مایوسی اور ڈپریشن
اس کیفیت میں بندے کا اللہ سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے
حکم ربانی:
ترجمہ: لوگوں کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور اگر ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ )الروم (36:30
ترجمہ: انسان اپنے لیے بھلائی مانگنتے نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔)حَمٓ السجدہ (49:41
فرمان نبوی ﷺ :
ترجمہ: اللہ تعالی اس شخص (کی نادانی) پر ہنستے ہیں جو اس سے مایوس ہوکر غیر سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: دو صحابی کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے۔ آپؐ اس وقت گھر کا کچھ کام کر رہے تھے، ہم نے آپؐ کا ہاتھ بٹایا۔ آپؐ نے فرمایا رزق کے معاملے میں کبھی اللہ سے مایوس نہ ہونا خواہ تمہاری حالت کتنی ہی کمزور ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کتنا کمزور اور عاجز ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا انتظام کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)
مایوسی سے کیا مراد ہے؟
کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ نکلنے سے بعض لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو ان سے وہ عمل بھی ترک کروا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو مایوسی کہتے ہیں۔ مایوسی کی کئی قسمیں اور کئی اسباب ہیں تاہم ترک عمل اس کا بنیادی خاصہ ہے۔ مایوس آدمی ترک عمل کے ساتھ ساتھ بعض حالات میں اللہ سے شاکی بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صورت ہے جو دینی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔
مایوسی کے اسباب
مایوسی کے چند بڑے اسباب و محرکات یہ ہیں:
-1 ارادے کا پورا نہ ہوسکنا: مثلاً ایک آدمی نماز پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور تھوڑی بہت کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ یہ ناکامی اسے مایوسی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور وہ یہ سوچ کر اپنی کوششیں چھوڑ دیتا ہے کہ میں کچھ بھی کرلوں نمازی نہیں بن سکتا۔
-2 کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ برآمد ہونا: مثلاً نماز پڑھنا مگر خشوع حاصل نہ ہونا، ذکر کرنا لیکن لیکن اطمینان قلب سے محروم رہنا، رزق حلال کا اہتمام رکھنا مگر افلاس سے نجات نہ پانا۔ قرآن پڑھنا مگر طبیعت پر اس کا اثر نہ ہونا، کوئی پسندیدہ دینی منصوبہ بنانا مگر اسے روبہ عمل لانے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا، کسی چیز کے لیے دعائیں کرنا مگر وہ چیز حاصل نہ ہونا وغیرہ۔
-3 دنیاوی زندگی کا غلط تصور یعنی دنیاوی مسائل اور مشکلات کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ دین پر چلنے کا دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ خیال رفتہ رفتہ آدمی میں مایوسی کا مستقل حال پیدا کردیتا ہے۔
-4 انسانی کمزوریوں اور خرابیوں کا شدید تاثر: یعنی ایک شخص کو اتفاق سے زیادہ تر ایسے لوگ ملتے ہیں جو بددیانت، وعدہ خلاف، ظالم .... وغیرہ ہوتے ہیں۔ مسلسل پیش آنے والے اس تجربے سے بھی مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے گرم جوشی کے ساتھ دین سے وابستہ نہیں رہنے دیتی۔
-5 غمگین طبیعت اور قنوطی ذہنیت: یہ نفسیاتی عوارض ہیں جن میں مبتلا ہوکر آدمی مستقبل کی ہر صورت اور اپنے پورے حال سے مایوس رہتا ہے۔
مایوسی کے نقصانات
اس کے چند بڑے نقصانات یہ ہیں:
-1 مایوسی کا کم سے کم نقصان بھی بندگی میں ضعف پیدا کرتا ہے اور انتہائی نقصان یہ ہے کہ آدمی کفر تک جاپہنچتا ہے۔ گویا مایوسی کی ہر سطح پر ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس سے اللہ کے ساتھ تعلق کمزور پڑجاتا ہے۔
