نثار عزیز بٹ سفر تمام ہوا دوسرا حصہ
آج سے تقریباََ تین سال قبل میں نے اس الماری سے قرۃ العین حیدرکی ’’کار جہاں درازہے‘‘ نکال کر بہت غور سے دوبارہ پڑھی۔
یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ اردوکے قد آور ادیب رخصت ہوں تو یہ انگریزی کے اخبار ہیں، جو ان کا تفصیلی تعزیت نامہ دوسرے دن ہی شایع کر دیتے ہیں۔ نثار عزیز بٹ کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔
سب سے پہلے ہمارے معروف ادیب عامر حسین جو لندن میں مقیم ہیں، نثار عزیز کے بارے میں ان کا ایک مضمون شایع ہوا۔ اس میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بہت دنوں تک ان کے کام سے واقف نہ تھے۔ وہ لندن میں رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً کراچی آتے رہتے ہیں۔ وہ پُر لطف انداز میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کا پہلا ناول ''نگری نگری پھرا مسافر'' 1955میں شایع ہوا جب نثارکی شادی ہوئی اور خود عامر حسین اس دنیا میں وارد ہوئے۔ وہ ان کے ناول کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے اس ناول کو پڑھتے ہوئے عامر حسین تھامس مان کے ناول '' جادوئی پہاڑ '' کو یاد کرتے ہیں۔
اس ناول میں نثار عزیز ہمیں وجودیت اور پوسٹ ماڈرن ازم کے دھاروں میں تیرتی نظر آتی ہیں۔ عامر حسین نے یہ مضمون ان کی رخصت سے کئی برس پہلے لکھا تھا جو دوبارہ شایع ہوا۔
ان کے ساتھ اسلام آباد میں ایک تقریب ملاقات دھوم دھام سے ہوئی ، جس میں ان کے عزیز اور چھوٹے بھائی سر تاج عزیز بھی موجود تھے، کشور ناہید ، نجیبہ عارف ، احمد سلیم ، حمیرا اشتیاق اور بہت سے دوسروں نے انھیں کس قدر محبت سے یاد کیا۔ ان کی زندگی کی شام ہو چکی تھی لیکن یہ بھی غنیمت تھا کہ انھیں یاد کیا گیا۔ وہ ہماری اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں لیکن سیاسی حوالے سے وہ باغی اور دو ٹوک بات کہنے والی انسان تھیں۔ ان کے بارے میں ایک کالم ہمارے تیکھے لکھاری نصرت جاوید نے لکھا ہے جو ان کی رخصت کے فوراً بعد شایع ہوا وہ لکھتے ہیں کہ:
آج سے تقریباََ تین سال قبل میں نے اس الماری سے قرۃ العین حیدرکی ''کار جہاں درازہے'' نکال کر بہت غور سے دوبارہ پڑھی۔ اس کتاب میں نثار عزیز بٹ کا ذکر انھوں نے کئی مقامات پر بہت احترام اور پیار سے کیا ہے۔ میں قرۃ العین حیدرکے شدید متاثرین میں سے ایک ہوں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ٹھان لی کہ ''گئے دنوں کا سراغ '' بھی ہر صورت پڑھنی چاہیے۔اسے پڑھنا شروع کیا تو حیران و مسحور ہو گیا۔ شدید دْکھ اور احساسِ جرم ہوا کہ میں نے یہ کتاب 2005میں اس وقت کیوں نہیں پڑھی جب میری مرحومہ ساس نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔ ''گئے دنوں کا سراغ '' محض آپ بیتی نہیں ہے۔
محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ نے اس کے صفحوں پر مردان ، ہری پور، ایبٹ آباد، رزمک ، نوشہرہ اور پشاور جیسے شہروں کو دستاویزی فلموں کے ماہرین کی طرح سمیٹ لیا ہے۔ یہ تمام شہر اجتماعی پختون ثقافت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی '' گئے دنوں کا سراغ '' کی بدولت اپنے جغرافیائی ماحول کے علاوہ وہاں کی مخصوص ثقافت کی بنا پر انفرادی اکائیوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ ان شہروں کے فطری لینڈ اسکیپ کو اجاگر کرتے ہوئے وہ بتدریج چند کرداروں پر فوکس کرتے ہوئے انسانی رویوں اور اقدار کو عیاں کر دیتی ہیں۔ ان رویوں اور اقدار کا تذکرہ ''ماضی پرستی'' نہیں ہے۔
