لاکھڑا کول ڈیولپمنٹ کمپنی ملازمین کا مستقبل غیر یقینی کا شکار
کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ بند، سندھ حکومت نے کانوں کی لیز بھی منسوخ کر دی
لاکھڑا کول ڈیولپمنٹ کمپنی کو کوئلے کی کانیں لیز ( ٹھیکے) پر دینے کے معاملے پر حکومت سندھ اور وفاق کے مابین تنازع کی وجہ سے کمپنی کے ملازمین کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہوگیا ہے۔
ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ جانے کے علاوہ ٹھیکے کی منسوخی سے پاکستان کے پہلے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کو بھی نقصان پہنچا ہے جو اپنے شیئرہولڈرز کو بھاری ڈویڈنڈ دیتا رہا ہے۔ ایل سی ڈی سی کے 100 کے لگ بھگ ملازمین جن میں مائننگ انجنیئرز، مینیجرز، ماہرین اضیات اور انتظامی عملہ شامل ہے، بھاگ دوڑ کرکے اعلیٰ حکام سے اس کمپنی کو اور اپنی ملازمتیں بچانے کے لیے اپیل کرتے رہے ہیں مگر ان کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔
ایل سی ڈی سی میں کام کرنے والے ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی غفلت کی وجہ سے کمپنی کا پاور جنریٹنگ پلانٹ جولائی 2017 سے غیرفعال ہے۔ اب حکومت سندھ نے ہماری لیز منسوخ کردی ہے اور اپنی کمپنی قائم کی ہے جس کا مقصد کوئلے کو بجلی کی پیداوار کیلیے استعمال کرنے کے بجائے کھلی منڈی میں فروخت کرنا ہے۔
سینیئر اہلکار نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایل سی ڈی سی سرکار کی ملکیت ہے اس کے باوجود ہم نے ملازمین کو ایک ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ ہمارا دفتر ایک بنگلے میں ہے جس کا کرایہ بھی واجب الادا ہے۔ کچھ پتا نہیں کب مالک ہمیں جبراً بنگلے سے بے دخل کردے۔
یونین کے لیڈر نے ممتازکھوسو نے کہا کہ ایل سی ڈی سی کے ملازمین کو کوئلے نکالنے اور اسے لاکھڑا پاور پلانٹ کو فروخت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کھوسو نے کہا کہ ایل سی ڈی سی ، پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے جزو کے طور پر تشکیل دی گئی تھی جو کمپنی کے 50 فیصد حصص کی مالک ہے۔ باقی ماندہ حصص واپڈا اور سندھ حکومت کے پاس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ کول مافیا کارٹل کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے خلاف تھے اور بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر پلانٹ کی مناسب اوورہالنگ کی جاتی تو یہ فعال رہتا۔ واپڈا جس پلانٹ کو چلارہی تھی وہ بند ہوچکا ہے جب کہ کوئلے کی کانیں سندھ حکومت کی ملکیت ہیں۔
ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ جانے کے علاوہ ٹھیکے کی منسوخی سے پاکستان کے پہلے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کو بھی نقصان پہنچا ہے جو اپنے شیئرہولڈرز کو بھاری ڈویڈنڈ دیتا رہا ہے۔ ایل سی ڈی سی کے 100 کے لگ بھگ ملازمین جن میں مائننگ انجنیئرز، مینیجرز، ماہرین اضیات اور انتظامی عملہ شامل ہے، بھاگ دوڑ کرکے اعلیٰ حکام سے اس کمپنی کو اور اپنی ملازمتیں بچانے کے لیے اپیل کرتے رہے ہیں مگر ان کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔
ایل سی ڈی سی میں کام کرنے والے ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی غفلت کی وجہ سے کمپنی کا پاور جنریٹنگ پلانٹ جولائی 2017 سے غیرفعال ہے۔ اب حکومت سندھ نے ہماری لیز منسوخ کردی ہے اور اپنی کمپنی قائم کی ہے جس کا مقصد کوئلے کو بجلی کی پیداوار کیلیے استعمال کرنے کے بجائے کھلی منڈی میں فروخت کرنا ہے۔
سینیئر اہلکار نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایل سی ڈی سی سرکار کی ملکیت ہے اس کے باوجود ہم نے ملازمین کو ایک ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ ہمارا دفتر ایک بنگلے میں ہے جس کا کرایہ بھی واجب الادا ہے۔ کچھ پتا نہیں کب مالک ہمیں جبراً بنگلے سے بے دخل کردے۔
یونین کے لیڈر نے ممتازکھوسو نے کہا کہ ایل سی ڈی سی کے ملازمین کو کوئلے نکالنے اور اسے لاکھڑا پاور پلانٹ کو فروخت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کھوسو نے کہا کہ ایل سی ڈی سی ، پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے جزو کے طور پر تشکیل دی گئی تھی جو کمپنی کے 50 فیصد حصص کی مالک ہے۔ باقی ماندہ حصص واپڈا اور سندھ حکومت کے پاس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ کول مافیا کارٹل کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے خلاف تھے اور بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر پلانٹ کی مناسب اوورہالنگ کی جاتی تو یہ فعال رہتا۔ واپڈا جس پلانٹ کو چلارہی تھی وہ بند ہوچکا ہے جب کہ کوئلے کی کانیں سندھ حکومت کی ملکیت ہیں۔