92 واں آسکر ایوارڈ
کورین کی انگریزی فلموں کو تاریخی مات، جوکوئین فیونکس اور رینی ذیلویگر بہترین فنکار قرار پائے
امریکی ریاست کیلیفورنیا کی وجہ شہرت بہت سے حوالوں سے ہے لیکن اس کی ایک بہت اہم وجہ لاس اینجلس میں واقع ہالی ووڈ ہے، جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
اس کو دنیا کی سب سے مقبول اور بڑی فلم انڈسٹری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، یہاں بننے والی فلمیں راتوں رات کروڑوں، اربوں روپے نہیں بلکہ اربوں ڈالر کا بزنس دنیا بھر میں کرجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالی ووڈ کو فلم کے شعبے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ہالی ووڈ میں دنیا کا سب سے بڑا ، منفرد اور جدید فلم سٹوڈیو یونیورسل بھی موجود ہے جو دوسرے ممالک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر دنیا کے سب سے بڑے اور معتبر اعزاز ، آسکر ایوارڈ کی بات کریں تو اس کا انعقاد بھی ہالی ووڈ میں ہی ہوتا ہے۔ اس ایوارڈ کو پانے کی خواہش ویسے تو ہالی ووڈ سے وابستہ ہر فنکار اور تکنیکار رکھتا ہے لیکن اس کیلئے نامزد ہونا بھی کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں سمجھا جاتا۔
آسکر ایوارڈ چونکہ دنیا کا سب سے اہم ایوارڈ ہے تو اس کیلئے منتظمین دو سے تین ماہ قبل تیاریوں میں لگ جاتے ہیں ، جہاں آسکرز کی ٹیم میں شامل افراد مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں ، وہیں جیوری میں شامل ماہرین میرٹ پر آنے والی فلموں کا انتخاب کرنے کے بعد نامزدگیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان جونہی ہوتا ہے تو پھر سب کی نگاہیں اس پر لگ جاتی ہیں اور ایوارڈ شو کا بے صبری سے انتظار ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر میڈیا کی بات کریں تو دنیا بھر سے میڈیا نمائندگان ہالی ووڈ پہنچتے ہیں۔اس مرتبہ آسکرز ایوارڈ کی 92 سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان سے بھی اس پروقار تقریب کی کوریج کیلئے میڈیا کا انتخاب ہوا تھا اور اس سلسلہ میں پاکستان کے لیڈنگ میڈیا گروپ ایکسپریس کو خاص طور مدعو کیا گیا تھا۔
92 ویں آسکرز ایوارڈز کی تقریب 9 فروری 2020ء کو منعقد ہوئی، جس کیلئے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات ترتیب دیئے گئے ، شرکاء کو ایوارڈ تقریب کے مختلف حصوں تک رسائی صرف اور صرف منتظمین کی جانب سے جاری کردہ کارڈز کی بدولت ہی ممکن تھی، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مقررہ مقام تک نہیں آسکتا تھا۔ ایوارڈ شو کی سیکیورٹی کیلئے فضائی نگرانی بھی جاری تھی اور بیک وقت تین ہیلی کاپٹر گردو نواح میں اڑان بھر رہے تھے۔
مقررہ وقت پر ریڈ کارپٹ پر جیسے ہی ہالی ووڈ کے معروف ستاروں کی کہکشاں اترنے لگی تو فضا ہی بدل گئی، جہاں ریڈ کارپٹ پر موجود میڈیا نمائندگان بڑی تعداد میں اس کی کوریج کر رہے تھے ، وہیں دیگر مہمانان بھی اپنے پسندیدہ فنکاروں کا بھرپور استقبال کر رہے تھے ، اس کے علاوہ ڈولبی تھیٹر کے چاروں اطراف میں لوگوں کی بڑی تعداد فلمی ستاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے صبح نو بجے سے تقریب کے اختتام تک موجود تھی۔ نامور ستارے ریڈ کارپٹ سے ہوتے ہوئے ہال میں پہنچ رہے تھے بلکہ ایک دوسرے کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کر رہے تھے، جوکہ واقعی ہی بہت الگ اوراچھا محسوس ہورہا تھا۔
