قومی خطرہ
راولپنڈی سانحہ پر حکومت بہتر انداز سے قابو پانے کا لائحہ عمل مرتب کر سکتی تھی جو نہیں کیا گیا۔
راولپنڈی سانحہ پر حکومت بہتر انداز سے قابو پانے کا لائحہ عمل مرتب کر سکتی تھی جو نہیں کیا گیا۔ نتیجتا تمام ملک میں اس واقعے کی خونی باز گشت سامنے آ رہی ہے۔ ہمیں اس امر سے اتفاق کرنا چاہیے کہ فرقہ وارانہ جذبات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جس کے مختلف ابواب مختلف ادوار میں کوتاہ اندیش پالیسیوں سے تحریر کیے گئے۔ کسی حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی طرف پیش قدمی نہیں کی اور جب کوئی پالیسی بنائی گئی تو حزب اختلاف اور ایسی جماعتیں جو ان نفرتوں سے اپنی سیاست کا پیٹ پالتی ہیں، تعاون نہیں کیا۔
مگر ہر سانحہ نئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے اور مشکل فیصلے کر کے کڑوی گولی نگلنے کے مواقعے بھی فراہم کرتا ہے۔ راولپنڈی میں فساد اور دس قیمتی جانوں کے نقصان کے بعد حکومت کی پہلی ذمے داری قاتلوں کی گرفتاری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آگ و خون کے اس کھیل میں زخمی ہو جانے والوں کی فوری طور پر تسلی، تشفی اور مداوے کی یقین دہانی بھی کرنی تھی، مگر سب سے اہم کام جو کرنے کا تھا وہ نہیں کیا گیا، وہ یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملے پر عمل اور تشہیر کے ذریعے یہ پیغام پہنچانا تھا کہ وہ اس تمام صورت حال کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
یقیناً ذاتی دلچسپی اور توجہ ہر اُس رد عمل میں شامل ہو گیا جو حکومت پنجاب کی طرف سے سامنے آیا۔ ہمارے یہاں حکومتی نظام چار پانچ افراد کے گرد ہی گھومتا ہے۔ مگر چونکہ یہ واقعہ اتنا بڑا اور گھناؤنا تھا کہ پس پردہ کیے جانے والے فیصلوں کا عمل منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ انگریزی میں اس کو High Visibility کہتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو حکمران اور لیڈران عوام کو تسلی کا فوری پیغام پہنچانے کے لیے کرتے ہیں، یہ نہیں کیا گیا۔ اس تمام معاملے پر مقامی افسر شاہی کو حکومت کے رد عمل کے چہرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس سے تصور جنم لے گیا کہ شاید وزیر اعلی جو ڈینگی کا پیچھا کرنے یا میٹرو بس میں سفر کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اس سانحے پر سات پردوں میں بیٹھے نتائج سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دوران سرکاری اعداد و شمار کو بھی موثر انداز سے پیش نہیں کیا جا سکا۔ ذرایع ابلاغ میں صحافیوں اور مالکان سے بات چیت کے بعد وقتی طور پر اشتعال انگیز تجزیوں اور رپوٹوں کے سلسلوں کو موقف تو کر دیا گیا مگر اُس معلومات کے خانے کو پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جس میں خوف، خدشات، افواہ اور مبالغے کے جراثیم پھیلے اور پھر وباء کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس تمام معاملے میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے پیغامات نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ آپ میں سے بہت سے پڑھنے والوں کے موبائل فونز میں طرح طرح کے پیغامات، لرزہ خیز داستانوں کے ٹکڑے اور ذہن کو ماؤف کر دینے والے اعداد و شمار موجود ہوں گے۔ یہ پیغامات کسی کو کسی کی طرف سے کسی طرح ملے ہوں گے اور اس نے اُسی طرح آپ کو بھجوا دیے ہوں گے۔ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں کے اس کاروبار میں تصدیق کا عمل صفر ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس واقعے کے حقائق بیان کرنے سے پہلے ہی ہر کوئی یہ یقین کر چکا تھا کہ پنڈی میں جاں بحق ہونے والے دس نہیں بلکہ سو کے قریب ہیں اور مارا ماری میں جس قسم کے ظلم ڈھائے گئے ہیں وہ لال مسجد سے بھی بد ترین ہیں۔
حقائق کے لیے جو تھوڑی بہت جگہ بچتی تھی، وہ چند ایک اینکرز خواتین و حضرات نے پوری کر دی۔ رپورٹس کے مطابق بعض پروگرامز میں راولپنڈی کے واقعے کو قتل عام قرار دیا گیا۔ یہ اصطلاح بارود سے بھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں اس کا مطلب کشت و خون کا بازار گرم کرنے کا ہے۔ طیش میں آئے ہوئے لوگ سوگوار خاندان اور نفرتوں سے پُر اس قسم کی رپورٹنگ اور تجزیوں سے پھٹ پڑتے ہیں۔ چند ایک پروگرامز میں موقع پر موجود ہر کسی کے الزام کو بطور حقیقت بیان کر دیا گیا۔
