بڑے پن کا ثبوت دیجیے
دنیا میں سب کے سب جنت میں جانا چاہتے ہیں مگر مرنے پر ایک بھی راضی نہیں ہوتا۔
WASHINGTON:
دنیا میں سب کے سب جنت میں جانا چاہتے ہیں مگر مرنے پر ایک بھی راضی نہیں ہوتا۔
میاں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ اور عمران خان کے خیبر پختون خوا کی حکومت سنبھالتے ہی عوام نے سکون کا سانس لیا کہ میاں صاحب اور عمران اپنے دل میں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی گڈ بک میں بھی ہیں۔ ان کا یہ باہمی اعتماد جب مذاکرات سے گزرے گا تو کوئی نہ کوئی پر امن حل نکل آئے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر معاملہ الٹا نکلا۔
A: امریکا نے طالبان کو سبق سکھانے کے لیے ڈرون حملے تیز کر دیے تا کہ طالبان اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں سے باز آ جائیں جس میں معصوم بے گناہ عوام نشانہ بن رہے ہیں۔
B: دوسری طرف طالبان نے بھی امریکا کو سبق سکھانے کے لیے دہشت گردی کی وارداتوں، خود کش دھماکوں میں اضافہ کر دیا، عبادت گاہوں، تجارتی مراکز، جلسے جلوسوں کو نشانہ بنانے لگے تا کہ امریکا بھی ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنانے سے باز آ جائے۔ چنانچہ اس وقت زندگی سے خوف زدہ، موت سے لاپرواہ، امریکا کے کشکول بردار پاکستان کے معصوم بے گناہ عوام کو روئے زمیں پر کہیں جائے پناہ نظر نہیں آ رہی ہے۔
معصوم بے گناہ عوام کی جان کی امان کے ذمے دار اسلام آباد والے صوبائی حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ آپ کے صوبے میں ایک عورت اور ایک بچے کو ملا کر پونے چار دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں۔ جوں ہی دو بم، ایک دستی بم اور ایک کریکر دھماکہ ہو جاتا ہے اسلام آباد والے خم ٹھونک کر کہتے ہیں یہ تو ہم نے صوبائی حکومت کو پہلے ہی بذریعہ خط بتا دیا تھا۔ اس کے بعد ذمے داری صوبائی حکومت کی بنتی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ صوبائی حکومت جوابی بیان داغ دیتی ہے کہ ڈبل سواری پر فوراً پابندی تو لگا دی تھی اب قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟ خاص کر معصوم اور بے گناہ عوام کی۔
اب یہی دیکھیے (خبروں کے مطابق) طالبان سے رابطہ ہو چکا تھا۔ طالبان مذاکرات پر راضی ہو گئے تھے تین رکنی وفد طالبان سے پہلا باضابطہ رابطہ کرنے جا رہا تھا کہ طالبان رہنما حکیم اللہ محسود ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا۔ جس کی جگہ فضل اللہ نے سنبھالی ہے۔ جو کھلا پاکستان دشمن ہے۔ چنانچہ طالبان سے مذاکرات کے روشن امکانات ماند پڑ گئے۔
حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کے سب سے زیادہ حامی منور حسن تھے۔ جس کے جواب میں جب دہشت گردی ہوتی تو صحافی حضرات طنزاً منور حسن سے دریافت کرتے کہ کیا اب بھی مذاکرات ہونے چاہئیں؟ منور حسن بلا جھجک جواب دیتے کہ جتنی جلد ہو سکے۔
چنانچہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کا جان بحق ہونا منور حسن کے لیے ذہنی جھٹکا اور دلی صدمہ ثابت ہوا۔ اس دباؤ کے زیر اثر طیش کے عالم میں انتہائی دھماکہ خیز متنازعہ بیان داغ دیا ''طالبان کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید نہیں کہا جا سکتا، حکیم اللہ محسود شہید ہے''۔ اس بیان نے سارے ملک میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔ سب سے پہلے ISPR کا ردعمل سامنے آیا۔
''دہشت گرد کو شہید کہنا، بے گناہ عوام اور فوجیوں کی توہین ہے، فوج دشمن سے آگاہ ہے، مودودی کی جماعت کے امیر کا فوجیوں کے خلاف بیان بدقسمتی ہے، جماعت اسلامی اپنی پوزیشن واضح کرے۔'' (ISPR)
جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے فرمایا: ''فوج کا بیان سیاسی جمہوری معاملات میں مداخلت ہے۔''
امیر جماعت اسلامی کا جوابی بیان آیا: ''فوجیوں کی شہادت کے متعلق میں اپنے بیان پر قائم ہوں، طالبان سے لڑائی میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید قرار نہیں دیا جا سکتا۔''