آسکر ایوارڈ کی تقریب میں بلاک بلاسٹر فلم جو کر 11 نامزدگیوں کے ساتھ فیورٹ تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ فلم تمام ایوارڈ اپنے نام کرے گی، جبکہ دی آئرش مین، 1917ء اور ون سپان آ ٹائم ان ہالی ووڈ 10 نامزدگیوں کے ساتھ دوسری پسندیدہ فلموں کی نامزدگیوں میں شامل تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ جوجو ریبٹ ، لٹل ویمن، میرج سٹوری اور پیراسائٹ 6 کیٹگریوں میں نامزد کی گئی تھیں۔
92ویں آسکر ایوارڈ میں بہترین اداکار کا ایوارڈ فیورٹ قرار دی جانے والی فلم 'جوکر' کے مرکزی اداکار جوکوئین فیونکس نے جیتا جبکہ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ فلم جیوڈی میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ رینی ذیلویگرکے نام رہا، براڈ پٹ کو بہترین سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ ملا اور بہترین سپورٹنگ ایکٹرس کا ایوارڈ فلم میرج سٹوری کی اداکارہ لورا ڈیم نے جیت لیا، کہنے کو تو آسکرز ایوارڈز میں سب سے زیادہ 11نامزدگیاں فلم 'جوکر' کی تھیں لیکن فلم پیراسائٹ بہترین فلم کا ایوارڈ جیتنے کے ساتھ سب سے زیادہ ایوارڈ جیتنے والی فلم بن گئی، اس فلم نے بہترین فلم کا ایوارڈ جیت کر انگریزی فلموں کا راج بھی خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی دوسری زبان میں بننے والی فلم کو سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ نہیں مل سکا، ایوارڈ شو میں فلم 'جوکر' اور 1917ء نے بھی تین تین ایوارڈ اپنے نام کئے۔آسکر ایوارڈ کی پروقار تقریب دنیا کے 2سو سے زائد ممالک میں براہ راست دیکھی جارہی تھی لیکن دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح سب سے زیادہ جشن جنوبی کوریا میں منایا گیا تھا۔
ہالی ووڈ میں بننے والی فلموں کے چاہنے والے پوری دنیا میں بستے ہیں اور اس فلمی نگری کا جادو ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے۔ یہاں بننے والی فلمیں ہمیشہ سے ہی بہت منفرد دہی ہیں، اسی لئے تو یہاں بننے والی بہت سی فلمیں اور سیریز ایسی ہیں کہ ان کے چاہنے والے عام لوگ تو ہیں ہی دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے نامور فنکار اور سپورٹس مین بھی ہیں۔
اس لئے جب ایوارڈ سے پہلے نامزد فنکاروں اور تکنیک کاروں کے نام سامنے آئے توبہترین لیڈنگ اداکار کے ایوارڈ کیلئے لیونارڈو کیپریو،اینٹونیو بینڈرس، ایڈم ڈرائیور، جوکوئن فیونکس اور جوناتھن پرائس میں سخت مقابلہ تھا، جبکہ بہترین لیڈنگ اداکارہ کی فہرست میں چارلیز تھرون، سنتھیا اریوو، سکارلٹ جانسن، سوریس رونان اور رینی ذیلویگر کے نام شامل تھے، اس کے علاوہ سپورٹنگ کرداروں ، اینی میٹڈ فلم، سینماٹوگرافی، کوسٹیم ڈیزائن، بہترین ڈاکومنٹری، بہترین ڈاکومنٹری شارٹ سٹوری، فلم ایڈیٹنگ کے شعبوں میں بھی ایوارڈ دیئے جاتے ہیں، انٹرنیشنل فیچر فلم کیلئے فرانس، ساؤتھ کوریا، سپین، نارتھ میکڈونیا اور پولینڈ کی فلمیں نامزد ہوئی تھیں ، جبکہ میک اپ اور ہیئرسٹائلنگ، میوزک آف موشن پکچرز اوریجنل سکور ،اوریجنل سانگ، سال کی بہترین فلم ،پروڈکشن ڈیزائن، بہترین شارٹ فلم، بہترین لائیو ایکشن شارٹ سثورہ فلم ، ساؤنڈ ایڈیٹنگ ، ساؤنڈ مکسنگ، ویثوول ایفیکٹس، اڈاپٹڈ سکرین پلے، اوریجنل سکرین پلے اور بہترین ڈائریکریکشن کے شعبوں میں فنکاروں اور تکنیک کاروں کو نامزد کیا گیا تھا ، مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ اس بار پاکستان سے کوئی بھی فلم آسکرز کیلئے نامزد نہیں ہو پائی تھی۔
دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت سے بھی کسی فلم کو آسکرز کیلئے نامزد نہیں کیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود آسکرز ایوارڈز کی تقریب دیکھنے کیلئے ٹی وی کے سامنے موجود تھے، دنیا کی کیا بات کی جائے امریکہ بھر میں جہاں لوگ گھروں میں ایوارڈ شو دیکھ رہے تھے وہیں مختلف ہوٹلوں، کیفے اور دیگر مقامات پر گروپ کی شکلوں میں اس رنگارنگ تقریب کو دیکھا جارہا تھا۔