-2 اللہ کی رحمت، نعمت اور قدرت کا عدم استحضار: مایوسی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مایوسی کے سبب کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ یہ خیال اتنا غالب آجاتا ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ اللہ اس پر قادر ہے یا اس کی مہربانی عام ہے یا اس کی نعمتوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ اس حالت کی دو پہچانیں ہیں۔ اس میں مبتلا شخص دعا کرنے کے تصور ہی سے بیزاری محسوس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کا اعلان کرتا پھرتا ہے مثلاً (نعوذ باللہ) اللہ نے میرے ساتھ بڑا ظلم کیا،
''کیا امتحان کے لیے میں ہی رہ گیا تھا؟''، ''سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ نے مجھے پیدا کیوں کیا؟، ... وغیرہ وغیرہ۔
-3 ناشکری یعنی اللہ کی بے شمار نعمتوں کا احساس نہ رہنا۔
-4 خود غرضی: ایسا آدمی ہمیشہ اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے اور دوسروں کے کام آنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
-5 سنگ دلی اور بے حسی: جو لوگ معاشرے وغیرہ کی طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ طبعاً سنگ دلی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مایوسی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس خرابی میں بھی زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے اردگرد کی خرابیاں تو گنوا دیتے ہیں مگر انہیں دور کرنے میں خود جوکردار ادا کرسکتے ہیں نہیں کرتے۔
-6 خودکشی کا میلان: یہ نفسیاتی مایوسی کا لازمی اثر ہے۔
-7 منشیات کا استعمال: مایوس آدمی تسکین کے ایسے ذرائع ڈھونڈتا ہے جنہیں اخلاق اور معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ اس لیے اس حالت میں مبتلا لوگوں کی اکثریت منشیات کی طرف چلی جاتی ہے۔
-8 انتقام پسندی: مایوسی کی اکثر قسمیں آدمی کے اندر انتقام اور تخریب کے جذبات پیدا کردیتی ہیں۔
-9 انسانوں خصوصاً والدین اور بھائی بہنوں سے نفرت:مایوسی آدمی کی ایک نفسیات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں سے چڑنے لگتاہے جو اس کے قریب ہوں اور اس کی دسترس میں ہوں۔ اس لیے ایسا شخص سب سے پہلے ان لوگوں کو نشانہ نفرت و تحقیر بناتا ہے جو اس کے ہمدرد اور خیر خواہ ہوں اور اس سے محبت کرنا جن کی مجبوری ہو۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ والدین، بھائی بہن، بیوی بچے یا قریبی دوست ہی ہوسکتے ہیں۔
-10 بے عملی
-11 ہر چیز کومنفی انداز میں دیکھنا۔
-12 پاگل پن: مایوسی اپنی جگہ ایک ایسا مرض ہے جو ذہنی خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے یہ خرابی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ مکمل دیوانگی کی نوبت آجاتی ہے۔
سوال: مایوسی کے بعض اسباب حقیقی اور واقعی ہوتے ہیں کیا اس صورت میں بھی مایوسی گناہ ہے؟
جواب: بلاشبہ مایوسی کا سبب زیادہ تر حقیقی ہوتا ہے لیکن اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں ہے۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ مایوسی کا محرک نارمل اور حقیقی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور ہر آدمی جانتا ہے کہ بعض خرابیوں یا محرومیوں کا ازالہ ضروری ہونے کے باوجود ناممکن ہے لیکن یہ احساس چند لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے جب کہ باقی لوگ کام میں لگے رہتے ہیں یا تنگ آکر متعلقہ کوشش کو چھوڑ کر کوئی اور ہدف تلاش کرلیتے ہیں یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرکے اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ تینوں ردعمل بالکل نارمل ہیں اور آدمی کو اس کی معیاری سطح پر قائم رکھتے ہیں جبکہ وہ شخص جو مایوس ہوگیا، مایوسی کا مضبوط سبب تو یقیناً رکھتا ہے لیکن اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس سبب نے اسے امید کے بیشمار اسباب سے منقطع کیوں کردیا۔ اس کا اصلی جواب یہ ہے کہ مایوسی کا غلبہ عام طور پر ایسے لوگوں پر ہوتا ہے جو انسانیت، انسانی ذمہ داری اور زندگی کا نہایت محدود بلکہ غلط تصور رکھتے ہیں۔ امید سے خالی ہوجانا کسی بھی دلیل اور سبب سے انسانی حال نہیں ہے، خاص طور پر مسلمان کے لیے تو یہ اس کا دینی فریضہ ہے کہ مسلسل ناکامیاں بھی اسے کم از کم ناامید نہ ہونے دیں، چاہے کامیابی کی لگن اور اس کے لیے درکار کوشش کمزور ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
