پاکستان میں انٹرنیشنل کھیلوں کی بہار
بنگلادیش اور ایم سی سی کی آمد،پی ایس ایل کے لیے اسٹیج تیار۔
کھیل کسی بھی ملک میں تحرک کی علامت اور کھلاڑی معاشرے کی رگوں میں دوڑتے لہو کی مانند ہوتے ہیں، کھلاڑی اس عزم کے ساتھ ملکی سطح کے مقابلوں کے لیے میدان میں اترتے ہیں کہ ایک دن انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کا اعزاز حاصل کریں گے، اگر کوئی اس منزل کو حاصل کرلے تو اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ہوم کراؤڈ کے سامنے ایکشن میں نظر آئے۔
پاکستان میں کھیل کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہے، اس کے باوجود کھلاڑی مختلف عالمی سپورٹس خاص طور پر کرکٹ میں اپنے وجود کا احساس بھی دلاتے رہے ہیں، بدقسمتی سے سری لنکن ٹیم پر مارچ 2009 میں ہونے والے حملہ کے بعد نوجوان نسل کو اپنے اسپورٹس ہیروز کو پاکستان میں ایکشن میں دیکھنے کا موقع نہیں ملا،کسی بھی ملک میں ایسی صورتحال کھیلوں کے مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، انٹرنیشنل ایونٹس کا قحط ہونے سے نوجوانوں میں ترغیب کم ہوتی ہے، پاکستان کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال سکیورٹی اداروں کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور ملک میں امن او امان کی صورتحال بہتر ہونے سے کھیلوں کے میدان بھی آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں، پی ایس ایل میچز اور ورلڈ الیون کی آمد کے بعد سب سے بڑی اور اہم پیش رفت سری لنکا کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی واحد میچ کے لیے آمد تھی، آئی لینڈرز پر حملہ کی وجہ سے ہی ملک کھیلوں کے میدان ویران ہوئے تھے، انہوں نے پاکستان کی سیکیورٹی پر اعتماد کا اظہار کیا تو دنیا کو ایک مثبت پیغام گیا، ویسٹ انڈیز اور اس کے بعد سری لکن ٹیم کی محدود اوورز کی کرکٹ اور پھر ٹیسٹ میچز کے لیے بھی آمد نے خدشات مزید کم کئے۔
بنگلہ دیشی ٹیم نے پہلے لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز اور اس کے بعد راولپنڈی میں ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، بنگال ٹائیگرز کو اب اپریل میں دوبارہ کراچی کا رخ کرنا ہے، دوسری طرف رواں ماہ لاہور میں کبڈی ورلڈکپ کا آغاز ہوا، عوام نے روایتی ثقافتی کھیل کا بھرپور لطف اٹھایا، اچھی بات یہ ہے کہ مقابلہ صرف لاہور میں ہی نہیں ہوئے بلکہ فیصل آباد اور گجرات میں پول میچز کے بعد میلہ ایک بار پھر لاہور واپس لوٹ آیا ہے، سیمی فائنل ہوچکے، فیصلہ کن معرکے کے شائقین بے تابی کے ساتھ منتظر ہیں، انٹرنیشنل کھیلوں کی بہار دیکھتے ہوئے عوام میں ایک خوش کی لہر موجود ہے،پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔
دوسری جانب قذافی سٹیڈیم میں ایم سی سی اور لاہور قلندر کے میچ نے گوری ٹیموں کے اعتماد کی بحالی کا سفر تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا، سنگاکارا کی قیادت میں آنے والی مہمان ٹیم کی آمدورفت کے دوران بہترین سیکیورٹی انتظامات کئے گئے، قذافی اسٹیڈیم میں میچ فیملی میلہ بن گیا، داخلہ مفت ہونے کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی بہت بڑی تعداد دو گھنٹے قبل ہی سٹیڈیم کی طرف آنا شروع ہوگئی تھی، فرنچائز کی شرٹس بھی نمایاں نظر آئیں، سیکیورٹی اداروں نے بھی ابتدا میں شائقین کو چیک کرنے کے بعد سٹینڈز میں داخلے کی اجازت دی لیکن انٹرنیشنل میچز کی طرح اس بار راستوں میں واک تھرو گیٹ نصب نہیں تھے۔
