وائرس اور ایمان کی روشنی
انسان کے پاس اللہ رب العالمین کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت موجود ہے جسے ہم ڈھال یا شیلڈ کہتے ہیں۔
ان دنوں ترقی یافتہ ملک چین ایک بڑی مشکل سے گزر رہا ہے، ایک خطرناک وائرس نے لوگوں کو زندہ نگلنا شروع کر دیا ہے، اس سے قبل بھی کئی وائرس منظر عام پر آئے ہیں۔ چند کے نام ذہن میں آ رہے ہیں ، ایبولا وائرس، ریبیز ، ڈینگی وائرس ، کرونا وائرس۔ انسان کی معلومات کیمطابق اس کائنات میں تقریباً تین لاکھ بیس ہزار وائرس ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
محققین یا ریسرچرز ابھی تک 219 جرثوموں سے واقف ہوسکے ہیں۔ چین جس وائرس کا شکار ہوا ہے وہ کرونا وائرس کے نام سے اپنی شناخت رکھتا ہے اور جس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ چین کے شہر ووہان میں بے شمار لوگ اس کا شکار ہوگئے ہیں اور مزید اس اذیت ناک عمل سے گزر رہے ہیں دوسرے ملکوں میں بھی یہ مسافروںکے یساتھ منتقل ہو رہا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق کائنات میں موجود تین لاکھ بیس ہزار وائرس سے بچاؤ کے لیے انسان کے پاس اللہ رب العالمین کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت موجود ہے جسے ہم ڈھال یا شیلڈ کہتے ہیں اور وہ ہے '' قوت مدافعت'' کہتے ہیں یہ قوت مدافعت ہی ہے جو انسان کو بدترین حالات میں محفوظ رکھتی ہے اس کے برعکس وہ لوگ جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے وہ بہت جلد ان وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کرونا وائرس نے لوگوں کی زندگیوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے، یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ کرتا ہے اور مریض بہت جلد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور اب تک چین میں اکثریت زندگی کی بازی ہار چکی ہے ، اسے جب خوردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظر آئے جو تاج (Crown) کی شکل سے مشابہت رکھتے ہیں ، اسی وجہ سے اس کا نام کرونا وائرس رکھا گیا۔
یہ وائرس چین کے شہر ووہان میں اور پھر مختلف شہروں سے ہوتا ہوا جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور، بھارت اور امریکا تک جا پہنچا ہے دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس سے بچاؤکے طریقے بتائے ہیں اچھے صابن سے ہاتھ دھونا، سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے، پالتو جانوروں کو قریب نہ آنے دیا جائے انھیں اپنے گھروں کے باہر رکھیں ، کھانا اچھی طرح پکائیں ، پانچ وقت کے وضو سے بھی وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کرونا وائرس ایک عذاب کی شکل میں اسی طرح آیا ہے جس طرح بنی اسرائیل اور دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوا تھا۔ طاعون کی وبا کا پھیلنا اور اس بیماری میں 70 ہزار ہلاکتوں کا ہونا اللہ کی نافرمانی اور خصوصاً جہاد سے انکار اور تکبر تھا۔ جب اللہ نے ایک طویل عرصے کے بعد انھیں فتح سے ہمکنارکیا تو یہ حکم بھی دیا کہ جھک کر عاجزی کے ساتھ فاتح سرزمین پر قدم رکھنا لیکن بنی اسرائیل کی قوم نے ہمیشہ کی طرح بحث و مباحثہ کیا اور غرور کے نشے میں غرق ہوگئے۔ طاعون چوہوں کی کثرت اور ان کے جرثوموں سے پھیلتا ہے اور آج اللہ کو ماننے اور نہ ماننے والے بھی حلال و حرام، پاکیزہ و ناپاکیزہ و نجس چیزیں کھا کر عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔
اللہ کے ہر کام میں حکمت ہے اس مالک نے قرآن پاک میں حلال اور حرام گوشت کھانے کے فوائد و نقصانات بیان کر دیے ہیں جو اہل بصیرت ہیں وہ کائنات کے اسرار و رموز انسان کی پیدائش اور موت اور پھر دوبارہ قبروں سے سالم اٹھ کر دوڑنا اس کے ساتھ روز حساب ہر شخص اپنے عمل کا جوابدہ ہے، قرآن بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، بس پھر وہی لوگ فلاح پاتے ہیں اور خسارے کا سودا نہیں کرتے ہیں لیکن مذہب پر یقین نہ رکھنے والے، اللہ کی قدرت کاملہ سے ناواقف دنیا کے مختلف خطوں میں بستے ہیں ان کی زندگیوں کا مقصد کھانا پینا دنیاوی ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہی ہے اور مر کر چلے جانا ہے اور بس۔
