سرالیون کبڈی ٹیم کے صدر اپنی والدہ کا آبائی گاؤں دیکھنے پہنچ گئے
1947 میں رویندر سنگھ کے نانا اورخاندان کے دیگرلوگ رائیونڈ کے قریب واقع مانک جودھوگاؤں میں رہتے تھے
پاکستان میں کبڈی ورلڈکپ کھیلنے آنیوالی سیرالیون ٹیم کے صدر سرداررویندرسنگھ اپنی والدہ کا آبائی گاؤں دیکھنے رائیونڈکے قریب مانک جودھو گاؤں پہنچ گئے جہاں انہوں نے گاؤں کے بڑے،بزرگوں سے ملاقات کی اوراپنے خاندان سے متعلق پوچھتے رہے، سرداررویندرسنگھ اپنے اجدادکے گاؤں کی مٹی کاتحفہ لےکر واپس جائیں گے۔
سرالیون کبڈی ٹیم کے نوجوان صدر سردارگورویندرسنگھ بھارتی نژادآسٹریلوی شہری ہیں،وہ اپنی ٹیم کے ساتھ کبڈی ورلڈکپ کھیلنے پاکستان آئے ہیں مگریہاں ان کی آمدکاایک مقصداوربھی تھا۔وہ اپنی والدہ کاآبائی گاؤں دیکھناچاہتے تھے،1947 میں ان کے نانااورخاندان کے دیگرلوگ رائیونڈکے قریب واقع مانک جودھوگاؤں میں رہتے تھے۔ نوجوان گورویندرسنگھ جب اپنے ننھیال مانک جودھو پہنچے تویہاں ان کاپرتپاک استقبال کیاگیا اور ڈھول کی تھاپ پربھنگڑا بھی ڈالاگیا۔
نوجوان سرداررویندرسنگھ کے پاس اپنے نانا،نانی کی تصاویربھی تھی جو وہ گاؤں کے بزرگوں کودکھاتے اوران سے متعلق جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ کافی مشکل سے 86 سال کے ایک بزرگ ملے جنہوں نے بتایا کہ 1947 میں وہ نوجوان تھے اورگاؤں کے بیشترسرداروں کوجانتے تھے، انہوں نے اپنے کئی سکھ دوستوں کے نام بھی بتائے۔سرداررویندرسنگھ نے بتایا کہ ان کے ناناجی کانام گوربضش سنگھ اورنانی کا نام اوتم کورتھا۔گورویندرنے بتایا جب وہ کبڈی ٹیم کے ساتھ پاکستان آرہے تھے توان کی والدہ نے تاکیدکی تھی کہ ایک بار ان کے گاؤں کوضروردیکھ کرآنا،انہیں بہت اچھالگاہے اپنے ننھیال میں آکر،یہاں کے بڑے،بزرگوں نے جوپیاردیاہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ 1947 میں ان کاخاندان یہاں سے ہجرت کرکے ہریانہ چلاگیاتھااورآج بھی وہیں آبادہے، سکھ نوجوان کواپنے گاؤں میں دیکھ کر نوجوان،بچے اوربزرگ جمع ہوگئے اور رویندرکے ساتھ تصاویربنوائیں۔
گاؤں کے ایک بزرگ محمدصدیق نے بتایا کہ 1947 سے قبل اس گاؤں میں زیادہ ترسکھ خاندان آبادتھے، وہ سرداروں کے مویشیوں کاچارہ ڈالتے تھے۔کئی سکھ نوجوان ان کے دوست تھے،انہوں نے کہا کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ وہ ایک باراپنے بچپن کے دوستوں سے مل سکیں لیکن انہیں ان سے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ ان میں سے کوئی اب زندہ بھی ہے یانہیں،سرداررویندرسنگھ نے اس بزرگ کو اپنی والدہ کی طرف سےپیسوں کاتحفہ دیا۔
سرداررویندرسنگھ کو ان کے ننھیال کے گاؤں تک لانے میں آسٹریلیامیں مقیم ان کے پاکستانی دوست علی کامران نے اہم کرداراداکیاہے، جو سیرالیون ٹیم کے قانونی مشیرہیں اور ان کے ساتھ پاکستان آئے ہیں، علی کامران نے بتایا کہ رویندرکوجب معلوم ہواتھا کہ میں پاکستان سے ہوں تویہ مجھ سے اپنے گاؤں کی باتیں کرتے تھے، میں کراچی سے تعلق رکھتاہوں،پنجاب کے دیہات سے متعلق مجھے زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اب جب کبڈی ورلڈکپ میں شرکت کے لئے ان کی ٹیم کومدعوکیا گیاتوانہوں نے پروگرام بنایا کہ وہ رویندرکے ننھیال ضرورجائیں گے۔ یہاں انہوں نے گاؤں کے سابق یوسی چیئرمین سردارکرامت سے رابطہ کیا جس کے بعدیہاں پہنچے ہیں۔
سردار کرامت نے بتایا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ اس گاؤں کاایک نواسہ آج اتنے برسوں بعد یہاں آیا ہے ، وہ اسے پوراگاؤں گھما پھرا کر دکھانا چاہتے ہیں اس کی مہمان نوازی کرناچاہتے ہیں مگروقت کی کمی کی وجہ سے ایساممکن نہیں ہوسکاہے۔