بے تحاشہ نفیس انسانوں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے کردار بھی '' گئے دنوں کا سراغ '' میں موجود ہیں جن کے دل دھڑکتے نہیں پتھرکے بنے محسوس ہوتے ہیں۔ پختون معاشرے کو انتہائی ''قدامت پرست'' شمار کیا جاتا ہے۔ پختون عورت کا ذکر کم از کم اْردو ادب میں تو نظر ہی نہیں آتا۔ ''گئے دنوں کا سراغ'' میں لیکن حقیقی زندگی سے اٹھائے اور نمایاں کیے جانے والے بے پناہ ایسے نسوانی کردار ہیں جنھوں نے بہت استقامت سے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ یوں کرتے ہوئے ''انقلابی'' ہونے کا ڈھونگ بھی نہیں رچایا۔
قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل پختون شہروں اور دیہاتوں میں ایسے نسوانی کرداروں کو ڈھول تاشے بجائے بغیر سادہ زبان کے بہائو میں بیان کر دینے کا ہنر فقط نثار عزیز بٹ کو نصیب ہوا تھا۔ بذاتِ خود ایک روایت پسند گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور آئیں۔ ریاضی ان کا مضمون رہا۔ عموماََ یہ ''خشک'' علم محض مردوں کے لیے مختص شمار ہوتا ہے۔ اس ''خشک '' مضمون سے وابستگی کے باوجود انھوں نے داستان گوئی کے ہنر پر بھی کمال مہارت حاصل کی۔ ان کی ذاتی زندگی میں خوشیوں کے ساتھ بے پناہ دْکھ بھی آئے۔
وقت کی سنگ دلی کو مگر وہ زندگی کا لازمی حصہ تصور کرتے ہوئے ہمت ہارے بغیر یوں بیان کرتی رہیں جیسے بْرا وقت ان کی اپنی ذات پر نہیں کسی اور پر آیا ہو۔ اپنی ذات پر آنے والے بُرے اور اچھے وقت کو جذبات سے قطعی ہٹ کر ایک ناظر کی طرح روزمرہ حقائق کی صورت بیان کر دینے کی صلاحیت بہت کم ادیبوں کو عطا ہوتی ہے۔ ہمارے لکھاریوں میں محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ اس ضمن میں تقریبا یکتا تھیں۔ ''گئے دنوں کا سراغ'' پڑھتے ہوئے لاطینی امریکا کا گبرائیل مارسیا مارکوئز بھی بہت یاد آیا۔ اس آپ بیتی کی پْر اسراریت اور انفرادی تشخص کے حامل نسوانی کردار مارکوئز کے Magical Realism کی یاد دلاتے ہیں اور بہت سے مقامات ورجینا وولف کی Stream of Consciousness والے بہائو میں بھی لے جاتے ہیں۔
نصرت جاوید کی عنایت ہے کہ انھوںنے بہت سیدھے سبھائو اور کھرے لفظوں میں ان کے بارے میں لکھا ہے۔ نثار عزیز بٹ ہمارے بڑے لکھنے والوں میں سے آخری تھیں جو فنا کی نائو میں بیٹھ کر چل دیں۔ انھوں نے مڑ کر کسی طرف نہیں دیکھا۔ وہ اب اس جہان سے چلی گئی ہیں۔ وہاں منکر نکیر ہوں یا نہ ہوں۔ قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور اور ممتاز شیریں ضرور ہوں گی۔ ان سے مل کر وہ کچھ جھڑکیاں انھیں بھجوا دیں گی جنھیں ہم ''کرو بیاں'' کہتے ہیں۔ ان کا بنیادی سوال یہ ہو گا کہ ارے میاں آپ لوگوں نے کیا اندھیرگردی مچائی ہے۔ وہ یہ بھی پوچھیں گی کہ کیا یہاں بھی ویزا پاسپورٹ کا جنجال ہو گا اور ہم ایک دوسرے کے لیے بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپیں گے۔
لاہور میں ہونے والی آخری ملاقات میں انھوں نے اپنی ''زنبیل'' مجھے عنایت کی۔ اس میں متفرق مضامین اور خاکے تھے لیکن اصل اصرار قرۃ العین حیدرکی یادوں پر تھا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی قرۃ العین حیدر کی قتیل تھیں۔ جسے دو ہم عصر ادیبوں کا ایک دوسرے سے تعلق خاطر دیکھنا ہو، وہ اسے ضرور پڑھے۔