مختصر یہ کہ مایوسی سمجھ میں آنے والے اسباب کے باجود ذہن اور طبیعت کے ردعمل کی وہ قسم ہے جو آدمی کو اپنی فطرت پر استوار نہیں رہنے دیتی۔ یہاں فطرت سے مراد انسان کے وہ مجموعی حدود ہیں جن سے تجاوز کرنا انسانی فعل یا حال نہیں کہلائے گا۔ اپنی استعداد پر نظر کرکے کسی مطلوب کام کے نہ ہوسکنے کا یقین مایوسی نہیں ہے، البتہ یہی یقین جب اہمیت اختیار کرجائے اور معاملہ اپنی استعداد اور صلاحیت سے بڑھ کر اللہ کی قدرت و انصاف وغیرہ تک پہنچ جائے تو اس سے جو شکایت آمیز حالت پیدا ہوتی ہے وہ کسی بھی دلیل سے بندگی کی حالت نہیں کہلاسکتی۔ گویا مایوسی بندگی کے لازمی احوال اور شعور کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس کا تسلط اول تو آدمی کو ضروری عمل کے قابل ہی نہیں چھوڑتا اور اگر تھوڑے بہت عمل کی صورت پیدا بھی ہوجائے تو اس سے وہ ضروری تعلق باقی نہیں رہتا جو بندے اور اس کے اعمال کے درمیان ہونا لازمی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو مایوسی صرف عمل ہی نہیں بلکہ اس کی نیت اور اس کے شعور کو بھی مسخ کر دیتی ہے۔ عمل کی نیت اور شعور ہمیں اس کی نتیجہ خیزی کا یقین دلاتا ہے۔ یہ یقین ہی نہ رہے تو عمل کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
مایوسی کے انہی انقصانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بار بار فرمایا ہے کہ انسان کوکسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اسے انسان کی تھڑ دلی قرار دیا ہے کہ وہ ذرا تکلیف آئے تو اللہ کی ساری نعمتوں کو بھلا کرمایوس ہونے لگتا ہے اور انسان کو بار بار یہ یقین دلانے کے بعد کہ اللہ ہر وقت انسان کی مدد کرنے پر قادر ہے اور وہ اپنی طرف لوٹنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے۔ یہ انذاز بھی کیا ہے کہ اس کے باوجود جو مایوس ہوکر اللہ سے منہ موڑتے ہیں وہ گمراہ اور کافر ہیں اور دنیا میں ذلت و نامرادی کے علاوہ آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔
سوال: مایوسی کے بارے میں کافی سخت باتیں ہوگئیں۔ تجربے میں آیا ہے کہ مایوسی کی کئی قسمیں ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے ان قسموں کو بیان کردیا جائے تاکہ تشخیص اور علاج میں آسانی رہے؟
جواب: اصولی طور پر مایوسی کی دوہی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ترک عمل تک پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسری میں عمل کی صورت بدل جاتی ہے۔ وہ مایوسی جو بے عملی کا سبب بنتی ہے مضر ہے جب کہ دوسری قسم بعض شرائط کے ساتھ تو مضر ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس کا کوئی دینی ضرر نہیں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ضروری دینی عمل سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی صورت میں ایک آدمی خود اس عمل کی افادیت اور اہمیت کا منکر ہوجاتا ہے اور اسے چھوڑ بیٹتھا ہے جبکہ دوسرا آدمی اسی صورت حال میں اس عمل کی کسی دوسری افادیت کو اپنا ہدف بنالیتا ہے اور اس عمل پر قائم رہتا ہے۔ وہ شرائط جن کی موجودگی اس دوسرے آدمی کے لیے مضر ہے، ان میں بنیادی طور پر ایک چیز پائی جاتی ہے اور وہ ہے اس عمل کے درجے کو نہ ماننا، یعنی ایک آدمی نماز کے مطلوبہ اثرات سے محروم ہوکر نماز تو پڑھتا رہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ تصور بھی رکھتا ہے کہ نماز تو بس ایک عادت ہے ورنہ اس میں کچھ رکھا نہیں۔ یہ وہ خرابی ہے جو ایمان کے خاتمے تک لے جاسکتی ہے اور اس کے سامنے مایوسی کی پہلی قسم قدرے کم خطرناک ہے۔ شکایت بہرحال نفاق یا انکار سے کم مضر ہوتی ہے۔
اب ہم دونوں صورتوں کی ٹھوس مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص کی نماز طویل کوشش کے باوجود اچھی نہیں ہو رہی اور نماز کے جو نتائج زندگی میں نکلنے چاہئیں وہ نہیں نکل رہے تو اس صورت میں اس شخص کے اندر کئی طرح کے ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً
-1 وہ یہ کہہ کر نماز چھوڑ سکتا ہے کہ نماز میرے بس کی بات نہیں۔
