ہندوستان میں ہندی اور اُردو آپس میں گھل مل گئی ہیں خوشبیر سنگھ شاد
چالیس برس کی عمرمیں اردو رسم الخط سیکھا،شاعری کے لیے کاروبار برباد کیا مگرشاعری کو کاروبار نہیں بنایا، خوشبیر سنگھ شاد
مادری زبان پنجابی، گھر میں پنجابی ہی بولی جاتی تھی۔
اردو سے ناتا کیسے جڑا، یہ یاد نہیں۔ ہاں، اتنا ضرور یاد ہے کہ کتابیں اپنی جانب کھینچتی تھیں۔ پڑھنے کا شوق تھا۔ ایک روز ''اردو کی بہترین غزلیں'' نامی چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی، جو دیوناگری رسم الخط میں تھی۔ پڑھ کر بہت لطف اندوز ہوئے۔ مزید کتابیں کھوجیں۔ آنے والے برسوں میں اردو کے کئی شعرا کو دیوناگری میں پڑھا۔ نثر کی جانب متوجہ ہوئے۔
جس زمانے میں اُن کے ہم عمر رومانوی کہانیاں پڑھ رہے تھے، وہ کرشن چندر، منٹو اور بیدی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اردو شاعری کا مزاج سمجھ میں آنے لگا، تو شعر کہنے کا شوق چرایا۔ دیوناگری کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ جو ذہن میں آیا، لکھتے چلے گئے۔ پھر ایک استاد میسر آئے، جن کی تحریک نے نہ صرف اظہار کی آرزو کو دہکایا، بلکہ اُس عمر میں جب نئی زبان سیکھنے کی خواہش دم توڑ دیتی ہے، اردو رسم الخط سیکھنے کی جوت جگائی۔
جی ہاں، جب خوشبیر سنگھ شاد کی اردو رسم الخط سے دوستی ہوئی، اُن کی عمر چالیس برس تھی۔ گذشتہ دنوں ایکسپریس کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے جب وہ پاکستان تشریف لائے، تو اُن کی دل چسپ کہانی سُننے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی ہندوستان میں اردو کا مستقبل بھی زیر بحث آیا۔
اردو داں طبقے میں خوشبیر سنگھ شاد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ موجودہ نسل کے غزل گو شعرا میں وہ نمایاں ہے۔ خالص لکھنوی انداز بیاں پایا جاتا ہے اُن کی غزل میں۔ دل کش تشبیہات، قافیہ پیمائی اور خوب صورت استعاروں سے کلام میں سوزو گداز کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ اب تک آٹھ مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ابتدائی دو دیوناگری میں تھے۔ بعد میں اردو اور دیوناگری، دونوں ہی میں کتابیں شایع ہوئیں۔ پاکستان میں اُن کے نام کی گونج 2005 میں سنائی دی، جب کراچی کے ایک مشاعرے میں اُنھوں نے کچھ یوں خیالات کو الفاظ کا ملبوس عطا کیا:
یہ تیرا تاج نہیں ہے ہماری پگڑی ہے
یہ سر کے ساتھ ہی اُترے گی سر کا حصہ ہے
اِس شعر کے بعد خوشبیر کی شہرت کو پرلگ گئے۔ دیگر ممالک سے بلاوے آنے لگے۔ تخلیقات کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جموں یونیورسٹی میں اُن کی شاعری کو ایم فل تھیسس کا موضوع بنایا گیا۔ مہیش بھٹ کی فلم ''دھوکا'' کے لیے انھوں نے ایک گیت بھی لکھا، لیکن اصل میدان غزل ہی رہا۔
حالاتِ زیست کھنگالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بٹوارے کے سات برس بعد، ماہ ستمبر میں سیتاپور، اُترپردیش میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، رویل سنگھ انجینئر تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باعث وہ تبادلوں کی زد میں رہے۔ بعد میں ملازمت ترک کی، اور لکھنؤ میں کنسٹرکشن کا کاروبار شروع کیا۔ اُسی شہر میں خوشبیر سنگھ نے شعور کی آنکھ کھولی۔ پرانا لکھنؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،''آج کے اور اس وقت کے لکھنؤ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ شہر تہذیب کا گہوارہ تھا۔ لوگوں میں اپنائیت تھی، مگر وقت کے ساتھ دیگر شہروں کے مانند لکھنؤ بھی بدل گیا۔ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں گم ہوگئے۔ لکھنؤ چوں کہ اہل زبان کا شہر تھا، اِس لیے تغیرات کا زیادہ نقصان اُسی کو پہنچا۔'' خاندان پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ گردوارے میں تربیت ہوئی، مگر روایتی معنوں میں وہ مذہبی نہیں۔ انسانیت کو مذاہب سے بلند خیال کرتے ہیں۔