خود امیر جماعت اسلامی کا ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ٹو دی پوائنٹ'' میں یکم نومبر 2012ء کو شاہ زیب خان زادہ کو دیے گئے انٹرویو کا اقتباس ملاحظہ کیجیے اس وقت حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود زندہ تھے۔ ''جماعت صرف افغان طالبان کو سلام کرتی ہے، کیونکہ انھوں نے صرف امریکا کے خلاف جہاد کیا، پاکستانی طالبان کا کوئی وجود نہیں ہے، ان کو کبھی حکومت اور کبھی فوج استعمال کرتی ہے، حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود اخبارات کے بنائے ہوئے ہیں۔ میں ان کو نہیں مانتا یہ لوگ تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، مسلمانوں کا ناحق خون بہاتے ہیں، جہاد نہیں کرتے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔''
چند سیاسی شخصیات کا رد عمل ملاحظہ کیجیے:
(1)۔ ''بعض رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے حالیہ بیانات سے ہمارے فوجی جوانوں کے دل دکھے، پوری قوم آپ کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ (جی۔ایچ۔کیو کے دورے کے موقع پر) میاں نواز شریف، وزیر اعظم پاکستان۔
(2)۔ منور حسن نے مسلح افواج، سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کی توہین کی جس کی فوج کے ترجمان نے مذمت کر کے 18 کروڑ عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی کی۔ (الطاف حسین MQM)
(3)۔ روس کے خلاف جو امریکی جنگ میں مارے گئے منور حسن ان کو کیا کہیں گے؟ (شہلا رضا۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ)
(4)۔ شہید کی ذات کا فیصلہ صرف اللہ کی ذات کرتی ہے۔ فضل الرحمن یا کوئی اور انسان نہیں۔ (ترجمان JUI)
امیر جماعت اسلامی منور حسن سے غلطی تو ہو گئی۔ یہ بھی یقین ہے کہ دانستہ ہی ہوئی۔ سب سے زیادہ دکھ شہید فوجیوں کے لواحقین کو پہنچا جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جو اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم کو ان کے شہادت کے رتبے کی خوشی میں برداشت کر لیتے ہیں۔ امیر جماعت منور حسن صاحب بڑے پن کا ثبوت دیجیے، کل نہیں آج، آج نہیں ابھی۔ ان شہدا کے گھر جائیے، بزرگوں سے دیر سے آنے کی معذرت چاہیں، پوتا پوتی، نواسہ نواسی کے سر پر ہاتھ رکھیں، دعا دیں، مسکراہٹیں لوٹائیں، واپس چلے آئیں۔ کیا ان پھولوں کی ایک مسکراہٹ کے آگے آپ کی انا کی کوئی اہمیت ہے؟
دنیا میں سب کے سب جنت میں جانا چاہتے ہیں مگر مرنے پر ایک بھی راضی نہیں ہوتا۔
میاں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ اور عمران خان کے خیبر پختون خوا کی حکومت سنبھالتے ہی عوام نے سکون کا سانس لیا کہ میاں صاحب اور عمران اپنے دل میں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی گڈ بک میں بھی ہیں۔ ان کا یہ باہمی اعتماد جب مذاکرات سے گزرے گا تو کوئی نہ کوئی پر امن حل نکل آئے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر معاملہ الٹا نکلا۔
A: امریکا نے طالبان کو سبق سکھانے کے لیے ڈرون حملے تیز کر دیے تا کہ طالبان اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں سے باز آ جائیں جس میں معصوم بے گناہ عوام نشانہ بن رہے ہیں۔
B: دوسری طرف طالبان نے بھی امریکا کو سبق سکھانے کے لیے دہشت گردی کی وارداتوں، خود کش دھماکوں میں اضافہ کر دیا، عبادت گاہوں، تجارتی مراکز، جلسے جلوسوں کو نشانہ بنانے لگے تا کہ امریکا بھی ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنانے سے باز آ جائے۔ چنانچہ اس وقت زندگی سے خوف زدہ، موت سے لاپرواہ، امریکا کے کشکول بردار پاکستان کے معصوم بے گناہ عوام کو روئے زمیں پر کہیں جائے پناہ نظر نہیں آ رہی ہے۔
معصوم بے گناہ عوام کی جان کی امان کے ذمے دار اسلام آباد والے صوبائی حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ آپ کے صوبے میں ایک عورت اور ایک بچے کو ملا کر پونے چار دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں۔ جوں ہی دو بم، ایک دستی بم اور ایک کریکر دھماکہ ہو جاتا ہے اسلام آباد والے خم ٹھونک کر کہتے ہیں یہ تو ہم نے صوبائی حکومت کو پہلے ہی بذریعہ خط بتا دیا تھا۔ اس کے بعد ذمے داری صوبائی حکومت کی بنتی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ صوبائی حکومت جوابی بیان داغ دیتی ہے کہ ڈبل سواری پر فوراً پابندی تو لگا دی تھی اب قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟ خاص کر معصوم اور بے گناہ عوام کی۔