یہ حضرات محدود سوچ رکھتے ہیں، ان کی نگاہ اپنے مفاد پر ہے تقابلۂ بین المذاہب کی انھیں ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے اس کی وجہ وہ اس واحد، یکتا، عظیم الشان ہستی کے ''کُن'' کی صدا سے ناواقف ہیں۔ دنیا کا وجود میں آنا اور دور دور تک تاحد نگاہ نیلے آسمان کی چھت اور اس پر چمکتے ہوئے ستارے، چاند، سورج کی گردش، وسیع و عریض سمندر جس کی گہرائی اور کنارے انسان کی پہنچ سے دور ہیں، موسموں کی تبدیلی، ہر کام کیا خود ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو وہ اپنے کوئی کام اپنے ہاتھوں سے انجام نہ دیں، اسکول و کالج جائیں اور نہ دفاتر کا رخ کریں، قدرت کے نظاروں کی دلفریب منظرکشی نہ کریں گویا ہاتھ پیر تو چلائیں ہی نہیں، تو کیا سب کام ہو جائیں گے؟
لادینیت کینسر کے مرض کی مانند ہے جو عقل کو مفلوج کردیتا ہے اور قبر کی تاریکی کو بڑھا دیتا ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ سب کا مقصد بنی نوع انسان کی بھلائی، جہالت سے بچانا اور انسانیت سکھانا، توحید کا سبق پڑھانا تھا۔ لیکن ہر دور پیغمبری میں سرکش اور اللہ کے احکامات کو نہ ماننے والوں نے سر اٹھایا اور غضب کا شکار ہوئے۔ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تو وہ نشان عبرت بن گیا ۔
قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قبیلے سے تھا ایک روایت میں ہے چچا زاد بھائی تھا، حضرت موسیٰؑ نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا، جب کہ قارون نے دولت کے انبار لگا لیے اس نے دھوکہ دہی کیمیا گری کا ہنر سیکھ لیا اور گھر میں سونے چاندی کے انبار لگاتا رہا بے پناہ دولت نے اسے متکبر کردیا اور جب حضرت موسیٰؑ نے اس سے زکوٰۃ کا کہا اور ہمیشہ کی طرح نیکی کا سبق پڑھایا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں فساد نہ پھیلا، اللہ جھگڑا کرنیوالوں کو دوست نہیں رکھتا، اور زکوٰۃ و خیرات دیا کرو، جواب میں اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت ایک ہنر سے ملی ہے اور تیرا اللہ میرے مال پر کیا حق رکھتا ہے؟
قارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کہا نہ مانا اور اللہ کا یہ فرمان بھی بھلا دیا کہ ''اور کہا نہ جا اس طرف، کیا اس نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے سنگین اور قوت والی جماعت کو ہلاک کر چکا ہے۔''
قارون نے حضرت موسیٰؑ کی تعلیمات سے بچنے کے لیے الزام لگایا اور جب حضرت موسیٰؑ نے اپنے اوپر لگائی جانیوالی تہمت کے بارے میں سنا تو آپؑ غش کھا کر گر پڑے، اسی وقت حضرت جبرئیلؑ نے اپنی آغوش میں لے لیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین کو تمہارے تابع کیا اور پھر اس کافر کا بھی یہی انجام ہوا کہ زمین نے اسے دبا دیا اور اس کا قصہ پاک ہوا، بے شمار دولت کام آئی اور نہ محل۔ ہمارے اپنے وطن میں لوگ بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، حادثات اور سانحات انسانوں کی زندگیوں کو پل بھر میں موت میں بدل دیتے ہیں اور اموات بھی ایسی کہ الامان الحفیظ کی پکار منہ سے نکلے، پوری کی پوری بسیں، ٹرین کے ڈبے جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں، پھولوں جیسے معصوم بچے پل بھر میں کوئلے کی شکل میں بدل جاتے ہیں، ہزاروں لوگ آپس کی دشمنیوں میں مبتلا ہوکر قتل و غارت شروع کردیتے ہیں نہ رشتوں، ناطوں کا احترام نہ عزت و آبرو کا خیال اور نہ خوف خدا، کبھی مختلف وائرس کا پھیلنا اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنا اور لوگوں کو کھلانا۔ اپنی معصوم بچیوں سے برے کام کرنا، پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے اہل عرب کو جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے آزاد کیا تھا۔ لیکن آج پھر ہر سو اندھیرا ہے، نئی نئی بیماریاں سامنے آ رہی ہیں اور ان سے بچاؤ کے لیے دوڑا بھاگا جا رہا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر شخص راہ مستقیم پر دوڑتا تب نتائج کچھ اور ہوتے، فضاؤں میں گلاب کی خوشبو مہکتی اور دلوں میں ایمان کی روشنی پھوٹتی۔
