برصغیر کا مستقبل
مسئلہ کشمیر ختم ہونے کے بجائے اور ابھر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان حائل خلیج اور گہری ہو رہی ہے۔
دنیا میں آج جو ابتری، ناانصافی اور طاقت کی برتری کے مظاہرے دیکھے جا رہے ہیں اور جس کی وجہ سے دنیا کے کروڑوں انسان بد ترین مسائل ظلم اور نا انصافی کا شکار ہیں۔ اگرچہ ایک سے زیادہ وجوہات ہیں لیکن ان وجوہات میں ایک بڑی وجہ دنیا کے ملکوں کی مفاد پرستی ہے، اگر دنیا کے ملک مفاد پرستی کی سیاست ترک کرکے اصول پرستی کی سیاست کرنے لگیں تو بہت کم عرصے میں ابتری ناانصافی طاقت کی برتری کے غیر اخلاقی اور غیر انسانی کلچرکا خاتمہ ہو جائے گا۔
دنیا کے عوام سکون کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں گے اس حوالے سے صرف ایک مسئلہ ، مسئلہ کشمیر کو لے لیں، اس ایک مسئلے کی وجہ سے پورا خطہ خوف و اضطراب کے ساتھ ساتھ زیادہ پسماندگی کا شکار ہو رہا ہے جس کی ذمے داری صرف اور صرف بھارت پر عائد ہوتی ہے۔اس حوالے سے پاکستان پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔
انسان کی معلوم تاریخ میں حکمرانوں یعنی بادشاہوں نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ ملکوں پر قبضے کی سیاست کی، بادشاہوں، راجاؤں، مہاراجاؤں کی پوری تاریخ فتوحات کی ہوس کی تاریخ ہے۔ کمزور ملکوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ اور مفتوحہ ملکوں کو اپنے ملک میں ضم کرنا شاہی دورکی بہت بڑی بیماری تھی۔ اس دور کو گزرے بھی اب سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور آج کا انسان شاہی دور پر لعنت ملامت کرکے اس دور کو وحشیانہ دور کہتا ہے لیکن یہ کس قدر دکھ اور شرم کی بات ہے کہ یہ ترقی یافتہ اور جمہوری انسان اب بھی طاقت کی برتری کے بہیمانہ اصول پر چل رہا ہے۔
کشمیر جسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے جنت نظیر کہا جاتا تھا ، آج ظلم اور ناانصافی کا گہوارہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ سیکڑوں سالہ طاقت کی برتری کا وہ کلچر وہ ذہنیت ہے جس پر انسان لعنت بھی بھیجتا ہے اور سینے سے لگائے بھی رکھتا ہے۔ 1948 میں جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور برصغیر بھی اس ننگ انسانیت نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوا تو اس سے قبل ہی انگریزوں اور ان کی معنوی اولاد نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کرلی تھی۔
14 اگست 1947 کی آزادی کا سورج 22 لاکھ انسانوں کے خون کی سرخی میں نہایا ہوا نکلا۔ انسان نما شیطانوں نے قتل و غارت کا ایسا ہولناک سلسلہ شروع کیا کہ برصغیر کی زمین انسانی خون سے لالہ زار ہوگئی اور آزادی کالی ماتا کے روپ میں برصغیر کے عوام پر مسلط ہوگئی۔ برصغیر کو دو قوموں کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا اور کوئی نہ تھا جو یہ کہہ سکے کہ احمقو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور بھائی بھائی ہو۔ اس فکر کے لوگ کم اور کمزور تھے لہٰذا قتل و غارت کے حامی اپنی سازش میں کامیاب رہے اور برصغیر کو دو ٹکڑوں میں اس طرح بانٹا گیا کہ حیوان ابھی تک انسانوں پر حاوی ہیں۔ 1947 میں متحدہ ہندوستان کی بنیادوں میں 22 لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا، یہیں پر بس نہ ہوا بلکہ دونوں بڑی قوموں کے درمیان مذہبی انتہا پسندی کی ایک ایسی بلند و بالا دیوار کھڑی کردی گئی کہ 72 سال کے دوران ننگ انسانیت عناصر اس دیوار کو اونچا ہی کرتے رہے ختم نہ کرسکے۔
بھارت ایک ارب سے زائد انسانوں کا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس میں 22 لاکھ مسلمان بھی رہتے ہیں۔ بھارت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسان اور حیوان میں تمیز کرسکتے ہیں لیکن سامراجی طاقتوں نے اپنے وسیع تر مفادات کی خاطر انسانوں کو دبائے رکھا اور حیوانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر اب انسانوں کے بجائے وحشیوں کا ملک بن گیا۔ جہاں ہر روز بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے یہی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کو خون آلود کرنے کے لیے بھارت کو ہندوتوا یعنی انتہا پسند مذہبی حیوانوں کا ملک بنانے کی منظم منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس ''نیک کام'' پر عملدرآمد کے لیے بھارتی عوام میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
