مالک بلوچ کی حقیقت پسندی یا ناکامی
بلوچستان میں تشدد کی کارروائیوں کی ایک بڑی وجہ صوبے میں غیر ملکی قوتوں کا سرگرم ہونا ہے
نیشنل پارٹی بلوچستان کی قوم پرست پارٹی ہے اور اس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ان دنوں صوبہ بلوچستان کے مالک و مختار کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہیں۔ وہ صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور باہمت اور کہنہ مشق شخصیت کے مالک ہیں۔ بلوچستان میں ان کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کا قیام جس قدر مشکل تھا اس سے کئی گنا مشکل صوبے کی کابینہ کی تشکیل تھی۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، کے مصداق بالآخر تاخیر سے ہی سہی لیکن چار ماہ گزر جانے کے بعد کابینہ کی تشکیل پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس کی تشکیل کا سہرا مالک بلوچ ہی کو جاتا ہے جنہوں نے بے شمار رکاوٹیں، مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا اور نہایت معاملہ فہمی سے تمام اراکین اور پارٹیوں کو متحد کیا۔ انھیں اب بھی بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم مسئلہ قیام امن کا ہے۔ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں مسلسل انتہا پسندوں اور علیحدگی پسند مزاحمت کاروں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز، ٹرینوں، سرکاری املاک اور دیگر مقامات پر حملے کیے جا رہے ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران 26 کے قریب معروف ڈاکٹروں کو اغوا کیا گیا۔
جن میں بعض کو تاوان کی عدم ادائیگی پر قتل کر دیا گیا جب کہ چند عسکریت پسندوں کی قید سے کروڑوں روپوں کے تاوان کی رقم ادا کرنے پر رہا ہوئے۔ دوسری جانب اب بھی کئی مغوی ڈاکٹرز ان کی قید میں ہیں جن میں کوئٹہ کے معروف امراض قلب ڈاکٹر عبدالمناف ترین بھی شامل ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صوبائی رہنما ڈاکٹر سلطان کے مطابق ڈاکٹروں کے اغوا کے بعد قتل کیے جانے کی وارداتوں کے باعث ڈاکٹرز ڈپریشن کا شکار ہیں اور استعفیٰ دینے اور صوبے سے ہجرت کرنے کے اقدامات پر غور کر رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی، مذہبی اور قبائلی رہنماؤں کے اغوا کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں ان میں کئی ایک وارداتیں قابل ذکر ہیں جس میں حالیہ اے این پی کے بزرگ سیاستدان ارباب عبدالظاہر کاسی ہیں جنھیں گزشتہ دنوں اغوا کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں اے این پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو خدشات لاحق ہیں۔
بلوچستان میں تشدد کی کارروائیوں کی ایک بڑی وجہ صوبے میں غیر ملکی قوتوں کا سرگرم ہونا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شرم الشیخ میں اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نیو یارک میں بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران بلوچستان میں بھارتی در اندازی کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بلوچستان میں در اندازی افغانستان کے راستے ہو رہی ہے۔
بلوچستان میں حکومتی رٹ کارگر ثابت نہیں ہو رہی جب کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان مسلسل بدامنی کی صورت حال کی بہتری میں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ دوڑ دھوپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے مزاحمت کاروں کو جنھیں وہ 'ناراض بلوچ' کہتے ہیں ان سے بارہا مذاکرات کی بات کی ہے تا کہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جائے لیکن تا حال اس مسئلے میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ طویل جدوجہد کے بعد صوبے کی تشکیل پانے والی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں بلوچستان میں بدامنی کے خاتمے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ بلوچستان میں اپنی نوعیت اور تاریخ میں پہلی اے پی سی ہو گی جس کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت ناراض بلوچوں اور بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ ان مذہبی جماعتوں سے بات چیت کرے گی جو فرقہ واریت کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ قوم جماعتیں صوبے میں حالات کی بہتری کے لیے ان مذاکرات کی حامی ہیں۔
