شرک گناہِ عظیم
شرک سے مراد اﷲ پاک کے سوا کسی اور کو اﷲ کے برابر یا اس کے مقابل سمجھنا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے پوچھا، یارسول اﷲ ﷺ اﷲ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: '' یہ کہ تُو اﷲ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے، حالاں کہ اسی نے تجھ کو پیدا کیا ہے۔'' اس حدیث میں بتا دیا گیا ہے کہ اﷲ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک ہے، جس سے ہر انسان کو بچنا چاہیے۔
شرک کی مذمت قرآن مجید میں اکثر مقامات پر آئی ہے۔ شرک سے مراد اﷲ پاک کے سوا کسی اور کو اﷲ کے برابر یا اس کے مقابل سمجھنا ہے۔ جیسے نباتات اور جمادات کو معبود بنا لینا، برگد اور پیپل کے درخت کو اور مٹی و پتھر کی بے جان مورتیوں کو معبود بنالینا۔ یا کسی جانور کو اﷲ کے برابر سمجھنا، یا کسی بیرونی طاقت کی پرستش کرنا جیسے چاند، سورج، ستارے وغیرہ یا کسی انسان کو اﷲ کے برابر سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ ان کو بھی اﷲ کے مانند انسانی زندگی پر کوئی اختیار ہے اور یہ بھی ہماری حاجات پوری کرسکتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا، وہی ہماری زندگی موت، معاش و معاد، تقدیر و تدبیر، عقل و فہم، عزت و ذلت، دکھ سکھ، غرض سب پر مختار کُل ہے، وہی خالق ہے، وہی مالک ہے اسی کے حضور سب کو پیش ہونا ہے۔
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ نے دس باتوں کی نصیحت کی ان میں سے ایک بات یہ ہے: ''اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، اگرچہ تُو مارا جائے یا جلایا جائے۔'' رسول اکرمؐ کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل جس قدر اﷲ تعالیٰ کے نبی اور پیغمبرؑ آئے سب نے اپنی قوموں کو شرک اور بت پرستی سے روکا، انہیں جہالت سے نکالا اور علم کا نور دیا، کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی دکھائی، معبود باطل کی پرستش کے بہ جائے ایک اﷲ کی عبادت کرنے کی تلقین کی، انکار و سرکشی کی راہ سے ہٹا کر اطاعت اور فرماں برداری کی ہدایت کی۔ آخر میں سرکار دو عالم ﷺ تشریف لائے۔
اﷲ ربّ العزت نے آپؐ پر قرآن مجید نازل فرمایا جو کتاب ہدایت ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو گم راہی سے روکا، سیدھا راستہ دکھایا اور بت پرستی اجتناب کرنے کا حکم اور ایک ربّ کو ماننے پر زور دیا اور بتایا کہ تمام گناہ کچھ سزا بھگتنے پر معاف ہوجائیں گے لیکن شرک کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
توحید پرستی پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے! اس لیے کہ انسانی زندگی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اعلیٰ اخلاق، صالح اعمال، نیک اقوال اور منصفانہ معاملات صرف اسی عقیدے پر مبنی ہیں۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کا خیال اور مشکلات میں سہارے کی امید صرف اسی عقیدے پر قائم ہے۔ احسان کی طرف رغبت اور ظلم سے نفرت، آخرت کا خوف اور رحمت کی امید اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ آخرت میں سرخ روئی اور کام یابی اسی پر منحصر ہے۔ اگر یہ عقیدہ موجود نہ ہوتو دنیا فتنہ فساد، ہنگامہ و خون ریزی، خود غرضی، مطلب پرستی، لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے کا گھر بن جائے۔ ان حالات کے پیش نظر توحید کا عقیدہ قائم رکھنا ضروری ہے۔
خواہ دین و ایمان کے دشمن توحید کے ماننے والوں کو سخت سزائیں کیوں نہ دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دیں، آگ میں ڈال دیں، سلگتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیں، توحید کو چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ کیوں کہ زندگی اسی سے قائم ہے لیکن اگر انسان کا ایمان نہیں اور ایمان کی بنیاد توحید پر نہیں تو زندگی کسی کام کی نہیں اور یہ آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔
بلاشبہ شرک تمام برائیوں کی جڑ، تمام گناہوں کا منبع اور تمام گم راہیوں کا آغاز ہے۔ اس سے انسان کے اعتقادات ناقص ہوجاتے ہیں۔ افعال و اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ اخلاق و اطوار گندے ہوجاتے اور زندگی غلاظت اور آلودگی میں غرق ہوجاتی ہے۔ انسان جب شرک کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے وہ ایک کشتی میں سوار ہونے کے بہ جائے کئی کشتیوں میں سوار ہو اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ہمیشہ ناپائیدار اور برباد کرنے والی ہوگی، اس سے پریشانیوں میں اضافہ ہوگا، زندگی اجیرن ہوجائے گی اور چین اور اطمینان اس سے دور بھاگے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعتقادات اور اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان میں کہیں شرک کا عنصر تو موجود نہیں تاکہ اس سب سے بڑے گناہ سے خود کو بچایا جاسکے۔