بھارت کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے لیے دوسرے بہانوں کے علاوہ ایک بہانہ یہ تراشا گیا کہ پاکستان بھی تو ایک مذہبی ریاست ہے نا؟ پاکستان بلاشبہ مذہبی ریاست ہے لیکن پاکستانی عوام مذہبی انتہا پسند نہیں لبرل ہیں یہ بات یہ دعویٰ زبانی کلامی نہیں حقیقت پر مبنی ہے یہاں کے مسلمان یعنی اکثریت لبرل ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی مذہبی عناصر برسر اقتدار نہیں آئے یا لائے گئے۔ پاکستانی عوام نے عموماً لبرل ایلیمنٹ کو ووٹ دیے اور انھی کو اقتدار میں لانے کے لیے المیہ یہ رہا کہ ترقی پسند طاقتوں کے کمزور ہونے کا فائدہ حرام خوار اشرافیہ نے اٹھایا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے سے پہلے قیادت میں سیکولر طاقتیں مضبوط تھیں اور سامراجی ملکوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں برصغیر میں حقیقی سیکولر طاقتیں مضبوط نہ ہوجائیں۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ان طاقتوں نے گجرات کے مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو آگے بڑھایا جس نے ہندوتوا کے بیانیے کے ساتھ بھارتی عوام خاص طور پر انتہا پسند عناصر کو آگے بڑھایا اور کشمیر کی 72 سال سے متعین حیثیت کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مودی اینڈ کمپنی کا خیال ہے کہ اس طرح اس مسئلے کو دبا دیا جائے گا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان اقدامات سے یہ مسئلہ دبنے کے بجائے اور ابھر رہا ہے جس کا اندازہ آج منائے جانے والے کشمیریوں سے یکجہتی کے دن سے لگایا جاسکتا ہے جو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں منایا گیا۔ یوں مسئلہ کشمیر ختم ہونے کے بجائے اور ابھر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان حائل خلیج اور گہری ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ عوام کو معاشی پسماندگی غربت میں مبتلا کرنے والے اس مسئلے کو عوام ہی کے ذریعے اچھالا اور مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کیا بھارت میں اب ترقی پسند طاقتیں کمزور ہوگئی ہیں؟ یہ سوال تلوار کی طرح برصغیر کے مستقبل پر لٹک رہا ہے۔ اب بھارتی عوام خصوصاً اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ برصغیر میں انتہا پسندوں کو مضبوط نہ ہونے دیں۔
دنیا کے عوام سکون کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں گے اس حوالے سے صرف ایک مسئلہ ، مسئلہ کشمیر کو لے لیں، اس ایک مسئلے کی وجہ سے پورا خطہ خوف و اضطراب کے ساتھ ساتھ زیادہ پسماندگی کا شکار ہو رہا ہے جس کی ذمے داری صرف اور صرف بھارت پر عائد ہوتی ہے۔اس حوالے سے پاکستان پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔
انسان کی معلوم تاریخ میں حکمرانوں یعنی بادشاہوں نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ ملکوں پر قبضے کی سیاست کی، بادشاہوں، راجاؤں، مہاراجاؤں کی پوری تاریخ فتوحات کی ہوس کی تاریخ ہے۔ کمزور ملکوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ اور مفتوحہ ملکوں کو اپنے ملک میں ضم کرنا شاہی دورکی بہت بڑی بیماری تھی۔ اس دور کو گزرے بھی اب سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور آج کا انسان شاہی دور پر لعنت ملامت کرکے اس دور کو وحشیانہ دور کہتا ہے لیکن یہ کس قدر دکھ اور شرم کی بات ہے کہ یہ ترقی یافتہ اور جمہوری انسان اب بھی طاقت کی برتری کے بہیمانہ اصول پر چل رہا ہے۔
کشمیر جسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے جنت نظیر کہا جاتا تھا ، آج ظلم اور ناانصافی کا گہوارہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ سیکڑوں سالہ طاقت کی برتری کا وہ کلچر وہ ذہنیت ہے جس پر انسان لعنت بھی بھیجتا ہے اور سینے سے لگائے بھی رکھتا ہے۔ 1948 میں جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور برصغیر بھی اس ننگ انسانیت نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوا تو اس سے قبل ہی انگریزوں اور ان کی معنوی اولاد نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کرلی تھی۔
