مشرف کے معاملے پر جلدی سمجھ سے بالاتر ہے خورشید شاہ

کیا چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے معاملہ نمٹانا یا دباؤ پر مشرف کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟

کارروائی 12 اکتوبر سے شروع، معاونت پرجنرل عزیز اور عثمان کو بھی شامل کیا جائے، ساتھ دینگے۔ فوٹو: آن لائن/فائل

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت کو پرویزمشرف کے معاملے میں اتنی جلدی کیوں ہے، کیا یہ چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے سارامعاملہ نمٹانا چاہتے ہیں یاکسی دبائو میں آ کر مشرف کو فائدہ پہنچاناچاہتے ہیں۔

قومی اخبارات کے مدیران اور سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ہم ایک ذمہ دار اپوزیشن کے طور پر حزب اقتدار کو بتا رہے ہیں کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف 12 اکتوبر سے آئین توڑنے کی کارروائی کا آغاز کریں پیپلز پارٹی آپکی توقع سے بڑھ کر آپ کاساتھ دے گی، جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو خود تو جہاز میں تھا اس کی معاونت کرنے والے جرنیل جنرل عزیز اور جنرل عثمان توزمین پر تھے سب کو شامل تفتیش کیا جائے ۔




سید خورشید شاہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) والے اس بھول میں بھی نہ رہیں کہ وہ 3 نومبر والے معاملے سے بات شروع کریں گے اور ان کے وزیر زاہدحامد وغیرہ وعدہ معاف گواہ بن کر اپنا پلو چھڑا لیں گے تو اب کی بار یہ بھی ممکن نہیں، آج اگر کوئی وعدہ معاف بننے کی سوچ رکھتا ہے تو آج میڈیا بہت مضبوط ہو چکا ہے اپنے قومی میڈیا کو تو آپ ادھر ادھر سے دبائو ڈال کر روک لیں گے مگر بی بی سی، سی این این اور اے ایف پی سمیت بین الاقوامی میڈیا کو کون چپ کرائے گا اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ مشرف کے حوالے سے بھی جو بھی ان کے ذہن میں ہے کھل کے سامنے کہیں جو کرنا ہے ڈنکے کی چوٹ پر کریں جو نہیں کر سکتے اس کا بھی پوری ایمانداری سے برملا اظہار کریں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سرتاج عزیز کے منہ سے یہ انکشاف سن کر حیرانی ہوئی کہ امریکہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوگا ، حالانکہ آج بھی اور اس سے پہلے بھی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہم سے ملتے رہے مگر انہوں نے کسی ایسی یقین دہانی کا ذکر نہ کیا۔خورشید شاہ نے کہا کہ ہم سیاسی طور پر فکر مند ہیں کہ طالبان سے مذاکرات اور امریکا کے ساتھ رابطوں میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے دو چینل کیسے کھل گئے، میری دانست میں حکومت کو معاملات کی نزاکت اور ان کی گہرائی کا صحیح طور پر اندازہ ہی نہیں۔
Load Next Story