ہارن بجائو بجاتے جائو

بلا وجہ اور غیر ضروری ہارن بجائے چلے جانے والے ڈرائیورز اور موٹر مالکان کو احساس تک نہیں۔

h.sethi@hotmail.com

اپنے بچپن میں ہم لوگ بزرگوں کی محفل میں کچھ دیر بیٹھ جاتے تو اکثر ان سے یہ ذکر سنتے کہ ''دند گئے سواد گیا، کن گئے ایمان گیا، اکھاں گیئاں جہان گیا ''۔

بڑے ہو گئے تو اوروں سے بھی سنا تو سمجھ آئی کہ دانت خراب ہو کر ٹوٹ جائیں تو کھانا کھانے کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ سماعت چلی جائے تو ساتھ بیٹھے لوگوں کی گفتگو سمجھ نہیں آتی۔ دوسرے ہنسیں اور قہقہے لگا رہے ہوں تو بہرے دوست کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اس پر ہنس رہے ہیں جب کہ بینائی سے محروم دوست کے لیے تو گویا دنیا ہی ختم ہو گئی ہوتی ہے۔ دانت کان اور آنکھیں ہی نہیں خدا کی اور بھی ایسی نعمتیں ہیں جن کا شمار ہی نہیں ہو سکتا البتہ مذکورہ تین میں سے ایک حس سماعت ایسی ہے جس کی حفاظت ہم پاکستانی بہت کم کرتے ہیں۔

مقامِ حیرت کہ بلا وجہ اور غیر ضروری ہارن بجائے چلے جانے والے ڈرائیورز اور موٹر مالکان کو احساس تک نہیں کہ شور سیدھا خود ان کی اور اردگرد لوگوں کی حس سماعت پر کس قدر منفی اور نقصان دہ اثرات چھوڑتا اور ہر کسی کو پانچ یا پچاس فیصد بہرے پن کا شکار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کے نزدیک حس ِ سماعت میں کمی اہمیت ہی نہیں رکھتی تا آنکہ انھیں آلہ سماعت کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ ہمارے ایک دوست کا تو کہنا ہے کہ پاکستان میں تمام موٹروں کے ہارن قانوناً اتروا دینے چاہئیں اور صرف پرانے دور کے ربر والے بھونپو لگانے اور بجانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

یہاں مجھے اچانک دو بندوں کی یاد نے ذہن پر دستک دے دی ہے۔ ایک اپنی سرکاری کار کے ڈرائیور نے اور دوسرے لندن سے آئے دوست نے۔ میرے اس ڈرائیور کو موٹر کا ہارن بجانے کی بیحد بری عادت تھی کوئی منٹ خالی نہ جاتا کہ وہ ہارن نہ بجاتا۔ اکثر وہ بلاضرورت یہ حرکت کرتا۔ میں اسے ٹوکتا اور سمجھاتا لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ ایک دن اس نے صبح دفتر روانہ ہونے کے لیے موٹر صاف کرنے کے بعد گاڑی کا منہ باہر کی طرف کیا تو میں نے اسے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کا کہا اور اسٹیئرنگ سنبھال کر کہا ''آیندہ دفتر روانگی اور واپسی کے لیے دس روز تک میں کار چلائوں گا ''۔

وہ خاموشی سے پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ دس دن بعد میں نے سٹیئرنگ اس کے سپرد کیا تو اس نے کہا ''سر آپ نے تو ان دس دنوں میں ایک بار بھی ہار ن نہیں بجایا''۔ وہ اب ڈرائیونگ کرتا لیکن ہارن بجائے بغیر کچھ روز بعد روانہ ہوا تو کہنے لگا '' سر اگر کوئی دوسرا بلاوجہ ہارن بجاتا ہے تو مجھے بہت بُرا لگتا ہے۔''