شرک کی مذمت قرآن مجید میں اکثر مقامات پر آئی ہے۔ شرک سے مراد اﷲ پاک کے سوا کسی اور کو اﷲ کے برابر یا اس کے مقابل سمجھنا ہے۔ جیسے نباتات اور جمادات کو معبود بنا لینا، برگد اور پیپل کے درخت کو اور مٹی و پتھر کی بے جان مورتیوں کو معبود بنالینا۔ یا کسی جانور کو اﷲ کے برابر سمجھنا، یا کسی بیرونی طاقت کی پرستش کرنا جیسے چاند، سورج، ستارے وغیرہ یا کسی انسان کو اﷲ کے برابر سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ ان کو بھی اﷲ کے مانند انسانی زندگی پر کوئی اختیار ہے اور یہ بھی ہماری حاجات پوری کرسکتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا، وہی ہماری زندگی موت، معاش و معاد، تقدیر و تدبیر، عقل و فہم، عزت و ذلت، دکھ سکھ، غرض سب پر مختار کُل ہے، وہی خالق ہے، وہی مالک ہے اسی کے حضور سب کو پیش ہونا ہے۔
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ نے دس باتوں کی نصیحت کی ان میں سے ایک بات یہ ہے: ''اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، اگرچہ تُو مارا جائے یا جلایا جائے۔'' رسول اکرمؐ کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل جس قدر اﷲ تعالیٰ کے نبی اور پیغمبرؑ آئے سب نے اپنی قوموں کو شرک اور بت پرستی سے روکا، انہیں جہالت سے نکالا اور علم کا نور دیا، کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی دکھائی، معبود باطل کی پرستش کے بہ جائے ایک اﷲ کی عبادت کرنے کی تلقین کی، انکار و سرکشی کی راہ سے ہٹا کر اطاعت اور فرماں برداری کی ہدایت کی۔ آخر میں سرکار دو عالم ﷺ تشریف لائے۔
اﷲ ربّ العزت نے آپؐ پر قرآن مجید نازل فرمایا جو کتاب ہدایت ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو گم راہی سے روکا، سیدھا راستہ دکھایا اور بت پرستی اجتناب کرنے کا حکم اور ایک ربّ کو ماننے پر زور دیا اور بتایا کہ تمام گناہ کچھ سزا بھگتنے پر معاف ہوجائیں گے لیکن شرک کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
توحید پرستی پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے! اس لیے کہ انسانی زندگی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اعلیٰ اخلاق، صالح اعمال، نیک اقوال اور منصفانہ معاملات صرف اسی عقیدے پر مبنی ہیں۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کا خیال اور مشکلات میں سہارے کی امید صرف اسی عقیدے پر قائم ہے۔ احسان کی طرف رغبت اور ظلم سے نفرت، آخرت کا خوف اور رحمت کی امید اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ آخرت میں سرخ روئی اور کام یابی اسی پر منحصر ہے۔ اگر یہ عقیدہ موجود نہ ہوتو دنیا فتنہ فساد، ہنگامہ و خون ریزی، خود غرضی، مطلب پرستی، لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے کا گھر بن جائے۔ ان حالات کے پیش نظر توحید کا عقیدہ قائم رکھنا ضروری ہے۔
خواہ دین و ایمان کے دشمن توحید کے ماننے والوں کو سخت سزائیں کیوں نہ دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دیں، آگ میں ڈال دیں، سلگتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیں، توحید کو چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ کیوں کہ زندگی اسی سے قائم ہے لیکن اگر انسان کا ایمان نہیں اور ایمان کی بنیاد توحید پر نہیں تو زندگی کسی کام کی نہیں اور یہ آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔
بلاشبہ شرک تمام برائیوں کی جڑ، تمام گناہوں کا منبع اور تمام گم راہیوں کا آغاز ہے۔ اس سے انسان کے اعتقادات ناقص ہوجاتے ہیں۔ افعال و اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ اخلاق و اطوار گندے ہوجاتے اور زندگی غلاظت اور آلودگی میں غرق ہوجاتی ہے۔ انسان جب شرک کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے وہ ایک کشتی میں سوار ہونے کے بہ جائے کئی کشتیوں میں سوار ہو اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ہمیشہ ناپائیدار اور برباد کرنے والی ہوگی، اس سے پریشانیوں میں اضافہ ہوگا، زندگی اجیرن ہوجائے گی اور چین اور اطمینان اس سے دور بھاگے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعتقادات اور اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان میں کہیں شرک کا عنصر تو موجود نہیں تاکہ اس سب سے بڑے گناہ سے خود کو بچایا جاسکے۔