موئن جو دڑو کے اصل نام کا متجسس معاملہ ہنوز برقرار

اصل نام موہین جو دڑو ہے اسی لیے سرکاری طور پر یہی کہا جائے، سندھ اسمبلی میں قرارداد

اصل نام موہین جو دڑو ہے اسی لیے سرکاری طور پر یہی کہا جائے، سندھ اسمبلی میں قرارداد ۔ فوٹو : فائل

1922 میں آر ڈی بینرجی نے جب سے اس قدیم شہر کو دریافت کیا تھا اس کے بعد سے اس قدیم تہذیب کو نام دیے جانے کے حوالے سے شکوک ہی پائے گئے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات اور رسائل میں اس شہر کے مختلف نام شائع ہوتے رہے ہیں تاہم ان میں 3نام آج بھی معروف ہیں، یعنی موئن جو دڑو (یعنی مردوں کا ٹیلہ) موہن جو دڑو (موہن کا ٹیلہ) اور موہن (زیر کے ساتھ) جو دڑو یعنی کرشنا کا ٹیلہ۔ حال میں نیا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پیپلز پارٹی کے ممبر سندھ اسمبلی قاسم سراج سومرو نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ اس شہر کو سرکاری طور پر موہن (زیر کے ساتھ) جو دڑو قرار دیا جائے جبکہ دیگر دونوں ناموں کو منسوخ کردیا جائے۔

قاسم سراج سومرو کا کہنا تھا کہ موہن جو دڑو کا نام سر جان مارشل نے تجویز کیا تھا کیونکہ ان ہی کی زیر نگرانی اس قدیم شہر کو دریافت کیا گیا تھا اور اس علاقے میں رہنے اور بسنے والے بھی اسے اسی نام سے جانتے اور پکارتے ہیں لہذا اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے جیسا کہ وہ لوگ جانتے ہیں جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔

اس قدیم شہر کی کھدائی سے دریافت ہونے والے آثار پر لکھی تحریر ابھی تک پڑھنے میں نہیں آ سکی ہے اور ماہرین آثار قدیمہ، مورخین اور ماہرین لسانایت حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ اس شہر کا اصل نام کیا تھا۔ ایک مقامی صحافی عبدالحق پیرزادو کے مطابق موہن جو دڑو میں لفظ موہن دراصل سندھی لفظ موہین سے لیا گیا۔ موہین کا مطلب ٹیلے کا نظارہ ہے اور چونکہ قریبی گاؤں کے بالکل سامنے ایک بڑا ٹیلہ موجود تھا جو دور سے دیکھتا تھا اسی لیے مقامی لوگوں نے اسے موہن جو دڑو کہنا شروع کر دیا۔

دوسری جانب سندھی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر اسحاق سمیجو کا کہنا تھا کہ سندھی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کے یہ معنے ہوں۔گزشتہ ماہ سندھ حکومت نے دریافت شدہ زبان یعنی انڈس اسکرپٹ پر تین روزہ عالمی سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین لسانیات اور ماہرین آثار قدیمہ نے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کیے۔


کانفرنس کے اختتام پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ علاقے کی مزید کھدائی کی ضرورت ہے کیونکہ دیافت ہونے والے اوزار اور سامان اتنا کافی نہیں کہ جس سے مکمل طور پر اس تہذیب کے بارے میں جانا جا سکے۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے جو علاقے کے تحفظ کے حوالے سے کام کرے گی۔ سکندر ہلیو جو ایک ماہر علم البشریات ہیں اور جن کا تعلق اسی علاقے سے ہے وہ بھی اس کمیٹی کے ایک رکن ہیں۔

ایکسپریس سے بات چیت میں سکندر ہلیو کا کہنا تھا کہ جب کسی دریافت شدہ شہر یا آثار کے حوالے سے کسی نام پر اتفاق نہ ہو تو اس صورت میں اسے اسی نام سے پکارا جانا چاہیے جو وہاں مقامی طور پر مشہور ہو۔

ہلیو کا کہنا تھا کہ موہن جو دڑو کا مطلب ہے مچھیروں کی بستی اور چونکہ یہ شہر دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا جہاں ماہی گیر بڑی تعداد میں رہتے تھے اسی لیے مقامی لوگ اسے موہن جو دڑو کہنے لگے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نام بگڑتا چلا گیا۔

ایک جرمن اسکالر، ڈاکٹر مائیکل جینسن جس نے موہن جو دڑو اور ہڑپا تہذیہوں پر تحقیق میں 30 سال صرف کیے ہیں اور جس نے یہاں دریافت ہونے والی دیواروں اور اینٹوں کی تقریبا 50 ہزار کے قریب تصاویر بھی لیں، جس کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اسے ہلال امتیاز بھی عطا کیا تھا۔

ڈاکٹر مائیکل جینسن نے ایکسپریس سے ٹیلی فون پر گفتگو میں بتایا کہ اس وقت موہن جو دڑو کے اصل معنے کے بارے میں نہیں جانتے کیونکہ دریافت ہونے والی زبان ابھی پڑھی نہیں جا سکی ہے اور ہمیں اگر واقعی اس شہر کے بارے میں مزید جاننا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی ماہرین کی مدد سے اس شہر کی مزید کھدائی کروائے تاکہ کچھ نئی دریافتیں ہوسکیں جس کی مدد سے اس کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکے۔
Load Next Story