کم بخت نے رلادیا
گوگل انڈیا نے ایک اشتہاری فلم بنائی ، جسے دوستوں نے فیس بک کے ذریعے شیئرکیا ہے۔
گوگل انڈیا نے ایک اشتہاری فلم بنائی ، جسے دوستوں نے فیس بک کے ذریعے شیئرکیا ہے۔یہ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرتوں میں بچھڑجانے والے دو دوستوں یوسف اور بلدیو کی کہانی ہے ، جنھیں گوگل نے66برس بعد ڈھونڈ نکالنے اور ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کیا۔ یوسف تو لاہور ہی میں رہ گیا، مگربلدیو کا گھرانہ فسادات کے نتیجے میں دہلی منتقل ہوگیا۔یوں دونوں ایک دوسرے سے اچانک بچھڑ گئے۔کئی دہائیاں گذرنے کے باوجود دلوں میں ایک دوسرے کی یاد تو تازہ تھی، مگر ملنے کی کوئی امید باقی نہیں تھی۔لیکن گوگل جو دنیا بھر کی معلومات چٹکیوں میں آپ کی دہلیز تک پہنچاتی ہے، ان کی ناامیدی کو امید بلکہ حقیقت میں بدل دیا۔گوگل پر سرچ کے ذریعے دونوں خاندانوں کی نہ صرف ایک دوسرے تک رسائی ہوئی، بلکہ ایک دن یوسف بلدیو سے ملنے دلی بھی پہنچ جاتا ہے۔ یوں یوسف اور بلدیو کا ملاپ ہوتا ہے، جو ایک انتہائی جذباتی منظر ہے۔جاندار اسکرپٹ اور خوبصورت فلمبندی نے اس اشتہارکو انتہائی پراثر فلم بنادیا ہے، جس نے حساس قلب وذہن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو رلادیا۔
ایسے بیشمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں ،جو زبانی تاریخ(Oral Hisotry)کا حصہ ہیں اور جنھیں جمع کرکے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔اسی قسم کا ایک واقعہ گورنمنٹ اسکول جیکب لائنز کراچی میںایک استاد محمد نذیر نے سنایا، جو چند برس پہلے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔خاندان کے کئی لوگ فسادات کی نذر ہوگئے۔ لٹا پٹا یہ خاندان جب ہجرت کررہا تھا تو نذیر کی 19سالہ پھوپھی ان سے بچھڑ گئی۔ شکر کہ وہ بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے ایک شریف النفس سکھ فوجی کپتان کو ملی، جس نے اسے اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر اس کے خاندان والوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی،مگر چونکہ یہ خاندان پاکستان منتقل ہوگیاتھا،اس لیے کئی ماہ کی کوشش کے باوجود وہ اپنے خاندان والوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس سکھ فوجی افسر کی ماں نے جو ایک نیک دل خاتون تھیں، اس لڑکی سے کہا کہ اگر تو اس طرح لاوارث انداز میں باہر نکلی تویہ دنیا تجھے نگل جائے گی۔اس لیے بہتریہی ہے کہ تو میرے بیٹے سے شادی کرلے۔ بیس پچیس برس بعدجب نذیر کے بڑے بھائی کا بیٹا انگلینڈ اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا تو اس کی دوستی ایک سکھ لڑکے سے ہوئی۔ گورداسپورسے تعلق نے دونوں کی دوستی کو مزید مضبوط بنادیا۔دونوںدوستوں نے اپنے اپنے گھروالوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بتایا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ سکھ لڑکا ایک ریٹارڈ بریگیڈئیر کا ہی بیٹا نہیں،بلکہ نذیر کی گمشدہ پھوپھی کا بھی بیٹاہے، یوں 1980ء کے عشرے میں ان دونوں خاندانوں کا ملاپ ہوا۔
