پی ایس ایل سے قومی کرکٹرز کی تشنگی بھی کافی حد تک دور ہو گئی
پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں نہیں مدعو کیا جاتا، ایسے میں ہمیں اپنی لیگ کی اشد ضرورت تھی۔
پی ایس ایل کے آغاز میں اب محض چار دن باقی رہ گئے ہیں، مجھ سمیت کرکٹ سے محبت کرنے والے ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ ایونٹ کا بہترین انداز میں انعقاد ہو، اس بار خاص بات یہ ہے کہ مکمل ایڈیشن کا پاکستان میں انعقاد ہو گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ فیصلہ کیا جس پر پی سی بی عمل درآمد کرا رہا ہے، ان دنوں کراچی میں میرے نام سے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ جاری ہے، اس کے ایک میچ میں سرفراز احمد بھی شریک ہوئے، میں نے ان سے پی ایس ایل پر بات چیت کی تو وہ بھی ایونٹ کے حوالے سے بہت پْرجوش دکھائی دیے، انھیں یقین ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے گی، یقیناً کراچی کنگز، اسلام آباد یونائٹیڈ، لاہور قلندرز،ملتان سلطانز اورپشاور زلمی کے بھی یہی ارادے ہوں گے کہ بہترین کھیل پیش کرکے ٹرافی حاصل کریں، مسابقت سے بھرپور کرکٹ آئندہ ایک ماہ تک شائقین کی توجہ کا مرکز بنی رہے گی۔
ماضی میں غیرملکی کرکٹرز پاکستان آنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے رہے ہیں، انھیں منانے کے لیے فرنچائزز کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی جبکہ بعض کو اضافی ادائیگی بھی کی گئی، اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا بورڈ نے پہلے ہی سب پر واضح کر دیا تھا کہ تمام میچز کے لیے دستیابی پر ہی معاہدہ ہوگا، اس کے باوجود بڑے بڑے نام لیگ میں شامل ہو گئے، یہ پاکستانی سیکیورٹی پر عالمی اعتماد کا مظہرہے، شین واٹسن نے گذشتہ برس اپنی شاندار کارکردگی سے کوئٹہ کو چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان میں موجود مداحوں کی بڑی تعداد انھیں ایکشن میں دیکھنے کی منتظر ہے، جیسن روئے، فواد احمد، کرس لین، لینڈل سمنز، جیمز ونس، معین علی، ریلی روسو، عمران طاہر، لیوک رونکی، ڈیل اسٹین، کولن منرو، کیرون پولارڈ، ڈیرن سیمی، ایلکس ہیلز اور مزید کئی بڑے کرکٹرز ہمارے میدانوں پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے، بابر اعظم، فخر زمان، شعیب ملک، شاہد آفریدی اور ملکی کرکٹ کے تمام بڑے نام بھی پرفارم کرنے کے لیے تیار ہیں، 34میچز چار شہروں میں ہونے ہیں، اس طرح بیشترشائقین کو اسٹیڈیم جانے کا موقع مل سکے گا۔
پی سی بی نے آئندہ برس پشاور سمیت دیگر وینیوز کو بھی ایونٹ کی میزبانی سونپنے کا عندیہ دیا ہے یوں دیگر شہروں کی محرومی بھی دور ہو سکے گی، پی ایس ایل کے حوالے سے کراچی میں گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، شہر میں کئی مقامات پر کھلاڑیوں کی تصاویر سے مزین بڑے بورڈز بھی لگائے گئے ہیں، لوگوں میں جوش وخروش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ افتتاحی میچ کے ٹکٹ آتے ہی فروخت ہو گئے تھے۔
مجھے امید ہے کہ 20 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوگا، دیگر شہروں کے لوگ ٹی وی پر میچز سے لطف اندوز ہوں گے، اس بار انھیں اردو میں کمنٹری بھی سننے کا موقع ملے گا، پی ایس ایل کا یہ پانچواں ایڈیشن ہے، مجھے خوشی ہے جب اس کا آغاز ہوا تو میں بھی پی سی بی گورننگ بورڈ کا حصہ تھا، ایک پودے کو درخت بنتے دیکھنا بہت خوشگوار تجربہ ہے۔
پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں نہیں مدعو کیا جاتا، ایسے میں ہمیں اپنی لیگ کی اشد ضرورت تھی، پی ایس ایل سے قومی کرکٹرز کی تشنگی بھی کافی حد تک دور ہو گئی، گوکہ ابھی اس حوالے سے بہت کام کر نا پڑے گا لیکن ہماری سمت بالکل ٹھیک ہے، اس بار مکمل ایڈیشن کے ملک میں انعقاد سے ہمیں ان لوگوں کوبھی اپنی سکیورٹی پر قائل کرنے میں مدد ملے گی جو اب تک خوف کا شکار ہیں، میں ایک کامیاب پی ایس ایل کے انعقاد کے لیے دعاگو ہوں۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ فیصلہ کیا جس پر پی سی بی عمل درآمد کرا رہا ہے، ان دنوں کراچی میں میرے نام سے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ جاری ہے، اس کے ایک میچ میں سرفراز احمد بھی شریک ہوئے، میں نے ان سے پی ایس ایل پر بات چیت کی تو وہ بھی ایونٹ کے حوالے سے بہت پْرجوش دکھائی دیے، انھیں یقین ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے گی، یقیناً کراچی کنگز، اسلام آباد یونائٹیڈ، لاہور قلندرز،ملتان سلطانز اورپشاور زلمی کے بھی یہی ارادے ہوں گے کہ بہترین کھیل پیش کرکے ٹرافی حاصل کریں، مسابقت سے بھرپور کرکٹ آئندہ ایک ماہ تک شائقین کی توجہ کا مرکز بنی رہے گی۔
ماضی میں غیرملکی کرکٹرز پاکستان آنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے رہے ہیں، انھیں منانے کے لیے فرنچائزز کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی جبکہ بعض کو اضافی ادائیگی بھی کی گئی، اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا بورڈ نے پہلے ہی سب پر واضح کر دیا تھا کہ تمام میچز کے لیے دستیابی پر ہی معاہدہ ہوگا، اس کے باوجود بڑے بڑے نام لیگ میں شامل ہو گئے، یہ پاکستانی سیکیورٹی پر عالمی اعتماد کا مظہرہے، شین واٹسن نے گذشتہ برس اپنی شاندار کارکردگی سے کوئٹہ کو چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان میں موجود مداحوں کی بڑی تعداد انھیں ایکشن میں دیکھنے کی منتظر ہے، جیسن روئے، فواد احمد، کرس لین، لینڈل سمنز، جیمز ونس، معین علی، ریلی روسو، عمران طاہر، لیوک رونکی، ڈیل اسٹین، کولن منرو، کیرون پولارڈ، ڈیرن سیمی، ایلکس ہیلز اور مزید کئی بڑے کرکٹرز ہمارے میدانوں پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے، بابر اعظم، فخر زمان، شعیب ملک، شاہد آفریدی اور ملکی کرکٹ کے تمام بڑے نام بھی پرفارم کرنے کے لیے تیار ہیں، 34میچز چار شہروں میں ہونے ہیں، اس طرح بیشترشائقین کو اسٹیڈیم جانے کا موقع مل سکے گا۔
پی سی بی نے آئندہ برس پشاور سمیت دیگر وینیوز کو بھی ایونٹ کی میزبانی سونپنے کا عندیہ دیا ہے یوں دیگر شہروں کی محرومی بھی دور ہو سکے گی، پی ایس ایل کے حوالے سے کراچی میں گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، شہر میں کئی مقامات پر کھلاڑیوں کی تصاویر سے مزین بڑے بورڈز بھی لگائے گئے ہیں، لوگوں میں جوش وخروش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ افتتاحی میچ کے ٹکٹ آتے ہی فروخت ہو گئے تھے۔
مجھے امید ہے کہ 20 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوگا، دیگر شہروں کے لوگ ٹی وی پر میچز سے لطف اندوز ہوں گے، اس بار انھیں اردو میں کمنٹری بھی سننے کا موقع ملے گا، پی ایس ایل کا یہ پانچواں ایڈیشن ہے، مجھے خوشی ہے جب اس کا آغاز ہوا تو میں بھی پی سی بی گورننگ بورڈ کا حصہ تھا، ایک پودے کو درخت بنتے دیکھنا بہت خوشگوار تجربہ ہے۔
پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں نہیں مدعو کیا جاتا، ایسے میں ہمیں اپنی لیگ کی اشد ضرورت تھی، پی ایس ایل سے قومی کرکٹرز کی تشنگی بھی کافی حد تک دور ہو گئی، گوکہ ابھی اس حوالے سے بہت کام کر نا پڑے گا لیکن ہماری سمت بالکل ٹھیک ہے، اس بار مکمل ایڈیشن کے ملک میں انعقاد سے ہمیں ان لوگوں کوبھی اپنی سکیورٹی پر قائل کرنے میں مدد ملے گی جو اب تک خوف کا شکار ہیں، میں ایک کامیاب پی ایس ایل کے انعقاد کے لیے دعاگو ہوں۔