاری نہیں ہورہی ۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس وقت یہ تمام ممالک کینسر کی بجائے یا تو ماں اور نومولود کی صحت پر اپنے وسائل خرچ کررہے ہیں یا پھر انفیکشن سے پھیلنے والے امراض پر متوجہ ہیں۔
' ہماری تحقیق آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جو امیر اور غریب ممالک کے درمیان سرطان سے وابستہ سہولیات کے درمیان بڑھتی ہوئی خطرناک خلیج کو ظاہر کررہی ہے،' ڈبلیو ایچ کے معاون نائب سربراہ رین مینگوئی نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پہلے مرحلے میں مریضوں کو ابتدائی طبی مدد اور دیگر اداروں تک رسائی میں مدد دی جائے تو کینسر کا درست انداز میں بروقت علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ کسی کے لیے اور کہیں بھی سرطان کسی کے لیے سزائے موت نہیں ہونا چاہیے۔
یہ رپورٹ عالمی یومِ سرطان کی مناسبت سے جاری ہوئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے اگلے عشرے میں لاکھوں کروڑوں جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر عالمی ادارہ برائے صحت کے ایک اور ماہر نے بتایا کہ کینسر قابو کرنے میں بہت زیادہ رقم درکار نہیں ہوتی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2040 تک پوری دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے اور اب بھی تمباکو نوشی سرطان کی 25 فیصد اموات کی اہم ترین وجہ ہے۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ ان ممالک میں ماہرین کی تیاری، انفراسٹرکچر، ہسپتالوں اور تحقیق پر کوئی منصوبہ بندی یا سرمایہ کاری نہیں ہورہی ۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس وقت یہ تمام ممالک کینسر کی بجائے یا تو ماں اور نومولود کی صحت پر اپنے وسائل خرچ کررہے ہیں یا پھر انفیکشن سے پھیلنے والے امراض پر متوجہ ہیں۔
' ہماری تحقیق آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جو امیر اور غریب ممالک کے درمیان سرطان سے وابستہ سہولیات کے درمیان بڑھتی ہوئی خطرناک خلیج کو ظاہر کررہی ہے،' ڈبلیو ایچ کے معاون نائب سربراہ رین مینگوئی نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پہلے مرحلے میں مریضوں کو ابتدائی طبی مدد اور دیگر اداروں تک رسائی میں مدد دی جائے تو کینسر کا درست انداز میں بروقت علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ کسی کے لیے اور کہیں بھی سرطان کسی کے لیے سزائے موت نہیں ہونا چاہیے۔
یہ رپورٹ عالمی یومِ سرطان کی مناسبت سے جاری ہوئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے اگلے عشرے میں لاکھوں کروڑوں جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر عالمی ادارہ برائے صحت کے ایک اور ماہر نے بتایا کہ کینسر قابو کرنے میں بہت زیادہ رقم درکار نہیں ہوتی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2040 تک پوری دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے اور اب بھی تمباکو نوشی سرطان کی 25 فیصد اموات کی اہم ترین وجہ ہے۔