لندن سے آئے دوست کے جواب سے یاد آیا کہ ایک صاحب جنھوں نے دنیا گھومی ہے بتاتے ہیں کہ سڑک کی ٹریفک کے حوالے سے ڈرائیونگ میں اصول قانون ضابطے کی پابندی کرنے والے ممالک میں دیگر حالات و معاملات میں بھی ڈسپلن اور اصول قانون پر بہتر عمل درآمد ہوتا ہے جس کا اثر ان کی آیندہ نسلوں پر مثبت ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں قائد اعظم کے دیے یونیٹی فیتھ ڈسپلن سے مکمل پرہیز دیکھنے میں آتا ہے۔

ہمارے اس دوست کا دعویٰ ہے کہ اگر صرف ٹریفک کے اصولوں پر سو فیصد عمل درآمد ہو جائے تو ہر شخص کی سوچ میں راستی اور عمل میں بہتری آ سکتی ہے۔ آواز اور اس کی سماعت پر غور کریں تو اس نعمت کا شکر ادا کرتے وقت اس کے بیشمار پہلو غور طلب ہو جاتے ہیں ۔ سب سے پہلے تلاوت کلام پاک پھر حمدیہ اشعار اور اس کے بعد نعت ِ رسول اکثر لوگ تو ان تین شعبوں میں ادائیگی سے آگے نہیں نکلتے اور اپنے موبائیل فونوں ہی پر ان خوش الحانوں کی آوازیںسن کر ثواب کمانے میں مشغول رہتے ہیں۔ آواز اور سماعت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

خدا نے انسان کو تحقیق و تجربات کی جو خوبی و صلاحیت دی ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے بیشمار مختلف آلات ِ موسیقی ایجاد کیے ہیں لیکن ان متنوع آوازیں پیدا کرنے والے Instruments کا تعلق سماعت کی حس کے بغیر بے معنی ہے پھر ان آلات ِ موسیقی کو سمجھنے، سیکھنے اور استعال کرنے میں مہارت کے بغیر بھی یہ آلات محض لوہے لکڑی کے اور مشینی پرُزے ہیں۔ المختصر حس ِ سماعت کے بغیر نہ کوئی آواز معنی رکھتی ہے نہ مہارت سے تیار کیا ہوا کوئی آلہ یعنیInstrument ۔ ہم تو حس ِ سماعت سے یعنی سُن کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ کوئی پرندہ ہے، چوپایہ ہے یا انسان اور پھر کوئی اپنا ہے یا غیر ہے۔

سماعت کی حس نے بیشمار انسانوں کو خوشی اور سکون فراہم کیا ہے اور یہ آلات ِ صوت اور خوش الحانی کا عطیہ ہے ۔ اس کے علاوہ Conversation اور پیغام رسانی اس سماعت کی حس کی مرہون ِ منت ہے۔ جن تین عطیوں یعنی بصیرت اور کھانے اور خوراک چبانے والے دانتوں اور کانوں کا ذکر ہوا ، پہلے دو کے بارے میں ہمارے ملک کے لوگ ان میں نقص پڑے تو فوری توجہ دیتے اور علاج کرواتے ہیں لیکن سڑکوں، بازاروں کے شور شرابے سے متاثر ہونے والی حسِ سماعت پر بہت کم توجہ دیتے اور اکثر لوگ تو غفلت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ Noise Polution میں دو یا چار پہیوں والی گاڑی چلانے والے اپنا حصہ جی بھر کر ڈالتے اور دوسروں ہی کو نہیں خود کو بھی بہرے پن کا بتدریج شکار کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی دو حسوں میں کمی یا خرابی کا جلد پتہ چل جاتا ہے لیکن سماعت میں کمی یا خرابی کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور قابل ِ توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ دیکھ لیجیے کہ آنکھوں اور دانتوں کے ڈاکٹروں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور علاج مہنگا ہے لیکن ENT کے ڈاکٹر بھی کم ہیں اور کانوں کی بیماری پر مریض بھی کم توجہ دیتے ہیں تاآنکہ وہ کافی اونچا سننے لگیں۔ جن علاقوں اور ممالک میں ٹریفک ڈسپلن بہتر ہوتا ہے غور کر لیجیے وہ ممالک زیادہ ترقی یافتہ اور اصول، قانون کے پابند پائے جاتے ہیں۔
Load Next Story