والد کے مزاج میں یوں تو شفقت تھی، لیکن جب کبھی خوشبیر شرارتیں کرتے، تو سزا ملتی۔ ماضی کچھ یوں بازیافت کرتے ہیں،''میرا پڑھائی میں بالکل من نہیں لگتا تھا۔ پڑھائی سے بھاگتا تھا۔ اِس وجہ سے بہت ڈانٹ پڑتی۔'' کھیلوں سے کوسوں دُور رہے۔ اِس دوری کا سبب ایک المیے میں پوشیدہ تھا۔ ''یہ بچپن کی بات ہے۔ میں بڑے بھائی کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا۔ گلی نالے میں جاگری۔ جب بھائی اٹھانے گیا، تو وہاں بیٹھے پاگل کتے نے اُسے کاٹ لیا۔ چند روز بعد اُس کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھ پر بہت سی پابندیاں لگ گئیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے، آج تک میں نے نہ تو کبھی کنچے کھیلے، نہ ہی پتنگ اڑائی، اور نہ ہی کبھی پیڑ پر چڑھا۔''
گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر اُن کا معاملہ یہ تھا کہ لیکچرز سنتے ہوئے چکر آنے لگتے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خیر، کسی نہ کسی طرح 74ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹائیں، مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ خوشبیر شاعری کے عشق میں مبتلا تھے۔ کسی نے والد کو مشورہ دیا کہ صاحب زادے کو پرنٹنگ پریس لگا دیں، مصروفیات میں الجھ کر شاعری وغیرہ سب بُھول جائے گا۔ بات اُن کے دل کو لگی۔ ''نونیت پرنٹرز'' کے نام سے پریس لگ گیا۔ کُلی ذمے داری اُنھیں سونپ دی گئی، مگر بدلنے کی شعوری کوشش کے باوجود وہ خود کو نہیں بدل سکے۔ اور تب ایک حادثہ ہوا۔ بتاتے ہیں،''شاید یہ میرا امتحان تھا۔ 78ء میں والد پر فالج کا حملہ ہوا۔ تمام ذمے داریاں مجھ پر آگئیں۔ پھر میں نے بہت محنت کی۔ کاروبار سنبھالا۔ بہنوں کی شادی کی۔''
ایک طویل عرصے تک کاروبار صحیح ڈھب پر چلتا رہا، مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ کہتے ہیں،''میں نے شاعری کے لیے کاروبار تو برباد کیا، مگر شاعری کو کاروبار نہیں بنایا۔ شروع میں تو سب ٹھیک چلتا رہا، مگر ایک وقت ایسا آیا، جب میں اُس سے بالکل بے خبر ہوگیا۔ اِس غفلت کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ میری بہنیں جالندھر میں رہتی تھیں۔ وہاں اُن کا کاروبار تھا۔ اُنھوں نے مجھ سے متعدد بار کہا کہ لکھنؤ چھوڑ کر جالندھر آجاؤ۔ بالآخر 2010 میں مَیں نے کاروبار سمیٹا، جائیداد فروخت کی، اور جالندھر منتقل ہوگیا۔''
لکھنؤ چھوڑنا سہل نہیں تھا کہ اُس زمین سے جُڑے تھے۔ اور پھر جانے مانے آدمی تھے وہاں۔ ہجرت کے المیے کو کچھ اِس طرح شعر میں سمویا:
ایک ہجرت جسم نے کی ایک ہجرت روح نے
اتنا گہرا زخم آسانی سے بھر جائے گا کیا
لکھنؤ کی یادوں نے جالندھر میں بھی تعاقب جاری رکھا۔ بہ قول اُن کے،''دراصل میں نے لکھنؤ بہت High Note پر چھوڑا۔ میں وہاں Page 3 Celebrity تھا۔ جالندھر میں تو مجھے میرا پڑوسی بھی نہیں جانتا تھا۔ تو گھٹن کا احساس ہوتا تھا، مگر دھیرے دھیرے میں اس شہر سے ہم آہنگ ہوگیا۔ اب لوگ جانتے ہیں۔ ادبی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔''
