بلدیاتی انتخابات کا انعقاد
عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے مسائل حل ہوں گے تو عوام کو شکایات کا موقع بھی نہیں ملے گا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے اپنے صوبوں میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائیں تا کہ تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام قائم ہو جائے اور عوام کے مسائل عوامی سطح پر حل ہوں اور عوام کو ان کی دہلیز پر تمام سہولتیں مہیا ہوں۔ اس طرح عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے مسائل حل ہوں گے تو عوام کو شکایات کا موقع بھی نہیں ملے گا اور صوبوں میں امن و امان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ صوبوں میں امن و امان خراب ہونے کی وجوہات ہی یہی ہوتی ہیں کہ ان کے مسائل ضلع یا تحصیل کی سطح پر حل نہیں ہوتے ان کو اپنے مسائل کو لے کر اعلیٰ سطح تک لے جانا ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے چکروں پر چکر لگانے کے باوجود بھی اعلیٰ حکام تک رسائی نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو کوئی شنوائی نہیں ہوتی، اعلیٰ حکام کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ عوام کے مسائل سنیں اور ان کو مثبت جواب دیں۔ بس جھوٹی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ لوٹا دیا جاتاہے۔ اب عوام کے پاس سوائے انتظار کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اسی انتظار انتظار میں انتقال ہو جاتا ہے۔ بس یہی ایک آسان حل ہے، اعلیٰ حکام کے پاس ان کے مسائل حل کرنے کا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ہو گیا عوام کا مسئلہ حل۔
یہی صورت حال کا تقاضا ہے کہ بلدیاتی نظام کا اطلاق نہایت ضروری ہے۔ ورنہ اسی موجودہ کمشنری نظام میں تو عوام کے مسائل کیا حل ہوتے بلکہ ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔ عوام اسی لیے مایوس ہو کر اسمبلیوں کے منتخب نمایندوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر اسمبلیوں کے منتخب نمایندوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ محلوں میں گلیاں اور سڑکیں صاف کرائیں۔ میونسپل کارپوریشنوں کا کام دیکھیں، ان کا کام تو اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی اور دیگر آئینی حقوق کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی حکومتیں عوامی مسائل کو حل کرنے میں بھی سیاست کرتی ہیں۔ کہیں فنڈز کی عدم فراہمی تو کہیں سیاسی اختلافات تو کہیں حدود کا تعین۔ ارے بھائی! عوام کو ان تمام امور سے کیا تعلق۔ یہ تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ تمام عوامی امور کو حل کرنے کے لیے ضابطے اور قانون مرتب کریں اور عوام کے مسائل حل کریں نہ کہ عوام کو مشکلات میں مبتلا کر دیں۔
ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومتوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے سے چشم پوشی کی جائے گی تو ایسے تانا شاہی نہیں چلے گی۔ عوام مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر سکتے ہیں۔ جس کی بناء پر امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ بھی تو ہے نا کہ آپس کے سیاسی اختلافات بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ حکومتوں کا ایجنڈا کچھ ہوتا ہے تو حزب اختلاف کا کچھ اور۔ عوام درمیان میں پس رہے ہوتے ہیں۔ ادھر جائیں تو مشکل ادھر جائیں تو مشکل۔ اسی کشمکش میں عوام بد دل ہو کر حکومتوں کے خلاف نعرے بلند کرتے ہیں۔ حکومتوں کو ان کے وعدے، یقین دہانیاں اور ہوائی منصوبے یاد دلاتے ہیں، جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو حکومتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ بلدیاتی انتظامات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ مختلف حیلے بہانوں، گیدڑ بھبکیوں سے کام نہیں چلے گا۔ معلوم نہیں الیکشن کمیشن منصوبہ بندی کمیشن اور نہ جانے کون کون سے کمیشن ہیں اور بنتے ٹوٹے رہتے ہیں اس کے باوجود گاڑی وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ متحرک ہونے نہیں پاتی۔ آخر اس کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا کہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں رہے اور سسٹم بھی چلتا رہے۔ نہیں نہیں! بات در اصل یہ ہے کہ ان کو (حکومتوں کو) اطمینان ہے کہ ان کے پاس 5 سال کا عرصہ پڑا ہے۔ انتخابات کا کیا ہے؟ اس سال نہ سہی اگلے سال سہی۔ نہیں تو آیندہ دو تین سالوں میں تو کرا ہی دیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو یوں ہی چیخ چیخ کر تھک جائیں گے اور کچھ عرصے بعد بھول جائے گی۔