محققین یا ریسرچرز ابھی تک 219 جرثوموں سے واقف ہوسکے ہیں۔ چین جس وائرس کا شکار ہوا ہے وہ کرونا وائرس کے نام سے اپنی شناخت رکھتا ہے اور جس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ چین کے شہر ووہان میں بے شمار لوگ اس کا شکار ہوگئے ہیں اور مزید اس اذیت ناک عمل سے گزر رہے ہیں دوسرے ملکوں میں بھی یہ مسافروںکے یساتھ منتقل ہو رہا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق کائنات میں موجود تین لاکھ بیس ہزار وائرس سے بچاؤ کے لیے انسان کے پاس اللہ رب العالمین کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت موجود ہے جسے ہم ڈھال یا شیلڈ کہتے ہیں اور وہ ہے '' قوت مدافعت'' کہتے ہیں یہ قوت مدافعت ہی ہے جو انسان کو بدترین حالات میں محفوظ رکھتی ہے اس کے برعکس وہ لوگ جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے وہ بہت جلد ان وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کرونا وائرس نے لوگوں کی زندگیوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے، یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ کرتا ہے اور مریض بہت جلد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور اب تک چین میں اکثریت زندگی کی بازی ہار چکی ہے ، اسے جب خوردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظر آئے جو تاج (Crown) کی شکل سے مشابہت رکھتے ہیں ، اسی وجہ سے اس کا نام کرونا وائرس رکھا گیا۔
یہ وائرس چین کے شہر ووہان میں اور پھر مختلف شہروں سے ہوتا ہوا جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور، بھارت اور امریکا تک جا پہنچا ہے دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس سے بچاؤکے طریقے بتائے ہیں اچھے صابن سے ہاتھ دھونا، سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے، پالتو جانوروں کو قریب نہ آنے دیا جائے انھیں اپنے گھروں کے باہر رکھیں ، کھانا اچھی طرح پکائیں ، پانچ وقت کے وضو سے بھی وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کرونا وائرس ایک عذاب کی شکل میں اسی طرح آیا ہے جس طرح بنی اسرائیل اور دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوا تھا۔ طاعون کی وبا کا پھیلنا اور اس بیماری میں 70 ہزار ہلاکتوں کا ہونا اللہ کی نافرمانی اور خصوصاً جہاد سے انکار اور تکبر تھا۔ جب اللہ نے ایک طویل عرصے کے بعد انھیں فتح سے ہمکنارکیا تو یہ حکم بھی دیا کہ جھک کر عاجزی کے ساتھ فاتح سرزمین پر قدم رکھنا لیکن بنی اسرائیل کی قوم نے ہمیشہ کی طرح بحث و مباحثہ کیا اور غرور کے نشے میں غرق ہوگئے۔ طاعون چوہوں کی کثرت اور ان کے جرثوموں سے پھیلتا ہے اور آج اللہ کو ماننے اور نہ ماننے والے بھی حلال و حرام، پاکیزہ و ناپاکیزہ و نجس چیزیں کھا کر عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔
اللہ کے ہر کام میں حکمت ہے اس مالک نے قرآن پاک میں حلال اور حرام گوشت کھانے کے فوائد و نقصانات بیان کر دیے ہیں جو اہل بصیرت ہیں وہ کائنات کے اسرار و رموز انسان کی پیدائش اور موت اور پھر دوبارہ قبروں سے سالم اٹھ کر دوڑنا اس کے ساتھ روز حساب ہر شخص اپنے عمل کا جوابدہ ہے، قرآن بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، بس پھر وہی لوگ فلاح پاتے ہیں اور خسارے کا سودا نہیں کرتے ہیں لیکن مذہب پر یقین نہ رکھنے والے، اللہ کی قدرت کاملہ سے ناواقف دنیا کے مختلف خطوں میں بستے ہیں ان کی زندگیوں کا مقصد کھانا پینا دنیاوی ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہی ہے اور مر کر چلے جانا ہے اور بس۔