شاعری سے دوستی کیسے ہوئی؟ اِس کا تذکرہ تو ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آگے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ شوق کی انگلی تھامے وہ لکھنؤ کے معروف شاعر، والی آسی کی بیٹھک میں پہنچ گئے۔ پھر ایک روز ہمت کر کے ایک شعر اُنھیں سنایا:
ہیں پاؤں کسی پیڑ کی مانند زمیں میں
اور خواہشِ پرواز پرندوں کی طرح ہے
کہتے ہیں،''والی صاحب کو شعر پسند آیا۔ جب پتا چلا کہ یہ میرا ہی شعر ہے، اُنھوں نے سوال کیا: 'اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہو؟' میں کہا: 'یہی کوئی ڈیڑھ دو سو!' (قہقہہ) دراصل وہ پبلشر بھی تھے۔ میں نے اِس غرض سے کہ وہ میری کتاب چھاپ دیں گے، اُنھیں غزلیں دِکھائیں۔ ظاہر سی بات ہے، ان میں بحر سے خارج مصرعے بھی تھے، سقم بھی تھے، مگر اُنھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ جب میں نے شاگرد ہونے کی خواہش ظاہر کی، تو کہنے لگے: 'اِس میدان میں قدم رکھنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو۔ یہ سو میٹر کی ریس نہیں، جس کے آخر میں گلے میں تمغہ پہنایا جائے گا۔ زندگی بھر کی میراتھن ہے۔ ضروری نہیں کہ آخر میں تم کام یاب ہی ٹھہرو۔ میں نے کہا: میں سوچ چکا ہوں۔ پھر یہ سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہوا۔''
وقت کے ساتھ فن میں نکھار آتا گیا، دیوناگری میں لکھی غزلوں کو سامعین بھی میسر آگئے۔ سراہا بھی گیا، جس کا نتیجہ 93ء میں پہلے مجموعے ''جانے کب یہ موسم بدلے'' کی صورت سامنے آیا۔ بتاتے ہیں، مجموعے کی رسم اجرا کے موقعے پر اُن کے استاد، والی آسی نے کہا تھا؛ اگر اردو ہی میں شاعری کرنی ہے، تو اردو اسکرپٹ سیکھنا لازم ہے، ورنہ آپ اِس کی روح تک نہیں پہنچ سکتے۔ بات دل کو لگی۔ رسم الخط کی جانب توجہ مبذول کی۔
دوسرا مجموعہ ''گیلی مٹی'' 98ء میں شایع ہوا۔ تھا تو وہ بھی دیوناگری میں، مگر اُس وقت تک اردو اسکرپٹ ہاتھ آگیا تھا۔ 2000 میں جب مجموعہ ''چلو کچھ رنگ ہی بکھرے'' آیا، تو وہ اردو رسم الخط میں تھا۔ 2005 میں یہ کتاب پاکستان سے شایع ہوئی۔
اردو اسکرپٹ اُن کے مطابق سیکھنا یوں دشوار نہیں رہا کہ وہ اِس کے مزاج سے واقف تھے، کان بھی اردو سننے کے عادی تھے، پھر خواہش بھی تھی۔ یوں جلد یہ مرحلہ طے ہوگیا۔ استاد کی بات دُرست ثابت ہوئی۔ رسم الخط سے دوستی ہونے کے بعد اُن کے کلام میں گہرائی ظاہر ہونے لگی۔
چوتھا مجموعہ ''ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے'' 2005 میں آیا۔ ''بے خوابیاں'' اگلا مجموعہ تھا، جس کی رسم اجرا کراچی میں ہوئی۔ ''جہاں تک زندگی ہے'' اور ''بکھرنے سے ذرا پہلے'' کے بعد 2012 میں مجموعے ''لہو کی دھوپ'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ مذکورہ مجموعے اردو اور دیوناگری، دونوں اسکرپٹس میں شایع ہوئے۔ اِس بابت کہتے ہیں،''ہندوستان میں کتابیں دیوناگری اسکرپٹ ہی میں بکتی ہیں۔ اردو میں شایع کرنا تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ آپ پچیس ہزار روپے خرچ کر کے اردو میں کتاب لاتے ہیں، اور پھر وزیٹنگ کارڈ کی طرح بانٹ دیتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔''
خوشبیر سنگھ شاد کے نزدیک عمر کے ساتھ تخلیق کار کے رجحانات اور نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ اوائل عمری میں وہ ساحر کے سحر میں رہے۔ انقلاب کے بعد رومانوی رنگ غالب آیا۔ وقت گزرتا رہا، رنگ بدلتے رہے۔ خود کو وہ مشاعروں کا شاعر نہیں سمجھتے۔ ہندوستان میں ہونے والے بہت کم مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔
ان کے دیس میں اردو کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے کہ وہاں ادارے ہیں، کام ہورہا ہے، اسکولز میں بھی اردو کا مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ مگر ہندوستانیوں کی نئی نسل، اردو سے محبت کرنے کے باوجود، اِس خط کو سیکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ اِس کا سبب وہ اردو کی دن بہ دن کم زور ہوتی معیشت کو قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اردو پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے امکانات گھٹتے جارہے ہیں۔ مزید کہتے ہیں،''مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اردو ختم ہوجائے گی۔ دراصل ہندوستان میں ہندی اور اردو ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ بولی کی سطح پر آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ وہاں کوئی شخص ایسا ایک بھی جملہ نہیں کہہ سکتا، جو خالص ہندی میں ہو، اُس میں اردو نہ ہو، یا پنجابی نہ ہو۔ یعنی بولی جانے والی زبان کی حیثیت سے تو یہ موجود ہے۔'' اِس ضمن میں فلمی گیتوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ ''گو اب زوال آگیا ہے، پہلے جیسے گانے نہیں لکھے جارہے، مگر آج بھی اُن میں اردو شاعری کے اثرات واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔''
یہاں سے رومن اسکرپٹ پر بات چل نکلی۔ وہ خود بھی فیس بک پر متحرک ہیں، اور رومن میں اپنے اشعار پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے بہ قول،''فیس بک کے ذریعے میری اور دیگر تخلیق کاروں کی شاعری قارئین تک پہنچ رہی ہے۔ چند لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے اشعار اردو یا دیوناگری میں پوسٹ کیا کروں، لیکن میں ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے کلام کی رسائی محدود ہوجائے گی۔ مجھے پڑھنے والے زیادہ تر نوجوان ہیں، اور چاہے وہ کسی بھی خط میں لکھتے ہوں، رومن میں وہ شعر سمجھ لیتے ہیں۔ اس زاویے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔'' مگر کیا اِس عمل سے اردو رسم الخط کو نقصان نہیں پہنچ رہا؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''جب آپ اپنی زبان، اپنے خط کی ترویج کے لیے کام نہیں کریں گے، اُسے لوگوں سے جوڑیں گے نہیں، پھر یہ مسئلہ تو پیدا ہوگا۔''
یوں تو خوشبیر سنگھ شاد کی زندگی میں شادمانی کے کئی لمحات آئے، مگر بیٹے کی پیدایش حسین ترین لمحہ تھا۔ دکھوں سے بھی واسطہ پڑا۔ والدہ کے انتقال کے وقت گہرے کرب سے گزرے۔
معتدل موسم سے لطف اندوز ہونے والے خوشبیر پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ من پسند شعرا کی فہرست طویل ہے، البتہ جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ہے غالب۔ فکشن نگاروں میں کرشن چندر اچھے لگے۔ نمایاں ہندوستانی اردو شعرا پر بات ہوئی، تو ندافاضلی اور فرحت احساس کا نام لیا۔ ابھیشیک شکلا جیسے نوجوان شعرا کو بھی سراہا۔ دلیپ کمار اور راج کپور کی فنی صلاحیتوں کے وہ معترف ہیں۔ موجودہ فن کاروں میں نصیرالدین شاہ کو سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''جانے بھی دو یارو'' اچھی لگی۔ محمد رفیع کی آواز دل کو چھو لیتی ہے۔ 82ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹے، ایک بیٹی سے نوازا۔ بیٹا اور بہو سوفٹ ویئر انجینئر ہیں۔ بیٹی نے ماس کمیونیکشن میں ڈگری حاصل کی۔ مستقبل کے منصوبے زیر بحث آئے، تو یوں گویا ہوئے:
