جیت کا لطف لیجیے

کھیلوں کے میدان آباد کرنے کےلیے کی گئی سرمایہ کاری اب یقینی طور پر منافع کی صورت میں واپس آنے لگی ہے

پاکستان کے گراؤنڈز میں سبز ہلالی پرچم دوبارہ سے لہرانا شروع ہوگیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سری لنکا کی ٹیم کو نشانہ بنائے جانے کے بعد پاکستان کو صرف ایک کرکٹ کے میدان میں تنہائی برداشت نہیں کرنا پڑی، بلکہ تمام کھیلوں کے میدان پاکستان میں ویران ہونا شروع ہوگئے۔ غیر ملکی ٹیمیں اور کھلاڑی پاکستان آنے سے ہچکچانے لگے۔

ہم نے ورلڈ الیون کو بلایا، پی ایس ایل کو جزوی طور پر پاکستان لائے۔ کمزور ٹیموں کو اپنے ہاں بلایا اور انہیں فول پروف سیکیورٹی دی۔ بڑی ٹیموں کو اس دوران قائل کرتے رہے لیکن مالی طور پر مضبوط ممالک، بورڈز اور کھیلوں کے ادارے ٹیمیں پاکستان بھیجنے سے کتراتے رہے۔ اس دوران کمزور ٹیموں نے ہمارا کسی نہ کسی حد تک ساتھ دیا۔ اس دوران پی ایس ایل جیسا مضبوط ایونٹ پاکستان میں جزوی طور پر آگیا اور اب مکمل طور پر اس سال پاکستان میں منعقد ہونے جارہا ہے۔

اس حوالے سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم کمزور ٹیموں کو بھی سربراہ مملکت کے برابر نہ صرف سہولیات دیتے رہے بلکہ مالی لحاظ سے بھی ہم نے ان ٹیموں کو نوازا اور اس پر تنقید بھی ہوتی رہی کہ اگر ہم نے ایسی کمزور ٹیموں پر کروڑوں خرچ کرنے ہیں، اسی طرح سیکیورٹی حصار میں ہی میچ کھیلنے ہیں اور کھیلوں سے متعلق دیگر مقابلے منعقد کروانے ہیں تو پھر کیا فائدہ؟ دنیا تو ہم پر مزید ہنسے گی کہ ہم تو کھیلوں کے مقابلے بغیر اتنی زیادہ سیکیورٹی کے نہیں منعقد کروا سکتے تو پھر ملک کو دیگر حوالوں سے کیسے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ دیگر اکثر لوگوں کی طرح راقم الحروف بھی ان دلائل سے کسی حد تک اتفاق کرتا تھا کہ پہلے سے معاشی بدحالی کا شکار ملک اگر اتنا خرچہ ایسے کھیلوں کے مقابلے پر کرے گا تو معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنا کیسے ممکن ہوسکے گا؟

لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے کے عادی ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم اس ایک رخ کو ہی کل کائنات سمجھتے ہوئے اپنی رائے قائم کرنا شروع ہوجاتے ہیں، اور اس رائے کی بنیاد پر تنقید و توصیف کے معیارات طے کرلیتے ہیں۔ فرض کیجیے ہم نے 2009 میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد کوششیں جاری نہ رکھی ہوتیں، ہم کمزور ٹیموں کو، بے شک لالچ سے ہی، لیکن پاکستان آنے کےلیے نہ راضی کرتے، انہیں سربراۂ مملکت کے برابر کا تحفظ نہ آفر کرتے۔ انہیں پنج ستارہ ہوٹل سے کھیل کے میدان تک ہاتھوں کا چھالا نہ بنائے رکھتے، تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ 2009 سے 2019 کی دہائی یقینی طور پر پاکستان میں کھیلوں کے میدان کےلیے مشکل رہی۔ لیکن ایک لمحہ سوچیے ایک عام سے کاروبار میں سرمایہ کاری بھی تو اتنے ہی وقت میں پھل دیتی ہے۔ تو پھر اس ایک دہائی کی سرمایہ کاری اب پھل دینا شروع ہوگئی ہے۔

2015 کے بعد کی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا ہے۔ بے شک زمبابوے کمزور ٹیم تھی، سری لنکا نے اولین درجے کے کھلاڑی نہیں بھیجے، ویسٹ انڈیز کے اہم کھلاڑی نہیں آئے، لیکن اس کے باوجود کوشش جاری رہی۔ ورلڈ الیون کے آنے اور بعد ازاں پی ایس ایل کے کچھ میچز کا انعقاد تیز دھوپ میں بارش کی پہلی بوند ثابت ہوئے۔ آج بنگہ دیش کی مضبوط ٹیم دورہ کررہی ہے۔ اور پی ایس ایل کے تمام میچز پاکستان میں ہونے جارہے ہیں۔


2009 کے بعد ہم نے بہت کچھ کھویا، لیکن اس عرصے کے دوران کھیلوں کے میدان آباد کرنے کےلیے کی گئی سرمایہ کاری اب یقینی طور پر منافع کی صورت میں واپس آنے لگی ہے۔ اور بنگہ دیش کرکٹ ٹیم کا حالیہ دورہ یقینی طور پر آنے والے دنوں میں پاکستان میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے حوالے سے بھی اہم ثابت ہوگا۔