ان کے ناول کی فضا میں ملال اور رومان کی آمیزش ہے۔ ''نگری نگری پھرا مسافر'' میں وہ غلام کے جذبات کا اظہار یوں کرتی رہیں کہ ''مجھ غلام کا کوئی خدا نہیں۔ یہ زمین کانٹوں سے بھر پور ایک وسیع جنگل ہے۔ جس میں خونخوار درندے بستے ہیں۔ رحم کا نام و نشان نہیں ہے۔ تمام پھولوں اور پھلوں میں زہر ملا ہوا ہے۔ سورج مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔ رات دن کی نسبت کچھ رحم دل معلوم ہوتی ہے۔ میری مزدوری یہی ہے کہ دن بھر محنت کروں، اوروں کو امیر بنائوں لیکن میرے بال بچوں کو پیٹ بھر کر روٹی نہ ملے، کپڑے نہ ملیں، خوشی کی زندگی مجھ سے کوسوں دور رہے۔ میں محنت کروں... پودے لگائوں... پانی دے کر ان کو بڑا کروں۔ دوسرے پھل کھائیں... سائے میں آرام کوئی اور کرے۔ دوزخ یہی ہے... میری دوزخ یہی ہے ... میرا خدا نہیں۔
اور اس کا اختتام اس سوال پر کرتی ہیں کہ انسان جسے کسی کل چین نہیں، اپنے کمال کی جستجو میں کہیں اپنی فنا کا سامان تو نہیں کر رہا۔
ان کے ناول میں پختون روایات اور کردار ہیں۔ دوسرے ناول ''نے چراغ ، نے گلے'' میں مسلمان اور ہندو ہیں جن میں گہری دوست داری ہے۔ گھر کے مرد اور ہم عمر لڑکیاں بھی تعلق خاطر کے جھولے میں جھول رہی ہیں۔ نثار دریائے جہلم کے سینے پر تیرتے ہوئے شکاروں کا نقشہ کھینچتے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ ''اس بوٹ کے عقبی حصے میں مردان کے گھر جیسی فضا ہے۔ ان کے ناولوں میں مسلمان اور ہندو دونوں کردار ہیں۔ آج اس فضا کو ڈھونڈیے تو وہ کہیں نظر نہیں آتی۔
نثار دوسری جنگ عظیم کی گھن گرج میں بڑی ہوئیں۔ سیاست سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے دنیا کو جس نظر سے دیکھا، وہ بیان کر دیا۔ اس وقت ہمارے یہاں کشمیر بہت زیر بحث رہتا ہے، یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ قرۃ العین حیدر اور نثار عزیز نے اس کشمیر کو اپنے ناول اور سفر نامے میں بیان کیا ہے جو آج خاک و خون میں لپٹا ہوا ہے۔ (جاری ہے)
سب سے پہلے ہمارے معروف ادیب عامر حسین جو لندن میں مقیم ہیں، نثار عزیز کے بارے میں ان کا ایک مضمون شایع ہوا۔ اس میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بہت دنوں تک ان کے کام سے واقف نہ تھے۔ وہ لندن میں رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً کراچی آتے رہتے ہیں۔ وہ پُر لطف انداز میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کا پہلا ناول ''نگری نگری پھرا مسافر'' 1955میں شایع ہوا جب نثارکی شادی ہوئی اور خود عامر حسین اس دنیا میں وارد ہوئے۔ وہ ان کے ناول کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے اس ناول کو پڑھتے ہوئے عامر حسین تھامس مان کے ناول '' جادوئی پہاڑ '' کو یاد کرتے ہیں۔
اس ناول میں نثار عزیز ہمیں وجودیت اور پوسٹ ماڈرن ازم کے دھاروں میں تیرتی نظر آتی ہیں۔ عامر حسین نے یہ مضمون ان کی رخصت سے کئی برس پہلے لکھا تھا جو دوبارہ شایع ہوا۔
ان کے ساتھ اسلام آباد میں ایک تقریب ملاقات دھوم دھام سے ہوئی ، جس میں ان کے عزیز اور چھوٹے بھائی سر تاج عزیز بھی موجود تھے، کشور ناہید ، نجیبہ عارف ، احمد سلیم ، حمیرا اشتیاق اور بہت سے دوسروں نے انھیں کس قدر محبت سے یاد کیا۔ ان کی زندگی کی شام ہو چکی تھی لیکن یہ بھی غنیمت تھا کہ انھیں یاد کیا گیا۔ وہ ہماری اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں لیکن سیاسی حوالے سے وہ باغی اور دو ٹوک بات کہنے والی انسان تھیں۔ ان کے بارے میں ایک کالم ہمارے تیکھے لکھاری نصرت جاوید نے لکھا ہے جو ان کی رخصت کے فوراً بعد شایع ہوا وہ لکھتے ہیں کہ:
