سیاست میں ایک جنٹل مین

ایسے وقت میں جب کہ سیاستدان گلی محلے کے لفنگوں کی سطح تک گر چکے ہیں اور ایک دوسرے سے گالم گلوچ کر رہے ہیں ...

ایسے وقت میں جب کہ سیاستدان گلی محلے کے لفنگوں کی سطح تک گر چکے ہیں اور ایک دوسرے سے گالم گلوچ کر رہے ہیں اور جب کسی شخص کی باقاعدہ جاسوسی کرنے کو بھی اس کی نجی زندگی میں مداخلت بے جا نہیں سمجھا جا رہا ،آنجہانی وزیر اعظم اندر کمار گجرال کی یاد تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔ وہ ایک مہذب اور نہایت شائستہ انسان تھے جنھوں نے اپنے مخالفین کی بدزبانی پر بھی کبھی آواز بلند نہیں کی تھی۔ اس سال تیس نومبر کو ان کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔

اپنے تمام سیاسی کیرئیر میں خواہ وہ وزیر خارجہ رہے ہوں یا وزیر اعظم انھوں نے ہمیشہ اخلاقیات کو مقدم رکھا۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے انھوں نے بڑے چھوٹے تمام ممالک کے ساتھ حسن اخلاق کا سلوک کیا۔ وہ عراق کے سربراہ صدام حسین کے خلاف کارروائی کے مخالف تھے۔ مغربی ممالک کو صدام کی ہلاکت پر اس وقت افسوس ہوا جب انھوں نے دیکھا کہ صدام پر وسیع تباہی کے ہتھیاروں کا جو الزام لگایا گیا تھا وہ جھوٹا تھا۔اپنی کتاب ''اے فارن پالیسی فار انڈیا'' (بھارت کے لیے خارجہ پالیسی) میں گجرال لکھتے ہیں ''بھارت کی خارجہ پالیسی ایسی نہیں جس کے بارے میں ہم نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں یا یونیورسٹی میں اس بارے میں سنتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی دراصل ہماری تحریک آزادی کا منطقی نتیجہ ہے۔

جبر و استبداد کی مزاحمت کا مطلب ہی آزادی ہے اور یہی ہماری آزاد پالیسی کی خصوصیت یا امتیازی نشان ہے۔گجرال بھارت کے پڑوسی ممالک کے بارے میں بطور خاص قدرے جانبدار تھا اور ان کی اس پالیسی کو ''گجرال ڈاکٹرائن'' کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کے معاملے میں اگر گجرال اپنے دور حکومت میں بنگلہ دیش کو رعایت دے دیتے تو وزیر اعظم شیخ حسینہ کو آئندہ جنوری 2014ء میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی میں مدد ملنے کا امکان بڑھا جاتا۔ بعینہ گجرال پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بھی کوئی راستہ نکال لیتے بجائے اس کے کہ کنٹرول لائن کے تقدس کے حوالے سے اسلام آباد کے موقف سے چمٹے رہتے۔

جب پاکستان خود دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے بالخصوص طالبان کے ساتھ تو اس سے ایل او سی پر عدم تشدد کی ضمانت بھلا کس طرح طلب کی جا سکتی ہے جب کہ امن کو خراب کرنے میں غیر ریاستی عناصر کا عمل دخل بھی کم نہیں۔میں گجرال کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ اندرا گاندھی کی ''کچن کیبنٹ'' میں شامل تھے کیونکہ اندرا وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں لال بہادر شاستری سے مات کھا بیٹھی تھیں۔ اندرا کو غیر مشروط وفاداری کی طلب تھی اور گجرال پر اندرا کو مکمل اعتماد تھا۔ تاہم جب اندرا نے ایمرجنسی لگائی تو گجرال نے وزیر اطلاعات و نشریات کے طور پر آنکھیں بند کر کے اپنی وزیر اعظم کی پیروی سے انکار کر دیا۔ مسز گاندھی کا بیٹا سنجے ایک ماورائے آئین اتھارٹی تھا اور بھارت کی حکومت اصل میں وہی چلا رہا تھا۔

سنجے نے گجرال کو فون کیا کہ جے پرکاش نارائن کے خلاف پراپیگنڈا کا محاذ کھول دو جو کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہا تھا اور اندرا گاندھی کی مطلق العنانی کی مزاحمت کر رہا تھا۔ گجرال نے جواب دیا وہ مسز گاندھی کے وزیر ہیں، کسی کا لونڈی بچہ نہیں ہیں چنانچہ گجرال کو وزارت اطلاعات و نشریات سے تبدیل کر کے منصوبہ بندی کمیشن میں بھیج دیا گیا جہاں مسز گاندھی کے ایک وقت کے پرسنل سیکریٹری پی این ہسکر پناہ لیے بیٹھے تھے۔ ہسکر کو بھی سنجے کی کسی حکم عدولی کی سزا دی گئی تھی۔بعد میں گجرال کو سوویت یونین میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا جس پر انھوں نے اندرا حکومت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ ترک کر دیا۔ بائیں بازو کے نظریات کا حامی ہونے کے ناتے لاہور میں طالب علمی کے زمانے سے کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگیاں تھیں۔