-2 وہ نماز تو نہیں چھوڑتا لیکن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ نماز کی خوبی اور تاثیر کے بارے میں مبالغہ کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں عملاً قابل حصول نہیں ہیں۔
-3 یہ آدمی نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اور نماز کے حکم کا بھی انکار کردیتا ہے۔
یہ مایوسی کے وہ نمونے ہیں جو شرعاً خطرناک ہیں اور آدمی کو کسی ہولناک انجام تک لے جاسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثال اور بھی ہے جو کم مضر ہونے کی وجہ سے ہم نے اوپر نقل نہیں کی، وہ یہ کہ ایسا آدمی یہ تصور کرکے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز سے خوش نہیں ہے، نماز کو چھوڑ کر کسی اور نیک کام مثلاً خدمت خلق وغیرہ میں لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجائے گا۔ اس فیصلے کی غلطی واضح ہے تاہم ایک بات یقینی ہے کہ یہ آدمی اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اجمالاً کہا جائے تو شرعی نقطۂ نظر سے مایوسی ایک بڑا نقص ہے جو شدید کفر و نفاق میں بدل سکتا ہے ورنہ اپنی معمولی حالت میں بھی یہ بندگی کی کسی نہ کسی مضبوط بنیاد کو کمزور ضرور کردیتا ہے۔
مایوسی کا علاج
مندرجہ ذیل امور مایوسی کو ختم یا کم کر سکتے ہیں:۔
-1 صرف عمل کے ہو جانے کو کافی سمجھنا اور اس کی کوالٹی کو وقتی طور پر فراموش کردینا۔کوالٹی ظاہر بھی ہوسکتی ہے یعنی حسن ادائی کی صورت میں اور باطن میں بھی ہوسکتی ہے یعنی کیفیت۔
-2 اس یقین کو ایک مانوس پیرائے میں پختہ کرنے کی کوشش کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب بندہ اپنی شرائط پر اصرار کرنے لگے۔
-3 اس یقین کا بار بار اعادہ کہ میری بہتری کی حتمی صورت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ میرے لیے جو کچھ کرتا ہے اچھا کرتا ہے خواہ یہ اچھائی اس زندگی میں تکلیف دہ صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
-4 دنیا محض دارالعمل ہے۔ نتائج آخرت میں سامنے آئیں گے۔ عمل اپنی روح میں مشقت، امتحان، اطاعت اور تسلیم کا نام ہے۔ اس سے عافیت، راحت، تسکین وغیرہ کا مطالبہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ تمام چیزیں نتائج کے اوصاف ہیں جو عمل سے فارغ ہوکر میسر آئیں گے۔
-5 قرآن سے ایسا تعلق پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کہ اس کا ذوق غالب آجائے اور اللہ کا کلام نہ صرف یہ کہ عمدہ اور محفوظ طریقے سے سمجھ میں آنے لگے بلکہ دل پر اثر بھی کرے۔ اس کے بغیر وہ دینی احوال نہیں پیدا ہوسکتے جن سے محروم ہوکر مسلمان ہونے کا کوئی حقیقی مطلب نہیں ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ دین سے دور لے جانے والے احوال پر اگر کوئی چیز حاوی آسکتی ہے تو وہ تعلق بالقرآن اور حبّ رسول اللہﷺ ہے۔
-6 رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ بلکہ یہ بندگی کی تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے اور اس سے مناسبت پیدا کرکے انسانی طبیعت اپنے اندر واقع ہونے والی ہر خرابی پر غالب آسکتی ہے۔
-7 ایسے لوگوں کی سرگزشت کا مطالعہ جو پے درپے ناکامیاں اور مصائب جھیل کر بالکل نیچے سے اوپر آئے اور انسانی تاریخ کو ایک فیصلہ کن موڑ دینے والے کی حیثیت سے اپنا نام منوا گئے مثلاً حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، سیدنا بلال حبشیؓ، تیمور لنگ، ظہیر الدین بابر، سٹیفن ہاکنگز وغیرہ۔
-8 تفریح خصوصاً ایسے کھیل کود جو جسم کو تھکاتے ہیں۔ ان کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی مشقت اور اس کے اچھے نتیجے کے تصور سے عملاً مانوس ہوجاتا ہے۔
-9 خدمت خلق یعنی لوگوں کے مسائل حل کرنا۔ اس کے نتیجے میں اس خود مرکزیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو مایوسی وغیرہ کی ماں ہے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی تگ و دو کرنے والا اپنی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہیں نکال سکتا۔ مایوس آدمی کو یہ چیز شدت سے درکار ہوتی ہے۔