گزشتہ دنوں عبدالمالک بلوچ کراچی آئے اور کراچی پریس کلب میں انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقینا ان کے اعصاب کے شل ہونے کا آئینہ دار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جس قدر باہمت، حوصلہ مند اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں دن رات کی بھاگ دوڑ، سیاسی معاملات میں جرأت مندی کا مظاہرہ کرنا اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی میں پیش پیش رہنے اور پھر نتائج کے مثبت نہ برآمد ہونے سے ان میں مایوسی آ گئی ہے لیکن وہ پھر بھی پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ نہیں حل کر سکے لیکن انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بازیابی کے لیے مصروف عمل ہیں اور ان کی بازیابی کو قیام امن سے مشروط قرار دیا ہے۔ دسمبر میں اے پی سی بلائی گئی ہے تا کہ شورش پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی طے کی جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ صوبے بھر میں تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے اور 31 اضلاع میں آباد لوگ شدید مفلسی و پسماندگی کا شکار ہیں مگر یہ تاثر غلط ہے کہ پورا صوبہ بد امنی کی صورت حال کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ مخصوص علاقے جہاں بلوچوں کی اکثریت آباد ہے وہاں حکومتی رٹ موجود نہیں بالخصوص آواران، جھالاوان اور مکران میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان علاقوں میں وہ جلد حکومتی رٹ قائم کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے جو کچھ کہا وہ بلاشبہ درست ہے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ پریشانی صرف مالک بلوچ ہی کی نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے عدالتی ادارے کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے جو اپنے احکامات کی تعمیل متعلقہ اداروں سے نہیں کروا سکا۔ محترم افتخار چوہدری آج بھی کراچی رجسٹری میں عدالت لگا کر حکومتی اداروں سے باز پرس کر رہے ہیں کہ کراچی میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے از خود نوٹس لیا اور اس سلسلے میں مقدمات کی سماعت کے دوران کوئٹہ رجسٹری میں متعلقہ حکام کو طلب کر کے سرزنش بھی کی۔
آواران اور دیگر علاقوں کے زلزلہ زدگان کے لیے حکومتی اداروں اور پاک فوج نے اولین ترجیح کے طور پر امداد و بحالی کی سرگرمیاں شروع کیں لیکن علیحدگی پسند مزاحمت کار ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ رکاوٹیں آفت زدہ بلوچ عوام کے آلام اور مصائب میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں جب کہ آواران ان دنوں علیحدگی پسند گروپوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہاں زلزلے سے قبل سے تاحال آزاد بلوچستان کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ قوم پرست رہنما ہیں اور بحیثیت وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عوام کی امیدوں کا سہارا بھی ہیں۔ بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں نے ان کے اعترافی بیان کو ان کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے حالانکہ ان کے اس اعتراف سے ان کی ناکامی نہیں بلکہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے کہ جس کے بعد بلوچستان کے ہر فرد کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور وہ مالک بلوچ کے دست و بازو بنیں۔ صوبے کی بہتری کے لیے کار آمد شہری ہونے کا ثبوت دیں جو کہ نہ صرف صوبے کے لیے بلکہ خود ان کی ترقی و خوش حالی کا باعث ہے۔
جن میں بعض کو تاوان کی عدم ادائیگی پر قتل کر دیا گیا جب کہ چند عسکریت پسندوں کی قید سے کروڑوں روپوں کے تاوان کی رقم ادا کرنے پر رہا ہوئے۔ دوسری جانب اب بھی کئی مغوی ڈاکٹرز ان کی قید میں ہیں جن میں کوئٹہ کے معروف امراض قلب ڈاکٹر عبدالمناف ترین بھی شامل ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صوبائی رہنما ڈاکٹر سلطان کے مطابق ڈاکٹروں کے اغوا کے بعد قتل کیے جانے کی وارداتوں کے باعث ڈاکٹرز ڈپریشن کا شکار ہیں اور استعفیٰ دینے اور صوبے سے ہجرت کرنے کے اقدامات پر غور کر رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی، مذہبی اور قبائلی رہنماؤں کے اغوا کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں ان میں کئی ایک وارداتیں قابل ذکر ہیں جس میں حالیہ اے این پی کے بزرگ سیاستدان ارباب عبدالظاہر کاسی ہیں جنھیں گزشتہ دنوں اغوا کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں اے این پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو خدشات لاحق ہیں۔
بلوچستان میں تشدد کی کارروائیوں کی ایک بڑی وجہ صوبے میں غیر ملکی قوتوں کا سرگرم ہونا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شرم الشیخ میں اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نیو یارک میں بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران بلوچستان میں بھارتی در اندازی کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بلوچستان میں در اندازی افغانستان کے راستے ہو رہی ہے۔