اسٹیڈیم میچ کے چند اوورز گزرنے تک تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، ان میں فیملیز کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، بچوں نے خوب ہلہ گلہ بھی کیا اور تصاویر بنوائیں، تاہم حیران کن طور پر لاہور قلندرز کی اننگز ختم ہوتے ہی شائقین نے واپس جانا شروع کردیا، میچ ختم ہونے تک صرف 30 فیصد لوگ سٹینڈز میں باقی رہ گئے، شائقین نے بتایا کہ میچ بور لگ رہا ہے، اس لئے واپس جا رہے ہیں، لوگ کھانے پینے کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کئے جانے کے گلے شکوے بھی کرتے نظر آئے۔
دوسری جانب پہلی اننگز ختم ہونے کے بعد اسٹیڈیم کا رخ کرنے والے سینکڑوں شائقین کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، پہلے چیک پوائنٹ پر اندھیرے میں کھڑے سکیورٹی اہلکاروں نے کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی، سٹینڈز تک پہنچنے والوں کو بھی مایوس ہوکر واپس جانا پڑا،سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے خلاف انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کے ساتھ پی ایس ایل میچز کے دوران سیکورٹی کے جو انتظامات دیکھنے میں آئے تھے، اس کی بہ نسبت کبڈی ورلڈ کپ اور ایم سی سی کے میچ میں سیکورٹی اداروں کی نفری بہت کم نظر آئی،کرکٹ کے انٹرنیشنل مقابلوں کے دوران شائقین کو کم از کم 3 مقامات پر واک تھرو گیٹ سے گزارا جاتا تھا۔
ایم سی سی میچ کے موقع پر کسی ایک جگہ بھی ان کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، نشتر پارک کو آمدورفت کے لیے بند ضرور رکھا گیا، تاہم پہلے چیک پوائنٹ پر روشنی نہ ہونے کے برابر تھی، مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کو بھی رواں دواں رکھا گیا جو کہ اچھی بات ہے لیکن سکیورٹی کے معاملے میں ذرا سی تساہل پسندی بھی پاکستان کو کئی سال پیچھے لے جا سکتی ہے، پاکستان میں انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا، خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلسل مثبت پیش رفت ہو رہی ہے، سیکورٹی کے معاملات میں کسی طرح کی جھول انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے،کبڈی ورلڈکپ ہو یا ایم سی سی کسی بھی ایونٹ کے لیے سیکیورٹی کا معیار ایک جیسا ہونا چاہیے، عوام اور کاروباری مراکز کی مشکلات کا حل نکالنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ کھیلوں کے بڑے مراکز شہروں سے باہر منتقل کردیئے جائیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی حالات میں سٹیڈیمز کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہوگی لیکن اس کی داغ بیل تو ڈالی جاسکتی ہے،اس ضمن میں شاید دیگر سپورٹس فیڈریشنز تو آسانی سے کام نہ کرسکیں، وسائل کی کمی آڑے آئے گی لیکن پی سی بی سٹیڈیم تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سابق چیئرمین ذکاء اشرف کے دور میں اسلام آباد میں ایسا منصوبہ زیر غور بھی آیا تھا، سٹیڈیم کیساتھ ایک فائیو سٹار ہوٹل بھی بنائے جانے کی تجویز تھی، بوجوہ اس ضمن میں مزید پیش رفت نہیں ہوسکی، پنجاب کے وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے بھی گزشتہ دنوں نشتر پارک میں فائیو سٹار ہوٹل بنانے کی بات کی ہے، مناسب یہی ہوگا کہ نشتر پارک میں قائم سپورٹس مراکز کو کوچنگ سنٹرز میں