معروف شاعر احمد راہی کاوہ جملہ آج بھی دل پر نشتر کی طرح چلتا ہے کہ'' لاہور سے امرتسرصرف27میل کی مسافت پر ہے، مگر میں نے یہ فاصلہ 27برس میں طے کیا ۔'' میری بیگم کے خالو سراج الدین آگرہ میں پیدا ہوئے 17برس کی عمر میں پاکستان آئے اور پھر کبھی اس دیار میں نہ جاسکے جہاں ابھرتی جوانی کے دن گذارے تھے۔دوبرس قبل 82برس کی عمر میں آگرہ دیکھنے کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے چلے گئے۔بارہا یہ واقعہ رقم کیا ہے کہ دہلی کے ایک بوڑھے سکھ ٹیکسی ڈرائیور سے جب میں نے ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں جامعہ ملیہ جانے کاکہا، تو اس نے فوراً پوچھا کہ ''تسی پاکستانوں آئے ہو۔'' میرے اثبات میں جواب دینے پراس نے بتایا کہ اس کا تعلق ساہیوال سے ہے اور جب بٹوارا ہوا تو وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اسے اپنے اسکول کے دوستوں کے نام اور شکلیں یاد ہیں ۔پھر خود ہی بڑبڑایا کہ نہ جانے وہ کس حال میں اور کہاں ہوں گے۔ اچانک میری طرف مڑا اور پوچھا کہ میں نے کبھی ساہیوال دیکھا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کا سسرال ساہیوال کا ہے ،تو گویا وہ اچھل پڑا ۔ پنجابی میں اس نے جو کچھ کہا ،اس کا مطلب تھا کہ تم تو اپنے رشتے دار نکل آئے۔تمہاری بیٹی میری بہو ہے،اس لیے بہوکے باپ سے میں کرایہ نہیں لوں گا۔میرے اصرار پر اس نے بادل ناخواستہ کرایہ تو لے لیا مگر مجھ سے ملتجانہ اندازمیں کہا کہ میں اس کے ساتھ چائے پی لوں۔ میں اس کے جذبات کے تلاطم کو محسوس کررہاتھا،اس لیے انکار نہ کرسکا اور اس کے ساتھ ایک چائے خانے میں بیٹھ گیا۔
تقسیم ہند ایک حقیقت ہے۔یہ تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ممالک تاریخی حقیقت ہیں۔مگراس دوران ہونے والی ہجرتیںبھی تاریخ کا جبر ہیں۔بیشمار گھرانے ایسے ہیں جو اس جبر کے نتیجے میں تقسیم ہوئے۔بہت سے خاندان نا چاہتے ہوئے اپنے اجدادکی دھرتی چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذرجانے کے باعث سرحدکے دونوں جانب گوکہ ایسے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں، جنہوں نے ہجرتوں کے دکھ کو سہا،نا چاہتے ہوئے اپنی جنم بھومی چھوڑی اورآگ و خون کے سیلابِ رواں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر ان کی اولاد میں اپنے اجدادکی دھرتی دیکھنے کا جوش و ولولہ پایا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے بزرگوں سے ان کے آبائی وطن کی جوداستانیں سنی ہیں،وہ ان کے قلب وذہن پہ نقش ہوچکی ہیں۔جو باقی بچے ہیںان کی آنکھوں میںآج بھی ان گھروں،گلیوںاور محلوں کو دیکھنے کے خواب سجے ہیں، جہاں انھوں نے آنکھ کھولی، بچپن اور لڑکپن کے دن گذارے۔وہ اسی تمنا میں دن بتارہے کہ کسی دن انھیں یہ خوش خبری ملے کہ دونوں حکومتوں نے سینئر شہریوں کوایک دوسرے کے ملک میں جانے کی کھلی اجازت دیدی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب ایسے بیشمار نوجوان بھی ملیں گے، جنہوں نے اجدادکاآبائی وطن کبھی نہیں دیکھااور نہ اس سے کوئی جذباتی لگائو ہے، مگر انھیں جستجو ہے کہ کسی طرح وہ اپنے ماضی کے نقوش تلاش کرسکیں۔
اہل دانش کا کہنا ہے کہ لکیر کو لکیر ہی رہنے دیا جائے ، دیوار نہ بننے دیا جائے۔کیونکہ لکیر کو پھلانگ کر دوسری طرف جانا آسان ہوتا ہے، جب کہ دیوارپھلانگنامشکل ہوتا ہے۔ برصغیر میں بھی ایک لکیر کھنچی ،جو لاکھوں لوگوں کے خون سے کھنچی تھی۔اس سے کئی گنا زیادہ لوگوں نے آگ وخون سے کھنچی اس لکیر کو عبور کرکے ہجرتوں کا زخم بھی سہا تھا۔ یہ زخم وقت گذرنے کے ساتھ مندمل ہوجاتے۔اگر دونوں ملکوں کے درمیان کھنچی لکیر کودیوار نہ بننے دیا جاتا۔ لوگوں کو اپنی جنم بھومیوں اوراپنے اجداد کے آبائی وطن تک آنے جانے کی آزادی ہوتی۔مگر حکومتوں کے درمیان تنازعات کے اثرات عوام تک پہنچتے ہیں۔تاریخ نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان چنی دیوار کی ستم ظریفیاں دیکھی ہیں۔جنوبی اور شمالی کوریاکے درمیان آج بھی خاردار جنگلوں نے ہزاروں گھرانوں کوایک دوسرے سے غیر فطری طور پر جدا رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی ذی ہوش ایسا ہوگا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ مگرعوام کے جذبات واحساسات کوان تنازعات کی بنیاد پر کس طرح قربان کیا جاسکتا ہے،یہ سوچنے والی بات ہے۔
