کیا پاکستان فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے تیار ہے
فائیو جی پلان، اسپیکٹرم شیئرنگ کیلیے فریم ورک اور سستی آئی ٹی ڈیوائسز درکار ہوں گی
فائیو جی (5G) کی صورت میں نئی ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کو ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے آزمائشی بنیادوں پرموبائل آپریٹرز کو اسپیکٹرم فراہم کر کے عوام کو مستقبل کی اس ٹیکنالوجی کو ' چھونے اور محسوس ' کرنے کا موقع دے کر ایک اہم قدم اٹھایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم فائیو جی کے لیے تیار ہیں؟ دنیا بھر میں فائیو جی کے حوالے سے پہلے ہی تیاریاں جاری ہیں۔ فائیوجی کے آغاز کیلیے 5 بنیادی ' اجزا' درکار ہوتے ہیں: اسپیکٹرم، ریڈیو بیس اسٹیشن، آپٹک فائبر کیبلز، یوزر ڈیوائسز اور یوز کیسز۔ فائیوجی کیلیے فور جی کے مقابلے میں بڑا فریکوئنسی اسپیکٹرم درکار ہوتا ہے۔ فائیوجی کیلیے بڑے بڑے ٹاورز درکار نہیں ہوتے۔ اس کے بیس اسٹیشن بجلی کے کھمبوں، عمارتوں وغیرہ پر نصب کیے جاسکتے ہیں۔
ان کیلیے بجلی کی بہت کم مقدار درکار ہتی ہے۔ اسی طرح فائیو جی کیلیے فائبرآپٹک کیبلز کی بڑی مقدار درکار ہوتی۔ پاکستان میں فریکوئنسی اسپیکٹرم دیگر قابل موازنہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ درحقیقت یہ تو اچھی فور جی سروس کیلیے بھی بہت زیادہ موزوں نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آپٹک فائبر کی دستیابی بھی سب سے کم ہے۔
10 فیصد سے بھی کم ٹاور فائبر سے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں فائبر آپٹک بچھانے کے لیے اجازت کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ اس پر بے انتہا لاگت آتی ہے۔ اسی طرح ریڈیو بیس اسٹیشن سے بھی متعدد مشکلات جڑی ہوئی ہیں۔ فائیو جی آپریشن کیلیے ضروری ہے کہ ملائشیا کی طرح تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک 5 سالہ رولنگ اسپیکٹرم پلان شائع کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسپیکٹرم شیئرنگ اور ٹریڈنگ اور نئے موبائل براڈبینڈ لائسنسنگ فریم ورک بھی شامل ہوں۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے آزمائشی بنیادوں پرموبائل آپریٹرز کو اسپیکٹرم فراہم کر کے عوام کو مستقبل کی اس ٹیکنالوجی کو ' چھونے اور محسوس ' کرنے کا موقع دے کر ایک اہم قدم اٹھایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم فائیو جی کے لیے تیار ہیں؟ دنیا بھر میں فائیو جی کے حوالے سے پہلے ہی تیاریاں جاری ہیں۔ فائیوجی کے آغاز کیلیے 5 بنیادی ' اجزا' درکار ہوتے ہیں: اسپیکٹرم، ریڈیو بیس اسٹیشن، آپٹک فائبر کیبلز، یوزر ڈیوائسز اور یوز کیسز۔ فائیوجی کیلیے فور جی کے مقابلے میں بڑا فریکوئنسی اسپیکٹرم درکار ہوتا ہے۔ فائیوجی کیلیے بڑے بڑے ٹاورز درکار نہیں ہوتے۔ اس کے بیس اسٹیشن بجلی کے کھمبوں، عمارتوں وغیرہ پر نصب کیے جاسکتے ہیں۔
ان کیلیے بجلی کی بہت کم مقدار درکار ہتی ہے۔ اسی طرح فائیو جی کیلیے فائبرآپٹک کیبلز کی بڑی مقدار درکار ہوتی۔ پاکستان میں فریکوئنسی اسپیکٹرم دیگر قابل موازنہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ درحقیقت یہ تو اچھی فور جی سروس کیلیے بھی بہت زیادہ موزوں نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آپٹک فائبر کی دستیابی بھی سب سے کم ہے۔
10 فیصد سے بھی کم ٹاور فائبر سے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں فائبر آپٹک بچھانے کے لیے اجازت کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ اس پر بے انتہا لاگت آتی ہے۔ اسی طرح ریڈیو بیس اسٹیشن سے بھی متعدد مشکلات جڑی ہوئی ہیں۔ فائیو جی آپریشن کیلیے ضروری ہے کہ ملائشیا کی طرح تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک 5 سالہ رولنگ اسپیکٹرم پلان شائع کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسپیکٹرم شیئرنگ اور ٹریڈنگ اور نئے موبائل براڈبینڈ لائسنسنگ فریم ورک بھی شامل ہوں۔