تبدیل کرتے ہوئے انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے تیار کیا جائے، بیرون شہر کوئی سپورٹس سٹی بناکر انٹرنیشنل مقابلوں کا انعقاد کیا جائے،اس مقصد کے لیے نجی شعبے کی معاونت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں کھیل کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہے، اس کے باوجود کھلاڑی مختلف عالمی سپورٹس خاص طور پر کرکٹ میں اپنے وجود کا احساس بھی دلاتے رہے ہیں، بدقسمتی سے سری لنکن ٹیم پر مارچ 2009 میں ہونے والے حملہ کے بعد نوجوان نسل کو اپنے اسپورٹس ہیروز کو پاکستان میں ایکشن میں دیکھنے کا موقع نہیں ملا،کسی بھی ملک میں ایسی صورتحال کھیلوں کے مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، انٹرنیشنل ایونٹس کا قحط ہونے سے نوجوانوں میں ترغیب کم ہوتی ہے، پاکستان کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال سکیورٹی اداروں کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور ملک میں امن او امان کی صورتحال بہتر ہونے سے کھیلوں کے میدان بھی آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں، پی ایس ایل میچز اور ورلڈ الیون کی آمد کے بعد سب سے بڑی اور اہم پیش رفت سری لنکا کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی واحد میچ کے لیے آمد تھی، آئی لینڈرز پر حملہ کی وجہ سے ہی ملک کھیلوں کے میدان ویران ہوئے تھے، انہوں نے پاکستان کی سیکیورٹی پر اعتماد کا اظہار کیا تو دنیا کو ایک مثبت پیغام گیا، ویسٹ انڈیز اور اس کے بعد سری لکن ٹیم کی محدود اوورز کی کرکٹ اور پھر ٹیسٹ میچز کے لیے بھی آمد نے خدشات مزید کم کئے۔
بنگلہ دیشی ٹیم نے پہلے لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز اور اس کے بعد راولپنڈی میں ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، بنگال ٹائیگرز کو اب اپریل میں دوبارہ کراچی کا رخ کرنا ہے، دوسری طرف رواں ماہ لاہور میں کبڈی ورلڈکپ کا آغاز ہوا، عوام نے روایتی ثقافتی کھیل کا بھرپور لطف اٹھایا، اچھی بات یہ ہے کہ مقابلہ صرف لاہور میں ہی نہیں ہوئے بلکہ فیصل آباد اور گجرات میں پول میچز کے بعد میلہ ایک بار پھر لاہور واپس لوٹ آیا ہے، سیمی فائنل ہوچکے، فیصلہ کن معرکے کے شائقین بے تابی کے ساتھ منتظر ہیں، انٹرنیشنل کھیلوں کی بہار دیکھتے ہوئے عوام میں ایک خوش کی لہر موجود ہے،پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔
دوسری جانب قذافی سٹیڈیم میں ایم سی سی اور لاہور قلندر کے میچ نے گوری ٹیموں کے اعتماد کی بحالی کا سفر تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا، سنگاکارا کی قیادت میں آنے والی مہمان ٹیم کی آمدورفت کے دوران بہترین سیکیورٹی انتظامات کئے گئے، قذافی اسٹیڈیم میں میچ فیملی میلہ بن گیا، داخلہ مفت ہونے کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی بہت بڑی تعداد دو گھنٹے قبل ہی سٹیڈیم کی طرف آنا شروع ہوگئی تھی، فرنچائز کی شرٹس بھی نمایاں نظر آئیں، سیکیورٹی اداروں نے بھی ابتدا میں شائقین کو چیک کرنے کے بعد سٹینڈز میں داخلے کی اجازت دی لیکن انٹرنیشنل میچز کی طرح اس بار راستوں میں واک تھرو گیٹ نصب نہیں تھے۔
