اپنی پہچان ڈھونڈتے بھارتی مسلمان
کیا نام نہاد سیکولر ریاست بذات خود مذہب کے نام پر اپنے شہریوں کو بےوطن نہیں کررہی؟
''یہ لو آزادی'' کہتے ہوتے اس سویلین نے نہتے مظاہرین پر سیدھی گولی چلادی۔ صف اول کے مستند عالمی میڈیا، راؤئٹرز کے مطابق یہ منظر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کا ہے۔ یونیورسٹی کے تقریباً ایک ہزار طلبا مسلمانوں کے خلاف امتیازی شہریت کے نئے قانون پر احتجاج کررہے تھے۔ درجنوں پولیس والے حالات کنٹرول کرنے کےلیے مظاہرین کے سامنے کھڑے تھے۔ جب یہ ہندو دہشت گرد ہاتھ میں پستول لہراتا سامنے آیا۔ پولیس اس کے بیس میٹر پیچھے کھڑی آرام سے اسے دیکھ رہی تھی، جب اس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔
گولی شاداب فاروق نامی طالبعلم کو لگی۔ بعد میں سوشل میڈیا پر اس دہشت گرد کی شناخت رام بخت گوپال کے نام سے ہوگئی۔ جس نے گولی چلانے سے چند منٹ قبل اپنے فیس بک پیج پر اپنے انتہاپسند عزائم بتاتے ہوئے اپنی فیملی کی حفاظت کی اپیل کی تھی (کسی کے فیملی ممبر کو گولی مارنے والے کو اپنی فیملی کی کس قدر فکرہے)۔ پولیس کے مطابق اسے گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن پولیس میڈیا کو کوئی انفارمیشن دینے کو تیار نہیں، جو اس گرفتاری کو مشکوک بناتی ہے۔
اس بات کا تعلق دلی کے ریاستی انتخابات سے بھی ہوسکتا ہے، جس میں صرف چند دن باقی ہیں اور بی جے پی نے اپنا سب سے اہم ہتھیار، نفرتوں کا مبلغ، اترپردیش کا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ میدان میں اتار دیا ہے۔ اس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا مودی جی کے وزیراعظم بنتے ہی حکومت نے دہشت گردوں کی نشاندہی شروع کردی تھی اور بریانی کے بجائے انہیں گولی دینی شروع کردی تھی۔ کیونکہ ہم نہ بریانی کھاتے ہیں اور نہ کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد شاہین باغ کے مسلمان مظاہرین پر فائرنگ کرنے والا ایک اور ہندو نسل پرست، میڈیا نے پولیس کی حراست میں یہ کہتا ہوا دکھایا کہ ہندوستان میں وہی ہوگا جو ہندو چاہے گا۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے نریندر مودی سرکار کے متنازعہ شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے حالیہ مظاہروں میں انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق کم از کم پچیس مسلمانوں کو شہید اور سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انتیس جنوری کو یورپی پارلیمنٹ میں بھی اس قانون پر بحث ہوئی لیکن انڈین لابی اس پر ووٹنگ کو مارچ تک موخر کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ انڈیا کی سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک یورپی پارلیمان کو اس پر ووٹنگ نہیں کرانی چاہیے۔ ایوان کے بعض اراکین نے انڈیا میں اس نئے منظور شدہ قانون کو نازی دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور اسٹیٹ لیس یا بے وطن بنانے کی کوشش ہے۔
مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ چند پاکستانی اب بھی پاکستان کے قیام کے مخالف ہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقلید میں تقسیم ہند کو اس بنیاد پر غلط فیصلہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان مسلمانوں کی تقسیم کا باعث بنا اور ان کی قوت میں کمی آئی، وگرنہ مسلم اکثریتی علاقوں کے رہائشی مسلمانوں کی بھلائی ہوتی۔ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر مسلم اکثریت کے علاقوں میں مقیم تھی اور پاکستان نہ بنانے کا مطلب انہیں ہندوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑنا تھا۔ دوسری بات آج کشمیر، اتر پردیش اور ان دیگر علاقوں کی حالت دیکھ لیں جہاں مسلمان ابھی بھی اکثریت میں ہیں اور عالمی میڈیا ہندو دہشت گردوں کو ان پر سیدھی گولیاں چلاتا دکھا رہا ہے۔
قیام پاکستان کے مخالفین کا دوسرا معروف پوائنٹ یہ ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو متحدہ ہندوستان بڑی طاقت ہوتا اور عالمی طاقتوں کےلیے ایسی مضبوط ریاست کو دبانا ممکن نہ رہتا۔ اس کا جوب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کیا فرق پڑتا؟ پھر بھی مودی جیسا موذی ہی وزیراعظم بنتا، جس کے دور میں مسلمانوں پر پولیس کی موجودگی میں سیدھی گولیاں چلائی جارہی ہیں۔
