برداشت ختم ہو چکی
جس معاشرے میں برداشت ناپید اور انتہاء پسندی عروج پر ہو تو پھر وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو...
جس معاشرے میں برداشت ناپید اور انتہاء پسندی عروج پر ہو تو پھر وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو دس محرم کو راولپنڈی میں ہوا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے رتی برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ہمارے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں افراد کی اکثریت عدم برداشت اور انتہا پسندی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے کا جزولاینفک بن چکے ہیں۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جہاں ملک کے سب سے اہم اور محترم مقامات ''تعلیمی اداروں'' میں ایک طرف استاد عدم برداشت اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلباء کو بے تحاشہ مارتے پیٹتے ہوں اور دوسری جانب شاگرد عدم برداشت اور انتہا پسندی میں اپنے استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امتحان میں فیل ہونے پر اپنی جان کو ہی اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر ڈالتے ہوں، وہاں عدم برداشت اور انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل کرنا کس قدر مشکل ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے وہیں عدم برداشت اور انتہا پسندی میں دن بدن بڑھوتری ہو رہی ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے تشویشناک امر ہے اور ان باتوں سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ شاید ہی کوئی شخص ان سے محفوظ ہو۔ معمولی معمولی بات پر لوگ برداشت کا دامن چھوڑتے ہوئے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ ماہرین ِنفسیات کا کہنا ہے: ''ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کے رجحان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ معاشرے میں پھیلی کشیدگی کی فضا ''عدم برداشت اور انتہا پسندی'' کی انتہائی شکل ہے۔ ''
معاشرے میں ہمیں بہت سے مقامات پر اکثر اوقات عدم برداشت اور انتہا پسندی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی پبلک مقامات پر مختلف باتوں پر افراد کا دست و گریباں ہو جانا، کرایہ زیادہ مانگنے پر کنڈیکٹر کی شامت، من پسند اسٹاپ پر بس نہ روکنے پر مسافروں کا برہم ہو جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انچارج کا آپے سے باہر ہو جانا، والدین کا بچوں کو ضرورت سے زیادہ جھڑکنا یا بچوں کا والدین سے طویل بحث اور غصہ دکھانا، گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہو جانا یا اوور ٹیک کرنے والے کو گالیاں سنانا، لوڈشیڈنگ پر احتجاجاً ٹائر جلا کر روڈ بلاک کر دینا اور احتجاج کے دوران بے تحاشہ توڑ پھوٹ کرنا، یہ سب چیزیں ہمیں معاشرے کے ''عدم برداشت اور انتہا پسند'' رویے کی ایک تصویر دکھاتی ہیں۔ حالانکہ اگر ہم کسی سے زیادتی کرتے ہیں تو توقع رکھتے ہیں کہ سامنے والا فوراً معاف کر دے۔ اگر کوئی ہم سے زیادتی کرے تو فوراً منہ سے جھاگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بے اعتدالیوں کو انسانی کمزوری سمجھ کر درگزر کر دیا جائے۔ لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست، ساتھی، ہمارے بچے اور عورتیں انسانی کمزوریوں سے ماورا ہوں۔ وہ نہ تو ہمیں چیلنج کریں اور نہ ہی ہماری قوتِ برداشت کو آزمائیں۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ وہی رہنما تیزی سے مقبولیت اور کامیابی حاصل کرتے ہیں جو اپنے مدمقابل کو نیچا دکھائیں اور سرعام جلسوں میں ان کی توہین کریں۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہماری قوم کو برداشت اور اعتدال کا درس دینے والے بڑے بڑے دانشور حضرات بھی اپنے آپ کو درست اور مدمقابل کو غلط ثابت کرنے کے لیے عدم برداشت اور انتہا پسندی کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دوسرے کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ اگر مدمقابل کی بات سن بھی لیتے ہیں تو اسے ہرگز قبول نہیں کرتے چاہے وہ سو فیصد درست ہی کیوں نہ ہو۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی صرف اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے پوری قوم کو اس بات میں الجھائے رکھنا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا یا سیکولرزم کے نام پر؟ عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بہترین مثال ہے۔ حالانکہ اپنے ملک کی تعمیر کی خاطر سرسٹھ سال بعد تویہ بحث چھوڑ دینی چاہیے۔