جدید دنیا میںعلاقائی سطح پر تجارتی سرگرمیوںکے ذریعے قومی معیشت کو بہتر بنانے کارجحان پروان چڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کے عوام کے ساتھ روابط میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہورہی ہیں۔لہٰذا تنازعات کو جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے دبائو میں اضافہ ہورہاہے۔یہی سبب ہے کہ سو برس تک ایک دوسرے سے دست وگریباں رہنے اور دو عالمی جنگوں سے گذرنے والے یورپ کو بہت کچھ گنوانے کے بعدجب یہ احساس ہواکہ جنگیں مسائل کا حل نہیںہوتیں، تو اس نے یورپی یونین کی شکل میں ایک ایسانظام تشکیل دیا جس میں عوام اور تاجروںکے روابط کے لیے سہولیات کو اولیت حاصل ہوگئی۔ تائیوان تاریخی طورپرچین کاحصہ رہاہے۔ 65برس قبل جبراً اسے چین سے کاٹ دیا گیا۔آج بھی تائیوان کو چین میں شامل ہونے نہیں دیا جارہا۔لیکن اپنے دعوے سے دست بردارنہ ہونے کے باوجود چین نے تائیوان کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔یہی معاملہ بھارت کے ساتھ ہے۔1962ء میں تبت اور سکم کے سرحد ی تنازع پر جنگ ہوئی۔ کئی دہائیوں تک تعلقات کشیدہ رہے۔ مگر آج چین اور بھارت میںسرحدی اختلافات کے باوجود تجارتی حجم روز افزوں ہے۔
برصغیر کامعاملہ مختلف ہے، یہاںتاریخ کے صفحات میں صدیوںکا تعلق مقید ہے۔ ایک دوسرے کے ملک میں ہر دین دھرم کے مقدس اور تاریخی مقامات ہیں۔ منقسم خاندان ہیں، بزرگوں کی قبریں ،ان کی یادگاریں ہیں۔اس لیے کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت دیگر تنازعات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ، مگر خطے کی معاشی ترقی اور استحکام کے علاوہ عوام کے عوام سے رابطہ اور ان کے اپنے اجداد کے وطن کو دیکھنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ویزا اوردیگرسفری سہولیات کی فراہمی دونوں حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عوام کے عوام سے روابط اور تجارت کا بڑھتا ہوا حجم تنازعات کے دیرپا اور مستقل حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آئیے ہم سب مل کراس دھرتی کے ہر یوسف کو اس کے لڑکپن کے دوست بلدیو سے ملنے کی راہ ہموارکریں اور قیام امن کے لیے اپنا حصہ ڈالیں ۔
ایسے بیشمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں ،جو زبانی تاریخ(Oral Hisotry)کا حصہ ہیں اور جنھیں جمع کرکے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔اسی قسم کا ایک واقعہ گورنمنٹ اسکول جیکب لائنز کراچی میںایک استاد محمد نذیر نے سنایا، جو چند برس پہلے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔خاندان کے کئی لوگ فسادات کی نذر ہوگئے۔ لٹا پٹا یہ خاندان جب ہجرت کررہا تھا تو نذیر کی 19سالہ پھوپھی ان سے بچھڑ گئی۔ شکر کہ وہ بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے ایک شریف النفس سکھ فوجی کپتان کو ملی، جس نے اسے اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر اس کے خاندان والوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی،مگر چونکہ یہ خاندان پاکستان منتقل ہوگیاتھا،اس لیے کئی ماہ کی کوشش کے باوجود وہ اپنے خاندان والوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس سکھ فوجی افسر کی ماں نے جو ایک نیک دل خاتون تھیں، اس لڑکی سے کہا کہ اگر تو اس طرح لاوارث انداز میں باہر نکلی تویہ دنیا تجھے نگل جائے گی۔