آج سے تقریباََ تین سال قبل میں نے اس الماری سے قرۃ العین حیدرکی ''کار جہاں درازہے'' نکال کر بہت غور سے دوبارہ پڑھی۔ اس کتاب میں نثار عزیز بٹ کا ذکر انھوں نے کئی مقامات پر بہت احترام اور پیار سے کیا ہے۔ میں قرۃ العین حیدرکے شدید متاثرین میں سے ایک ہوں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ٹھان لی کہ ''گئے دنوں کا سراغ '' بھی ہر صورت پڑھنی چاہیے۔اسے پڑھنا شروع کیا تو حیران و مسحور ہو گیا۔ شدید دْکھ اور احساسِ جرم ہوا کہ میں نے یہ کتاب 2005میں اس وقت کیوں نہیں پڑھی جب میری مرحومہ ساس نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔ ''گئے دنوں کا سراغ '' محض آپ بیتی نہیں ہے۔
محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ نے اس کے صفحوں پر مردان ، ہری پور، ایبٹ آباد، رزمک ، نوشہرہ اور پشاور جیسے شہروں کو دستاویزی فلموں کے ماہرین کی طرح سمیٹ لیا ہے۔ یہ تمام شہر اجتماعی پختون ثقافت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی '' گئے دنوں کا سراغ '' کی بدولت اپنے جغرافیائی ماحول کے علاوہ وہاں کی مخصوص ثقافت کی بنا پر انفرادی اکائیوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ ان شہروں کے فطری لینڈ اسکیپ کو اجاگر کرتے ہوئے وہ بتدریج چند کرداروں پر فوکس کرتے ہوئے انسانی رویوں اور اقدار کو عیاں کر دیتی ہیں۔ ان رویوں اور اقدار کا تذکرہ ''ماضی پرستی'' نہیں ہے۔
بے تحاشہ نفیس انسانوں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے کردار بھی '' گئے دنوں کا سراغ '' میں موجود ہیں جن کے دل دھڑکتے نہیں پتھرکے بنے محسوس ہوتے ہیں۔ پختون معاشرے کو انتہائی ''قدامت پرست'' شمار کیا جاتا ہے۔ پختون عورت کا ذکر کم از کم اْردو ادب میں تو نظر ہی نہیں آتا۔ ''گئے دنوں کا سراغ'' میں لیکن حقیقی زندگی سے اٹھائے اور نمایاں کیے جانے والے بے پناہ ایسے نسوانی کردار ہیں جنھوں نے بہت استقامت سے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ یوں کرتے ہوئے ''انقلابی'' ہونے کا ڈھونگ بھی نہیں رچایا۔
قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل پختون شہروں اور دیہاتوں میں ایسے نسوانی کرداروں کو ڈھول تاشے بجائے بغیر سادہ زبان کے بہائو میں بیان کر دینے کا ہنر فقط نثار عزیز بٹ کو نصیب ہوا تھا۔ بذاتِ خود ایک روایت پسند گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور آئیں۔ ریاضی ان کا مضمون رہا۔ عموماََ یہ ''خشک'' علم محض مردوں کے لیے مختص شمار ہوتا ہے۔ اس ''خشک '' مضمون سے وابستگی کے باوجود انھوں نے داستان گوئی کے ہنر پر بھی کمال مہارت حاصل کی۔ ان کی ذاتی زندگی میں خوشیوں کے ساتھ بے پناہ دْکھ بھی آئے۔
وقت کی سنگ دلی کو مگر وہ زندگی کا لازمی حصہ تصور کرتے ہوئے ہمت ہارے بغیر یوں بیان کرتی رہیں جیسے بْرا وقت ان کی اپنی ذات پر نہیں کسی اور پر آیا ہو۔ اپنی ذات پر آنے والے بُرے اور اچھے وقت کو جذبات سے قطعی ہٹ کر ایک ناظر کی طرح روزمرہ حقائق کی صورت بیان کر دینے کی صلاحیت بہت کم ادیبوں کو عطا ہوتی ہے۔ ہمارے لکھاریوں میں محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ اس ضمن میں تقریبا یکتا تھیں۔ ''گئے دنوں کا سراغ'' پڑھتے ہوئے لاطینی امریکا کا گبرائیل مارسیا مارکوئز بھی بہت یاد آیا۔ اس آپ بیتی کی پْر اسراریت اور انفرادی تشخص کے حامل نسوانی کردار مارکوئز کے Magical Realism کی یاد دلاتے ہیں اور بہت سے مقامات ورجینا وولف کی Stream of Consciousness والے بہائو میں بھی لے جاتے ہیں۔
