آرڈیننس فیکٹری سے موہٹہ پیلس تک
شاعری ایک ایسی باکمال روایت ہے کہ اس کے دامن میں ایسی ایسی چیزیں بھی ایک جگہ پر جمع ہوجاتی ہیں۔
شاعری ایک ایسی باکمال روایت ہے کہ اس کے دامن میں ایسی ایسی چیزیں بھی ایک جگہ پر جمع ہوجاتی ہیں جن میں بظاہردور بلکہ دُور دراز کا رشتہ بھی نہیں ہوتا اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ ہفتے کے دوران دیکھنے میں آیا کہ5فروری کو واہ کی آرڈیننس فیکٹری میں شعرو سخن کے جو پھول کھلے انھی کی مہک اور رنگینی سے 8فروری کو کراچی کے موہٹہ پیلس کے سبزہ زار میں ایک ایسی محفل منعقدہوئی جسے بجا طور پر رُوح پرور اور یادگار کہا جاسکتا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ان محفلوں میں مشاعرے کے علاوہ بھی کئی مناسبتیں تھیں جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر یہ بات تھی کہ واہ کینٹ والے مشاعرے کے میزبان وہی جنرل بلال اکبر تھے جنہوں نے کراچی شہر کے امن و مان اور رونقوں کو بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ادارے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز برادرم محمد توفیق ہیں جو اسپورٹس ، جرنلزم، ادب اور پاکستان کے مختلف کھیلوں کی قومی ٹیموں کے مینیجر کے طور پر نمایاں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اس تقریب کے انتظامات سے ثابت ہوا کہ وہ مشاعرے کی روایت اور شاعروں کی نازک مزاجیوں سے بھی پوری طرح سے آشنا ہیں۔
ابتدائی طور پر طے پایا تھا کہ میں اور شوکت فہمی اکٹھے سفر کریں گے لیکن ہُوا یُوں کہ برادر عزیز احمدعطا اللہ نے مظفر آباد میں اسی یومِ یک جہتی کشمیر کے حوالے سے 4 فروری کو ایک مشاعرے کا اہتمام کرلیا جس میں میں تو لاہور میں اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث شامل نہ ہوسکا مگر شوکت فہمی اور عباس تابش کو جانا پڑا کہ میزبان کی سرکاری افسری تو نظرانداز ہوسکتی تھی مگر اُس کی محبت اور اپنائیت کا مان انکارکے متحمل نہیں تھے سو طے پایا کہ وہ وہاں سے ہوکر واہ پہنچ جائیں اور لاہور تک واپسی کا سفر یوں کیا جائے کہ میرا ڈرائیور شہباز ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ بوجوہ یہ بھی ممکن نہ ہوسکا کہ شوکت کو مظفر آباد سے ساتھ آئے ہوئے دوستوں احمد عطا اللہ اور اعجاز بھائی کو اسلام آباد میں کہیں ڈراپ کرنا تھا جب کہ مجھے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ کتاب میلے میں اپنی نئی کتاب 'ذرا سی بات' کے نسخوں پردستخط کرنے کے لیے چار بجے سے پہلے وہاں پہنچنا تھا جس کا اعلان اور اہتمام اس کے ناشرین بُک کارنر جہلم والوں نے پہلے سے کر رکھا تھا ۔
برادرم محمد توفیق نے بتایا کہ متعلقہ Exitپر موٹر وے سے اترتے ہی ایک گائیڈ فون پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں آرڈیننس فیکٹری کے گیٹ نمبر5تک پہنچائے گاجہاں سے ہمیں ایک خصوصی اسکواڈ کے ذریعے ہماری جائے قیام تک پہنچایا جائے گا سب کام اسی طرح سے ہوئے بس اتنا ہے کہ موٹر وے Exit سے گیٹ نمبرپانچ تک کا تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوا ، ہُوا یوں کہ ہمارے متعلقہ رہنما کانسبتی تعلق غالباً اُس گائیڈ سے تھا جس نے کولمبس کو انڈیا کا رستہ بتاتے ہوئے اسے امریکا پہنچا دیا تھا ۔
