غیر مستعمل سامان…
ہم دماغ کے لفظ کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، مگر اپنے دماغ کو نہیں۔
بہت ہی گھسا پٹا سا لطیفہ ہے، جانے سچ ہے یا جھوٹ اور اتنا پرانا کہ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ پیش کس کے ساتھ آیا تھا۔ ہمارے کوئی اعلی سرکاری عہدے دار افغانستان کے دورے پر تھے... ان کا تعارف وہاں کی کابینہ سے کروایا جا رہا تھا۔ '' یہ ہیں ہمارے وزیر ریلوے! '' انھیں بتایا گیا تو وہ بہت حیران ہوئے اور اپنی حیرانی چھپا نہ سکے۔ سوال کیا کہ ان کے ملک میں تو ریل ہے ہی نہیں، ریلوے کا وزیر، چہ معنی دارد؟
'' آپ کے ملک میں بھی تو ریلوے قانون ہے نا ! '' برجستہ جواب دیا گیا۔
مجھے یہ پرانا سا لطیفہ آج کل کئی باتوں میں یاد آ جاتا ہے ... وزیروں مشیروں کے حوالے سے نہیں کہ یہ کالم سیاسی ہو جائے گا۔ ویسے بھی آج کل ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کون سا وزیر کس کام کے لیے ہے... یہ بات ہمارے ان وزیروں کو بھی معلوم نہیں جو اپنی وزارتوں کے قلمدان بند کیے بیٹھے ہیں، کیونکہ ملک میں standstill کی سی کیفیت ہے، کچھ ہوتا نظر ہی نہیں آ رہا ، لگتا ہے ملک تھم گیا ہے۔ ہاں تو سب سے پہلے میں نے اس بات کو اس وقت محسوس کیا جب ہر جگہ ایک حد رفتار نظر آتی ہے، جی ٹی روڈ پر اور موٹر وے پر بھی۔ اگر حد رفتار ایک سو کلو میٹر فی گھنٹہ یا ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ ہے تو گاڑیوں کے اسپیڈو میٹر پر زیادہ سے زیادہ رفتار، دو سو، اڑھائی سو ، تین سو یا اس سے بھی اوپر کس لیے ہوتی ہے؟ ہم اس رفتار پر گاڑی چلا ہی نہیں سکتے توگاڑی کا اس رفتار کا اہل بنانے کا کیا مقصد؟
ہم جب کسی ایسی جگہ گاڑی پارک کرتے ہیں، اس کے عین اوپر کا بورڈ، '' نو پارکنگ'' ہم نہیں پڑھتے ، ایسے بورڈ کا یا ہمارے پڑھے لکھے ہونے کا کیا مقصد؟ جہاں لکھا ہو، '' یہاں پیشاب کرنا منع ہے! ' ' اسی بورڈ کے نیچے تین چار صاحبان، اس بورڈ کو تہ آب لا رہے ہوتے ہیں۔ اسپتال کے باہر ہارن بجانا منع ہے تو وہیں سب سے زیادہ ہارن کی آوازیں کیوں آتی ہیں؟ کہیں لکھا ہو کہ موبائل فون کا استعمال منع ہے یا تصویر کھینچنا منع ہے تو وہیں ہماری رگ کیوں پھڑکتی ہے کہ ہم فون بھی استعمال کریں اور تصاویر بھی بنائیں ، جب تک کہ کوئی ہمیں رنگے ہاتھو ںپکڑ کر سرزنش نہ کرے ۔
کام کرنا... کام پر جانا، کام والا یا کام والی، یہ اصطلاحات ہم عام استعمال کرتے ہیں۔ کا م، کام اور کام ، مگر کام ہوتا کہاں ہے، نہ ہمارے گھروں میں کام کرنیوالے کام کرنا چاہتے ہیں، نہ گھروں سے کام کے لیے نکلنے والے کام کرتے ہیں، ہر شخص اپنے گھر سے کام کر کے روزی کمانے کے لیے نکلتا ہے مگر اس ملک میں کوئی کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کلرک، باس، ماتحت، ادارے، ٹریفک پولیس، ڈاکٹر، سرکاری افسران... اور تو اور خاکروب۔ کوئی کام کرتا ہو تو اس ملک میں نظر بھی آئے، کہیںصفائی نظر آئے، کہیں تعلیم کے ثمرات نظر آئیں ، کہیں مریضوں کی تعداد کم ہوتی نظر آئے، کہیں نظم و ترتیب نظر آئے، لوگوں کے چہروں پر اطمینان نظر آئے۔ جب ہم یہ سب ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اپنا کام صحیح نہیں کر رہا، اگر نہیں کر رہا تو یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں؟