اب یہی دیکھیے (خبروں کے مطابق) طالبان سے رابطہ ہو چکا تھا۔ طالبان مذاکرات پر راضی ہو گئے تھے تین رکنی وفد طالبان سے پہلا باضابطہ رابطہ کرنے جا رہا تھا کہ طالبان رہنما حکیم اللہ محسود ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا۔ جس کی جگہ فضل اللہ نے سنبھالی ہے۔ جو کھلا پاکستان دشمن ہے۔ چنانچہ طالبان سے مذاکرات کے روشن امکانات ماند پڑ گئے۔
حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کے سب سے زیادہ حامی منور حسن تھے۔ جس کے جواب میں جب دہشت گردی ہوتی تو صحافی حضرات طنزاً منور حسن سے دریافت کرتے کہ کیا اب بھی مذاکرات ہونے چاہئیں؟ منور حسن بلا جھجک جواب دیتے کہ جتنی جلد ہو سکے۔
چنانچہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کا جان بحق ہونا منور حسن کے لیے ذہنی جھٹکا اور دلی صدمہ ثابت ہوا۔ اس دباؤ کے زیر اثر طیش کے عالم میں انتہائی دھماکہ خیز متنازعہ بیان داغ دیا ''طالبان کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید نہیں کہا جا سکتا، حکیم اللہ محسود شہید ہے''۔ اس بیان نے سارے ملک میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔ سب سے پہلے ISPR کا ردعمل سامنے آیا۔
''دہشت گرد کو شہید کہنا، بے گناہ عوام اور فوجیوں کی توہین ہے، فوج دشمن سے آگاہ ہے، مودودی کی جماعت کے امیر کا فوجیوں کے خلاف بیان بدقسمتی ہے، جماعت اسلامی اپنی پوزیشن واضح کرے۔'' (ISPR)
جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے فرمایا: ''فوج کا بیان سیاسی جمہوری معاملات میں مداخلت ہے۔''
امیر جماعت اسلامی کا جوابی بیان آیا: ''فوجیوں کی شہادت کے متعلق میں اپنے بیان پر قائم ہوں، طالبان سے لڑائی میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید قرار نہیں دیا جا سکتا۔''
خود امیر جماعت اسلامی کا ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ٹو دی پوائنٹ'' میں یکم نومبر 2012ء کو شاہ زیب خان زادہ کو دیے گئے انٹرویو کا اقتباس ملاحظہ کیجیے اس وقت حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود زندہ تھے۔ ''جماعت صرف افغان طالبان کو سلام کرتی ہے، کیونکہ انھوں نے صرف امریکا کے خلاف جہاد کیا، پاکستانی طالبان کا کوئی وجود نہیں ہے، ان کو کبھی حکومت اور کبھی فوج استعمال کرتی ہے، حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود اخبارات کے بنائے ہوئے ہیں۔ میں ان کو نہیں مانتا یہ لوگ تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، مسلمانوں کا ناحق خون بہاتے ہیں، جہاد نہیں کرتے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔''
چند سیاسی شخصیات کا رد عمل ملاحظہ کیجیے:
(1)۔ ''بعض رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے حالیہ بیانات سے ہمارے فوجی جوانوں کے دل دکھے، پوری قوم آپ کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ (جی۔ایچ۔کیو کے دورے کے موقع پر) میاں نواز شریف، وزیر اعظم پاکستان۔
(2)۔ منور حسن نے مسلح افواج، سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کی توہین کی جس کی فوج کے ترجمان نے مذمت کر کے 18 کروڑ عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی کی۔ (الطاف حسین MQM)
(3)۔ روس کے خلاف جو امریکی جنگ میں مارے گئے منور حسن ان کو کیا کہیں گے؟ (شہلا رضا۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ)
(4)۔ شہید کی ذات کا فیصلہ صرف اللہ کی ذات کرتی ہے۔ فضل الرحمن یا کوئی اور انسان نہیں۔ (ترجمان JUI)
امیر جماعت اسلامی منور حسن سے غلطی تو ہو گئی۔ یہ بھی یقین ہے کہ دانستہ ہی ہوئی۔ سب سے زیادہ دکھ شہید فوجیوں کے لواحقین کو پہنچا جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جو اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم کو ان کے شہادت کے رتبے کی خوشی میں برداشت کر لیتے ہیں۔ امیر جماعت منور حسن صاحب بڑے پن کا ثبوت دیجیے، کل نہیں آج، آج نہیں ابھی۔ ان شہدا کے گھر جائیے، بزرگوں سے دیر سے آنے کی معذرت چاہیں، پوتا پوتی، نواسہ نواسی کے سر پر ہاتھ رکھیں، دعا دیں، مسکراہٹیں لوٹائیں، واپس چلے آئیں۔ کیا ان پھولوں کی ایک مسکراہٹ کے آگے آپ کی انا کی کوئی اہمیت ہے؟