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
تصور ہوں کہیں اپنا ٹھکانا چاہتا ہوں
اردو سے ناتا کیسے جڑا، یہ یاد نہیں۔ ہاں، اتنا ضرور یاد ہے کہ کتابیں اپنی جانب کھینچتی تھیں۔ پڑھنے کا شوق تھا۔ ایک روز ''اردو کی بہترین غزلیں'' نامی چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی، جو دیوناگری رسم الخط میں تھی۔ پڑھ کر بہت لطف اندوز ہوئے۔ مزید کتابیں کھوجیں۔ آنے والے برسوں میں اردو کے کئی شعرا کو دیوناگری میں پڑھا۔ نثر کی جانب متوجہ ہوئے۔
جس زمانے میں اُن کے ہم عمر رومانوی کہانیاں پڑھ رہے تھے، وہ کرشن چندر، منٹو اور بیدی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اردو شاعری کا مزاج سمجھ میں آنے لگا، تو شعر کہنے کا شوق چرایا۔ دیوناگری کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ جو ذہن میں آیا، لکھتے چلے گئے۔ پھر ایک استاد میسر آئے، جن کی تحریک نے نہ صرف اظہار کی آرزو کو دہکایا، بلکہ اُس عمر میں جب نئی زبان سیکھنے کی خواہش دم توڑ دیتی ہے، اردو رسم الخط سیکھنے کی جوت جگائی۔
جی ہاں، جب خوشبیر سنگھ شاد کی اردو رسم الخط سے دوستی ہوئی، اُن کی عمر چالیس برس تھی۔ گذشتہ دنوں ایکسپریس کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے جب وہ پاکستان تشریف لائے، تو اُن کی دل چسپ کہانی سُننے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی ہندوستان میں اردو کا مستقبل بھی زیر بحث آیا۔
اردو داں طبقے میں خوشبیر سنگھ شاد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ موجودہ نسل کے غزل گو شعرا میں وہ نمایاں ہے۔ خالص لکھنوی انداز بیاں پایا جاتا ہے اُن کی غزل میں۔ دل کش تشبیہات، قافیہ پیمائی اور خوب صورت استعاروں سے کلام میں سوزو گداز کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ اب تک آٹھ مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ابتدائی دو دیوناگری میں تھے۔ بعد میں اردو اور دیوناگری، دونوں ہی میں کتابیں شایع ہوئیں۔ پاکستان میں اُن کے نام کی گونج 2005 میں سنائی دی، جب کراچی کے ایک مشاعرے میں اُنھوں نے کچھ یوں خیالات کو الفاظ کا ملبوس عطا کیا:
یہ تیرا تاج نہیں ہے ہماری پگڑی ہے
یہ سر کے ساتھ ہی اُترے گی سر کا حصہ ہے
اِس شعر کے بعد خوشبیر کی شہرت کو پرلگ گئے۔ دیگر ممالک سے بلاوے آنے لگے۔ تخلیقات کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جموں یونیورسٹی میں اُن کی شاعری کو ایم فل تھیسس کا موضوع بنایا گیا۔ مہیش بھٹ کی فلم ''دھوکا'' کے لیے انھوں نے ایک گیت بھی لکھا، لیکن اصل میدان غزل ہی رہا۔
حالاتِ زیست کھنگالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بٹوارے کے سات برس بعد، ماہ ستمبر میں سیتاپور، اُترپردیش میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، رویل سنگھ انجینئر تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باعث وہ تبادلوں کی زد میں رہے۔ بعد میں ملازمت ترک کی، اور لکھنؤ میں کنسٹرکشن کا کاروبار شروع کیا۔ اُسی شہر میں خوشبیر سنگھ نے شعور کی آنکھ کھولی۔ پرانا لکھنؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،''آج کے اور اس وقت کے لکھنؤ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ شہر تہذیب کا گہوارہ تھا۔ لوگوں میں اپنائیت تھی، مگر وقت کے ساتھ دیگر شہروں کے مانند لکھنؤ بھی بدل گیا۔ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں گم ہوگئے۔ لکھنؤ چوں کہ اہل زبان کا شہر تھا، اِس لیے تغیرات کا زیادہ نقصان اُسی کو پہنچا۔'' خاندان پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ گردوارے میں تربیت ہوئی، مگر روایتی معنوں میں وہ مذہبی نہیں۔ انسانیت کو مذاہب سے بلند خیال کرتے ہیں۔