-10 اگر کوئی نفسیاتی عدم توازن ہو تو ماہر نفسیات کے پاس ضرور جانا چاہیے۔
(از کتاب ''ترک رذائل''۔)
ترجمہ: لوگوں کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور اگر ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ )الروم (36:30
ترجمہ: انسان اپنے لیے بھلائی مانگنتے نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔)حَمٓ السجدہ (49:41
فرمان نبوی ﷺ :
ترجمہ: اللہ تعالی اس شخص (کی نادانی) پر ہنستے ہیں جو اس سے مایوس ہوکر غیر سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: دو صحابی کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے۔ آپؐ اس وقت گھر کا کچھ کام کر رہے تھے، ہم نے آپؐ کا ہاتھ بٹایا۔ آپؐ نے فرمایا رزق کے معاملے میں کبھی اللہ سے مایوس نہ ہونا خواہ تمہاری حالت کتنی ہی کمزور ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کتنا کمزور اور عاجز ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کے رزق کا انتظام کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)
مایوسی سے کیا مراد ہے؟
کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ نکلنے سے بعض لوگوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو ان سے وہ عمل بھی ترک کروا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو مایوسی کہتے ہیں۔ مایوسی کی کئی قسمیں اور کئی اسباب ہیں تاہم ترک عمل اس کا بنیادی خاصہ ہے۔ مایوس آدمی ترک عمل کے ساتھ ساتھ بعض حالات میں اللہ سے شاکی بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صورت ہے جو دینی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔
مایوسی کے اسباب
مایوسی کے چند بڑے اسباب و محرکات یہ ہیں:
-1 ارادے کا پورا نہ ہوسکنا: مثلاً ایک آدمی نماز پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور تھوڑی بہت کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ یہ ناکامی اسے مایوسی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور وہ یہ سوچ کر اپنی کوششیں چھوڑ دیتا ہے کہ میں کچھ بھی کرلوں نمازی نہیں بن سکتا۔
-2 کسی عمل کے مطلوبہ نتائج نہ برآمد ہونا: مثلاً نماز پڑھنا مگر خشوع حاصل نہ ہونا، ذکر کرنا لیکن لیکن اطمینان قلب سے محروم رہنا، رزق حلال کا اہتمام رکھنا مگر افلاس سے نجات نہ پانا۔ قرآن پڑھنا مگر طبیعت پر اس کا اثر نہ ہونا، کوئی پسندیدہ دینی منصوبہ بنانا مگر اسے روبہ عمل لانے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا، کسی چیز کے لیے دعائیں کرنا مگر وہ چیز حاصل نہ ہونا وغیرہ۔
-3 دنیاوی زندگی کا غلط تصور یعنی دنیاوی مسائل اور مشکلات کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ دین پر چلنے کا دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ خیال رفتہ رفتہ آدمی میں مایوسی کا مستقل حال پیدا کردیتا ہے۔
-4 انسانی کمزوریوں اور خرابیوں کا شدید تاثر: یعنی ایک شخص کو اتفاق سے زیادہ تر ایسے لوگ ملتے ہیں جو بددیانت، وعدہ خلاف، ظالم .... وغیرہ ہوتے ہیں۔ مسلسل پیش آنے والے اس تجربے سے بھی مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے گرم جوشی کے ساتھ دین سے وابستہ نہیں رہنے دیتی۔
-5 غمگین طبیعت اور قنوطی ذہنیت: یہ نفسیاتی عوارض ہیں جن میں مبتلا ہوکر آدمی مستقبل کی ہر صورت اور اپنے پورے حال سے مایوس رہتا ہے۔
مایوسی کے نقصانات
اس کے چند بڑے نقصانات یہ ہیں:
-1 مایوسی کا کم سے کم نقصان بھی بندگی میں ضعف پیدا کرتا ہے اور انتہائی نقصان یہ ہے کہ آدمی کفر تک جاپہنچتا ہے۔ گویا مایوسی کی ہر سطح پر ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس سے اللہ کے ساتھ تعلق کمزور پڑجاتا ہے۔
-2 اللہ کی رحمت، نعمت اور قدرت کا عدم استحضار: مایوسی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مایوسی کے سبب کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ یہ خیال اتنا غالب آجاتا ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ اللہ اس پر قادر ہے یا اس کی مہربانی عام ہے یا اس کی نعمتوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ اس حالت کی دو پہچانیں ہیں۔ اس میں مبتلا شخص دعا کرنے کے تصور ہی سے بیزاری محسوس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کا اعلان کرتا پھرتا ہے مثلاً (نعوذ باللہ) اللہ نے میرے ساتھ بڑا ظلم کیا،