اس نے ہمیں جی ٹی روڈ اور اس پر واقع یوٹرن اور وہاں سے گیٹ نمبر پانچ تک راستہ تو ٹھیک بتایا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کا درمیانی فاصلہ کیا اور کتنا ہے دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر اس طرح کی صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب رستہ بتانے والا یہ تصور کرلیتا ہے کہ دوسری پارٹی کو اس علاقے کی ہر سڑک اور موڑ کا اچھی طرح سے علم ہے۔ ہم نے اس ''بے سمتی'' کی داستان محمد توفیق کو اس شرط پر سنائی کہ وہ اُس متعلقہ گائیڈ کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیںکریں گے کہ وہاں فوجی ڈسپلن کی پابندی کی جاتی ہے البتہ آیندہ سے اس طرح کی ذمے داری ایسے اشخاص کو دیا کریں گے جو اس کے لیے اہلیت اور تجربہ رکھتے ہوں ۔
مشاعرے کی نظامت شکیل جاذب نے کی جب کہ لاہور سے عزیزی رحمن فارس بھی پہنچ گیا۔ چھ مقامی شعرا سمیت شاعروں کی کل تعداد 18 تھی اور ساؤنڈ کے انتظامات عمدہ اور حاضرین عمدہ ترتھے کہ افسران اور اُن کی بیگمات کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی یہاں اس بات کا بہت خوشگوار ذکر بھی ضروری ہے کہ اس نو مربع میل اور تقریباً چھ لاکھ آبادی کے علاقے میں شرح زندگی سو فی صد ہے جو اپنی جگہ پر ایک مکمل ریکارڈ ہے۔
واہ کی واہ واہ سمیٹتے ہوئے موہٹہ پیلس کے مشاعرے میں پہنچے تو وہاں ایک اور خوشگوار نیم حیرت ہماری منتظر تھی ''نیم'' اس لیے کہ دو برس پہلے اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام اسی وینیو پر میں ان کے افتتاحی مشاعرے میں شرکت کرچکا تھا جس کی دلکش یاد ابھی تک تازہ تھی منتظمین کے اس گروپ میں زیادہ تعداد تو کراچی سے تعلق رکھنے والے مختلف اداروں کے سی ای اوز اور اعلیٰ تر پیشوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ ذوق افراد کی ہے مگر اس تقریب میں شرکت کے لیے لاہور اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں سے کئی ادب دوست احباب خصوصی طور پر بھی تشریف لائے تھے اس بار بھی حسبِ روایت چند منتخب شعرا کو مدعو کیا گیا تھا ۔ کُل نو شاعر اس ترتیب سے اسٹیج پر بلائے گئے رحمن فارس ، ڈاکٹرکبیر اطہر، عرفان ستار، احمد نوید،یاسمین حمید، عنایت علی خان، انور شعور، امجد اسلام امجد، افتخار عارف۔
نظامت کے فرائض سیاست اور ادب میں ایک جیسے محبوب اور متحرک فیصل سبزواری نے کی اور بہت سلیقے سے یہ مشکل کام سرانجام دیا جب کہ سامعین کی تعداد نہ صرف دو ہزار سے زیادہ تھی بلکہ ان کا ذوقِ شعر بھی نسبتاً بہت عمدہ اور تربیت یافتہ تھا۔ افتخار عارف حسبِ دستور اپنے پرانے دوست عزیز بھائی (مرحومہ شاہدہ احمد کے شوہر) اور عرفان ستار جم خانہ میں قیام پذیر ہوئے جب کہ باقی پردیسیوں کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا مشاعرے سے ایک رات قبل یعنی 7 فروری کو عزیزی عدنان رضوی کے گھر پر ایک استقبالیہ نما تقریب تھی جو آگے چل کرحسبِ توقع ایک منی مشاعرے میں تبدیل ہوگئی ۔
عدنان رضوی برادرم راحت سیّد کے بھانجے ہیں جب کہ اُن کی والدہ کا ادبی ذوق اور شوقِ مہمانداری ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اسی طرح مشاعرے سے اگلے روز وقار الاسلام صاحب کے گھر پر ایک برنچ تھا یہاں بھی کھانے کے بعد شعر کی ایک مختصر محفل جمی ان تین دنوں میں میزبانوں کے ساتھ ساتھ کئی پرانے دوستوں اشرف شاہین، عرفان جاوید ، سید جاوید اقبال ، بیگم و برادرم بلال ، بدر رضوان، ستیش آنند، سید جمشید حسن، حسن ضیاء، طارق اکرام، مطاہر احمد اور ڈاکٹر شجاعت سے بھی ملاقات رہی مشاعرہ سے پہلے حلیم پارٹی کے دوران شہریار زیدی اور نیرہ نوربھی آن ملے اور کچھ لمحوں کے لیے گزشتہ نصف صدی جیسے آنکھوں کے سامنے گھوم سی گئی ۔