اس لیے بہتریہی ہے کہ تو میرے بیٹے سے شادی کرلے۔ بیس پچیس برس بعدجب نذیر کے بڑے بھائی کا بیٹا انگلینڈ اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا تو اس کی دوستی ایک سکھ لڑکے سے ہوئی۔ گورداسپورسے تعلق نے دونوں کی دوستی کو مزید مضبوط بنادیا۔دونوںدوستوں نے اپنے اپنے گھروالوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بتایا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ سکھ لڑکا ایک ریٹارڈ بریگیڈئیر کا ہی بیٹا نہیں،بلکہ نذیر کی گمشدہ پھوپھی کا بھی بیٹاہے، یوں 1980ء کے عشرے میں ان دونوں خاندانوں کا ملاپ ہوا۔
معروف شاعر احمد راہی کاوہ جملہ آج بھی دل پر نشتر کی طرح چلتا ہے کہ'' لاہور سے امرتسرصرف27میل کی مسافت پر ہے، مگر میں نے یہ فاصلہ 27برس میں طے کیا ۔'' میری بیگم کے خالو سراج الدین آگرہ میں پیدا ہوئے 17برس کی عمر میں پاکستان آئے اور پھر کبھی اس دیار میں نہ جاسکے جہاں ابھرتی جوانی کے دن گذارے تھے۔دوبرس قبل 82برس کی عمر میں آگرہ دیکھنے کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے چلے گئے۔بارہا یہ واقعہ رقم کیا ہے کہ دہلی کے ایک بوڑھے سکھ ٹیکسی ڈرائیور سے جب میں نے ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں جامعہ ملیہ جانے کاکہا، تو اس نے فوراً پوچھا کہ ''تسی پاکستانوں آئے ہو۔'' میرے اثبات میں جواب دینے پراس نے بتایا کہ اس کا تعلق ساہیوال سے ہے اور جب بٹوارا ہوا تو وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اسے اپنے اسکول کے دوستوں کے نام اور شکلیں یاد ہیں ۔پھر خود ہی بڑبڑایا کہ نہ جانے وہ کس حال میں اور کہاں ہوں گے۔ اچانک میری طرف مڑا اور پوچھا کہ میں نے کبھی ساہیوال دیکھا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کا سسرال ساہیوال کا ہے ،تو گویا وہ اچھل پڑا ۔ پنجابی میں اس نے جو کچھ کہا ،اس کا مطلب تھا کہ تم تو اپنے رشتے دار نکل آئے۔تمہاری بیٹی میری بہو ہے،اس لیے بہوکے باپ سے میں کرایہ نہیں لوں گا۔میرے اصرار پر اس نے بادل ناخواستہ کرایہ تو لے لیا مگر مجھ سے ملتجانہ اندازمیں کہا کہ میں اس کے ساتھ چائے پی لوں۔ میں اس کے جذبات کے تلاطم کو محسوس کررہاتھا،اس لیے انکار نہ کرسکا اور اس کے ساتھ ایک چائے خانے میں بیٹھ گیا۔
تقسیم ہند ایک حقیقت ہے۔یہ تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ممالک تاریخی حقیقت ہیں۔مگراس دوران ہونے والی ہجرتیںبھی تاریخ کا جبر ہیں۔بیشمار گھرانے ایسے ہیں جو اس جبر کے نتیجے میں تقسیم ہوئے۔بہت سے خاندان نا چاہتے ہوئے اپنے اجدادکی دھرتی چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذرجانے کے باعث سرحدکے دونوں جانب گوکہ ایسے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں، جنہوں نے ہجرتوں کے دکھ کو سہا،نا چاہتے ہوئے اپنی جنم بھومی چھوڑی اورآگ و خون کے سیلابِ رواں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر ان کی اولاد میں اپنے اجدادکی دھرتی دیکھنے کا جوش و ولولہ پایا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے بزرگوں سے ان کے آبائی وطن کی جوداستانیں سنی ہیں،وہ ان کے قلب وذہن پہ نقش ہوچکی ہیں۔جو باقی بچے ہیںان کی آنکھوں میںآج بھی ان گھروں،گلیوںاور محلوں کو دیکھنے کے خواب سجے ہیں، جہاں انھوں نے آنکھ کھولی، بچپن اور لڑکپن کے دن گذارے۔وہ اسی تمنا میں دن بتارہے کہ کسی دن انھیں یہ خوش خبری ملے کہ دونوں حکومتوں نے سینئر شہریوں کوایک دوسرے کے ملک میں جانے کی کھلی اجازت دیدی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب ایسے بیشمار نوجوان بھی ملیں گے، جنہوں نے اجدادکاآبائی وطن کبھی نہیں دیکھااور نہ اس سے کوئی جذباتی لگائو ہے، مگر انھیں جستجو ہے کہ کسی طرح وہ اپنے ماضی کے نقوش تلاش کرسکیں۔