دیکھنے والے اور سننے والے ابھی بھی کیمرے کی آنکھ سے فلم بند کیے ہوئے مناظر اور مائیک سے نکلے ہوئے الفاظ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ جب ظاہرا ذمے دار اینکر پرسنز اور رپورٹرز سوشل میڈیا پر گھومتی ہوئی غیر مصدقہ اطلاعات کو اٹل حقائق کے طور پر پیش کرنے لگیں تو وہ اس خلفشار کے ذمے دار ٹھہرائے جاتے ہیں جو بطور نتیجہ سامنے آتا ہے۔ حکومت مستند اعداد و شمار کو سامنے لا کر ریٹنگ کے اس خونی کھیل کو شروع ہونے سے پہلے روک سکتی تھی۔ اس کی طرف سے پہلے 48 گھنٹوں میں پر اسرار خاموشی ان ہزار زحمتوں کا باعث بن گئی ہے۔ جنہوں نے اس وقت ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اگر پنڈی واقعے میں ملوث قاتل پکڑے جائیں، بے لگام اور جہالت سے بھرے ہوئے تجزیے روکنے کا انتظام کر دیا جائے تو ابھی بھی مزید نقصان کی راہ روکی جا سکتی ہے۔
یہاں پر ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ فرقہ ورانہ فسادات میں بیرونی قوتوں کے واضح یا بالواسطہ ہاتھ کام کر رہے ہیں۔ کسی ہنگامے کو کرنے کے لیے اُسی وقت منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دیر پا دراندازی، نام نہاد امداد کی صورت میں بھیجی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ پر مخالف تہذیبوں اور فرقوں کی لڑائی پاکستان کو کارزار میں بدل رہی ہے۔ ہمارے اندر کے نقائص ان بیرونی عناصر کی وجہ سے گھمبیر قومی خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ عناصر ایک ہاتھ سے ہمارے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے گلی اور محلوں کو نفرت کی بھٹیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ظاہر ہے اس میں بھی ہماری اپنی کوتاہی ہی ہے۔ ملک کو معاشی طور پر بدحال کرنے والی قیادت جن کے تمام اثاثے، اولاد اور نواسے ان ممالک میں پلتے ہیں اس قابل نہیں کہ بیرونی فتنے کو زائل کر پائیں۔ یہ حالت آج نہیں برسوں سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں بیرونی لڑائیاں اتنی کھلے عام نہیں ہوتی تھیں، جتنی آج کل ہو رہی ہیں۔ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے ایک قومی ویژن کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ جو صرف واقعات ہو جانے کے بعد کف افسوس ملنے یا بے فائدہ پھرتیاں دکھانے تک محدود نہ ہو بلکہ اس ادراک پر مبنی ہو کہ مذہبی منافرت ہم سے کہیں زیادہ مضبوط معاشروں کو حالیہ دور میں تہہ و بالا کر چکی ہیں۔ اس زہر کوہمارے اندر پھیلانے کا کام ایک طویل عرصے سے جاری تھا وہ اب تیزی پکڑ رہا ہے اس سے منہ موڑنا اجتماعی خود کشی کے برابر ہو گا۔
مگر ہر سانحہ نئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے اور مشکل فیصلے کر کے کڑوی گولی نگلنے کے مواقعے بھی فراہم کرتا ہے۔ راولپنڈی میں فساد اور دس قیمتی جانوں کے نقصان کے بعد حکومت کی پہلی ذمے داری قاتلوں کی گرفتاری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آگ و خون کے اس کھیل میں زخمی ہو جانے والوں کی فوری طور پر تسلی، تشفی اور مداوے کی یقین دہانی بھی کرنی تھی، مگر سب سے اہم کام جو کرنے کا تھا وہ نہیں کیا گیا، وہ یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملے پر عمل اور تشہیر کے ذریعے یہ پیغام پہنچانا تھا کہ وہ اس تمام صورت حال کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
یقیناً ذاتی دلچسپی اور توجہ ہر اُس رد عمل میں شامل ہو گیا جو حکومت پنجاب کی طرف سے سامنے آیا۔ ہمارے یہاں حکومتی نظام چار پانچ افراد کے گرد ہی گھومتا ہے۔ مگر چونکہ یہ واقعہ اتنا بڑا اور گھناؤنا تھا کہ پس پردہ کیے جانے والے فیصلوں کا عمل منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ انگریزی میں اس کو High Visibility کہتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو حکمران اور لیڈران عوام کو تسلی کا فوری پیغام پہنچانے کے لیے کرتے ہیں، یہ نہیں کیا گیا۔ اس تمام معاملے پر مقامی افسر شاہی کو حکومت کے رد عمل کے چہرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس سے تصور جنم لے گیا کہ شاید وزیر اعلی جو ڈینگی کا پیچھا کرنے یا میٹرو بس میں سفر کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اس سانحے پر سات پردوں میں بیٹھے نتائج سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دوران سرکاری اعداد و شمار کو بھی موثر انداز سے پیش نہیں کیا جا سکا۔ ذرایع ابلاغ میں صحافیوں اور مالکان سے بات چیت کے بعد وقتی طور پر اشتعال انگیز تجزیوں اور رپوٹوں کے سلسلوں کو موقف تو کر دیا گیا مگر اُس معلومات کے خانے کو پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جس میں خوف، خدشات، افواہ اور مبالغے کے جراثیم پھیلے اور پھر وباء کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس تمام معاملے میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے پیغامات نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ آپ میں سے بہت سے پڑھنے والوں کے موبائل فونز میں طرح طرح کے پیغامات، لرزہ خیز داستانوں کے ٹکڑے اور ذہن کو ماؤف کر دینے والے اعداد و شمار موجود ہوں گے۔ یہ پیغامات کسی کو کسی کی طرف سے کسی طرح ملے ہوں گے اور اس نے اُسی طرح آپ کو بھجوا دیے ہوں گے۔ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں کے اس کاروبار میں تصدیق کا عمل صفر ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس واقعے کے حقائق بیان کرنے سے پہلے ہی ہر کوئی یہ یقین کر چکا تھا کہ پنڈی میں جاں بحق ہونے والے دس نہیں بلکہ سو کے قریب ہیں اور مارا ماری میں جس قسم کے ظلم ڈھائے گئے ہیں وہ لال مسجد سے بھی بد ترین ہیں۔
حقائق کے لیے جو تھوڑی بہت جگہ بچتی تھی، وہ چند ایک اینکرز خواتین و حضرات نے پوری کر دی۔ رپورٹس کے مطابق بعض پروگرامز میں راولپنڈی کے واقعے کو قتل عام قرار دیا گیا۔ یہ اصطلاح بارود سے بھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں اس کا مطلب کشت و خون کا بازار گرم کرنے کا ہے۔ طیش میں آئے ہوئے لوگ سوگوار خاندان اور نفرتوں سے پُر اس قسم کی رپورٹنگ اور تجزیوں سے پھٹ پڑتے ہیں۔ چند ایک پروگرامز میں موقع پر موجود ہر کسی کے الزام کو بطور حقیقت بیان کر دیا گیا۔
دیکھنے والے اور سننے والے ابھی بھی کیمرے کی آنکھ سے فلم بند کیے ہوئے مناظر اور مائیک سے نکلے ہوئے الفاظ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ جب ظاہرا ذمے دار اینکر پرسنز اور رپورٹرز سوشل میڈیا پر گھومتی ہوئی غیر مصدقہ اطلاعات کو اٹل حقائق کے طور پر پیش کرنے لگیں تو وہ اس خلفشار کے ذمے دار ٹھہرائے جاتے ہیں جو بطور نتیجہ سامنے آتا ہے۔ حکومت مستند اعداد و شمار کو سامنے لا کر ریٹنگ کے اس خونی کھیل کو شروع ہونے سے پہلے روک سکتی تھی۔ اس کی طرف سے پہلے 48 گھنٹوں میں پر اسرار خاموشی ان ہزار زحمتوں کا باعث بن گئی ہے۔ جنہوں نے اس وقت ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اگر پنڈی واقعے میں ملوث قاتل پکڑے جائیں، بے لگام اور جہالت سے بھرے ہوئے تجزیے روکنے کا انتظام کر دیا جائے تو ابھی بھی مزید نقصان کی راہ روکی جا سکتی ہے۔
یہاں پر ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ فرقہ ورانہ فسادات میں بیرونی قوتوں کے واضح یا بالواسطہ ہاتھ کام کر رہے ہیں۔ کسی ہنگامے کو کرنے کے لیے اُسی وقت منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دیر پا دراندازی، نام نہاد امداد کی صورت میں بھیجی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ پر مخالف تہذیبوں اور فرقوں کی لڑائی پاکستان کو کارزار میں بدل رہی ہے۔ ہمارے اندر کے نقائص ان بیرونی عناصر کی وجہ سے گھمبیر قومی خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ عناصر ایک ہاتھ سے ہمارے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے گلی اور محلوں کو نفرت کی بھٹیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ظاہر ہے اس میں بھی ہماری اپنی کوتاہی ہی ہے۔ ملک کو معاشی طور پر بدحال کرنے والی قیادت جن کے تمام اثاثے، اولاد اور نواسے ان ممالک میں پلتے ہیں اس قابل نہیں کہ بیرونی فتنے کو زائل کر پائیں۔ یہ حالت آج نہیں برسوں سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں بیرونی لڑائیاں اتنی کھلے عام نہیں ہوتی تھیں، جتنی آج کل ہو رہی ہیں۔ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے ایک قومی ویژن کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ جو صرف واقعات ہو جانے کے بعد کف افسوس ملنے یا بے فائدہ پھرتیاں دکھانے تک محدود نہ ہو بلکہ اس ادراک پر مبنی ہو کہ مذہبی منافرت ہم سے کہیں زیادہ مضبوط معاشروں کو حالیہ دور میں تہہ و بالا کر چکی ہیں۔ اس زہر کوہمارے اندر پھیلانے کا کام ایک طویل عرصے سے جاری تھا وہ اب تیزی پکڑ رہا ہے اس سے منہ موڑنا اجتماعی خود کشی کے برابر ہو گا۔