بلوچستان میں حکومتی رٹ کارگر ثابت نہیں ہو رہی جب کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان مسلسل بدامنی کی صورت حال کی بہتری میں اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ دوڑ دھوپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے مزاحمت کاروں کو جنھیں وہ 'ناراض بلوچ' کہتے ہیں ان سے بارہا مذاکرات کی بات کی ہے تا کہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جائے لیکن تا حال اس مسئلے میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ طویل جدوجہد کے بعد صوبے کی تشکیل پانے والی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں بلوچستان میں بدامنی کے خاتمے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ بلوچستان میں اپنی نوعیت اور تاریخ میں پہلی اے پی سی ہو گی جس کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت ناراض بلوچوں اور بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ ان مذہبی جماعتوں سے بات چیت کرے گی جو فرقہ واریت کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ قوم جماعتیں صوبے میں حالات کی بہتری کے لیے ان مذاکرات کی حامی ہیں۔
گزشتہ دنوں عبدالمالک بلوچ کراچی آئے اور کراچی پریس کلب میں انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقینا ان کے اعصاب کے شل ہونے کا آئینہ دار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جس قدر باہمت، حوصلہ مند اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں دن رات کی بھاگ دوڑ، سیاسی معاملات میں جرأت مندی کا مظاہرہ کرنا اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی میں پیش پیش رہنے اور پھر نتائج کے مثبت نہ برآمد ہونے سے ان میں مایوسی آ گئی ہے لیکن وہ پھر بھی پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ نہیں حل کر سکے لیکن انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بازیابی کے لیے مصروف عمل ہیں اور ان کی بازیابی کو قیام امن سے مشروط قرار دیا ہے۔ دسمبر میں اے پی سی بلائی گئی ہے تا کہ شورش پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی طے کی جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ صوبے بھر میں تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے اور 31 اضلاع میں آباد لوگ شدید مفلسی و پسماندگی کا شکار ہیں مگر یہ تاثر غلط ہے کہ پورا صوبہ بد امنی کی صورت حال کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ مخصوص علاقے جہاں بلوچوں کی اکثریت آباد ہے وہاں حکومتی رٹ موجود نہیں بالخصوص آواران، جھالاوان اور مکران میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان علاقوں میں وہ جلد حکومتی رٹ قائم کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے جو کچھ کہا وہ بلاشبہ درست ہے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ پریشانی صرف مالک بلوچ ہی کی نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے عدالتی ادارے کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے جو اپنے احکامات کی تعمیل متعلقہ اداروں سے نہیں کروا سکا۔ محترم افتخار چوہدری آج بھی کراچی رجسٹری میں عدالت لگا کر حکومتی اداروں سے باز پرس کر رہے ہیں کہ کراچی میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے از خود نوٹس لیا اور اس سلسلے میں مقدمات کی سماعت کے دوران کوئٹہ رجسٹری میں متعلقہ حکام کو طلب کر کے سرزنش بھی کی۔
آواران اور دیگر علاقوں کے زلزلہ زدگان کے لیے حکومتی اداروں اور پاک فوج نے اولین ترجیح کے طور پر امداد و بحالی کی سرگرمیاں شروع کیں لیکن علیحدگی پسند مزاحمت کار ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ رکاوٹیں آفت زدہ بلوچ عوام کے آلام اور مصائب میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں جب کہ آواران ان دنوں علیحدگی پسند گروپوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہاں زلزلے سے قبل سے تاحال آزاد بلوچستان کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ قوم پرست رہنما ہیں اور بحیثیت وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عوام کی امیدوں کا سہارا بھی ہیں۔ بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں نے ان کے اعترافی بیان کو ان کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے حالانکہ ان کے اس اعتراف سے ان کی ناکامی نہیں بلکہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے کہ جس کے بعد بلوچستان کے ہر فرد کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور وہ مالک بلوچ کے دست و بازو بنیں۔ صوبے کی بہتری کے لیے کار آمد شہری ہونے کا ثبوت دیں جو کہ نہ صرف صوبے کے لیے بلکہ خود ان کی ترقی و خوش حالی کا باعث ہے۔