رویندرسنگھ نے بتایا کہ وہ فیصل آباد اورننکانہ صاحب بھی گئے ہیں، جہاں انہوں گوردوارہ جنم استھان میں ماتھاٹیکا اوردرشن کئے۔ جب کھانا اورگول گپے کھائے تودکاندارپیسے نہیں لےرہاتھا، انہوں نے کہا گاؤں میں موجود قدیم گوردوارے کے صحن کی مٹی بھی لی ہے جو وہ اپنی والدہ اوروالد کے لئے تحفے کے طورپرساتھ لے جائیں گے۔مٹی کی خوشبوان کے خاندان کواس گاؤں کی یاددلاتی رہے گی۔
سرالیون کبڈی ٹیم کے نوجوان صدر سردارگورویندرسنگھ بھارتی نژادآسٹریلوی شہری ہیں،وہ اپنی ٹیم کے ساتھ کبڈی ورلڈکپ کھیلنے پاکستان آئے ہیں مگریہاں ان کی آمدکاایک مقصداوربھی تھا۔وہ اپنی والدہ کاآبائی گاؤں دیکھناچاہتے تھے،1947 میں ان کے نانااورخاندان کے دیگرلوگ رائیونڈکے قریب واقع مانک جودھوگاؤں میں رہتے تھے۔ نوجوان گورویندرسنگھ جب اپنے ننھیال مانک جودھو پہنچے تویہاں ان کاپرتپاک استقبال کیاگیا اور ڈھول کی تھاپ پربھنگڑا بھی ڈالاگیا۔
نوجوان سرداررویندرسنگھ کے پاس اپنے نانا،نانی کی تصاویربھی تھی جو وہ گاؤں کے بزرگوں کودکھاتے اوران سے متعلق جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ کافی مشکل سے 86 سال کے ایک بزرگ ملے جنہوں نے بتایا کہ 1947 میں وہ نوجوان تھے اورگاؤں کے بیشترسرداروں کوجانتے تھے، انہوں نے اپنے کئی سکھ دوستوں کے نام بھی بتائے۔سرداررویندرسنگھ نے بتایا کہ ان کے ناناجی کانام گوربضش سنگھ اورنانی کا نام اوتم کورتھا۔گورویندرنے بتایا جب وہ کبڈی ٹیم کے ساتھ پاکستان آرہے تھے توان کی والدہ نے تاکیدکی تھی کہ ایک بار ان کے گاؤں کوضروردیکھ کرآنا،انہیں بہت اچھالگاہے اپنے ننھیال میں آکر،یہاں کے بڑے،بزرگوں نے جوپیاردیاہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ 1947 میں ان کاخاندان یہاں سے ہجرت کرکے ہریانہ چلاگیاتھااورآج بھی وہیں آبادہے، سکھ نوجوان کواپنے گاؤں میں دیکھ کر نوجوان،بچے اوربزرگ جمع ہوگئے اور رویندرکے ساتھ تصاویربنوائیں۔
گاؤں کے ایک بزرگ محمدصدیق نے بتایا کہ 1947 سے قبل اس گاؤں میں زیادہ ترسکھ خاندان آبادتھے، وہ سرداروں کے مویشیوں کاچارہ ڈالتے تھے۔کئی سکھ نوجوان ان کے دوست تھے،انہوں نے کہا کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ وہ ایک باراپنے بچپن کے دوستوں سے مل سکیں لیکن انہیں ان سے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ ان میں سے کوئی اب زندہ بھی ہے یانہیں،سرداررویندرسنگھ نے اس بزرگ کو اپنی والدہ کی طرف سےپیسوں کاتحفہ دیا۔
سرداررویندرسنگھ کو ان کے ننھیال کے گاؤں تک لانے میں آسٹریلیامیں مقیم ان کے پاکستانی دوست علی کامران نے اہم کرداراداکیاہے، جو سیرالیون ٹیم کے قانونی مشیرہیں اور ان کے ساتھ پاکستان آئے ہیں، علی کامران نے بتایا کہ رویندرکوجب معلوم ہواتھا کہ میں پاکستان سے ہوں تویہ مجھ سے اپنے گاؤں کی باتیں کرتے تھے، میں کراچی سے تعلق رکھتاہوں،پنجاب کے دیہات سے متعلق مجھے زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اب جب کبڈی ورلڈکپ میں شرکت کے لئے ان کی ٹیم کومدعوکیا گیاتوانہوں نے پروگرام بنایا کہ وہ رویندرکے ننھیال ضرورجائیں گے۔ یہاں انہوں نے گاؤں کے سابق یوسی چیئرمین سردارکرامت سے رابطہ کیا جس کے بعدیہاں پہنچے ہیں۔
سردار کرامت نے بتایا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ اس گاؤں کاایک نواسہ آج اتنے برسوں بعد یہاں آیا ہے ، وہ اسے پوراگاؤں گھما پھرا کر دکھانا چاہتے ہیں اس کی مہمان نوازی کرناچاہتے ہیں مگروقت کی کمی کی وجہ سے ایساممکن نہیں ہوسکاہے۔
رویندرسنگھ نے بتایا کہ وہ فیصل آباد اورننکانہ صاحب بھی گئے ہیں، جہاں انہوں گوردوارہ جنم استھان میں ماتھاٹیکا اوردرشن کئے۔ جب کھانا اورگول گپے کھائے تودکاندارپیسے نہیں لےرہاتھا، انہوں نے کہا گاؤں میں موجود قدیم گوردوارے کے صحن کی مٹی بھی لی ہے جو وہ اپنی والدہ اوروالد کے لئے تحفے کے طورپرساتھ لے جائیں گے۔مٹی کی خوشبوان کے خاندان کواس گاؤں کی یاددلاتی رہے گی۔