سفر یقینی طور پر بہت مشکل تھا۔ اس حوالے سے جتنے بھی کرکٹ بورڈ سربراہان آئے انہوں نے کام کیا۔ خاص طور پر نجم سیٹھی کا ذکر نہ کرنا اس لیے زیادتی ہوگی کہ انہوں نے پی ایس ایل کو ایک برانڈ بنانے میں بہرحال اہم کردار ادا کیا۔ ہم نے اس دوران سیکیورٹی اور مالی پیشکشوں کے حوالے سے اگر کچھ خرچ کیا تو پاکستان سے بڑھ کر تو نہیں تھا۔ ہم نے اگر لٹے پٹے قافلے کو دوبارہ سے آباد کرنے کی کوشش کی تو اس میں برائی تو نہیں۔ ہم نے پاکستان پر سرمایہ کاری کی تو اب یہ اچھا منافع دینے لگی ہے۔ تو پھر ہم چاہے کمزور ٹیموں کو سربراۂ مملکت کے برابر تحفظ دیں یا بے پناہ پیسہ خرچ کریں، امن تو بہرحال ہونے لگا ہے۔

برطانیہ، امریکا کی بہتر سفری ہدایات اپنے شہریوں کو، پی ایس ایل کی مکمل پاکستان میں بازگشت، بنگہ دیش کا دورۂ پاکستان یہ سب ایک اچھے مستقبل کی نوید نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم ملک میں جب نہیں کھیل پائے تو کیا ہم نے اپنا مقام کھو دیا؟ بالکل نہیں۔ بری کارکردگی بھی ہوئی ہم سے، لیکن ہم چیمپئینز ٹرافی جیتے، ہم نے صف اول کی ٹیموں کو دھول چٹائی، آسڑیلیا تک کو ناکوں چنے چبوائے۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی جو اپنی دھرتی پر کھیلنے کو ترستے رہے، وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیتے رہے۔ یہ تو ہمت ہے، جس کی داد بنتی ہے۔ اور اب جب بنگہ دیش کے دورے کا آغاز ہوچکا ہے (اس بات سے قطع نظر کہ یہ مکمل دورہ ہو یا ٹکڑوں میں بٹا ہوا) جنوبی افریقہ کے مارچ 2020 میں پاکستان آنے کی خوشخبری بھی سامنے آرہی ہے اور پی ایس ایل کی دھن دھنا دھن بھی پاکستان آگئی ہے۔ تو ہم نے اب تک جتنا خرچ کیا ہے اس کا منافع لینے کا وقت آگیا ہے۔ ہم نے منافع یہ کمایا کہ ہم نے دنیا کو دکھادیا کہ ہم مشکل حالات سے نکلنے کا فن جانتے ہیں۔ ہم نے منافع یہ کمایا کہ جب دنیا سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد سوچ بیٹھی تھی اب پاکستان کبھی اپنے کھیلوں کے میدان آباد نہیں کرسکتا تو ہم نے اپنا کرکٹ برانڈ متعارف کروا دیا۔ ہم نے آج منافع یہ کمایا ہے کہ مختلف عالمی کھلاڑی پی ایس ایل میں پاکستان آنے کی حامی بھر چکے ہیں۔ ان میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جو ماضی قریب میں پاکستان آنے سے انکار کرچکے تھے۔

بے شک ہم نے بے پناہ پیسہ خرچ کیا اور کمزور ٹیموں کو پیسے کا لالچ بھی دینا پڑا۔ ان کے تحفظ پر بھی ہمیں کروڑوں خرچ کرنے پڑے لیکن اس کا دوسرا رخ دیکھیے کہ دہشت گردی سے سہمے ہوئے پاکستانیوں کے دل کس بہادری سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب جزوی طور پر پی ایس ایل آئی تو خدشات، خوف، دہشت کے سائے میں لوگوں کا ہجوم امڈ آیا۔ یہ ان سہمے دلوں کی بہادری کی داستان ہے جو وطن کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ ان سہمے دلوں نے پاکستان کے کھیلوں کے میدان آباد کرنے کی جب ٹھان لی تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سود و زیاں کے حوالوں کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر ان سہمے دلوں نے بہادری کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ آج آنے والی نسل کو کھیلوں کے آباد میدان دوبارہ سے ملے۔ دوبارہ سے پاکستان کے گراؤنڈز میں سبز ہلالی پرچم لہرانا شروع ہوگیا ہے۔ دوبارہ سے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی پکار بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔

قدم لڑکھڑائے تھے، لیکن سنبھل گئے۔ سفر میں راستہ دشوار ہوگیا تھا لیکن سفر رکا نہیں۔ اور مشکل راستوں کے بعد آسان پگڈنڈی کا تو لطف ہی دوبالا ہوجاتا ہے۔ قومیں جب بہادری کی داستان رقم کرتی ہیں تو سرمایہ کاری کتنی ہوئی پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ لہٰذا سب بھول کر پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت کا لطف لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story