اسٹیڈیم میچ کے چند اوورز گزرنے تک تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، ان میں فیملیز کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، بچوں نے خوب ہلہ گلہ بھی کیا اور تصاویر بنوائیں، تاہم حیران کن طور پر لاہور قلندرز کی اننگز ختم ہوتے ہی شائقین نے واپس جانا شروع کردیا، میچ ختم ہونے تک صرف 30 فیصد لوگ سٹینڈز میں باقی رہ گئے، شائقین نے بتایا کہ میچ بور لگ رہا ہے، اس لئے واپس جا رہے ہیں، لوگ کھانے پینے کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کئے جانے کے گلے شکوے بھی کرتے نظر آئے۔
دوسری جانب پہلی اننگز ختم ہونے کے بعد اسٹیڈیم کا رخ کرنے والے سینکڑوں شائقین کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، پہلے چیک پوائنٹ پر اندھیرے میں کھڑے سکیورٹی اہلکاروں نے کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی، سٹینڈز تک پہنچنے والوں کو بھی مایوس ہوکر واپس جانا پڑا،سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے خلاف انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کے ساتھ پی ایس ایل میچز کے دوران سیکورٹی کے جو انتظامات دیکھنے میں آئے تھے، اس کی بہ نسبت کبڈی ورلڈ کپ اور ایم سی سی کے میچ میں سیکورٹی اداروں کی نفری بہت کم نظر آئی،کرکٹ کے انٹرنیشنل مقابلوں کے دوران شائقین کو کم از کم 3 مقامات پر واک تھرو گیٹ سے گزارا جاتا تھا۔
ایم سی سی میچ کے موقع پر کسی ایک جگہ بھی ان کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، نشتر پارک کو آمدورفت کے لیے بند ضرور رکھا گیا، تاہم پہلے چیک پوائنٹ پر روشنی نہ ہونے کے برابر تھی، مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کو بھی رواں دواں رکھا گیا جو کہ اچھی بات ہے لیکن سکیورٹی کے معاملے میں ذرا سی تساہل پسندی بھی پاکستان کو کئی سال پیچھے لے جا سکتی ہے، پاکستان میں انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا، خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلسل مثبت پیش رفت ہو رہی ہے، سیکورٹی کے معاملات میں کسی طرح کی جھول انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے،کبڈی ورلڈکپ ہو یا ایم سی سی کسی بھی ایونٹ کے لیے سیکیورٹی کا معیار ایک جیسا ہونا چاہیے، عوام اور کاروباری مراکز کی مشکلات کا حل نکالنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ کھیلوں کے بڑے مراکز شہروں سے باہر منتقل کردیئے جائیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی حالات میں سٹیڈیمز کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہوگی لیکن اس کی داغ بیل تو ڈالی جاسکتی ہے،اس ضمن میں شاید دیگر سپورٹس فیڈریشنز تو آسانی سے کام نہ کرسکیں، وسائل کی کمی آڑے آئے گی لیکن پی سی بی سٹیڈیم تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سابق چیئرمین ذکاء اشرف کے دور میں اسلام آباد میں ایسا منصوبہ زیر غور بھی آیا تھا، سٹیڈیم کیساتھ ایک فائیو سٹار ہوٹل بھی بنائے جانے کی تجویز تھی، بوجوہ اس ضمن میں مزید پیش رفت نہیں ہوسکی، پنجاب کے وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے بھی گزشتہ دنوں نشتر پارک میں فائیو سٹار ہوٹل بنانے کی بات کی ہے، مناسب یہی ہوگا کہ نشتر پارک میں قائم سپورٹس مراکز کو کوچنگ سنٹرز میں تبدیل کرتے ہوئے انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے تیار کیا جائے، بیرون شہر کوئی سپورٹس سٹی بناکر انٹرنیشنل مقابلوں کا انعقاد کیا جائے،اس مقصد کے لیے نجی شعبے کی معاونت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