ہم اپنے بچوں کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اچھے نام رکھتے ہیں، منفرد اور بامعنی، مگر جب انھیں پکارتے ہیں تو ان کے اصلی نام کے بجائے کسی ایسے نام سے جو ہم اپنی دانست میں پیار کا نام کہتے ہیں مگر وہ اصل نام کے بجائے مستعمل ہوجاتا ہے۔ اگر اصل نام سے پکارنا ہی نہیں تو صرف کاغذوں میںلکھوانے کے لیے ہم نام کیوں رکھتے ہیں؟
اگر ہم نے گزشتہ چند سالوں میں دیکھا ہے کہ ملک میں انتخابات کے لیے کم از کم بی اے کی تعلیم کی شرط رکھنے کے نتیجے میں، کئی کم تعلیم یافتہ لوگوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایسا صرف ہمارے ہاں ارکان اسمبلی نے ہی نہیں بلکہ کئی عام لوگوں نے کر رکھا ہے ۔ میڈیکل تک کی جعلی ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں اور لوگ اپنے پیسے کے بل بوتے پر ان ڈگریوں کے ساتھ پریکٹس بھی کرتے اور لوگوں کی جانوں کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ اگر پیسے خرچ کر کے بھی ڈگری مل سکتی ہے تو پھر اتنے طویل عرصے تک تعلیمی اداروں میں فیسیں دینا اور وہاں جا کر وقت ضایع کرنا کیا بے وقوفی نہیں ؟
ہم اپنے گھر بناتے وقت ان میں بڑی بڑی کھڑکیاں رکھواتے ہیں، ان میں لکڑی یا المونیم کے سانچے بنتے ہیں، شیشہ اور جالی لگتی ہے، پھر ہم ان کھڑکیوں پر قیمتی پردے بھی لگاتے ہیں مگر ہم یہ کھڑکیاں کبھی کھولتے نہیں کیونکہ باہر سے شور اور دھول مٹی آتی ہے۔ کیا گھر بناتے وقت ہمیں اس بات کا علم نہیں ہوتا، جب ہم نے اس کھڑکی کو کھولنا ہی نہیں تو بناتے کیوں ہیں؟
اسی طرح ہمارے وجود کے روزن ہیں، کان، ناک، آنکھ، منہ وغیرہ، ان کا بھی کوئی مقصد ہے۔ کسی کی سنواور کسی سے کہو، خطرے اور بری بات کی بو کو محسوس کرو، برائی کو دیکھو اور اسے برا سمجھو... مگر جس طرح ہم اپنے گھروںکی کھڑکیاں کبھی نہیں کھولتے اسی طرح ہم اپنے وجود کی کھڑکیوں کو بھی بند کیے ہوئے، اپنے اپنے کوکون میں بند، ارد گرد سے بے نیاز، حیوانوں کی طرح اپنی زندگیاں یونہی گزار کر چلے جاتے ہیں۔
ہم بہت سی چیزیں ایسی اپنے گھروں میں جمع کرلیتے ہیں جنھیں ہم کبھی استعمال نہیں کر سکتے، وہ بہت قیمتی ہوتی ہیں یا وہ کسی ایسے پیارے کا تحفہ ہوتی ہیں کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ٹوٹ نہ جائے یا ختم نہ ہو جائے۔ اس کاسب سے بہتر حل یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز خریدنے کا ارادہ کریں تو خود سے چندسوال کریں ۔
... کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟
... کیا میرے گھر میں اس نوعیت کی چیز استعمال ہو سکتی ہے؟ (اگر ملازم استعمال کرتے ہیں یا چھوٹے بچے)
... کیا میں اس کے بغیر گزارہ کر سکتا ہو ں کہ نہیں؟
ان تین سوالوں کے نتیجے میں آپ کے لیے اس چیز کو خریدنا آسان ہو جائے گا ۔ یہی فارمولہ آپ اس وقت بھی استعمال کریں جب آپ کسی کے لیے کوئی تحفہ خرید رہے ہوں ۔ اسے اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیں نہ کہ اس کی، مگر یہ ضرور سوچیں کہ آپ کی طرف سے دی گئی کون سی چیز اس کے لیے ہر وقت اور عام استعمال ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کا دیا گیا قیمتی تحفہ کوئی استعمال ہی نہ کر سکے یا آپ اپنے لیے خریدی ہوئی چیز کو خود ہی استعمال نہ کر سکیں تو کیا فائدہ؟
