بدلتی سیاسی حکمت عملیتین اپوزیشن پارٹیوں کی انرجی قرارداد کی حمایت
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تینوں سیاسی جماعتوں نے ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘والی پالیسی اپنائی ہے۔
چھ بڑی سیاسی جماعتوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بلائی جانے والے انرجی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان اس بنیاد پر کیا تھا کہ مذکورہ کانفرنس بلانا بے سود ہے۔
اس کانفرنس کے نتیجے میں انھیں اس صدر اور وزیراعظم سے ایک مرتبہ پھر جاکر صوبہ کے مسائل کے لیے التجائیں کرنا پڑیں گی۔جنہوں نے چار ،ساڑھے چار سالوں میں صوبہ کے وہ مسائل حل نہیں کیے جن کے لیے صوبائی حکومت اور یہ سیاسی جماعتیں کوششیں کرتی رہی ہیں۔
تاہم جب اسی انرجی کانفرنس کی سفارشات قرارداد کی صورت میں صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئیں تو مذکورہ چھ میں سے تین بائیکاٹ کرنے والی پارلیمانی پارٹیوں نے اس قرارداد کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ایسی صورت میں بھی قرارداد پاس کرنے کی مخالفت نہیں کی کہ جب ایوان میں کورم ہی پورا نہیں تھا اور کورم کی ایک نشاندہی اجلاس کے خاتمے کا سبب بن سکتی تھی۔
جمعیت علماء اسلام(ف)،مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی شیر پائو نے انرجی کانفرنس کی سفارشات کو قرارداد کی صورت میں متفقہ پاس کرتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ کانفرنس کا بائیکاٹ ان کی سیاسی غلطی تھی اور وہ قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے ایک اور سیاسی غلطی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بہرکیف قرارداد کا مقصد صوبہ کی بجلی کا کنٹرول صوبہ کے حوالے کرنا ہے اور یہ ایسا نقطہ ہے کہ جس پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق پایاجاتا ہے اور اگر اس قرارداد کی مخالفت کی جاتی تو ان سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتوں نے ''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے''والی پالیسی اپنائی ہے ،ان جماعتوں نے اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی انرجی کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہیں اور وہ ایسی کسی بھی گیم کا حصہ نہیں بنیں گی جو پیپلز پارٹی یا اس کی اتحادی جماعتیں کھیلنا چاہیں گی۔
تاہم ان جماعتوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بجلی کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اس حوالے سے پورے صوبہ میں یہ احساس پایاجاتا ہے کہ چونکہ صوبہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کررہا ہے اوروہ بھی سستی بجلی اس لیے اس بجلی پر پہلا حق بھی صوبہ کا ہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے بکھرے ہوئے ہونے کا اندازہ تو اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے پورے دور میں اپوزیشن جماعتیں مل کر اسمبلی کا ایک اجلاس تک ریکوزٹ نہیں کرسکیں کیونکہ ان کا آپس میں اس پر اتفاق ہی نہیں ہوسکا ۔
جسے خود اپوزیشن ارکان ''شخصیات کا ٹکرائو''کا شاخسانہ قراردیتے ہیں اور یہی شخصیات کا ٹکرائو اور آئندہ انتخابات کے لیے صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کی پالیسی کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز بھی نہیں کرسکیں جبکہ اپوزیشن ارکان کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے اے این پی اور پیپلز پارٹی کی جنرل نشستوں پر کامیاب ارکان کو تعمیر خیبرپختونخواہ پروگرام کے علاوہ وزیراعلیٰ نے اپنے سپیشل فنڈ سے بھی چار ،چار کروڑ روپے کے فنڈز دیئے ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان اس خصوصی عنایت سے محروم ہیں ۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی صدارت کی تبدیلی کے حوالے سے معاملات آگے بڑھے ہیں اور صدارت کے امیدوار انور سیف اللہ کی پی پی پی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ایک نہیں دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں جن میں سے ایک ملاقات کو انتہائی خفیہ بتایاجارہا ہے۔
جس کا مقصد انور سیف اللہ کے ساتھ شریک ملاقات دوسری شخصیت ہے تاہم ان ملاقاتوں کے باوجود انور سیف اللہ فوری طور پر پیپلز پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے شریک چیئرمین سے صوبہ میں پارٹی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے جس کا چوتھائی حصہ انھیں مشاورت کے لیے دے دیا گیا ہے تاہم انور سیف اللہ کو ایک مرتبہ پھر اے این پی کی مخالفت کا سامنا بھی ہے۔
اے این پی اپنے طور پر انور سیف اللہ کی مخالفت کررہی ہے تاہم اس مرتبہ مخالفت اس انداز میں کھل کر نہیں جس طریقہ سے گزشتہ بار کی گئی تھی کیونکہ اب کی بار پی پی پی کے اندر بھی دھڑے بندیاں ہیں اور کچھ دھڑے اگر انور سیف اللہ کے حق میں ہیں تو کچھ مخالف بھی ہیں اس لیے اے این پی نے اپنے حصہ کا بقیہ کام پی پی پی کے انور سیف اللہ مخالف دھڑوں پر چھوڑ دیا ہے۔
اس لیے پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالنے سے قبل انور سیف اللہ کو بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا اور اگر وہ یہ رکاوٹیں عبور کرگئے تو پارٹی صدارت سنبھالنے میں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سردارعلی خان کے مزید صدارت سنبھالے رکھنے سے انکار اور دوسرا موزوں امیدوار نہ ہونے کے باعث صوبائی صدارت ایک مرتبہ پھر پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور موجودہ سینئر وزیر رحیم داد خان ہی کے حوالے کردی جائے کیونکہ بہر کیف وہ ایک اچھے آپشن کے طور پر میدان میں موجود ہیں ۔