ایوارڈ جیتنے والے فنکاروں کے ساتھ دنیا بھر کے میڈیا سے ملاقات کیلئے انٹرویو روم بھی بنایا گیا تھا جس کا اہتمام ڈولبی تھیٹر کے عقب میں واقع لوئیز ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ ہالی ووڈ کے معروف فنکار ہاتھ میں آسکر تھامے جیسے ہی انٹرویو روم میں پہنچتے تو مختلف اور دلچسپ سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ یہ نشست بھی دو گھنٹوں پر مشتمل تھی اور اس دوران بہت سے ستاروں نے جہاں اپنے کام کے بارے میں بتایا وہیں دنیا میں ہالی ووڈ کے مقام اور پیار کی بات بھی دہراتے رہے۔
اس موقع پرنمائندہ ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے آسکرز ایوارڈ کی ترجماغ ایرن میکنس کا کہنا تھا کہ ورلڈ شوبز انڈسٹری میں آسکرز سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے، جو فنکار اور تکنیک کار اس ایوارڈ کو جیتنے کے بعد فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہیں آسکرز کیلئے نامزد ہونا بھی کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔
اس مرتبہ جیوری نے فلم کے مختلف شعبوں میں جن فلموں اور ان سے وابستہ فنکاروں اور تکنیک کاروں کو نامزد کیا تھا اس پر دنیا بھر میں بسنے والوں کی نگاہ جمی ہوئی تھی اور ہم امید کررہے تھے کہ اس سال بھی آسکرز کی تقریب ماضی کی طرح دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھے گی۔ ایسا ہی ہوا کہ ہمیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ای میلز، خطوط اور پیغام موصول ہوتے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف اسکرز کو سراہنا تھا۔ ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اس تاریخی ایونٹ کو یادگار بنائیں اور اس سلسلے کو اسی طرح مزید بہتر بناتے رہیں گے۔
اس کو دنیا کی سب سے مقبول اور بڑی فلم انڈسٹری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، یہاں بننے والی فلمیں راتوں رات کروڑوں، اربوں روپے نہیں بلکہ اربوں ڈالر کا بزنس دنیا بھر میں کرجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالی ووڈ کو فلم کے شعبے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ہالی ووڈ میں دنیا کا سب سے بڑا ، منفرد اور جدید فلم سٹوڈیو یونیورسل بھی موجود ہے جو دوسرے ممالک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر دنیا کے سب سے بڑے اور معتبر اعزاز ، آسکر ایوارڈ کی بات کریں تو اس کا انعقاد بھی ہالی ووڈ میں ہی ہوتا ہے۔ اس ایوارڈ کو پانے کی خواہش ویسے تو ہالی ووڈ سے وابستہ ہر فنکار اور تکنیکار رکھتا ہے لیکن اس کیلئے نامزد ہونا بھی کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں سمجھا جاتا۔
آسکر ایوارڈ چونکہ دنیا کا سب سے اہم ایوارڈ ہے تو اس کیلئے منتظمین دو سے تین ماہ قبل تیاریوں میں لگ جاتے ہیں ، جہاں آسکرز کی ٹیم میں شامل افراد مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں ، وہیں جیوری میں شامل ماہرین میرٹ پر آنے والی فلموں کا انتخاب کرنے کے بعد نامزدگیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان جونہی ہوتا ہے تو پھر سب کی نگاہیں اس پر لگ جاتی ہیں اور ایوارڈ شو کا بے صبری سے انتظار ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر میڈیا کی بات کریں تو دنیا بھر سے میڈیا نمائندگان ہالی ووڈ پہنچتے ہیں۔اس مرتبہ آسکرز ایوارڈ کی 92 سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان سے بھی اس پروقار تقریب کی کوریج کیلئے میڈیا کا انتخاب ہوا تھا اور اس سلسلہ میں پاکستان کے لیڈنگ میڈیا گروپ ایکسپریس کو خاص طور مدعو کیا گیا تھا۔