دماغ سے متعلق ہماری زبان میں غالبا سب سے زیادہ محاورے اور ضرب المثال ہیں، ہم دماغ کے لفظ کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، مگر اپنے دماغ کو نہیں۔ گزشتہ روز ہی میں نے کہیں پڑھا کہ انسانی دماغ، انسان کے بنائے ہوئے کمپیوٹرز کی نسبت کئی ارب گنا زیادہ اہلیت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں میموری اور پراسیسنگ کی رفتار کا تصور بھی محال ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک انکشاف یہ بھی تھا کہ ایک عام آدمی اپنی پوری زندگی میں، اپنے دماغ کابمشکل دس فیصدحصہ استعمال کرتا ہے اور وہ بھی وہ لوگ جو کہ بہت جینئس ہوتے ہیں، سائنسدان، تخلیق کار، مفکر وغیرہ ۔ اگر یہ بات سچ ہے توذرا سوچیں کہ کس قدر اہلیت رکھنے کا عضو ہے اور ہم میں سے دس فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنے دماغ کے دس فیصد کا بھر پور استعمال کرتے ہیں ۔ باقی تو اپنے دماغ جیسی قیمتی دولت کو بغیر استعمال کیے ہی تہ خاک چلے جاتے ہیں۔ اگر دماغ ہم نے استعمال ہی نہیں کرنا ہوتا تو اس اہم اور قیمتی مشین کا ہمارے پاس ہونے کا کیا معنی؟
ایک کے بعد ایک ، کئی چیزیں یاد آ رہی ہیں کہ جن کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے لیے کوئی خاص فرق نہیں رکھتا ۔ اگر نہیں ہیں تو ہم انھیں حاصل کرنا چاہتے ہیں او ر اگر ہیں توانھیں استعمال کرنے کے بجائے اپنی الماریوں میں قید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ کالم کا دامن تنگ ہے، آپ خود اپنے ارد گرد دیکھیں اور بتائیں کہ کون سی چیزیں آپ کے پاس ہیں جنھیں آپ نہ استعمال کرتے ہیں نہ اپنی ملکیت سے دستبردار ہوتے ہیں ۔
'' آپ کے ملک میں بھی تو ریلوے قانون ہے نا ! '' برجستہ جواب دیا گیا۔
مجھے یہ پرانا سا لطیفہ آج کل کئی باتوں میں یاد آ جاتا ہے ... وزیروں مشیروں کے حوالے سے نہیں کہ یہ کالم سیاسی ہو جائے گا۔ ویسے بھی آج کل ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کون سا وزیر کس کام کے لیے ہے... یہ بات ہمارے ان وزیروں کو بھی معلوم نہیں جو اپنی وزارتوں کے قلمدان بند کیے بیٹھے ہیں، کیونکہ ملک میں standstill کی سی کیفیت ہے، کچھ ہوتا نظر ہی نہیں آ رہا ، لگتا ہے ملک تھم گیا ہے۔ ہاں تو سب سے پہلے میں نے اس بات کو اس وقت محسوس کیا جب ہر جگہ ایک حد رفتار نظر آتی ہے، جی ٹی روڈ پر اور موٹر وے پر بھی۔ اگر حد رفتار ایک سو کلو میٹر فی گھنٹہ یا ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ ہے تو گاڑیوں کے اسپیڈو میٹر پر زیادہ سے زیادہ رفتار، دو سو، اڑھائی سو ، تین سو یا اس سے بھی اوپر کس لیے ہوتی ہے؟ ہم اس رفتار پر گاڑی چلا ہی نہیں سکتے توگاڑی کا اس رفتار کا اہل بنانے کا کیا مقصد؟