یہ حضرات محدود سوچ رکھتے ہیں، ان کی نگاہ اپنے مفاد پر ہے تقابلۂ بین المذاہب کی انھیں ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے اس کی وجہ وہ اس واحد، یکتا، عظیم الشان ہستی کے ''کُن'' کی صدا سے ناواقف ہیں۔ دنیا کا وجود میں آنا اور دور دور تک تاحد نگاہ نیلے آسمان کی چھت اور اس پر چمکتے ہوئے ستارے، چاند، سورج کی گردش، وسیع و عریض سمندر جس کی گہرائی اور کنارے انسان کی پہنچ سے دور ہیں، موسموں کی تبدیلی، ہر کام کیا خود ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو وہ اپنے کوئی کام اپنے ہاتھوں سے انجام نہ دیں، اسکول و کالج جائیں اور نہ دفاتر کا رخ کریں، قدرت کے نظاروں کی دلفریب منظرکشی نہ کریں گویا ہاتھ پیر تو چلائیں ہی نہیں، تو کیا سب کام ہو جائیں گے؟
لادینیت کینسر کے مرض کی مانند ہے جو عقل کو مفلوج کردیتا ہے اور قبر کی تاریکی کو بڑھا دیتا ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ سب کا مقصد بنی نوع انسان کی بھلائی، جہالت سے بچانا اور انسانیت سکھانا، توحید کا سبق پڑھانا تھا۔ لیکن ہر دور پیغمبری میں سرکش اور اللہ کے احکامات کو نہ ماننے والوں نے سر اٹھایا اور غضب کا شکار ہوئے۔ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تو وہ نشان عبرت بن گیا ۔
قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قبیلے سے تھا ایک روایت میں ہے چچا زاد بھائی تھا، حضرت موسیٰؑ نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا، جب کہ قارون نے دولت کے انبار لگا لیے اس نے دھوکہ دہی کیمیا گری کا ہنر سیکھ لیا اور گھر میں سونے چاندی کے انبار لگاتا رہا بے پناہ دولت نے اسے متکبر کردیا اور جب حضرت موسیٰؑ نے اس سے زکوٰۃ کا کہا اور ہمیشہ کی طرح نیکی کا سبق پڑھایا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں فساد نہ پھیلا، اللہ جھگڑا کرنیوالوں کو دوست نہیں رکھتا، اور زکوٰۃ و خیرات دیا کرو، جواب میں اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت ایک ہنر سے ملی ہے اور تیرا اللہ میرے مال پر کیا حق رکھتا ہے؟
قارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کہا نہ مانا اور اللہ کا یہ فرمان بھی بھلا دیا کہ ''اور کہا نہ جا اس طرف، کیا اس نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے سنگین اور قوت والی جماعت کو ہلاک کر چکا ہے۔''
قارون نے حضرت موسیٰؑ کی تعلیمات سے بچنے کے لیے الزام لگایا اور جب حضرت موسیٰؑ نے اپنے اوپر لگائی جانیوالی تہمت کے بارے میں سنا تو آپؑ غش کھا کر گر پڑے، اسی وقت حضرت جبرئیلؑ نے اپنی آغوش میں لے لیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین کو تمہارے تابع کیا اور پھر اس کافر کا بھی یہی انجام ہوا کہ زمین نے اسے دبا دیا اور اس کا قصہ پاک ہوا، بے شمار دولت کام آئی اور نہ محل۔ ہمارے اپنے وطن میں لوگ بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، حادثات اور سانحات انسانوں کی زندگیوں کو پل بھر میں موت میں بدل دیتے ہیں اور اموات بھی ایسی کہ الامان الحفیظ کی پکار منہ سے نکلے، پوری کی پوری بسیں، ٹرین کے ڈبے جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں، پھولوں جیسے معصوم بچے پل بھر میں کوئلے کی شکل میں بدل جاتے ہیں، ہزاروں لوگ آپس کی دشمنیوں میں مبتلا ہوکر قتل و غارت شروع کردیتے ہیں نہ رشتوں، ناطوں کا احترام نہ عزت و آبرو کا خیال اور نہ خوف خدا، کبھی مختلف وائرس کا پھیلنا اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنا اور لوگوں کو کھلانا۔ اپنی معصوم بچیوں سے برے کام کرنا، پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے اہل عرب کو جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے آزاد کیا تھا۔ لیکن آج پھر ہر سو اندھیرا ہے، نئی نئی بیماریاں سامنے آ رہی ہیں اور ان سے بچاؤ کے لیے دوڑا بھاگا جا رہا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر شخص راہ مستقیم پر دوڑتا تب نتائج کچھ اور ہوتے، فضاؤں میں گلاب کی خوشبو مہکتی اور دلوں میں ایمان کی روشنی پھوٹتی۔