اسی طرح اگر ہم اپنے معاشرے کے سب سے مقدس اور معزز ''مذہبی طبقے'' کی جانب نظر اٹھاتے ہیں تو سب میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی انتہا پائی جاتی ہے۔ کوئی بھی اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ ہر برائی کی کڑیاں اپنے مخالف فرقے سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ بات انڈیلنا شروع کر دی جاتی ہے کہ فلاں فرقے کے لوگوں کو ہرگز برداشت نہ کرنا، ان سے برا انسان شاید روئے زمین پر ہے ہی نہیں۔ جب بچپن سے کسی کی ذہن سازی ہوتی ہے تو پھر بڑا ہو کر وہ دوسرے مسلک کے علماء اور مقدس شخصیات کی توہین بھی کرتا ہے، مخالف فرقے کے رہنمائوں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
حالانکہ ایک معتدل سوچ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے لیے دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ اپنی آزادی کے لیے ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو نقصان سے بچانا چاہیے۔ اپنی عزت کروانے کے لیے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنا چاہیے۔ تمام مسالک کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مسلک پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو اور ہمارے جذبات مجروح نہ کیے جائیں۔ جو ہم خود کے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی وہی چاہیں۔ اعتدال پسند انسان کی پوری زندگی ''جیو اور جینے دو'' کے فلسفے کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے کون سا انسانیت کے لیے مفید ہے، یہ جاننے کے لیے بہت بڑا عالم یا مفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اعتدال پسندی ہی کی تلقین ملے گی۔
اگر ہم کسی شخص کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں صرف اور صرف یہی حق حاصل ہے کہ شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے اس شخص کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کر دیں اور جب یہ طے ہے کہ کسی بھی فرقے کے لوگوں کو طاقت کے زور پر نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنا فرقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ تو پھر ہم دوسروں کے لیے یہ کیوں نہیں سوچتے؟ کیوں دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں اور جان بوجھ کر شرپسندی کی آگ بڑھکاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً دوسرے فرقے اور مقدس شخصیات کی توہین کرتے ہیں۔ ایک طرف تو تمام مذہبی رہنماء اجتماعیت پر بہت زور دیتے ہیں جب کہ دوسری جانب اسلام سے بھی پہلے اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ارد گرد ہی اپنی دلچسپیاں مرتکز رکھتے ہیں۔ سب کا اسلام صرف ان کا فرقہ ہی ہے۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے وہ قرآن کی محض منتخب شدہ آیات کی ہی تبلیغ کرتے ہیں، اس طرح ''امن کے مذہب'' کے متعلق یہ گروہی نقطہ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی عدم برداشت اور انتہا پسندی نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اسلام کو اس قدر نقصان بیرونی قوتوں سے نہیں پہنچا جتنا نقصان ہمارے عدم برداشت اور انتہا پسند رویے سے پہنچا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس معاشرے میں برداشت ناپید اور انتہا پسندی عروج پر ہو تو پھر وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو دس محرم کو راولپنڈی میں ہوا۔
ہمارے معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے وہیں عدم برداشت اور انتہا پسندی میں دن بدن بڑھوتری ہو رہی ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے تشویشناک امر ہے اور ان باتوں سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ شاید ہی کوئی شخص ان سے محفوظ ہو۔ معمولی معمولی بات پر لوگ برداشت کا دامن چھوڑتے ہوئے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ ماہرین ِنفسیات کا کہنا ہے: ''ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کے رجحان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ معاشرے میں پھیلی کشیدگی کی فضا ''عدم برداشت اور انتہا پسندی'' کی انتہائی شکل ہے۔ ''
معاشرے میں ہمیں بہت سے مقامات پر اکثر اوقات عدم برداشت اور انتہا پسندی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی پبلک مقامات پر مختلف باتوں پر افراد کا دست و گریباں ہو جانا، کرایہ زیادہ مانگنے پر کنڈیکٹر کی شامت، من پسند اسٹاپ پر بس نہ روکنے پر مسافروں کا برہم ہو جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انچارج کا آپے سے باہر ہو جانا، والدین کا بچوں کو ضرورت سے زیادہ جھڑکنا یا بچوں کا والدین سے طویل بحث اور غصہ دکھانا، گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہو جانا یا اوور ٹیک کرنے والے کو گالیاں سنانا، لوڈشیڈنگ پر احتجاجاً ٹائر جلا کر روڈ بلاک کر دینا اور احتجاج کے دوران بے تحاشہ توڑ پھوٹ کرنا، یہ سب چیزیں ہمیں معاشرے کے ''عدم برداشت اور انتہا پسند'' رویے کی ایک تصویر دکھاتی ہیں۔ حالانکہ اگر ہم کسی سے زیادتی کرتے ہیں تو توقع رکھتے ہیں کہ سامنے والا فوراً معاف کر دے۔ اگر کوئی ہم سے زیادتی کرے تو فوراً منہ سے جھاگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بے اعتدالیوں کو انسانی کمزوری سمجھ کر درگزر کر دیا جائے۔ لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست، ساتھی، ہمارے بچے اور عورتیں انسانی کمزوریوں سے ماورا ہوں۔ وہ نہ تو ہمیں چیلنج کریں اور نہ ہی ہماری قوتِ برداشت کو آزمائیں۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ وہی رہنما تیزی سے مقبولیت اور کامیابی حاصل کرتے ہیں جو اپنے مدمقابل کو نیچا دکھائیں اور سرعام جلسوں میں ان کی توہین کریں۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہماری قوم کو برداشت اور اعتدال کا درس دینے والے بڑے بڑے دانشور حضرات بھی اپنے آپ کو درست اور مدمقابل کو غلط ثابت کرنے کے لیے عدم برداشت اور انتہا پسندی کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دوسرے کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ اگر مدمقابل کی بات سن بھی لیتے ہیں تو اسے ہرگز قبول نہیں کرتے چاہے وہ سو فیصد درست ہی کیوں نہ ہو۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی صرف اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے پوری قوم کو اس بات میں الجھائے رکھنا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا یا سیکولرزم کے نام پر؟ عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بہترین مثال ہے۔ حالانکہ اپنے ملک کی تعمیر کی خاطر سرسٹھ سال بعد تویہ بحث چھوڑ دینی چاہیے۔
اسی طرح اگر ہم اپنے معاشرے کے سب سے مقدس اور معزز ''مذہبی طبقے'' کی جانب نظر اٹھاتے ہیں تو سب میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی انتہا پائی جاتی ہے۔ کوئی بھی اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ ہر برائی کی کڑیاں اپنے مخالف فرقے سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ بات انڈیلنا شروع کر دی جاتی ہے کہ فلاں فرقے کے لوگوں کو ہرگز برداشت نہ کرنا، ان سے برا انسان شاید روئے زمین پر ہے ہی نہیں۔ جب بچپن سے کسی کی ذہن سازی ہوتی ہے تو پھر بڑا ہو کر وہ دوسرے مسلک کے علماء اور مقدس شخصیات کی توہین بھی کرتا ہے، مخالف فرقے کے رہنمائوں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
حالانکہ ایک معتدل سوچ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے لیے دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ اپنی آزادی کے لیے ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو نقصان سے بچانا چاہیے۔ اپنی عزت کروانے کے لیے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنا چاہیے۔ تمام مسالک کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مسلک پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو اور ہمارے جذبات مجروح نہ کیے جائیں۔ جو ہم خود کے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی وہی چاہیں۔ اعتدال پسند انسان کی پوری زندگی ''جیو اور جینے دو'' کے فلسفے کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے کون سا انسانیت کے لیے مفید ہے، یہ جاننے کے لیے بہت بڑا عالم یا مفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اعتدال پسندی ہی کی تلقین ملے گی۔
اگر ہم کسی شخص کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں صرف اور صرف یہی حق حاصل ہے کہ شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے اس شخص کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کر دیں اور جب یہ طے ہے کہ کسی بھی فرقے کے لوگوں کو طاقت کے زور پر نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنا فرقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ تو پھر ہم دوسروں کے لیے یہ کیوں نہیں سوچتے؟ کیوں دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں اور جان بوجھ کر شرپسندی کی آگ بڑھکاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً دوسرے فرقے اور مقدس شخصیات کی توہین کرتے ہیں۔ ایک طرف تو تمام مذہبی رہنماء اجتماعیت پر بہت زور دیتے ہیں جب کہ دوسری جانب اسلام سے بھی پہلے اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ارد گرد ہی اپنی دلچسپیاں مرتکز رکھتے ہیں۔ سب کا اسلام صرف ان کا فرقہ ہی ہے۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے وہ قرآن کی محض منتخب شدہ آیات کی ہی تبلیغ کرتے ہیں، اس طرح ''امن کے مذہب'' کے متعلق یہ گروہی نقطہ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی عدم برداشت اور انتہا پسندی نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اسلام کو اس قدر نقصان بیرونی قوتوں سے نہیں پہنچا جتنا نقصان ہمارے عدم برداشت اور انتہا پسند رویے سے پہنچا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس معاشرے میں برداشت ناپید اور انتہا پسندی عروج پر ہو تو پھر وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو دس محرم کو راولپنڈی میں ہوا۔