ہم جب کسی ایسی جگہ گاڑی پارک کرتے ہیں، اس کے عین اوپر کا بورڈ، '' نو پارکنگ'' ہم نہیں پڑھتے ، ایسے بورڈ کا یا ہمارے پڑھے لکھے ہونے کا کیا مقصد؟ جہاں لکھا ہو، '' یہاں پیشاب کرنا منع ہے! ' ' اسی بورڈ کے نیچے تین چار صاحبان، اس بورڈ کو تہ آب لا رہے ہوتے ہیں۔ اسپتال کے باہر ہارن بجانا منع ہے تو وہیں سب سے زیادہ ہارن کی آوازیں کیوں آتی ہیں؟ کہیں لکھا ہو کہ موبائل فون کا استعمال منع ہے یا تصویر کھینچنا منع ہے تو وہیں ہماری رگ کیوں پھڑکتی ہے کہ ہم فون بھی استعمال کریں اور تصاویر بھی بنائیں ، جب تک کہ کوئی ہمیں رنگے ہاتھو ںپکڑ کر سرزنش نہ کرے ۔
کام کرنا... کام پر جانا، کام والا یا کام والی، یہ اصطلاحات ہم عام استعمال کرتے ہیں۔ کا م، کام اور کام ، مگر کام ہوتا کہاں ہے، نہ ہمارے گھروں میں کام کرنیوالے کام کرنا چاہتے ہیں، نہ گھروں سے کام کے لیے نکلنے والے کام کرتے ہیں، ہر شخص اپنے گھر سے کام کر کے روزی کمانے کے لیے نکلتا ہے مگر اس ملک میں کوئی کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کلرک، باس، ماتحت، ادارے، ٹریفک پولیس، ڈاکٹر، سرکاری افسران... اور تو اور خاکروب۔ کوئی کام کرتا ہو تو اس ملک میں نظر بھی آئے، کہیںصفائی نظر آئے، کہیں تعلیم کے ثمرات نظر آئیں ، کہیں مریضوں کی تعداد کم ہوتی نظر آئے، کہیں نظم و ترتیب نظر آئے، لوگوں کے چہروں پر اطمینان نظر آئے۔ جب ہم یہ سب ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اپنا کام صحیح نہیں کر رہا، اگر نہیں کر رہا تو یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں؟
ہم اپنے بچوں کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اچھے نام رکھتے ہیں، منفرد اور بامعنی، مگر جب انھیں پکارتے ہیں تو ان کے اصلی نام کے بجائے کسی ایسے نام سے جو ہم اپنی دانست میں پیار کا نام کہتے ہیں مگر وہ اصل نام کے بجائے مستعمل ہوجاتا ہے۔ اگر اصل نام سے پکارنا ہی نہیں تو صرف کاغذوں میںلکھوانے کے لیے ہم نام کیوں رکھتے ہیں؟
اگر ہم نے گزشتہ چند سالوں میں دیکھا ہے کہ ملک میں انتخابات کے لیے کم از کم بی اے کی تعلیم کی شرط رکھنے کے نتیجے میں، کئی کم تعلیم یافتہ لوگوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایسا صرف ہمارے ہاں ارکان اسمبلی نے ہی نہیں بلکہ کئی عام لوگوں نے کر رکھا ہے ۔ میڈیکل تک کی جعلی ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں اور لوگ اپنے پیسے کے بل بوتے پر ان ڈگریوں کے ساتھ پریکٹس بھی کرتے اور لوگوں کی جانوں کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ اگر پیسے خرچ کر کے بھی ڈگری مل سکتی ہے تو پھر اتنے طویل عرصے تک تعلیمی اداروں میں فیسیں دینا اور وہاں جا کر وقت ضایع کرنا کیا بے وقوفی نہیں ؟
ہم اپنے گھر بناتے وقت ان میں بڑی بڑی کھڑکیاں رکھواتے ہیں، ان میں لکڑی یا المونیم کے سانچے بنتے ہیں، شیشہ اور جالی لگتی ہے، پھر ہم ان کھڑکیوں پر قیمتی پردے بھی لگاتے ہیں مگر ہم یہ کھڑکیاں کبھی کھولتے نہیں کیونکہ باہر سے شور اور دھول مٹی آتی ہے۔ کیا گھر بناتے وقت ہمیں اس بات کا علم نہیں ہوتا، جب ہم نے اس کھڑکی کو کھولنا ہی نہیں تو بناتے کیوں ہیں؟