یوں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ عوام تو پہلے ہی بے شمار مسائل تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک مسئلہ حل ہوتا نہیں کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا رہتا ہے۔ اسی تگ و دو میں عوام تلملاتے رہتے ہیں اور جو مل رہا ہے آدھا نہ سہی پائو ٹکڑا ہی سہی اس پر صبر و شکر کر کے گزارہ کررہے ہیں۔ ورنہ وہی ہو گا کہ ''آدھی چھوڑ کر پوری کے پیچھے بھاگے تو آدھی بھی گئی اور پوری بھی گئی'' اﷲ کا شکر ادا کرو جیسے بھی حکومتی ریل چل رہی ہے چلنے دو ورنہ یہ ''ڈی ریل'' نہ ہو جائے وہ تو معاملہ اور بگاڑ دے گی۔ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت ہی کی بناء پر عدالت عظمیٰ اور دیگر عدالتیں ان انتخابات کے جلد انعقاد پر زور دے رہی ہیں۔ تا کہ عوام کو ریلیف ملے۔ ان کے مسائل ان کے دروازے پر حل ہوں۔ بات ہے سمجھنے کی۔ عدالتوں کو الزام دینا یا ان کے احکامات کو رد کرنا، سمجھ داری نہیں ہے بلکہ انصاف و قانون کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔ کیا ارباب اقتدار اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی بے حرمتی کس بیدردی سے کی جا رہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے بھی امن و امان بحال کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے بے خوابی سے جاگنے کی ضرورت ہے۔
ورنہ خدانخواستہ یہ ملک و قوم کا سفینہ جو پہلے ہی ہچکولے لے رہا ہے، ڈوب نہ جائے، اے ناخدائو (قوم اور ملک کے) اور اس سفینے کے، ہوش میں آ جائو، بار بار یہ بات اس لیے دہرا رہا ہوں کہ ملک ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اندرونی تو اندرونی، بیرونی حالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ بھیانک شکل اختیار کر رہے ہیں۔ صرف ایک صوبے کے علاوہ باقی تین صوبے خدشات و شبہات میں مبتلا ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں جلدی کرنے کو مناسب نہیں قرار دے رہے ہیں۔ مختلف وجوہات و تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ادھر دوسری جانب طالبان دھمکی دے رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے آئین، حکومت اور حکومتی اداروں کو نہیں مانتے اور تو اور اپنے سابق امیر حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا عزم لیے ہوئے حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان سارے خطرات کے پیش نظر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستانی طالبان کا جب یہ رویہ ہے تو دیگر بیرونی طاقتوں اور افغان طالبان کے کیا آسان منصوبے ہوں گے۔ وہ تو اور زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ بات لیکن سمجھ نہیں آتی کہ کیا عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ایسے پر خطر حالات میں بلدیاتی انتخابات اتنی مختصر مدت میں کس طرح کرائے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی حکومت الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں اور عدالتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ سب ادارے علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق سوچ رہے ہیں۔ صوبائی حکومتیں وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام بشمول چند سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی صاف صاف انکار کا بگل بج رہا ہے۔ بہر حال میدان سجا ہے۔ وارننگ، دھمکیاں، خدشات و خطرات کا سماں ہے، اس شور و غل میں کیا آخری نتیجہ نکلے گا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ چہ جائیکہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہو جائیں۔ اتنے سالوں بعد اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے اس ایشو کا آغاز کیا ہے تب بھی بلدیاتی انتخابات تعطل کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عدالت عظمیٰ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ جب عدالت عظمیٰ نے خود ایک فیصلہ کیا ہے تو اس پر نظر ثانی کرنا شاید مناسب نہیں ہو گا۔ ورنہ دیگر صورت ہر ادارے کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آئے گا تو حالات اور بگڑنے کا اندیشہ بھی ہے اور ایسی صورت میں مخالف فریقین اور طالبان پاکستان فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو جمہوریت اور جمہوری حکومت دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آخر میں تمام قارئین اور حکام بالا اور عدالت عظمیٰ سے یہی درخواست کروں گا کہ معاملے کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور تمام شرکاء بشمول عدالتی نمایندے بات چیت کے ذریعے کوئی مشترکہ حل تلاش کریں تو بات با آسانی سے کار گر ثابت ہو گی۔ ورنہ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بالخصوص عوام الناس کو تو نقصان ہی نقصان ہو گا اور ہمیشہ سے اسی طرح کے دیگر تنازعات میں عوام ہی بے یقینی، بد اعتمادی، بد حالی، عدم تحفظ اور عدم اطمینان کا شکار رہے ہیں۔ خدا کرے کہ بلدیاتی انتخابات ''بلدیاتی'' ہی رہیں۔ ''بد لیاتی'' نہ بن جائیں اگر ان کا انعقاد ہو رہا ہو۔
یہی صورت حال کا تقاضا ہے کہ بلدیاتی نظام کا اطلاق نہایت ضروری ہے۔ ورنہ اسی موجودہ کمشنری نظام میں تو عوام کے مسائل کیا حل ہوتے بلکہ ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔ عوام اسی لیے مایوس ہو کر اسمبلیوں کے منتخب نمایندوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر اسمبلیوں کے منتخب نمایندوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ محلوں میں گلیاں اور سڑکیں صاف کرائیں۔ میونسپل کارپوریشنوں کا کام دیکھیں، ان کا کام تو اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی اور دیگر آئینی حقوق کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی حکومتیں عوامی مسائل کو حل کرنے میں بھی سیاست کرتی ہیں۔ کہیں فنڈز کی عدم فراہمی تو کہیں سیاسی اختلافات تو کہیں حدود کا تعین۔ ارے بھائی! عوام کو ان تمام امور سے کیا تعلق۔ یہ تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ تمام عوامی امور کو حل کرنے کے لیے ضابطے اور قانون مرتب کریں اور عوام کے مسائل حل کریں نہ کہ عوام کو مشکلات میں مبتلا کر دیں۔
ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومتوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے سے چشم پوشی کی جائے گی تو ایسے تانا شاہی نہیں چلے گی۔ عوام مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر سکتے ہیں۔ جس کی بناء پر امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ بھی تو ہے نا کہ آپس کے سیاسی اختلافات بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ حکومتوں کا ایجنڈا کچھ ہوتا ہے تو حزب اختلاف کا کچھ اور۔ عوام درمیان میں پس رہے ہوتے ہیں۔ ادھر جائیں تو مشکل ادھر جائیں تو مشکل۔ اسی کشمکش میں عوام بد دل ہو کر حکومتوں کے خلاف نعرے بلند کرتے ہیں۔ حکومتوں کو ان کے وعدے، یقین دہانیاں اور ہوائی منصوبے یاد دلاتے ہیں، جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو حکومتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ بلدیاتی انتظامات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ مختلف حیلے بہانوں، گیدڑ بھبکیوں سے کام نہیں چلے گا۔ معلوم نہیں الیکشن کمیشن منصوبہ بندی کمیشن اور نہ جانے کون کون سے کمیشن ہیں اور بنتے ٹوٹے رہتے ہیں اس کے باوجود گاڑی وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ متحرک ہونے نہیں پاتی۔ آخر اس کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا کہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں رہے اور سسٹم بھی چلتا رہے۔ نہیں نہیں! بات در اصل یہ ہے کہ ان کو (حکومتوں کو) اطمینان ہے کہ ان کے پاس 5 سال کا عرصہ پڑا ہے۔ انتخابات کا کیا ہے؟ اس سال نہ سہی اگلے سال سہی۔ نہیں تو آیندہ دو تین سالوں میں تو کرا ہی دیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو یوں ہی چیخ چیخ کر تھک جائیں گے اور کچھ عرصے بعد بھول جائے گی۔