''کیا امتحان کے لیے میں ہی رہ گیا تھا؟''، ''سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ نے مجھے پیدا کیوں کیا؟، ... وغیرہ وغیرہ۔
-3 ناشکری یعنی اللہ کی بے شمار نعمتوں کا احساس نہ رہنا۔
-4 خود غرضی: ایسا آدمی ہمیشہ اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے اور دوسروں کے کام آنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
-5 سنگ دلی اور بے حسی: جو لوگ معاشرے وغیرہ کی طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ طبعاً سنگ دلی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مایوسی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس خرابی میں بھی زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے اردگرد کی خرابیاں تو گنوا دیتے ہیں مگر انہیں دور کرنے میں خود جوکردار ادا کرسکتے ہیں نہیں کرتے۔
-6 خودکشی کا میلان: یہ نفسیاتی مایوسی کا لازمی اثر ہے۔
-7 منشیات کا استعمال: مایوس آدمی تسکین کے ایسے ذرائع ڈھونڈتا ہے جنہیں اخلاق اور معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ اس لیے اس حالت میں مبتلا لوگوں کی اکثریت منشیات کی طرف چلی جاتی ہے۔
-8 انتقام پسندی: مایوسی کی اکثر قسمیں آدمی کے اندر انتقام اور تخریب کے جذبات پیدا کردیتی ہیں۔
-9 انسانوں خصوصاً والدین اور بھائی بہنوں سے نفرت:مایوسی آدمی کی ایک نفسیات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں سے چڑنے لگتاہے جو اس کے قریب ہوں اور اس کی دسترس میں ہوں۔ اس لیے ایسا شخص سب سے پہلے ان لوگوں کو نشانہ نفرت و تحقیر بناتا ہے جو اس کے ہمدرد اور خیر خواہ ہوں اور اس سے محبت کرنا جن کی مجبوری ہو۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ والدین، بھائی بہن، بیوی بچے یا قریبی دوست ہی ہوسکتے ہیں۔
-10 بے عملی
-11 ہر چیز کومنفی انداز میں دیکھنا۔
-12 پاگل پن: مایوسی اپنی جگہ ایک ایسا مرض ہے جو ذہنی خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے یہ خرابی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ مکمل دیوانگی کی نوبت آجاتی ہے۔
سوال: مایوسی کے بعض اسباب حقیقی اور واقعی ہوتے ہیں کیا اس صورت میں بھی مایوسی گناہ ہے؟
جواب: بلاشبہ مایوسی کا سبب زیادہ تر حقیقی ہوتا ہے لیکن اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں ہے۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ مایوسی کا محرک نارمل اور حقیقی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور ہر آدمی جانتا ہے کہ بعض خرابیوں یا محرومیوں کا ازالہ ضروری ہونے کے باوجود ناممکن ہے لیکن یہ احساس چند لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے جب کہ باقی لوگ کام میں لگے رہتے ہیں یا تنگ آکر متعلقہ کوشش کو چھوڑ کر کوئی اور ہدف تلاش کرلیتے ہیں یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرکے اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ تینوں ردعمل بالکل نارمل ہیں اور آدمی کو اس کی معیاری سطح پر قائم رکھتے ہیں جبکہ وہ شخص جو مایوس ہوگیا، مایوسی کا مضبوط سبب تو یقیناً رکھتا ہے لیکن اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس سبب نے اسے امید کے بیشمار اسباب سے منقطع کیوں کردیا۔ اس کا اصلی جواب یہ ہے کہ مایوسی کا غلبہ عام طور پر ایسے لوگوں پر ہوتا ہے جو انسانیت، انسانی ذمہ داری اور زندگی کا نہایت محدود بلکہ غلط تصور رکھتے ہیں۔ امید سے خالی ہوجانا کسی بھی دلیل اور سبب سے انسانی حال نہیں ہے، خاص طور پر مسلمان کے لیے تو یہ اس کا دینی فریضہ ہے کہ مسلسل ناکامیاں بھی اسے کم از کم ناامید نہ ہونے دیں، چاہے کامیابی کی لگن اور اس کے لیے درکار کوشش کمزور ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