والد کے مزاج میں یوں تو شفقت تھی، لیکن جب کبھی خوشبیر شرارتیں کرتے، تو سزا ملتی۔ ماضی کچھ یوں بازیافت کرتے ہیں،''میرا پڑھائی میں بالکل من نہیں لگتا تھا۔ پڑھائی سے بھاگتا تھا۔ اِس وجہ سے بہت ڈانٹ پڑتی۔'' کھیلوں سے کوسوں دُور رہے۔ اِس دوری کا سبب ایک المیے میں پوشیدہ تھا۔ ''یہ بچپن کی بات ہے۔ میں بڑے بھائی کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا۔ گلی نالے میں جاگری۔ جب بھائی اٹھانے گیا، تو وہاں بیٹھے پاگل کتے نے اُسے کاٹ لیا۔ چند روز بعد اُس کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھ پر بہت سی پابندیاں لگ گئیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے، آج تک میں نے نہ تو کبھی کنچے کھیلے، نہ ہی پتنگ اڑائی، اور نہ ہی کبھی پیڑ پر چڑھا۔''
گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر اُن کا معاملہ یہ تھا کہ لیکچرز سنتے ہوئے چکر آنے لگتے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خیر، کسی نہ کسی طرح 74ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹائیں، مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ خوشبیر شاعری کے عشق میں مبتلا تھے۔ کسی نے والد کو مشورہ دیا کہ صاحب زادے کو پرنٹنگ پریس لگا دیں، مصروفیات میں الجھ کر شاعری وغیرہ سب بُھول جائے گا۔ بات اُن کے دل کو لگی۔ ''نونیت پرنٹرز'' کے نام سے پریس لگ گیا۔ کُلی ذمے داری اُنھیں سونپ دی گئی، مگر بدلنے کی شعوری کوشش کے باوجود وہ خود کو نہیں بدل سکے۔ اور تب ایک حادثہ ہوا۔ بتاتے ہیں،''شاید یہ میرا امتحان تھا۔ 78ء میں والد پر فالج کا حملہ ہوا۔ تمام ذمے داریاں مجھ پر آگئیں۔ پھر میں نے بہت محنت کی۔ کاروبار سنبھالا۔ بہنوں کی شادی کی۔''
ایک طویل عرصے تک کاروبار صحیح ڈھب پر چلتا رہا، مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ کہتے ہیں،''میں نے شاعری کے لیے کاروبار تو برباد کیا، مگر شاعری کو کاروبار نہیں بنایا۔ شروع میں تو سب ٹھیک چلتا رہا، مگر ایک وقت ایسا آیا، جب میں اُس سے بالکل بے خبر ہوگیا۔ اِس غفلت کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ میری بہنیں جالندھر میں رہتی تھیں۔ وہاں اُن کا کاروبار تھا۔ اُنھوں نے مجھ سے متعدد بار کہا کہ لکھنؤ چھوڑ کر جالندھر آجاؤ۔ بالآخر 2010 میں مَیں نے کاروبار سمیٹا، جائیداد فروخت کی، اور جالندھر منتقل ہوگیا۔''
لکھنؤ چھوڑنا سہل نہیں تھا کہ اُس زمین سے جُڑے تھے۔ اور پھر جانے مانے آدمی تھے وہاں۔ ہجرت کے المیے کو کچھ اِس طرح شعر میں سمویا:
ایک ہجرت جسم نے کی ایک ہجرت روح نے
اتنا گہرا زخم آسانی سے بھر جائے گا کیا
لکھنؤ کی یادوں نے جالندھر میں بھی تعاقب جاری رکھا۔ بہ قول اُن کے،''دراصل میں نے لکھنؤ بہت High Note پر چھوڑا۔ میں وہاں Page 3 Celebrity تھا۔ جالندھر میں تو مجھے میرا پڑوسی بھی نہیں جانتا تھا۔ تو گھٹن کا احساس ہوتا تھا، مگر دھیرے دھیرے میں اس شہر سے ہم آہنگ ہوگیا۔ اب لوگ جانتے ہیں۔ ادبی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔''