92 ویں آسکرز ایوارڈز کی تقریب 9 فروری 2020ء کو منعقد ہوئی، جس کیلئے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات ترتیب دیئے گئے ، شرکاء کو ایوارڈ تقریب کے مختلف حصوں تک رسائی صرف اور صرف منتظمین کی جانب سے جاری کردہ کارڈز کی بدولت ہی ممکن تھی، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مقررہ مقام تک نہیں آسکتا تھا۔ ایوارڈ شو کی سیکیورٹی کیلئے فضائی نگرانی بھی جاری تھی اور بیک وقت تین ہیلی کاپٹر گردو نواح میں اڑان بھر رہے تھے۔
مقررہ وقت پر ریڈ کارپٹ پر جیسے ہی ہالی ووڈ کے معروف ستاروں کی کہکشاں اترنے لگی تو فضا ہی بدل گئی، جہاں ریڈ کارپٹ پر موجود میڈیا نمائندگان بڑی تعداد میں اس کی کوریج کر رہے تھے ، وہیں دیگر مہمانان بھی اپنے پسندیدہ فنکاروں کا بھرپور استقبال کر رہے تھے ، اس کے علاوہ ڈولبی تھیٹر کے چاروں اطراف میں لوگوں کی بڑی تعداد فلمی ستاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے صبح نو بجے سے تقریب کے اختتام تک موجود تھی۔ نامور ستارے ریڈ کارپٹ سے ہوتے ہوئے ہال میں پہنچ رہے تھے بلکہ ایک دوسرے کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کر رہے تھے، جوکہ واقعی ہی بہت الگ اوراچھا محسوس ہورہا تھا۔
آسکر ایوارڈ کی تقریب میں بلاک بلاسٹر فلم جو کر 11 نامزدگیوں کے ساتھ فیورٹ تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ فلم تمام ایوارڈ اپنے نام کرے گی، جبکہ دی آئرش مین، 1917ء اور ون سپان آ ٹائم ان ہالی ووڈ 10 نامزدگیوں کے ساتھ دوسری پسندیدہ فلموں کی نامزدگیوں میں شامل تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ جوجو ریبٹ ، لٹل ویمن، میرج سٹوری اور پیراسائٹ 6 کیٹگریوں میں نامزد کی گئی تھیں۔
92ویں آسکر ایوارڈ میں بہترین اداکار کا ایوارڈ فیورٹ قرار دی جانے والی فلم 'جوکر' کے مرکزی اداکار جوکوئین فیونکس نے جیتا جبکہ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ فلم جیوڈی میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ رینی ذیلویگرکے نام رہا، براڈ پٹ کو بہترین سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ ملا اور بہترین سپورٹنگ ایکٹرس کا ایوارڈ فلم میرج سٹوری کی اداکارہ لورا ڈیم نے جیت لیا، کہنے کو تو آسکرز ایوارڈز میں سب سے زیادہ 11نامزدگیاں فلم 'جوکر' کی تھیں لیکن فلم پیراسائٹ بہترین فلم کا ایوارڈ جیتنے کے ساتھ سب سے زیادہ ایوارڈ جیتنے والی فلم بن گئی، اس فلم نے بہترین فلم کا ایوارڈ جیت کر انگریزی فلموں کا راج بھی خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی دوسری زبان میں بننے والی فلم کو سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ نہیں مل سکا، ایوارڈ شو میں فلم 'جوکر' اور 1917ء نے بھی تین تین ایوارڈ اپنے نام کئے۔آسکر ایوارڈ کی پروقار تقریب دنیا کے 2سو سے زائد ممالک میں براہ راست دیکھی جارہی تھی لیکن دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح سب سے زیادہ جشن جنوبی کوریا میں منایا گیا تھا۔
ہالی ووڈ میں بننے والی فلموں کے چاہنے والے پوری دنیا میں بستے ہیں اور اس فلمی نگری کا جادو ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے۔ یہاں بننے والی فلمیں ہمیشہ سے ہی بہت منفرد دہی ہیں، اسی لئے تو یہاں بننے والی بہت سی فلمیں اور سیریز ایسی ہیں کہ ان کے چاہنے والے عام لوگ تو ہیں ہی دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے نامور فنکار اور سپورٹس مین بھی ہیں۔