اہل دانش کا کہنا ہے کہ لکیر کو لکیر ہی رہنے دیا جائے ، دیوار نہ بننے دیا جائے۔کیونکہ لکیر کو پھلانگ کر دوسری طرف جانا آسان ہوتا ہے، جب کہ دیوارپھلانگنامشکل ہوتا ہے۔ برصغیر میں بھی ایک لکیر کھنچی ،جو لاکھوں لوگوں کے خون سے کھنچی تھی۔اس سے کئی گنا زیادہ لوگوں نے آگ وخون سے کھنچی اس لکیر کو عبور کرکے ہجرتوں کا زخم بھی سہا تھا۔ یہ زخم وقت گذرنے کے ساتھ مندمل ہوجاتے۔اگر دونوں ملکوں کے درمیان کھنچی لکیر کودیوار نہ بننے دیا جاتا۔ لوگوں کو اپنی جنم بھومیوں اوراپنے اجداد کے آبائی وطن تک آنے جانے کی آزادی ہوتی۔مگر حکومتوں کے درمیان تنازعات کے اثرات عوام تک پہنچتے ہیں۔تاریخ نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان چنی دیوار کی ستم ظریفیاں دیکھی ہیں۔جنوبی اور شمالی کوریاکے درمیان آج بھی خاردار جنگلوں نے ہزاروں گھرانوں کوایک دوسرے سے غیر فطری طور پر جدا رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی ذی ہوش ایسا ہوگا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ مگرعوام کے جذبات واحساسات کوان تنازعات کی بنیاد پر کس طرح قربان کیا جاسکتا ہے،یہ سوچنے والی بات ہے۔
جدید دنیا میںعلاقائی سطح پر تجارتی سرگرمیوںکے ذریعے قومی معیشت کو بہتر بنانے کارجحان پروان چڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کے عوام کے ساتھ روابط میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہورہی ہیں۔لہٰذا تنازعات کو جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے دبائو میں اضافہ ہورہاہے۔یہی سبب ہے کہ سو برس تک ایک دوسرے سے دست وگریباں رہنے اور دو عالمی جنگوں سے گذرنے والے یورپ کو بہت کچھ گنوانے کے بعدجب یہ احساس ہواکہ جنگیں مسائل کا حل نہیںہوتیں، تو اس نے یورپی یونین کی شکل میں ایک ایسانظام تشکیل دیا جس میں عوام اور تاجروںکے روابط کے لیے سہولیات کو اولیت حاصل ہوگئی۔ تائیوان تاریخی طورپرچین کاحصہ رہاہے۔ 65برس قبل جبراً اسے چین سے کاٹ دیا گیا۔آج بھی تائیوان کو چین میں شامل ہونے نہیں دیا جارہا۔لیکن اپنے دعوے سے دست بردارنہ ہونے کے باوجود چین نے تائیوان کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔یہی معاملہ بھارت کے ساتھ ہے۔1962ء میں تبت اور سکم کے سرحد ی تنازع پر جنگ ہوئی۔ کئی دہائیوں تک تعلقات کشیدہ رہے۔ مگر آج چین اور بھارت میںسرحدی اختلافات کے باوجود تجارتی حجم روز افزوں ہے۔
برصغیر کامعاملہ مختلف ہے، یہاںتاریخ کے صفحات میں صدیوںکا تعلق مقید ہے۔ ایک دوسرے کے ملک میں ہر دین دھرم کے مقدس اور تاریخی مقامات ہیں۔ منقسم خاندان ہیں، بزرگوں کی قبریں ،ان کی یادگاریں ہیں۔اس لیے کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت دیگر تنازعات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ، مگر خطے کی معاشی ترقی اور استحکام کے علاوہ عوام کے عوام سے رابطہ اور ان کے اپنے اجداد کے وطن کو دیکھنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ویزا اوردیگرسفری سہولیات کی فراہمی دونوں حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عوام کے عوام سے روابط اور تجارت کا بڑھتا ہوا حجم تنازعات کے دیرپا اور مستقل حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آئیے ہم سب مل کراس دھرتی کے ہر یوسف کو اس کے لڑکپن کے دوست بلدیو سے ملنے کی راہ ہموارکریں اور قیام امن کے لیے اپنا حصہ ڈالیں ۔