نئےصوبوں کے قیام میں آئینی رکاوٹوں کے باوجود کمیشن کی تشکیل

زیادہ تر تجزیہ نگار موجودہ حکمرانوں کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کو آئندہ کی انتخابی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

زیادہ تر تجزیہ نگار موجودہ حکمرانوں کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کو آئندہ کی انتخابی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو فائل

KARACHI:
ملک کے نامور آئینی ماہرین کے ساتھ ساتھ سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے خیال میں نئے صوبوں کے قیام کے راستے میں دستوری اور آئینی رکاوٹیں حائل ہیں اور عملی طور پر پنجاب کی تقسیم موجودہ حکمرانوں کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.

تاہم تمام ترآئینی پیچیدگیوں اور دستوری رکاوٹوں کے باوجود صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے۔صدر مملکت کی خواہش پر ان کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کو اس پارلیمانی کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے میاں نوازشریف کے ساتھ طویل مشاورت کرنے کے بعد اس کمیشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے سے اس کمیشن کی مکمل تشکیل نو کرنے اور ایک غیر جانبدار چیئرمین مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ میاں نواز شریف سمیت دیگر رہنمائوں نے یہ موقف اختیار کر رکھا ہے کہ نئے صوبے لسانی بنیادوں پر بنانے کے بجائے انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں۔

عام انتخابات کا انعقادکچھ مہینوں کی مسافت پر ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت نے آئندہ انتخابات کے دوران ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی بنا رکھی ہے،مرکزی رہنمائوں کو اس حکمت عملی پر عملدرآمد کرنے کا ٹاسک دیدیاگیا ہے پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے پنجاب کی تقسیم کا سلوگن لگایا ہے .

زیادہ تر تجزیہ نگار موجودہ حکمرانوں کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کو آئندہ کی انتخابی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیشن کے نومنتخب چیئرمین سینیٹر فرحت اللہ بابر کی ذاتی ساکھ پر سوالات نہیں کئے جاسکتے مگر المیہ یہ ہے کہ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہیں اور وہ جس کمیشن کے چیئرمین بنائے گئے ہیں اس کمیشن نے پنجاب کی تقسیم کا فامولا تیار کرنا ہے۔اپوزیشن کا یہ اعتراض حقائق پر مبنی ہے کہ اس پارلیمانی کمیشن کے چیئرمین کا تعلق پنجاب سے ہونا چاہئے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ کے ان دنون اجلاس جاری ہیں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں بھی سرائیکی صوبے کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیاں پھر نقطہ عروج پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابی روڈ میپ ترتیب دینے اور اس متنازعہ کمیشن پربات چیت جاری ہے۔


دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان کافی طویل عرصے کے بعد ان رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نگران سیٹ اپ پر حکومت کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا بیان دے چکے ہیں

تاہم سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اسحاق ڈار کے چیمبر میں جاکر وفاقی مذہبی امور سید خورشیداحمد شاہ نے ملاقات کی ہے سینیٹر اسحاق ڈار نے ایکسپریس کے ساتھ ملاقات کے دوران سید خورشیداحمدشاہ کے ان کے چیمبر میں آنے اور بات چیت کی خود تصدیق کی ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے اگرچہ ابھی تک کوئی واضح روڈ میپ سامنے نہیں آیا ہے تاہم الیکشن کمیشن نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

حریف اور حلیف جماعتوں کے درمیان نئے رابطوں کی قیاس آرائیاں زبان زد عام ہیں بالخصوص ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کے سرکردہ رہنمائوں کے درمیان رابطے سیاسی اہمیت کے حامل ہیں۔دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کے قائدین آئندہ بے داغ اور غیر جانبدار اور غیر متنازعہ شخصیت کو ملک کا عبوری وزیراعظم بنانے کیلئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ بنانے کیلئے کوشاں ہیں.

مسلم لیگ(ن) نے بعض اہم شخصیات کے نام نگران وزیر اعظم کیلئے شارٹ لسٹ کئے ہیں میاں نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ عبوری وزیر اعظم کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہو،محمود اچکزئی،عطاء اللہ مینگل کے نام بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا نام بھی مسلم لیگ(ن) نے تجویز کیا ہے ان کا تعلق بھی ایک چھوٹے صوبے سے ہیں وہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض سرکردہ رہنما ان دنون اکثر نجی محفلوں میں غیر رسمی انداز میں یہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات کچھ عرصہ کیلئے تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس تاخیر کی وجوہات سامنے لانے سے یہ قائدین لیت ولعل سے کام لیتے ہیں۔ تمام ترقیاس آرائیوں اور خدشات کے باوجوداکثر سیاسی جماعتوں کے قائدین عام انتخابات کے انعقاد کو بروقت دیکھنا چاہتے ہیں اور حکومت کو کسی قیمت پر تاخیری حربے استعمال نہیں کرنے چاہئے ۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بظاہر اہم قومی ایشوز پر تمام سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے عزم کا اظہار ایک سے زائد بار کر چکے ہیں مگر چونکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں تاحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اس لئے اب تک وہ صرف بیانات تک محدود ہیں اور صدر کی ہدایت کے باوجود کل جماعتی کانفرنس طلب نہیں کر سکے۔

سپریم کورٹ نے انکی استدعا پر انہیں اٹھارہ ستمبر تک این آر او عملدرآمد میں مہلت دے رکھی ہے۔ اٹھارہ ستمبر کو صورتحال واضح ہو گی۔ وزیر اعظم عدالت عظمیٰ میں یہ کہہ کر آئے ہیں کہ وہ کوئی درمیانی راستہ نکال لیں گے جس سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہو گا۔
Load Next Story