آرڈینینس فیکٹری واہ اور موہٹہ پیلس کے ان دو مشاعروں کے معیار اور سامعین کے ذوقِ ادب کو دیکھ کر کئی شکوک زائل اور یقین پختہ ہوگئے کہ اگرچہ مشاعرے کی روایت کسی ادبی درجہ بندی کی ضامن نہیں ہوتی مگر اس کے اعلیٰ معیار سے خواص اور عوام سے بیک وقت مکالمے کے اُس عمل کو یقینا زندگی ، رونق اور تازگی ملتی ہے جو معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان پُل کا کام کرتی ہے اور جس کے توسط سے ان مثبت قدروں، روایات اور اخلاقیات کو فروغ ملتا ہے جن سے کسی معاشرے کی تہذیبی سطح مرتب اور معین ہوتی ہے ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ان محفلوں میں مشاعرے کے علاوہ بھی کئی مناسبتیں تھیں جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر یہ بات تھی کہ واہ کینٹ والے مشاعرے کے میزبان وہی جنرل بلال اکبر تھے جنہوں نے کراچی شہر کے امن و مان اور رونقوں کو بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ادارے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز برادرم محمد توفیق ہیں جو اسپورٹس ، جرنلزم، ادب اور پاکستان کے مختلف کھیلوں کی قومی ٹیموں کے مینیجر کے طور پر نمایاں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اس تقریب کے انتظامات سے ثابت ہوا کہ وہ مشاعرے کی روایت اور شاعروں کی نازک مزاجیوں سے بھی پوری طرح سے آشنا ہیں۔
ابتدائی طور پر طے پایا تھا کہ میں اور شوکت فہمی اکٹھے سفر کریں گے لیکن ہُوا یُوں کہ برادر عزیز احمدعطا اللہ نے مظفر آباد میں اسی یومِ یک جہتی کشمیر کے حوالے سے 4 فروری کو ایک مشاعرے کا اہتمام کرلیا جس میں میں تو لاہور میں اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث شامل نہ ہوسکا مگر شوکت فہمی اور عباس تابش کو جانا پڑا کہ میزبان کی سرکاری افسری تو نظرانداز ہوسکتی تھی مگر اُس کی محبت اور اپنائیت کا مان انکارکے متحمل نہیں تھے سو طے پایا کہ وہ وہاں سے ہوکر واہ پہنچ جائیں اور لاہور تک واپسی کا سفر یوں کیا جائے کہ میرا ڈرائیور شہباز ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ بوجوہ یہ بھی ممکن نہ ہوسکا کہ شوکت کو مظفر آباد سے ساتھ آئے ہوئے دوستوں احمد عطا اللہ اور اعجاز بھائی کو اسلام آباد میں کہیں ڈراپ کرنا تھا جب کہ مجھے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ کتاب میلے میں اپنی نئی کتاب 'ذرا سی بات' کے نسخوں پردستخط کرنے کے لیے چار بجے سے پہلے وہاں پہنچنا تھا جس کا اعلان اور اہتمام اس کے ناشرین بُک کارنر جہلم والوں نے پہلے سے کر رکھا تھا ۔
برادرم محمد توفیق نے بتایا کہ متعلقہ Exitپر موٹر وے سے اترتے ہی ایک گائیڈ فون پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں آرڈیننس فیکٹری کے گیٹ نمبر5تک پہنچائے گاجہاں سے ہمیں ایک خصوصی اسکواڈ کے ذریعے ہماری جائے قیام تک پہنچایا جائے گا سب کام اسی طرح سے ہوئے بس اتنا ہے کہ موٹر وے Exit سے گیٹ نمبرپانچ تک کا تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوا ، ہُوا یوں کہ ہمارے متعلقہ رہنما کانسبتی تعلق غالباً اُس گائیڈ سے تھا جس نے کولمبس کو انڈیا کا رستہ بتاتے ہوئے اسے امریکا پہنچا دیا تھا ۔
اس نے ہمیں جی ٹی روڈ اور اس پر واقع یوٹرن اور وہاں سے گیٹ نمبر پانچ تک راستہ تو ٹھیک بتایا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کا درمیانی فاصلہ کیا اور کتنا ہے دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر اس طرح کی صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب رستہ بتانے والا یہ تصور کرلیتا ہے کہ دوسری پارٹی کو اس علاقے کی ہر سڑک اور موڑ کا اچھی طرح سے علم ہے۔ ہم نے اس ''بے سمتی'' کی داستان محمد توفیق کو اس شرط پر سنائی کہ وہ اُس متعلقہ گائیڈ کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیںکریں گے کہ وہاں فوجی ڈسپلن کی پابندی کی جاتی ہے البتہ آیندہ سے اس طرح کی ذمے داری ایسے اشخاص کو دیا کریں گے جو اس کے لیے اہلیت اور تجربہ رکھتے ہوں ۔