شاعری سے دوستی کیسے ہوئی؟ اِس کا تذکرہ تو ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آگے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ شوق کی انگلی تھامے وہ لکھنؤ کے معروف شاعر، والی آسی کی بیٹھک میں پہنچ گئے۔ پھر ایک روز ہمت کر کے ایک شعر اُنھیں سنایا:
ہیں پاؤں کسی پیڑ کی مانند زمیں میں
اور خواہشِ پرواز پرندوں کی طرح ہے
کہتے ہیں،''والی صاحب کو شعر پسند آیا۔ جب پتا چلا کہ یہ میرا ہی شعر ہے، اُنھوں نے سوال کیا: 'اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہو؟' میں کہا: 'یہی کوئی ڈیڑھ دو سو!' (قہقہہ) دراصل وہ پبلشر بھی تھے۔ میں نے اِس غرض سے کہ وہ میری کتاب چھاپ دیں گے، اُنھیں غزلیں دِکھائیں۔ ظاہر سی بات ہے، ان میں بحر سے خارج مصرعے بھی تھے، سقم بھی تھے، مگر اُنھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ جب میں نے شاگرد ہونے کی خواہش ظاہر کی، تو کہنے لگے: 'اِس میدان میں قدم رکھنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو۔ یہ سو میٹر کی ریس نہیں، جس کے آخر میں گلے میں تمغہ پہنایا جائے گا۔ زندگی بھر کی میراتھن ہے۔ ضروری نہیں کہ آخر میں تم کام یاب ہی ٹھہرو۔ میں نے کہا: میں سوچ چکا ہوں۔ پھر یہ سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہوا۔''
وقت کے ساتھ فن میں نکھار آتا گیا، دیوناگری میں لکھی غزلوں کو سامعین بھی میسر آگئے۔ سراہا بھی گیا، جس کا نتیجہ 93ء میں پہلے مجموعے ''جانے کب یہ موسم بدلے'' کی صورت سامنے آیا۔ بتاتے ہیں، مجموعے کی رسم اجرا کے موقعے پر اُن کے استاد، والی آسی نے کہا تھا؛ اگر اردو ہی میں شاعری کرنی ہے، تو اردو اسکرپٹ سیکھنا لازم ہے، ورنہ آپ اِس کی روح تک نہیں پہنچ سکتے۔ بات دل کو لگی۔ رسم الخط کی جانب توجہ مبذول کی۔
دوسرا مجموعہ ''گیلی مٹی'' 98ء میں شایع ہوا۔ تھا تو وہ بھی دیوناگری میں، مگر اُس وقت تک اردو اسکرپٹ ہاتھ آگیا تھا۔ 2000 میں جب مجموعہ ''چلو کچھ رنگ ہی بکھرے'' آیا، تو وہ اردو رسم الخط میں تھا۔ 2005 میں یہ کتاب پاکستان سے شایع ہوئی۔
اردو اسکرپٹ اُن کے مطابق سیکھنا یوں دشوار نہیں رہا کہ وہ اِس کے مزاج سے واقف تھے، کان بھی اردو سننے کے عادی تھے، پھر خواہش بھی تھی۔ یوں جلد یہ مرحلہ طے ہوگیا۔ استاد کی بات دُرست ثابت ہوئی۔ رسم الخط سے دوستی ہونے کے بعد اُن کے کلام میں گہرائی ظاہر ہونے لگی۔
چوتھا مجموعہ ''ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے'' 2005 میں آیا۔ ''بے خوابیاں'' اگلا مجموعہ تھا، جس کی رسم اجرا کراچی میں ہوئی۔ ''جہاں تک زندگی ہے'' اور ''بکھرنے سے ذرا پہلے'' کے بعد 2012 میں مجموعے ''لہو کی دھوپ'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ مذکورہ مجموعے اردو اور دیوناگری، دونوں اسکرپٹس میں شایع ہوئے۔ اِس بابت کہتے ہیں،''ہندوستان میں کتابیں دیوناگری اسکرپٹ ہی میں بکتی ہیں۔ اردو میں شایع کرنا تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ آپ پچیس ہزار روپے خرچ کر کے اردو میں کتاب لاتے ہیں، اور پھر وزیٹنگ کارڈ کی طرح بانٹ دیتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔''
خوشبیر سنگھ شاد کے نزدیک عمر کے ساتھ تخلیق کار کے رجحانات اور نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ اوائل عمری میں وہ ساحر کے سحر میں رہے۔ انقلاب کے بعد رومانوی رنگ غالب آیا۔ وقت گزرتا رہا، رنگ بدلتے رہے۔ خود کو وہ مشاعروں کا شاعر نہیں سمجھتے۔ ہندوستان میں ہونے والے بہت کم مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔
ان کے دیس میں اردو کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے کہ وہاں ادارے ہیں، کام ہورہا ہے، اسکولز میں بھی اردو کا مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ مگر ہندوستانیوں کی نئی نسل، اردو سے محبت کرنے کے باوجود، اِس خط کو سیکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ اِس کا سبب وہ اردو کی دن بہ دن کم زور ہوتی معیشت کو قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اردو پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے امکانات گھٹتے جارہے ہیں۔ مزید کہتے ہیں،''مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اردو ختم ہوجائے گی۔ دراصل ہندوستان میں ہندی اور اردو ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ بولی کی سطح پر آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ وہاں کوئی شخص ایسا ایک بھی جملہ نہیں کہہ سکتا، جو خالص ہندی میں ہو، اُس میں اردو نہ ہو، یا پنجابی نہ ہو۔ یعنی بولی جانے والی زبان کی حیثیت سے تو یہ موجود ہے۔'' اِس ضمن میں فلمی گیتوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ ''گو اب زوال آگیا ہے، پہلے جیسے گانے نہیں لکھے جارہے، مگر آج بھی اُن میں اردو شاعری کے اثرات واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔''
یہاں سے رومن اسکرپٹ پر بات چل نکلی۔ وہ خود بھی فیس بک پر متحرک ہیں، اور رومن میں اپنے اشعار پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے بہ قول،''فیس بک کے ذریعے میری اور دیگر تخلیق کاروں کی شاعری قارئین تک پہنچ رہی ہے۔ چند لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے اشعار اردو یا دیوناگری میں پوسٹ کیا کروں، لیکن میں ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے کلام کی رسائی محدود ہوجائے گی۔ مجھے پڑھنے والے زیادہ تر نوجوان ہیں، اور چاہے وہ کسی بھی خط میں لکھتے ہوں، رومن میں وہ شعر سمجھ لیتے ہیں۔ اس زاویے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔'' مگر کیا اِس عمل سے اردو رسم الخط کو نقصان نہیں پہنچ رہا؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''جب آپ اپنی زبان، اپنے خط کی ترویج کے لیے کام نہیں کریں گے، اُسے لوگوں سے جوڑیں گے نہیں، پھر یہ مسئلہ تو پیدا ہوگا۔''
یوں تو خوشبیر سنگھ شاد کی زندگی میں شادمانی کے کئی لمحات آئے، مگر بیٹے کی پیدایش حسین ترین لمحہ تھا۔ دکھوں سے بھی واسطہ پڑا۔ والدہ کے انتقال کے وقت گہرے کرب سے گزرے۔
معتدل موسم سے لطف اندوز ہونے والے خوشبیر پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ من پسند شعرا کی فہرست طویل ہے، البتہ جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ہے غالب۔ فکشن نگاروں میں کرشن چندر اچھے لگے۔ نمایاں ہندوستانی اردو شعرا پر بات ہوئی، تو ندافاضلی اور فرحت احساس کا نام لیا۔ ابھیشیک شکلا جیسے نوجوان شعرا کو بھی سراہا۔ دلیپ کمار اور راج کپور کی فنی صلاحیتوں کے وہ معترف ہیں۔ موجودہ فن کاروں میں نصیرالدین شاہ کو سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''جانے بھی دو یارو'' اچھی لگی۔ محمد رفیع کی آواز دل کو چھو لیتی ہے۔ 82ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹے، ایک بیٹی سے نوازا۔ بیٹا اور بہو سوفٹ ویئر انجینئر ہیں۔ بیٹی نے ماس کمیونیکشن میں ڈگری حاصل کی۔ مستقبل کے منصوبے زیر بحث آئے، تو یوں گویا ہوئے:
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
تصور ہوں کہیں اپنا ٹھکانا چاہتا ہوں