14 اگست 1947 کی آزادی کا سورج 22 لاکھ انسانوں کے خون کی سرخی میں نہایا ہوا نکلا۔ انسان نما شیطانوں نے قتل و غارت کا ایسا ہولناک سلسلہ شروع کیا کہ برصغیر کی زمین انسانی خون سے لالہ زار ہوگئی اور آزادی کالی ماتا کے روپ میں برصغیر کے عوام پر مسلط ہوگئی۔ برصغیر کو دو قوموں کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا اور کوئی نہ تھا جو یہ کہہ سکے کہ احمقو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور بھائی بھائی ہو۔ اس فکر کے لوگ کم اور کمزور تھے لہٰذا قتل و غارت کے حامی اپنی سازش میں کامیاب رہے اور برصغیر کو دو ٹکڑوں میں اس طرح بانٹا گیا کہ حیوان ابھی تک انسانوں پر حاوی ہیں۔ 1947 میں متحدہ ہندوستان کی بنیادوں میں 22 لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا، یہیں پر بس نہ ہوا بلکہ دونوں بڑی قوموں کے درمیان مذہبی انتہا پسندی کی ایک ایسی بلند و بالا دیوار کھڑی کردی گئی کہ 72 سال کے دوران ننگ انسانیت عناصر اس دیوار کو اونچا ہی کرتے رہے ختم نہ کرسکے۔
بھارت ایک ارب سے زائد انسانوں کا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس میں 22 لاکھ مسلمان بھی رہتے ہیں۔ بھارت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسان اور حیوان میں تمیز کرسکتے ہیں لیکن سامراجی طاقتوں نے اپنے وسیع تر مفادات کی خاطر انسانوں کو دبائے رکھا اور حیوانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر اب انسانوں کے بجائے وحشیوں کا ملک بن گیا۔ جہاں ہر روز بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے یہی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کو خون آلود کرنے کے لیے بھارت کو ہندوتوا یعنی انتہا پسند مذہبی حیوانوں کا ملک بنانے کی منظم منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس ''نیک کام'' پر عملدرآمد کے لیے بھارتی عوام میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
بھارت کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے لیے دوسرے بہانوں کے علاوہ ایک بہانہ یہ تراشا گیا کہ پاکستان بھی تو ایک مذہبی ریاست ہے نا؟ پاکستان بلاشبہ مذہبی ریاست ہے لیکن پاکستانی عوام مذہبی انتہا پسند نہیں لبرل ہیں یہ بات یہ دعویٰ زبانی کلامی نہیں حقیقت پر مبنی ہے یہاں کے مسلمان یعنی اکثریت لبرل ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی مذہبی عناصر برسر اقتدار نہیں آئے یا لائے گئے۔ پاکستانی عوام نے عموماً لبرل ایلیمنٹ کو ووٹ دیے اور انھی کو اقتدار میں لانے کے لیے المیہ یہ رہا کہ ترقی پسند طاقتوں کے کمزور ہونے کا فائدہ حرام خوار اشرافیہ نے اٹھایا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے سے پہلے قیادت میں سیکولر طاقتیں مضبوط تھیں اور سامراجی ملکوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں برصغیر میں حقیقی سیکولر طاقتیں مضبوط نہ ہوجائیں۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ان طاقتوں نے گجرات کے مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو آگے بڑھایا جس نے ہندوتوا کے بیانیے کے ساتھ بھارتی عوام خاص طور پر انتہا پسند عناصر کو آگے بڑھایا اور کشمیر کی 72 سال سے متعین حیثیت کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مودی اینڈ کمپنی کا خیال ہے کہ اس طرح اس مسئلے کو دبا دیا جائے گا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان اقدامات سے یہ مسئلہ دبنے کے بجائے اور ابھر رہا ہے جس کا اندازہ آج منائے جانے والے کشمیریوں سے یکجہتی کے دن سے لگایا جاسکتا ہے جو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں منایا گیا۔ یوں مسئلہ کشمیر ختم ہونے کے بجائے اور ابھر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان حائل خلیج اور گہری ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ عوام کو معاشی پسماندگی غربت میں مبتلا کرنے والے اس مسئلے کو عوام ہی کے ذریعے اچھالا اور مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کیا بھارت میں اب ترقی پسند طاقتیں کمزور ہوگئی ہیں؟ یہ سوال تلوار کی طرح برصغیر کے مستقبل پر لٹک رہا ہے۔ اب بھارتی عوام خصوصاً اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ برصغیر میں انتہا پسندوں کو مضبوط نہ ہونے دیں۔