اس لئے جب ایوارڈ سے پہلے نامزد فنکاروں اور تکنیک کاروں کے نام سامنے آئے توبہترین لیڈنگ اداکار کے ایوارڈ کیلئے لیونارڈو کیپریو،اینٹونیو بینڈرس، ایڈم ڈرائیور، جوکوئن فیونکس اور جوناتھن پرائس میں سخت مقابلہ تھا، جبکہ بہترین لیڈنگ اداکارہ کی فہرست میں چارلیز تھرون، سنتھیا اریوو، سکارلٹ جانسن، سوریس رونان اور رینی ذیلویگر کے نام شامل تھے، اس کے علاوہ سپورٹنگ کرداروں ، اینی میٹڈ فلم، سینماٹوگرافی، کوسٹیم ڈیزائن، بہترین ڈاکومنٹری، بہترین ڈاکومنٹری شارٹ سٹوری، فلم ایڈیٹنگ کے شعبوں میں بھی ایوارڈ دیئے جاتے ہیں، انٹرنیشنل فیچر فلم کیلئے فرانس، ساؤتھ کوریا، سپین، نارتھ میکڈونیا اور پولینڈ کی فلمیں نامزد ہوئی تھیں ، جبکہ میک اپ اور ہیئرسٹائلنگ، میوزک آف موشن پکچرز اوریجنل سکور ،اوریجنل سانگ، سال کی بہترین فلم ،پروڈکشن ڈیزائن، بہترین شارٹ فلم، بہترین لائیو ایکشن شارٹ سثورہ فلم ، ساؤنڈ ایڈیٹنگ ، ساؤنڈ مکسنگ، ویثوول ایفیکٹس، اڈاپٹڈ سکرین پلے، اوریجنل سکرین پلے اور بہترین ڈائریکریکشن کے شعبوں میں فنکاروں اور تکنیک کاروں کو نامزد کیا گیا تھا ، مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ اس بار پاکستان سے کوئی بھی فلم آسکرز کیلئے نامزد نہیں ہو پائی تھی۔
دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت سے بھی کسی فلم کو آسکرز کیلئے نامزد نہیں کیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود آسکرز ایوارڈز کی تقریب دیکھنے کیلئے ٹی وی کے سامنے موجود تھے، دنیا کی کیا بات کی جائے امریکہ بھر میں جہاں لوگ گھروں میں ایوارڈ شو دیکھ رہے تھے وہیں مختلف ہوٹلوں، کیفے اور دیگر مقامات پر گروپ کی شکلوں میں اس رنگارنگ تقریب کو دیکھا جارہا تھا۔
ایوارڈ جیتنے والے فنکاروں کے ساتھ دنیا بھر کے میڈیا سے ملاقات کیلئے انٹرویو روم بھی بنایا گیا تھا جس کا اہتمام ڈولبی تھیٹر کے عقب میں واقع لوئیز ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ ہالی ووڈ کے معروف فنکار ہاتھ میں آسکر تھامے جیسے ہی انٹرویو روم میں پہنچتے تو مختلف اور دلچسپ سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ یہ نشست بھی دو گھنٹوں پر مشتمل تھی اور اس دوران بہت سے ستاروں نے جہاں اپنے کام کے بارے میں بتایا وہیں دنیا میں ہالی ووڈ کے مقام اور پیار کی بات بھی دہراتے رہے۔
اس موقع پرنمائندہ ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے آسکرز ایوارڈ کی ترجماغ ایرن میکنس کا کہنا تھا کہ ورلڈ شوبز انڈسٹری میں آسکرز سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے، جو فنکار اور تکنیک کار اس ایوارڈ کو جیتنے کے بعد فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہیں آسکرز کیلئے نامزد ہونا بھی کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔
اس مرتبہ جیوری نے فلم کے مختلف شعبوں میں جن فلموں اور ان سے وابستہ فنکاروں اور تکنیک کاروں کو نامزد کیا تھا اس پر دنیا بھر میں بسنے والوں کی نگاہ جمی ہوئی تھی اور ہم امید کررہے تھے کہ اس سال بھی آسکرز کی تقریب ماضی کی طرح دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھے گی۔ ایسا ہی ہوا کہ ہمیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ای میلز، خطوط اور پیغام موصول ہوتے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف اسکرز کو سراہنا تھا۔ ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اس تاریخی ایونٹ کو یادگار بنائیں اور اس سلسلے کو اسی طرح مزید بہتر بناتے رہیں گے۔