ماسکو میں انھوں نے اپنی ذمے داری اتنے احسن طریقے سے نبھائی کہ اس وقت کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے انھیں ماسکو کی سفارت میں توسیع دے دی۔ سوویت حکومت کے ساتھ گجرال کی اس قدر قربت تھی اور ان کی اتنی خوشنودی حاصل تھی سوویت یونین نے بھارت کے لیے اسلحہ کی بلا تعطل فراہمی جاری رکھی اور ماسکو نے کشمیر پر بھی انڈیا کی بھرپور حمایت کی۔گجرال کی ایک کمزوری تھی کہ انھیں اپنی جنم بھومی کے حوالے سے پاکستان سے بہت محبت تھی۔ وہ نہایت خلوص سے کہتے تھے کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات انڈیا کے لیے نہایت مفید ثابت ہوں گے۔

انھوں نے بھارت میں پاکستانی ٹیلی وژن چینلز دکھانے کی بندش پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی خبروں اور سیاسی تبصروں کو روکنے کے لیے قصور وار ہیں حالانکہ ناظرین اسقدر بالغ نظر ضرور ہو چکے ہیں کہ وہ اصل حقائق اور پراپیگنڈے میں بخوبی فرق کر سکتے ہیں۔ گجرال کی پہلی محبت پنجاب کے لیے تھی جب وہ وزیراعظم تھے تو انھوں نے مشرقی پنجاب کا کروڑوں کا قرضہ معاف کر دیا جو وفاقی حکومت سے حاصل کیا گیا تھا۔ انھوں نے سائنس سٹی جالندھر میں قائم کرنے کی منظوری دی جہاں پر وہ اور ان کی فیملی تقسیم کے بعد جہلم سے آ کر آباد ہوئے تھے اور جب وہ کسی بھی سرکاری منصب پر نہیں تھے تو انھوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے مابین خلیج کم کرنے کی کوشش کی جو سکھوں کی عسکریت پسندی کے باعث پیدا ہو گئی تھی۔ انھوں نے ایک پنجاب گروپ قائم کیا جس کا میں خود بھی ممبر تھا۔

اس گروپ کا بنیادی مقصد اکالیوں اور شدت پسندوں کے مابین مصالحت کرانا تھا۔ جے گوڈا حکومت کے گرنے پر گجرال مختصر دورانیے کے لیے وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے اکتوبر 1977ء میں جنوبی افریقہ اور مصر کا دورہ کیا۔ میں ایک صحافی کے طور پر ان کے ہمراہ تھا۔ میرا مقصد اس ملک کو دیکھنا تھا جہاں گاندھی نے سیتہ گِرہ کا تجربہ کیا تھا جو کہ طبقاتی کشمکش کا توڑ تھا۔ مزید برآں سیتہ گرہ کا مقصد اپنی ذات کی تطہیر بھی تھا تا کہ کسی لاگ لپٹ کے بغیر معاشرے کی خدمت کی جا سکے۔ گجرات نے پیٹر مارٹز برگ (Pieter maritzburg) ریلوے اسٹیشن کا دورہ بھی کیا جہاں پر گاندھی کو فرسٹ کلاس کے ریلوے کمپارٹمنٹ میں سفر کرنے کی پاداش میں گوروں نے اٹھا کر ریل گاڑی سے باہر پھینک دیا تھا۔

اس ریلوے اسٹیشن پر ایک پمفلٹ دستیاب تھا جس میں اس سارے واقعہ کی تفصیل لکھی تھی کیونکہ اس زمانے میں ریلوے کی فرسٹ کلاس صرف سفید فاموں کے لیے مخصوص تھی۔نیلسن منڈیلا سے ملنے کی میری دیرینہ خواہش پوری ہو گئی جب میں نے گجرال کے ساتھ اس عشائیے میں شرکت کی جو منڈیلا کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔ اسی رات منڈیلا نے خوش ہو کر والہانہ انداز میں رقص کرنا شروع کر دیا اور اس میں گجرال کو بھی گھسیٹ کر فلور پر لے آیا۔ گجرال نے سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں میں نہایت فراخدلی سے اضافہ کر دیا جس کا قومی خزانے پر خاصا بوجھ پڑا، بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ بھارت کی اقتصادی حالت زیادہ بہتر نہ تھی۔

اگر اس کی دوسری سفارشات پر بھی عمل کیا جاتا جس میں بیورو کریسی کے حجم میں %30 کمی اور اوقات کار میں اضافے کی تجویز دی گئی تھی تب ملک کی اقتصادی حالت میں توازن پیدا ہو سکتا تھا لیکن گجرال پر ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کے عناصر کا بہت زیادہ دباؤ تھا۔ گجرال کی سفارشات سے مرکزی خزانے پر اسقدر زیادہ بوجھ پڑ گیا تھا کہ ریاستیں مل کر بھی اسے اٹھانے سے قاصر تھیں کیونکہ ان کی اپنی حالت بھی زیادہ مستحکم نہ تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ وقت کی دھول نے وہ نام بھی نظروں سے اوجھل کر دیے ہیں جنھوں نے مشکل وقت ملک کی بڑی خاص خدمت کی۔ کانگریس پارٹی جس کی گجرال نے عملی طور پر اپنی تمام عمر خدمت کی وہ اس کے خلاف ہے کیونکہ گجرال پارٹی کو اس کے بنیادی اصولوں یعنی جمہوریت' اجتماعیت اور مساوات پر واپس لانا چاہتا تھا۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اخلاقیات کو طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ اب گجرال زندہ ہوتے تو وہ نہ صرف کانگریس بلکہ کسی بھی اور پارٹی کے لیے قابل قبول نہ ہوتے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story