یوں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ عوام تو پہلے ہی بے شمار مسائل تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک مسئلہ حل ہوتا نہیں کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا رہتا ہے۔ اسی تگ و دو میں عوام تلملاتے رہتے ہیں اور جو مل رہا ہے آدھا نہ سہی پائو ٹکڑا ہی سہی اس پر صبر و شکر کر کے گزارہ کررہے ہیں۔ ورنہ وہی ہو گا کہ ''آدھی چھوڑ کر پوری کے پیچھے بھاگے تو آدھی بھی گئی اور پوری بھی گئی'' اﷲ کا شکر ادا کرو جیسے بھی حکومتی ریل چل رہی ہے چلنے دو ورنہ یہ ''ڈی ریل'' نہ ہو جائے وہ تو معاملہ اور بگاڑ دے گی۔ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت ہی کی بناء پر عدالت عظمیٰ اور دیگر عدالتیں ان انتخابات کے جلد انعقاد پر زور دے رہی ہیں۔ تا کہ عوام کو ریلیف ملے۔ ان کے مسائل ان کے دروازے پر حل ہوں۔ بات ہے سمجھنے کی۔ عدالتوں کو الزام دینا یا ان کے احکامات کو رد کرنا، سمجھ داری نہیں ہے بلکہ انصاف و قانون کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔ کیا ارباب اقتدار اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی بے حرمتی کس بیدردی سے کی جا رہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے بھی امن و امان بحال کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے بے خوابی سے جاگنے کی ضرورت ہے۔
ورنہ خدانخواستہ یہ ملک و قوم کا سفینہ جو پہلے ہی ہچکولے لے رہا ہے، ڈوب نہ جائے، اے ناخدائو (قوم اور ملک کے) اور اس سفینے کے، ہوش میں آ جائو، بار بار یہ بات اس لیے دہرا رہا ہوں کہ ملک ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اندرونی تو اندرونی، بیرونی حالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ بھیانک شکل اختیار کر رہے ہیں۔ صرف ایک صوبے کے علاوہ باقی تین صوبے خدشات و شبہات میں مبتلا ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں جلدی کرنے کو مناسب نہیں قرار دے رہے ہیں۔ مختلف وجوہات و تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ادھر دوسری جانب طالبان دھمکی دے رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے آئین، حکومت اور حکومتی اداروں کو نہیں مانتے اور تو اور اپنے سابق امیر حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا عزم لیے ہوئے حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان سارے خطرات کے پیش نظر اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستانی طالبان کا جب یہ رویہ ہے تو دیگر بیرونی طاقتوں اور افغان طالبان کے کیا آسان منصوبے ہوں گے۔ وہ تو اور زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ بات لیکن سمجھ نہیں آتی کہ کیا عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ایسے پر خطر حالات میں بلدیاتی انتخابات اتنی مختصر مدت میں کس طرح کرائے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی حکومت الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں اور عدالتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ سب ادارے علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق سوچ رہے ہیں۔ صوبائی حکومتیں وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام بشمول چند سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی صاف صاف انکار کا بگل بج رہا ہے۔ بہر حال میدان سجا ہے۔ وارننگ، دھمکیاں، خدشات و خطرات کا سماں ہے، اس شور و غل میں کیا آخری نتیجہ نکلے گا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ چہ جائیکہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہو جائیں۔ اتنے سالوں بعد اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے اس ایشو کا آغاز کیا ہے تب بھی بلدیاتی انتخابات تعطل کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عدالت عظمیٰ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ جب عدالت عظمیٰ نے خود ایک فیصلہ کیا ہے تو اس پر نظر ثانی کرنا شاید مناسب نہیں ہو گا۔ ورنہ دیگر صورت ہر ادارے کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آئے گا تو حالات اور بگڑنے کا اندیشہ بھی ہے اور ایسی صورت میں مخالف فریقین اور طالبان پاکستان فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو جمہوریت اور جمہوری حکومت دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آخر میں تمام قارئین اور حکام بالا اور عدالت عظمیٰ سے یہی درخواست کروں گا کہ معاملے کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور تمام شرکاء بشمول عدالتی نمایندے بات چیت کے ذریعے کوئی مشترکہ حل تلاش کریں تو بات با آسانی سے کار گر ثابت ہو گی۔ ورنہ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بالخصوص عوام الناس کو تو نقصان ہی نقصان ہو گا اور ہمیشہ سے اسی طرح کے دیگر تنازعات میں عوام ہی بے یقینی، بد اعتمادی، بد حالی، عدم تحفظ اور عدم اطمینان کا شکار رہے ہیں۔ خدا کرے کہ بلدیاتی انتخابات ''بلدیاتی'' ہی رہیں۔ ''بد لیاتی'' نہ بن جائیں اگر ان کا انعقاد ہو رہا ہو۔