تقسیم ہند کے مخالفین کی تیسری دلیل یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اگرچہ مذہبی تفریق موجود تھی، لیکن مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کو سیکولر رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس جب بعض لوگوں نے سیاسی مسائل کو مذہب کے زاویے سے دیکھا تو الجھاؤ پیدا ہوا اور اس عمل میں قائداعظم بھی شریک تھے۔ لہٰذا، اگر متحدہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست کے طور پر قائم رہتا تو اس میں مسلمان اسی طرح ترقی کرسکتے تھے جس طرح دوسری اقوام کے لوگ ترقی کر رہے ہیں۔
یہ نقطہ نظر رکھنے والے موجودہ تنازعے کو دیکھیں تو انڈیا میں لاکھوں ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تارکین وطن عشروں سے مقیم ہیں اور شہریت کے ترمیمی قانون کا مقصد ایسے تمام غیر مسلم تارکین کو شہریت دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تارکین کو شہریت دینے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیوں کیا گیا؟ کیا یہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ کیا نام نہاد سیکولر ریاست بذات خود مذہب کے نام پر اپنے شہریوں کو بےوطن نہیں کررہی؟ کیا ہندوستان کی ریاست مذہب کے نام پر وہی کام نہیں کررہی جس کا الزام مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے حامی قائداعظم پر لگاتے تھے اور اب بھی لگاتے ہیں؟
آخری بات، میں متحدہ ہندوستان کے موقف کا مخالف ہوں لیکن برداشت کے کلچر کا حامی ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ارض پاکستان میں سب کو اپنی بات کہنے کا ویسے ہی حق ہونا چاہیے جیسے امریکا میں نوم چومسکی اور بھارت میں ارون داتی رائے کو ہے، کیونکہ دونوں جانب کے دلائل سے عوامی شعور کی سطح بلند ہوگی اور عام پاکستانی خود صحیح بات تک پہنچ سکے گا۔ ایسے موضوعات پر بحث سے اساس پاکستان کو خطرہ نہیں۔ وہ دینا کے نقشے پر ایک حقیقت ہے اور انشااللہ رہے گا۔ اور ایسی مباحث کم از کم اس مسخرہ بازی سے بہت بہتر ہیں جو روز صبح و شام ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کے نام سے ہوتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گولی شاداب فاروق نامی طالبعلم کو لگی۔ بعد میں سوشل میڈیا پر اس دہشت گرد کی شناخت رام بخت گوپال کے نام سے ہوگئی۔ جس نے گولی چلانے سے چند منٹ قبل اپنے فیس بک پیج پر اپنے انتہاپسند عزائم بتاتے ہوئے اپنی فیملی کی حفاظت کی اپیل کی تھی (کسی کے فیملی ممبر کو گولی مارنے والے کو اپنی فیملی کی کس قدر فکرہے)۔ پولیس کے مطابق اسے گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن پولیس میڈیا کو کوئی انفارمیشن دینے کو تیار نہیں، جو اس گرفتاری کو مشکوک بناتی ہے۔
اس بات کا تعلق دلی کے ریاستی انتخابات سے بھی ہوسکتا ہے، جس میں صرف چند دن باقی ہیں اور بی جے پی نے اپنا سب سے اہم ہتھیار، نفرتوں کا مبلغ، اترپردیش کا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ میدان میں اتار دیا ہے۔ اس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا مودی جی کے وزیراعظم بنتے ہی حکومت نے دہشت گردوں کی نشاندہی شروع کردی تھی اور بریانی کے بجائے انہیں گولی دینی شروع کردی تھی۔ کیونکہ ہم نہ بریانی کھاتے ہیں اور نہ کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد شاہین باغ کے مسلمان مظاہرین پر فائرنگ کرنے والا ایک اور ہندو نسل پرست، میڈیا نے پولیس کی حراست میں یہ کہتا ہوا دکھایا کہ ہندوستان میں وہی ہوگا جو ہندو چاہے گا۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے نریندر مودی سرکار کے متنازعہ شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے حالیہ مظاہروں میں انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق کم از کم پچیس مسلمانوں کو شہید اور سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انتیس جنوری کو یورپی پارلیمنٹ میں بھی اس قانون پر بحث ہوئی لیکن انڈین لابی اس پر ووٹنگ کو مارچ تک موخر کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ انڈیا کی سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک یورپی پارلیمان کو اس پر ووٹنگ نہیں کرانی چاہیے۔ ایوان کے بعض اراکین نے انڈیا میں اس نئے منظور شدہ قانون کو نازی دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور اسٹیٹ لیس یا بے وطن بنانے کی کوشش ہے۔
مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ چند پاکستانی اب بھی پاکستان کے قیام کے مخالف ہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقلید میں تقسیم ہند کو اس بنیاد پر غلط فیصلہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان مسلمانوں کی تقسیم کا باعث بنا اور ان کی قوت میں کمی آئی، وگرنہ مسلم اکثریتی علاقوں کے رہائشی مسلمانوں کی بھلائی ہوتی۔ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر مسلم اکثریت کے علاقوں میں مقیم تھی اور پاکستان نہ بنانے کا مطلب انہیں ہندوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑنا تھا۔ دوسری بات آج کشمیر، اتر پردیش اور ان دیگر علاقوں کی حالت دیکھ لیں جہاں مسلمان ابھی بھی اکثریت میں ہیں اور عالمی میڈیا ہندو دہشت گردوں کو ان پر سیدھی گولیاں چلاتا دکھا رہا ہے۔
قیام پاکستان کے مخالفین کا دوسرا معروف پوائنٹ یہ ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو متحدہ ہندوستان بڑی طاقت ہوتا اور عالمی طاقتوں کےلیے ایسی مضبوط ریاست کو دبانا ممکن نہ رہتا۔ اس کا جوب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کیا فرق پڑتا؟ پھر بھی مودی جیسا موذی ہی وزیراعظم بنتا، جس کے دور میں مسلمانوں پر پولیس کی موجودگی میں سیدھی گولیاں چلائی جارہی ہیں۔
تقسیم ہند کے مخالفین کی تیسری دلیل یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اگرچہ مذہبی تفریق موجود تھی، لیکن مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کو سیکولر رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس جب بعض لوگوں نے سیاسی مسائل کو مذہب کے زاویے سے دیکھا تو الجھاؤ پیدا ہوا اور اس عمل میں قائداعظم بھی شریک تھے۔ لہٰذا، اگر متحدہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست کے طور پر قائم رہتا تو اس میں مسلمان اسی طرح ترقی کرسکتے تھے جس طرح دوسری اقوام کے لوگ ترقی کر رہے ہیں۔
یہ نقطہ نظر رکھنے والے موجودہ تنازعے کو دیکھیں تو انڈیا میں لاکھوں ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تارکین وطن عشروں سے مقیم ہیں اور شہریت کے ترمیمی قانون کا مقصد ایسے تمام غیر مسلم تارکین کو شہریت دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تارکین کو شہریت دینے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیوں کیا گیا؟ کیا یہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ کیا نام نہاد سیکولر ریاست بذات خود مذہب کے نام پر اپنے شہریوں کو بےوطن نہیں کررہی؟ کیا ہندوستان کی ریاست مذہب کے نام پر وہی کام نہیں کررہی جس کا الزام مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے حامی قائداعظم پر لگاتے تھے اور اب بھی لگاتے ہیں؟
آخری بات، میں متحدہ ہندوستان کے موقف کا مخالف ہوں لیکن برداشت کے کلچر کا حامی ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ارض پاکستان میں سب کو اپنی بات کہنے کا ویسے ہی حق ہونا چاہیے جیسے امریکا میں نوم چومسکی اور بھارت میں ارون داتی رائے کو ہے، کیونکہ دونوں جانب کے دلائل سے عوامی شعور کی سطح بلند ہوگی اور عام پاکستانی خود صحیح بات تک پہنچ سکے گا۔ ایسے موضوعات پر بحث سے اساس پاکستان کو خطرہ نہیں۔ وہ دینا کے نقشے پر ایک حقیقت ہے اور انشااللہ رہے گا۔ اور ایسی مباحث کم از کم اس مسخرہ بازی سے بہت بہتر ہیں جو روز صبح و شام ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کے نام سے ہوتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