مشاعرے کی نظامت شکیل جاذب نے کی جب کہ لاہور سے عزیزی رحمن فارس بھی پہنچ گیا۔ چھ مقامی شعرا سمیت شاعروں کی کل تعداد 18 تھی اور ساؤنڈ کے انتظامات عمدہ اور حاضرین عمدہ ترتھے کہ افسران اور اُن کی بیگمات کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی یہاں اس بات کا بہت خوشگوار ذکر بھی ضروری ہے کہ اس نو مربع میل اور تقریباً چھ لاکھ آبادی کے علاقے میں شرح زندگی سو فی صد ہے جو اپنی جگہ پر ایک مکمل ریکارڈ ہے۔
واہ کی واہ واہ سمیٹتے ہوئے موہٹہ پیلس کے مشاعرے میں پہنچے تو وہاں ایک اور خوشگوار نیم حیرت ہماری منتظر تھی ''نیم'' اس لیے کہ دو برس پہلے اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام اسی وینیو پر میں ان کے افتتاحی مشاعرے میں شرکت کرچکا تھا جس کی دلکش یاد ابھی تک تازہ تھی منتظمین کے اس گروپ میں زیادہ تعداد تو کراچی سے تعلق رکھنے والے مختلف اداروں کے سی ای اوز اور اعلیٰ تر پیشوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ ذوق افراد کی ہے مگر اس تقریب میں شرکت کے لیے لاہور اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں سے کئی ادب دوست احباب خصوصی طور پر بھی تشریف لائے تھے اس بار بھی حسبِ روایت چند منتخب شعرا کو مدعو کیا گیا تھا ۔ کُل نو شاعر اس ترتیب سے اسٹیج پر بلائے گئے رحمن فارس ، ڈاکٹرکبیر اطہر، عرفان ستار، احمد نوید،یاسمین حمید، عنایت علی خان، انور شعور، امجد اسلام امجد، افتخار عارف۔
نظامت کے فرائض سیاست اور ادب میں ایک جیسے محبوب اور متحرک فیصل سبزواری نے کی اور بہت سلیقے سے یہ مشکل کام سرانجام دیا جب کہ سامعین کی تعداد نہ صرف دو ہزار سے زیادہ تھی بلکہ ان کا ذوقِ شعر بھی نسبتاً بہت عمدہ اور تربیت یافتہ تھا۔ افتخار عارف حسبِ دستور اپنے پرانے دوست عزیز بھائی (مرحومہ شاہدہ احمد کے شوہر) اور عرفان ستار جم خانہ میں قیام پذیر ہوئے جب کہ باقی پردیسیوں کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا مشاعرے سے ایک رات قبل یعنی 7 فروری کو عزیزی عدنان رضوی کے گھر پر ایک استقبالیہ نما تقریب تھی جو آگے چل کرحسبِ توقع ایک منی مشاعرے میں تبدیل ہوگئی ۔
عدنان رضوی برادرم راحت سیّد کے بھانجے ہیں جب کہ اُن کی والدہ کا ادبی ذوق اور شوقِ مہمانداری ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اسی طرح مشاعرے سے اگلے روز وقار الاسلام صاحب کے گھر پر ایک برنچ تھا یہاں بھی کھانے کے بعد شعر کی ایک مختصر محفل جمی ان تین دنوں میں میزبانوں کے ساتھ ساتھ کئی پرانے دوستوں اشرف شاہین، عرفان جاوید ، سید جاوید اقبال ، بیگم و برادرم بلال ، بدر رضوان، ستیش آنند، سید جمشید حسن، حسن ضیاء، طارق اکرام، مطاہر احمد اور ڈاکٹر شجاعت سے بھی ملاقات رہی مشاعرہ سے پہلے حلیم پارٹی کے دوران شہریار زیدی اور نیرہ نوربھی آن ملے اور کچھ لمحوں کے لیے گزشتہ نصف صدی جیسے آنکھوں کے سامنے گھوم سی گئی ۔
آرڈینینس فیکٹری واہ اور موہٹہ پیلس کے ان دو مشاعروں کے معیار اور سامعین کے ذوقِ ادب کو دیکھ کر کئی شکوک زائل اور یقین پختہ ہوگئے کہ اگرچہ مشاعرے کی روایت کسی ادبی درجہ بندی کی ضامن نہیں ہوتی مگر اس کے اعلیٰ معیار سے خواص اور عوام سے بیک وقت مکالمے کے اُس عمل کو یقینا زندگی ، رونق اور تازگی ملتی ہے جو معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان پُل کا کام کرتی ہے اور جس کے توسط سے ان مثبت قدروں، روایات اور اخلاقیات کو فروغ ملتا ہے جن سے کسی معاشرے کی تہذیبی سطح مرتب اور معین ہوتی ہے ۔