منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد
اثاثے2009 میں بڑھنا شروع ہوئے، نیب پراسیکیوٹر،رقم کا ذریعہ بتائیں،ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات و منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔
جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بینچ نے حمزہ شہباز کی نیب کے منی لانڈرنگ الزامات کے تحت تحقیقات کے دائرہ اختیار کیخلاف اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی، حمزہ شہباز کے وکیل عدالت کو حمزہ شہباز کو بیرون ملک سے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہونیوالی رقم کا ذریعہ بتانے میں ناکام رہے جس پر عدالت نے درخواست ضمانت خارج کر دی۔
اس موقع پر کمرہ عدالت ن لیگ کے کارکنوں اور وکلا سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری 12 اپریل 2019ء کو جاری کئے گئے، ان کے والد شہباز شریف 3 بار صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔
وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے سلمان بٹ سے پوچھا کہ آپ ان کے شریک ملزموں کا کردار بھی بتائیں، وکیل نے کہا شریک ملزموں کا کردار تو نیب بتائے گا، عدالت نے کہا چلیں ہم نیب پراسکیوٹر سے پوچھ لیتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے فاضل بنچ کو بتایا 4 اپریل 2019ء کو حمزہ شہباز کیخلاف انکوائری شروع کی گئی۔
2000ء میں شہباز شریف فیملی کے کل اثاثے 6 کروڑ روپے تھے، 2009ء میں 68 کروڑ ہو گئے، 2018ء میں 300 کروڑ ہو گئے جبکہ 2006ء سے 2008ء کے دوران حمزہ شہباز نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروائی، 2009ء میں حمزہ کے اثاثے بڑھنا شروع ہوتے ہیں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کردی، عدالتی فیصلہ سنتے ہیلیگی کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی۔
جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بینچ نے حمزہ شہباز کی نیب کے منی لانڈرنگ الزامات کے تحت تحقیقات کے دائرہ اختیار کیخلاف اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی، حمزہ شہباز کے وکیل عدالت کو حمزہ شہباز کو بیرون ملک سے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہونیوالی رقم کا ذریعہ بتانے میں ناکام رہے جس پر عدالت نے درخواست ضمانت خارج کر دی۔
اس موقع پر کمرہ عدالت ن لیگ کے کارکنوں اور وکلا سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری 12 اپریل 2019ء کو جاری کئے گئے، ان کے والد شہباز شریف 3 بار صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔
وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے سلمان بٹ سے پوچھا کہ آپ ان کے شریک ملزموں کا کردار بھی بتائیں، وکیل نے کہا شریک ملزموں کا کردار تو نیب بتائے گا، عدالت نے کہا چلیں ہم نیب پراسکیوٹر سے پوچھ لیتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے فاضل بنچ کو بتایا 4 اپریل 2019ء کو حمزہ شہباز کیخلاف انکوائری شروع کی گئی۔
2000ء میں شہباز شریف فیملی کے کل اثاثے 6 کروڑ روپے تھے، 2009ء میں 68 کروڑ ہو گئے، 2018ء میں 300 کروڑ ہو گئے جبکہ 2006ء سے 2008ء کے دوران حمزہ شہباز نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروائی، 2009ء میں حمزہ کے اثاثے بڑھنا شروع ہوتے ہیں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کردی، عدالتی فیصلہ سنتے ہیلیگی کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی۔