اسی طرح ہمارے وجود کے روزن ہیں، کان، ناک، آنکھ، منہ وغیرہ، ان کا بھی کوئی مقصد ہے۔ کسی کی سنواور کسی سے کہو، خطرے اور بری بات کی بو کو محسوس کرو، برائی کو دیکھو اور اسے برا سمجھو... مگر جس طرح ہم اپنے گھروںکی کھڑکیاں کبھی نہیں کھولتے اسی طرح ہم اپنے وجود کی کھڑکیوں کو بھی بند کیے ہوئے، اپنے اپنے کوکون میں بند، ارد گرد سے بے نیاز، حیوانوں کی طرح اپنی زندگیاں یونہی گزار کر چلے جاتے ہیں۔
ہم بہت سی چیزیں ایسی اپنے گھروں میں جمع کرلیتے ہیں جنھیں ہم کبھی استعمال نہیں کر سکتے، وہ بہت قیمتی ہوتی ہیں یا وہ کسی ایسے پیارے کا تحفہ ہوتی ہیں کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ٹوٹ نہ جائے یا ختم نہ ہو جائے۔ اس کاسب سے بہتر حل یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز خریدنے کا ارادہ کریں تو خود سے چندسوال کریں ۔
... کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟
... کیا میرے گھر میں اس نوعیت کی چیز استعمال ہو سکتی ہے؟ (اگر ملازم استعمال کرتے ہیں یا چھوٹے بچے)
... کیا میں اس کے بغیر گزارہ کر سکتا ہو ں کہ نہیں؟
ان تین سوالوں کے نتیجے میں آپ کے لیے اس چیز کو خریدنا آسان ہو جائے گا ۔ یہی فارمولہ آپ اس وقت بھی استعمال کریں جب آپ کسی کے لیے کوئی تحفہ خرید رہے ہوں ۔ اسے اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیں نہ کہ اس کی، مگر یہ ضرور سوچیں کہ آپ کی طرف سے دی گئی کون سی چیز اس کے لیے ہر وقت اور عام استعمال ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کا دیا گیا قیمتی تحفہ کوئی استعمال ہی نہ کر سکے یا آپ اپنے لیے خریدی ہوئی چیز کو خود ہی استعمال نہ کر سکیں تو کیا فائدہ؟
دماغ سے متعلق ہماری زبان میں غالبا سب سے زیادہ محاورے اور ضرب المثال ہیں، ہم دماغ کے لفظ کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، مگر اپنے دماغ کو نہیں۔ گزشتہ روز ہی میں نے کہیں پڑھا کہ انسانی دماغ، انسان کے بنائے ہوئے کمپیوٹرز کی نسبت کئی ارب گنا زیادہ اہلیت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں میموری اور پراسیسنگ کی رفتار کا تصور بھی محال ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک انکشاف یہ بھی تھا کہ ایک عام آدمی اپنی پوری زندگی میں، اپنے دماغ کابمشکل دس فیصدحصہ استعمال کرتا ہے اور وہ بھی وہ لوگ جو کہ بہت جینئس ہوتے ہیں، سائنسدان، تخلیق کار، مفکر وغیرہ ۔ اگر یہ بات سچ ہے توذرا سوچیں کہ کس قدر اہلیت رکھنے کا عضو ہے اور ہم میں سے دس فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنے دماغ کے دس فیصد کا بھر پور استعمال کرتے ہیں ۔ باقی تو اپنے دماغ جیسی قیمتی دولت کو بغیر استعمال کیے ہی تہ خاک چلے جاتے ہیں۔ اگر دماغ ہم نے استعمال ہی نہیں کرنا ہوتا تو اس اہم اور قیمتی مشین کا ہمارے پاس ہونے کا کیا معنی؟
ایک کے بعد ایک ، کئی چیزیں یاد آ رہی ہیں کہ جن کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے لیے کوئی خاص فرق نہیں رکھتا ۔ اگر نہیں ہیں تو ہم انھیں حاصل کرنا چاہتے ہیں او ر اگر ہیں توانھیں استعمال کرنے کے بجائے اپنی الماریوں میں قید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ کالم کا دامن تنگ ہے، آپ خود اپنے ارد گرد دیکھیں اور بتائیں کہ کون سی چیزیں آپ کے پاس ہیں جنھیں آپ نہ استعمال کرتے ہیں نہ اپنی ملکیت سے دستبردار ہوتے ہیں ۔