پنجاب میں آئندہ اقتدارکےلئےسیاسی جوڑتوڑ

نواز لیگ کو تحریک انصاف سے بہت تشویش ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف فائل فوٹو

مسلم لیگ(ن) یقینا پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے اور نواز شریف پنجاب کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر دو بار وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں ۔

ن لیگ کے آئندہ اقتدار کا فیصلہ بھی پنجاب میں ہوگا اوراس وقت نواز شریف الیکشن کی حکمت عملی طے کرنے میں مصروف ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) صوبے میں ترقیاتی منصوبوں خصوصا ریپڈ بس سروس اور اقتدار میں ہوتے ہوئے اپوزیشن کے تاثر سے الیکشن میں جانا چاہتی ہے اور اسی بنیاد پر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اس اہم منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے اور سیاسی مخالفین کی طرف سے اس پر بڑی تنقید بھی ہورہی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں صرف لاہور کی حد تک ہی ڈویلپمنٹ کے منصوبے رکھے گئے ہیں،کیا رائے ونڈ اور ان کے گھروں کو جانے والے راستوں کو چوڑا کردینا اوور ہیڈز کی تعمیر اور نہر کنارے اربوں روپے کے جنگلے لگانا ہی ڈویلپمنٹ ہے۔ پنجاب میں تمام تر ترقیاتی منصوبوں کے باوجود وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی ماضی سے اچھی نہیں رہی۔ اب جب نوازشریف الیکشن میں جارہے ہیں تو اس میں بڑا مسئلہ پنجاب حکومت کی کارکردگی ہوگی۔

20سال سے ن لیگ پنجاب کی بنیاد پر اقتدار میں آتی رہی ہے۔ اس بار پنجاب کی طاقت کے مرکز میں دو مسئلے ہوگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبہ آئندہ الیکشن کا سلوگن بنالیا ہے اور سرائیکی علاقے سے اپنا ایک وزیراعظم بھی قربان کردیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو خوف ہے کہ پیپلزپارٹی اس نعرے کی بنیاد پر جنوبی پنجاب سے کلین سویپ کرجائے گی۔سنٹرل پنجاب میں اس بار ایسا الیکشن ہونے جارہا ہے جس میں تحریک انصاف اور (ن) لیگ میں مقابلے ہوں گے ۔ (ن) لیگ کے اندرونی حلقے اس صورتحال کو سمجھتے ہیں مگر وہ اس پر کھلے عام رائے کا اظہار نہیں کرتے کیونکہ اس سے پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر عمران خان نے اپنے دعوؤں میں 50فیصد کامیابی بھی حاصل کرلی اور پرفارمنس دے گئے تو اس سے بھی کافی فرق پڑے گا۔


اگر تحریک انصاف کے امیدوار ہر حلقے سے 10سے 15ہزار ووٹ بھی لے گئے تو یہ وہ مارجن ہے جس سے پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اچھے امیدواروں کی جیت کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ اس سے پنجاب میں پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ حکومت بھی بناسکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے جس کے زیادہ سیاسی اتحادی ہوں گے۔

پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کے اتحادی ان کے ساتھ ہیں ۔ نواز شریف کے ساتھ قابل ذکر اتحادی نہیں ہیں اگر اگلے الیکشن میں (ن) لیگ سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب دونوں سے نشستیں حاصل نہیں کرتی تو ان کا اقتدار میں آنا مشکل ہے، وہ عمران خان سے اتحاد کرلیں تو اچھے نتائج آسکتے ہیں۔

نواز لیگ کو تحریک انصاف سے بہت تشویش ہے۔ تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جس کی لوگوں میں سٹینڈنگ کا اصل اندازہ پہلی دفعہ الیکشن میں لگے گا۔ اب تک (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی پر تمام تجزیئے اور تبصرے 88ء کے بعد کی جمہوری سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں۔جو حکومت اقتدار میں ہوتی ہے اس کو اقتدار میں ہونے کا نقصان ہوتا ہے جو قوتیں 88ء سے 97 ء تک رہیں ان کو 58(2)بی کے ذریعے اقتدار سے نکالا جاتا رہا۔ 2008ء کے الیکشن میں پرویز مشرف کی حکومت تھی مگر ق لیگ ہار گئی اور مشرف حکومت کو ووٹ سے آؤٹ کردیاگیا

۔اس میں بڑا فیکٹر بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی کیونکہ ان کے قتل کا الزام مشرف کے حواریوں پر لگا تھا۔ اب پہلا الیکشن ہونے جارہا ہے جس میں منتخب سول حکومت بیٹھی ہے اگر سیاسی تاریخ دیکھیں تو اس حکومت کے حالات اور کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ سمیت دیگر کئی بنیادی مسائل حل نہیںکر سکی۔ دوسری طرف ساڑھے چار سال تک حکومت کو کام کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ذریعے اسے الجھائے رکھا۔ پیپلزپارٹی نے اتحادیوں کے ذریعے 58(2)بی کو ختم کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ذریعے حکومت کو غیر مستحکم کرنا شروع کردیا۔

پہلے اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ صدر کو جمہوری حکومت کے خلاف استعمال کرتی تھی پیپلزپارٹی نے یہ کامیابی حاصل کی کہ آصف زرداری خود صدر بن گئے اوراپنا وزیراعظم بنالیا۔ وزیراعظم گیلانی کو نکالا گیا اس کے باوجود اپنا اقتدار بچایااور اب اگلے الیکشن میںجارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار سال کے دوران حکومت پر جتنے حملے ہوتے رہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد سے کئے گئے۔

نواز شریف نے حکومت کے خلا ف ہر سازش میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے چیف جسٹس کو بحال کروایا اور نواز شریف اس تحریک کے روح رواں تھے۔ آج 5 ستمبر کیلئے صدر زرداری کے دو عہدوں پر توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کر دئیے گئے ہیںاور خدشہ ہے کہ کہیں یوسف رضا گیلانی کی طرح صدر کو بھی نا اہل نہ قرار دیا جائے۔
Load Next Story