مختصر یہ کہ مایوسی سمجھ میں آنے والے اسباب کے باجود ذہن اور طبیعت کے ردعمل کی وہ قسم ہے جو آدمی کو اپنی فطرت پر استوار نہیں رہنے دیتی۔ یہاں فطرت سے مراد انسان کے وہ مجموعی حدود ہیں جن سے تجاوز کرنا انسانی فعل یا حال نہیں کہلائے گا۔ اپنی استعداد پر نظر کرکے کسی مطلوب کام کے نہ ہوسکنے کا یقین مایوسی نہیں ہے، البتہ یہی یقین جب اہمیت اختیار کرجائے اور معاملہ اپنی استعداد اور صلاحیت سے بڑھ کر اللہ کی قدرت و انصاف وغیرہ تک پہنچ جائے تو اس سے جو شکایت آمیز حالت پیدا ہوتی ہے وہ کسی بھی دلیل سے بندگی کی حالت نہیں کہلاسکتی۔ گویا مایوسی بندگی کے لازمی احوال اور شعور کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس کا تسلط اول تو آدمی کو ضروری عمل کے قابل ہی نہیں چھوڑتا اور اگر تھوڑے بہت عمل کی صورت پیدا بھی ہوجائے تو اس سے وہ ضروری تعلق باقی نہیں رہتا جو بندے اور اس کے اعمال کے درمیان ہونا لازمی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو مایوسی صرف عمل ہی نہیں بلکہ اس کی نیت اور اس کے شعور کو بھی مسخ کر دیتی ہے۔ عمل کی نیت اور شعور ہمیں اس کی نتیجہ خیزی کا یقین دلاتا ہے۔ یہ یقین ہی نہ رہے تو عمل کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
مایوسی کے انہی انقصانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بار بار فرمایا ہے کہ انسان کوکسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اسے انسان کی تھڑ دلی قرار دیا ہے کہ وہ ذرا تکلیف آئے تو اللہ کی ساری نعمتوں کو بھلا کرمایوس ہونے لگتا ہے اور انسان کو بار بار یہ یقین دلانے کے بعد کہ اللہ ہر وقت انسان کی مدد کرنے پر قادر ہے اور وہ اپنی طرف لوٹنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے۔ یہ انذاز بھی کیا ہے کہ اس کے باوجود جو مایوس ہوکر اللہ سے منہ موڑتے ہیں وہ گمراہ اور کافر ہیں اور دنیا میں ذلت و نامرادی کے علاوہ آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔
سوال: مایوسی کے بارے میں کافی سخت باتیں ہوگئیں۔ تجربے میں آیا ہے کہ مایوسی کی کئی قسمیں ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے ان قسموں کو بیان کردیا جائے تاکہ تشخیص اور علاج میں آسانی رہے؟
جواب: اصولی طور پر مایوسی کی دوہی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ترک عمل تک پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسری میں عمل کی صورت بدل جاتی ہے۔ وہ مایوسی جو بے عملی کا سبب بنتی ہے مضر ہے جب کہ دوسری قسم بعض شرائط کے ساتھ تو مضر ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس کا کوئی دینی ضرر نہیں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ضروری دینی عمل سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی صورت میں ایک آدمی خود اس عمل کی افادیت اور اہمیت کا منکر ہوجاتا ہے اور اسے چھوڑ بیٹتھا ہے جبکہ دوسرا آدمی اسی صورت حال میں اس عمل کی کسی دوسری افادیت کو اپنا ہدف بنالیتا ہے اور اس عمل پر قائم رہتا ہے۔ وہ شرائط جن کی موجودگی اس دوسرے آدمی کے لیے مضر ہے، ان میں بنیادی طور پر ایک چیز پائی جاتی ہے اور وہ ہے اس عمل کے درجے کو نہ ماننا، یعنی ایک آدمی نماز کے مطلوبہ اثرات سے محروم ہوکر نماز تو پڑھتا رہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ تصور بھی رکھتا ہے کہ نماز تو بس ایک عادت ہے ورنہ اس میں کچھ رکھا نہیں۔ یہ وہ خرابی ہے جو ایمان کے خاتمے تک لے جاسکتی ہے اور اس کے سامنے مایوسی کی پہلی قسم قدرے کم خطرناک ہے۔ شکایت بہرحال نفاق یا انکار سے کم مضر ہوتی ہے۔
اب ہم دونوں صورتوں کی ٹھوس مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص کی نماز طویل کوشش کے باوجود اچھی نہیں ہو رہی اور نماز کے جو نتائج زندگی میں نکلنے چاہئیں وہ نہیں نکل رہے تو اس صورت میں اس شخص کے اندر کئی طرح کے ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً
-1 وہ یہ کہہ کر نماز چھوڑ سکتا ہے کہ نماز میرے بس کی بات نہیں۔