اس کانفرنس کے نتیجے میں انھیں اس صدر اور وزیراعظم سے ایک مرتبہ پھر جاکر صوبہ کے مسائل کے لیے التجائیں کرنا پڑیں گی۔جنہوں نے چار ،ساڑھے چار سالوں میں صوبہ کے وہ مسائل حل نہیں کیے جن کے لیے صوبائی حکومت اور یہ سیاسی جماعتیں کوششیں کرتی رہی ہیں۔
تاہم جب اسی انرجی کانفرنس کی سفارشات قرارداد کی صورت میں صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئیں تو مذکورہ چھ میں سے تین بائیکاٹ کرنے والی پارلیمانی پارٹیوں نے اس قرارداد کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ایسی صورت میں بھی قرارداد پاس کرنے کی مخالفت نہیں کی کہ جب ایوان میں کورم ہی پورا نہیں تھا اور کورم کی ایک نشاندہی اجلاس کے خاتمے کا سبب بن سکتی تھی۔
جمعیت علماء اسلام(ف)،مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی شیر پائو نے انرجی کانفرنس کی سفارشات کو قرارداد کی صورت میں متفقہ پاس کرتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ کانفرنس کا بائیکاٹ ان کی سیاسی غلطی تھی اور وہ قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے ایک اور سیاسی غلطی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بہرکیف قرارداد کا مقصد صوبہ کی بجلی کا کنٹرول صوبہ کے حوالے کرنا ہے اور یہ ایسا نقطہ ہے کہ جس پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق پایاجاتا ہے اور اگر اس قرارداد کی مخالفت کی جاتی تو ان سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتوں نے ''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے''والی پالیسی اپنائی ہے ،ان جماعتوں نے اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی انرجی کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہیں اور وہ ایسی کسی بھی گیم کا حصہ نہیں بنیں گی جو پیپلز پارٹی یا اس کی اتحادی جماعتیں کھیلنا چاہیں گی۔
تاہم ان جماعتوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بجلی کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اس حوالے سے پورے صوبہ میں یہ احساس پایاجاتا ہے کہ چونکہ صوبہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کررہا ہے اوروہ بھی سستی بجلی اس لیے اس بجلی پر پہلا حق بھی صوبہ کا ہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے بکھرے ہوئے ہونے کا اندازہ تو اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے پورے دور میں اپوزیشن جماعتیں مل کر اسمبلی کا ایک اجلاس تک ریکوزٹ نہیں کرسکیں کیونکہ ان کا آپس میں اس پر اتفاق ہی نہیں ہوسکا ۔
جسے خود اپوزیشن ارکان ''شخصیات کا ٹکرائو''کا شاخسانہ قراردیتے ہیں اور یہی شخصیات کا ٹکرائو اور آئندہ انتخابات کے لیے صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کی پالیسی کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز بھی نہیں کرسکیں جبکہ اپوزیشن ارکان کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے اے این پی اور پیپلز پارٹی کی جنرل نشستوں پر کامیاب ارکان کو تعمیر خیبرپختونخواہ پروگرام کے علاوہ وزیراعلیٰ نے اپنے سپیشل فنڈ سے بھی چار ،چار کروڑ روپے کے فنڈز دیئے ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان اس خصوصی عنایت سے محروم ہیں ۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی صدارت کی تبدیلی کے حوالے سے معاملات آگے بڑھے ہیں اور صدارت کے امیدوار انور سیف اللہ کی پی پی پی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ایک نہیں دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں جن میں سے ایک ملاقات کو انتہائی خفیہ بتایاجارہا ہے۔
جس کا مقصد انور سیف اللہ کے ساتھ شریک ملاقات دوسری شخصیت ہے تاہم ان ملاقاتوں کے باوجود انور سیف اللہ فوری طور پر پیپلز پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے شریک چیئرمین سے صوبہ میں پارٹی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے جس کا چوتھائی حصہ انھیں مشاورت کے لیے دے دیا گیا ہے تاہم انور سیف اللہ کو ایک مرتبہ پھر اے این پی کی مخالفت کا سامنا بھی ہے۔
اے این پی اپنے طور پر انور سیف اللہ کی مخالفت کررہی ہے تاہم اس مرتبہ مخالفت اس انداز میں کھل کر نہیں جس طریقہ سے گزشتہ بار کی گئی تھی کیونکہ اب کی بار پی پی پی کے اندر بھی دھڑے بندیاں ہیں اور کچھ دھڑے اگر انور سیف اللہ کے حق میں ہیں تو کچھ مخالف بھی ہیں اس لیے اے این پی نے اپنے حصہ کا بقیہ کام پی پی پی کے انور سیف اللہ مخالف دھڑوں پر چھوڑ دیا ہے۔
اس لیے پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالنے سے قبل انور سیف اللہ کو بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا اور اگر وہ یہ رکاوٹیں عبور کرگئے تو پارٹی صدارت سنبھالنے میں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سردارعلی خان کے مزید صدارت سنبھالے رکھنے سے انکار اور دوسرا موزوں امیدوار نہ ہونے کے باعث صوبائی صدارت ایک مرتبہ پھر پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور موجودہ سینئر وزیر رحیم داد خان ہی کے حوالے کردی جائے کیونکہ بہر کیف وہ ایک اچھے آپشن کے طور پر میدان میں موجود ہیں ۔