نصرت جاوید کی عنایت ہے کہ انھوںنے بہت سیدھے سبھائو اور کھرے لفظوں میں ان کے بارے میں لکھا ہے۔ نثار عزیز بٹ ہمارے بڑے لکھنے والوں میں سے آخری تھیں جو فنا کی نائو میں بیٹھ کر چل دیں۔ انھوں نے مڑ کر کسی طرف نہیں دیکھا۔ وہ اب اس جہان سے چلی گئی ہیں۔ وہاں منکر نکیر ہوں یا نہ ہوں۔ قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور اور ممتاز شیریں ضرور ہوں گی۔ ان سے مل کر وہ کچھ جھڑکیاں انھیں بھجوا دیں گی جنھیں ہم ''کرو بیاں'' کہتے ہیں۔ ان کا بنیادی سوال یہ ہو گا کہ ارے میاں آپ لوگوں نے کیا اندھیرگردی مچائی ہے۔ وہ یہ بھی پوچھیں گی کہ کیا یہاں بھی ویزا پاسپورٹ کا جنجال ہو گا اور ہم ایک دوسرے کے لیے بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپیں گے۔
لاہور میں ہونے والی آخری ملاقات میں انھوں نے اپنی ''زنبیل'' مجھے عنایت کی۔ اس میں متفرق مضامین اور خاکے تھے لیکن اصل اصرار قرۃ العین حیدرکی یادوں پر تھا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی قرۃ العین حیدر کی قتیل تھیں۔ جسے دو ہم عصر ادیبوں کا ایک دوسرے سے تعلق خاطر دیکھنا ہو، وہ اسے ضرور پڑھے۔
ان کے ناول کی فضا میں ملال اور رومان کی آمیزش ہے۔ ''نگری نگری پھرا مسافر'' میں وہ غلام کے جذبات کا اظہار یوں کرتی رہیں کہ ''مجھ غلام کا کوئی خدا نہیں۔ یہ زمین کانٹوں سے بھر پور ایک وسیع جنگل ہے۔ جس میں خونخوار درندے بستے ہیں۔ رحم کا نام و نشان نہیں ہے۔ تمام پھولوں اور پھلوں میں زہر ملا ہوا ہے۔ سورج مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔ رات دن کی نسبت کچھ رحم دل معلوم ہوتی ہے۔ میری مزدوری یہی ہے کہ دن بھر محنت کروں، اوروں کو امیر بنائوں لیکن میرے بال بچوں کو پیٹ بھر کر روٹی نہ ملے، کپڑے نہ ملیں، خوشی کی زندگی مجھ سے کوسوں دور رہے۔ میں محنت کروں... پودے لگائوں... پانی دے کر ان کو بڑا کروں۔ دوسرے پھل کھائیں... سائے میں آرام کوئی اور کرے۔ دوزخ یہی ہے... میری دوزخ یہی ہے ... میرا خدا نہیں۔
اور اس کا اختتام اس سوال پر کرتی ہیں کہ انسان جسے کسی کل چین نہیں، اپنے کمال کی جستجو میں کہیں اپنی فنا کا سامان تو نہیں کر رہا۔
ان کے ناول میں پختون روایات اور کردار ہیں۔ دوسرے ناول ''نے چراغ ، نے گلے'' میں مسلمان اور ہندو ہیں جن میں گہری دوست داری ہے۔ گھر کے مرد اور ہم عمر لڑکیاں بھی تعلق خاطر کے جھولے میں جھول رہی ہیں۔ نثار دریائے جہلم کے سینے پر تیرتے ہوئے شکاروں کا نقشہ کھینچتے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ ''اس بوٹ کے عقبی حصے میں مردان کے گھر جیسی فضا ہے۔ ان کے ناولوں میں مسلمان اور ہندو دونوں کردار ہیں۔ آج اس فضا کو ڈھونڈیے تو وہ کہیں نظر نہیں آتی۔
نثار دوسری جنگ عظیم کی گھن گرج میں بڑی ہوئیں۔ سیاست سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے دنیا کو جس نظر سے دیکھا، وہ بیان کر دیا۔ اس وقت ہمارے یہاں کشمیر بہت زیر بحث رہتا ہے، یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ قرۃ العین حیدر اور نثار عزیز نے اس کشمیر کو اپنے ناول اور سفر نامے میں بیان کیا ہے جو آج خاک و خون میں لپٹا ہوا ہے۔ (جاری ہے)