-2 وہ نماز تو نہیں چھوڑتا لیکن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ نماز کی خوبی اور تاثیر کے بارے میں مبالغہ کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں عملاً قابل حصول نہیں ہیں۔
-3 یہ آدمی نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اور نماز کے حکم کا بھی انکار کردیتا ہے۔
یہ مایوسی کے وہ نمونے ہیں جو شرعاً خطرناک ہیں اور آدمی کو کسی ہولناک انجام تک لے جاسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثال اور بھی ہے جو کم مضر ہونے کی وجہ سے ہم نے اوپر نقل نہیں کی، وہ یہ کہ ایسا آدمی یہ تصور کرکے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز سے خوش نہیں ہے، نماز کو چھوڑ کر کسی اور نیک کام مثلاً خدمت خلق وغیرہ میں لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجائے گا۔ اس فیصلے کی غلطی واضح ہے تاہم ایک بات یقینی ہے کہ یہ آدمی اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اجمالاً کہا جائے تو شرعی نقطۂ نظر سے مایوسی ایک بڑا نقص ہے جو شدید کفر و نفاق میں بدل سکتا ہے ورنہ اپنی معمولی حالت میں بھی یہ بندگی کی کسی نہ کسی مضبوط بنیاد کو کمزور ضرور کردیتا ہے۔
مایوسی کا علاج
مندرجہ ذیل امور مایوسی کو ختم یا کم کر سکتے ہیں:۔
-1 صرف عمل کے ہو جانے کو کافی سمجھنا اور اس کی کوالٹی کو وقتی طور پر فراموش کردینا۔کوالٹی ظاہر بھی ہوسکتی ہے یعنی حسن ادائی کی صورت میں اور باطن میں بھی ہوسکتی ہے یعنی کیفیت۔
-2 اس یقین کو ایک مانوس پیرائے میں پختہ کرنے کی کوشش کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب بندہ اپنی شرائط پر اصرار کرنے لگے۔
-3 اس یقین کا بار بار اعادہ کہ میری بہتری کی حتمی صورت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ میرے لیے جو کچھ کرتا ہے اچھا کرتا ہے خواہ یہ اچھائی اس زندگی میں تکلیف دہ صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
-4 دنیا محض دارالعمل ہے۔ نتائج آخرت میں سامنے آئیں گے۔ عمل اپنی روح میں مشقت، امتحان، اطاعت اور تسلیم کا نام ہے۔ اس سے عافیت، راحت، تسکین وغیرہ کا مطالبہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ تمام چیزیں نتائج کے اوصاف ہیں جو عمل سے فارغ ہوکر میسر آئیں گے۔
-5 قرآن سے ایسا تعلق پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کہ اس کا ذوق غالب آجائے اور اللہ کا کلام نہ صرف یہ کہ عمدہ اور محفوظ طریقے سے سمجھ میں آنے لگے بلکہ دل پر اثر بھی کرے۔ اس کے بغیر وہ دینی احوال نہیں پیدا ہوسکتے جن سے محروم ہوکر مسلمان ہونے کا کوئی حقیقی مطلب نہیں ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ دین سے دور لے جانے والے احوال پر اگر کوئی چیز حاوی آسکتی ہے تو وہ تعلق بالقرآن اور حبّ رسول اللہﷺ ہے۔
-6 رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ بلکہ یہ بندگی کی تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے اور اس سے مناسبت پیدا کرکے انسانی طبیعت اپنے اندر واقع ہونے والی ہر خرابی پر غالب آسکتی ہے۔
-7 ایسے لوگوں کی سرگزشت کا مطالعہ جو پے درپے ناکامیاں اور مصائب جھیل کر بالکل نیچے سے اوپر آئے اور انسانی تاریخ کو ایک فیصلہ کن موڑ دینے والے کی حیثیت سے اپنا نام منوا گئے مثلاً حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، سیدنا بلال حبشیؓ، تیمور لنگ، ظہیر الدین بابر، سٹیفن ہاکنگز وغیرہ۔
-8 تفریح خصوصاً ایسے کھیل کود جو جسم کو تھکاتے ہیں۔ ان کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی مشقت اور اس کے اچھے نتیجے کے تصور سے عملاً مانوس ہوجاتا ہے۔
-9 خدمت خلق یعنی لوگوں کے مسائل حل کرنا۔ اس کے نتیجے میں اس خود مرکزیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو مایوسی وغیرہ کی ماں ہے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی تگ و دو کرنے والا اپنی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہیں نکال سکتا۔ مایوس آدمی کو یہ چیز شدت سے درکار ہوتی ہے۔
-10 اگر کوئی نفسیاتی عدم توازن ہو تو ماہر نفسیات کے پاس ضرور جانا چاہیے۔
(از کتاب ''ترک رذائل''۔)